*پارہ ~~~ 25~~~اِلَیْہِ یُرَدُّ*

 
قیامت کے وقت کو اللہ تعالی ہی جانتا ہے۔
 کونپلوں سے کیسا پھل برآمد ہو گا۔ 
شکمِ مادر میں کیا ہے اور کب جنے گی اس کا علم بھی اللہ ہی کو ہے۔ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ پوچھیں گے کہ تمہارے شرکاء کہاں ہیں ؟ 
وہ خود کہیں گے کہ ہم ان سے برائت کا اظہار کرتے ہیں۔ 
انسان خیر طلب کرنے سے کبھی نہیں اکتاتا لیکن جیسے ہی تکلیف یا مصیبت میں مبتلا ہو جائے تو بہت جلد مایوسی اختیار کر لیتا ہے۔ جب آرام و راحت مل جائے تو قیامت کو ایک دم بھول کر ہر فائدہ کو اپنی ذات کی طرف منسوب کرنے لگ جاتا ہے۔ تکلیف آ جائے تو لمبی لمبی دعاؤں میں لگ جاتا ہے اور آرام و راحت کے وقت ’’کنّی‘‘ کترا کے نکل جاتا ہے۔ 
ہم آفاق کے اندر اپنی آیتیں آپ کو دکھلا کر چھوڑیں گے تاکہ حق ظاہر ہو جائے کیا یہ کافی نہیں ہے کہ تیرا رب ہر چیز پر گواہ ہے اصل بات یہ ہے کہ یہ لوگ اللہ سے ملاقات کے بارے میں شکوک و شبہات میں مبتلا ہیں۔ سنو! اللہ تعالیٰ نے ہر چیز کا احاطہ کر رکھا ہے۔

              *سورہ الشوری*

’’الشوری‘‘ مشورہ کو کہتے ہیں اور اس سورت میں اللہ کے منتخب بندوں کے بارے میں مذکور ہے کہ وہ اپنے معاملات باہمی مشورہ سے طے کرتے ہیں اس لئے یہ سورت شوری کے نام سے موسوم ہے۔ یہ ترپن آیتوں اور پانچ رکوع پر مشتمل ہے 
ابتداء سورت میں حقانیت قرآن کا بیان ہے پھر توحید کا تذکرہ اور معبودان باطل کی مذمت ہے۔ پھر قرآن کریم کی عالمگیریت کا بیان ہے کہ یہ مکہ مکرمہ اور اس کے اطراف میں واقع تمام دنیا کے انسانوں کی رہنمائی کے لئے ہے۔ اللہ چاہیں تو ہر ایک کو زبردستی اسلام میں داخل کر دیں لیکن یہ ’’سودا‘‘ زبردستی کا نہیں بلکہ اپنے ’’اختیار‘‘ کے مطابق فیصلہ کا ہے تاکہ قیامت کی جزاء و سزاء اس پر نافذ ہو سکے۔
اللہ نے ہر قسم کی نعمتیں انسان کے لئے پیدا کی ہیں اور اللہ کا مثل کوئی نہیں ہے۔ اس نے تمام انبیاء نوح، ابراہیم، موسیٰ و عیسیٰ کو ایک ہی ’’دین‘ عطاء فرما کر ’’اقامت صلوٰۃ‘‘ اور ’’فرقہ واریت‘‘ سے بچنے کی تلقین فرمائی۔ دلائل کے آ جانے کے بعد وہ لوگ سرکشی کے طور پر فرقہ واریت کو اختیار کرتے ہیں۔ ان کی خواہشات کی پیروی کرنے کی بجائے اللہ کے حکم کے مطابق ثابت قدمی کا مظاہرہ کیجئے۔ آسمانی تعلیمات پر ایمان کا اظہار بھی کریں اور عدل و انصاف کے علمبردار رہیں۔ 
جو لوگ وحدانیت باری تعالیٰ کے ثابت ہو جانے کے بعد بھی بے سرو پا دلائل کی بنیاد پر کٹھ حجتی کا مظاہرہ کرتے ہیں ان کے لئے اللہ کے غضب اور عذابِ شدید کی وعید ہے۔ قیامت کی جلدی وہی لوگ مچاتے ہیں جو اس پر ایمان نہیں رکھتے اور ایمان والے تو قیامت کو برحق سمجھنے کے باوجود اس کے آنے سے ڈرتے ہیں۔ قیامت کے بارے میں شک کرنے والے کھلی ہوئی گمراہی میں مبتلا ہیں۔
 اصل زندگی آخرت کی زندگی ہے اس لئے جو شخص آخرت کے اجرو ثواب کا طلب گار ہوتا ہے اللہ اس کے اجرو ثواب میں اضافہ فرما دیتے ہیں اور دنیا کے طلب گار کو قسمت سے زیادہ نہیں ملتا مگر آخرت کے بدلہ سے وہ بالکل محروم ہو جاتا ہے۔ پھر ظلم و ستم اور نا انصافی کے مرتکبین اور عدل و انصاف کے علمبرداروں کی قیامت کے دن کی کیفیت کو بیان کرنے کے بعد حضور علیہ السلام کے توسط سے امت مسلمہ کو یہ تعلیم ہے کہ قرآنی تعلیمات کی نشر و اشاعت میں مالی مفادات پیش نظر نہیں رکھنے چاہئیں پھر دنیا کی زندگی میں ایک زبردست خدائی ضابطہ کا بیان ہے کہ اللہ تعالیٰ باطل کو اس کی تمام حشر سامانیوں کے ساتھ مٹا کر رہتے ہیں اور حق کو اس کے تمام لوازم کے ساتھ ثابت کر کے چھوڑتے ہیں۔
 اس کے بعد بندوں کی توبہ قبول کرنے اور ان کی خطاؤں سے درگزر کرنے کی خوشخبری بیان فرمائی ہے اور اس کے بعد انسان کی اس فطری کمزوری کا تذکرہ ہے کہ جب اسے مالی آسائش اور وسائل زندگی کی فراوانی حاصل ہو جاتی ہے تو یہ سرکشی اور فساد پر آمادہ ہو جاتا ہے۔
 پھر یہ ضابطہ بھی مذکور ہے کہ انسان پر تکالیف و مصائب درحقیقت اس کے اپنے جرائم اور کرتوتوں کی وجہ سے نازل ہوتی ہیں جبکہ بہت سے گناہوں پر تو اللہ تعالیٰ گرفت ہی نہیں کرتے۔
 اس کے بعد اللہ کے صابر و شاکر بندوں کی خوبیوں کی ایک فہرست بیان کرتے ہوئے بتایا ہے کہ وہ ایمان و توکل سے سرشار ہوتے ہیں، کبیرہ گناہوں اور بے حیائی کی باتوں سے اجتناب کرتے ہیں۔ غصہ کے وقت عفو و درگزر کا معاملہ کرتے ہیں۔اپنے رب کی ہر دعوت پر لبیک کہتے اور اقامت صلوٰۃ کرتے ہیں۔ اپنے معاملات کو مشورہ سے طے کرتے ہیں اور اللہ کے راستہ میں خرچ کرتے ہیں اور انتقام صرف اسی صورت میں لیتے ہیں جب ان پر کوئی زیادتی و ظلم کیا جاتا ہے۔ 
برائی کا بدلہ برائی سے لینا اگرچہ جائز ہے مگر صبر و تحمل اور عفو و درگزر کرنا بڑے ہی عزم و ہمت کی بات ہے۔
 عذاب الٰہی کو دیکھ لینے کے بعد ظالموں کی جو کیفیت ہو گی اسے بیان کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ کے مختار کل ہونے کا بیان ہے کہ آسمان و زمین کی حکمرانی اسی کے ہاتھ میں ہے وہ جسے چاہے بیٹے دے اور جسے چاہے بیٹیاں دے اور جسے چاہے دونوں جنسیں عطاء کر دے اور جسے چاہے بانجھ بنا کر دونوں سے محروم کر دے وہ علم و قدرت والا ے۔ 
پھر وحی کے نزول کے تین طریقے (دل میں القاء کر دینا، پس پردہ بات کرنا یا فرشتہ کی مدد سے پیغام دے دینا) بیان فرمائے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حوصلہ افزائی کے لئے واضح کر دیا کہ آپ اللہ کے بتائے ہوئے صراط مستقیم پر گامزن رہیں اور تمام کاموں کا مأویٰ و ملجأ ایک اللہ ہی کی ذات ہے۔

               *سورہ الزخرف*

مکی سورت ہے۔ نواسی آیتوں اور سات رکوع پر مشتمل ہے۔ ’’زخرف‘‘ کے معنیٰ آرائش و زیبائش کے ہیں۔ اس سورت میں کافروں کے لئے ہر طرح کی ’’زخرف‘‘ کا تذکرہ ہے۔
 واضح کتاب کی آیتیں اور عربی زبان میں قرآن اس لئے اتارا تاکہ اہل عقل و دانش اس سے استفادہ کرسکیں۔ 
پھر توحید و رسالت کے موضوع پر گفتگو ہے اور سواریوں کو نقل و حمل کے لئے انسان کے تابع بنانے پر اللہ کا شکر ادا کرنے کی تلقین ہے اور تیرہ اور چودہ نمبر آیت میں سواری کی دعاء مذکور ہے پاک ہے وہ ذات جس نے اس سواری کو ہمارا تابع بنا دیا ہم اسے اپنے قابو میں نہیں لا سکتے تھے اور ہم نے لوٹ کر اپنے رب کے پاس ہی جانا ہے۔ 
پھر فرشتوں کو اللہ کی اولاد قرار دینے اور مشرک و گمراہ آباؤ اجداد کی اندھی تقلید کی مذمت کی گئی ہے۔ 
پھر ابراہیم علیہ السلام کی طرف سے اپنی قوم کے مشرکانہ افعال سے بیزاری و برأت اور اپنے خالق و مالک کے لئے یکسوئی اختیار کرنے کا بیان ہے۔
 پھر مشرکین کے اعتراض کا تذکرہ ہے کہ ایک غریب اور وسائل سے محروم شخص کو نبی بنانے کی بجائے مکہ یا طائف کے کسی کردار کا انتخاب کیوں عمل میں نہیں لایا گیا۔ نبوت و رسالت اللہ کی رحمت ہے اور اللہ جانتے ہیں کہ اس کا اہل کون ہے۔ لہٰذا ان لوگوں کو اللہ کی رحمت تقسیم کرنے کا کوئی اختیار نہیں ہے۔ باقی رہا مسئلہ امارت و وسائل کی فراوانی کا تو اس کا نبوت و رسالت کے ساتھ کوئی جوڑ نہیں ہے اس سے انسانوں کو امتحان و آزمائش میں مبتلا کیا جاتا ہے اور حدیث کا مفہوم ہے کہ ساری دنیا کے مال و دولت کی حیثیت ایک مچھر کے پر کے برابر بھی نہیں ہے۔ لہٰذا اگر لوگوں کے اسلام سے منحرف ہو کر کافر ہو جانے کا اندیشہ نہ ہوتا تو اللہ تعالیٰ تمام کافروں کے گھروں کو سونے چاندی سے مزین  کر دیتے، یہ تو دنیا کا عارضی متاع ہے اور متقیوں کے لئے آخرت ہے۔
 اللہ کے ذکر سے غفلت برتنے والوں کا ساتھی شیطان بن کر انہیں راہ راست سے روکتا ہے۔ یہ لوگ جب قیامت کے دن ہمارے پاس آئیں گے تو شیطان سے بیزاری کا بے فائدہ اظہار کریں گے یہ لوگ اندھے اور بہرے ہیں آپ انہیں قرآن سنا کر گمراہی سے نہیں نکال سکیں گے۔ آپ وحی کی اتباع کرتے ہوئے صراط مستقیم پر ثابت قدمی کا مظاہرہ کیجئے۔ یہ قرآن کریم آپ اور آپ کی قوم کے لئے بہت بڑا اعزاز ہے اور آپ لوگوں کے تذکرہ کے باقی رہنے کا ذریعہ ہے۔
 پھر حضرت موسیٰ علیہ السلام کے فرعون کی طرف رسول بنا کر مبعوث کئے جانے کا ذکر اور مالی وسائل اور دنیوی جاہ و حشمت سے محرومی کے حوالہ سے فرعون کے اعتراضات مذکور ہیں جب فرعون نے اپنی قوم سے کہا کہ تم لوگ میرا اور موسیٰ کا تقابل کر کے دیکھو میں مصر کا حکمران ہوں۔ حور و قصور کا مالک ہوں، باغات اور نہروں کا نظام میرے اختیار میں ہے جبکہ موسیٰ علیہ السلام غریب، وسائل سے تہی دامن اور بات کرنے کے سلیقہ سے بھی عاری ہیں۔ اگر یہ نبی ہوتے تو ان پر سونے کے زیورات کی بارش ہوتی یا فرشتے اس کے آگے پیچھے جلوس کی شکل میں چلا کرتے۔
 اس نے اس قسم کی باتیں کر کے اپنی قوم کو بیوقوف بنا کر اللہ کی نافرمانی پر تیار کر لیا جس سے ہمیں غصہ آیا اور ہم نے انتقاماً انہیں سمندر میں غرق کر کے اگلوں اور پچھلوں کے لئے نشانِ عبرت بنا دیا۔ 
پھر عیسیٰ علیہ السلام ان کی بندگی اور ان پر اللہ کے انعامات کا نہایت دلنشین پیرائے میں ذکر موجود ہے۔
 اس کے بعد بتایا گیا ہے کہ مؤمنین و متقین کی دوستیاں قیامت میں بھی برقرار رہیں گی اور وہ ہر قسم کی پریشانی اور غم سے نجات پا کر جنت کی نعمتوں سے سرشار ہوں گے۔ 
جبکہ مجرمین اپنے ظلم کے نتیجہ میں جہنم کے عذاب میں حیران و سرگرداں ہوں گے۔
 پھر اللہ کے لئے اولاد کے عقیدہ کی مذمت کرتے ہوئے بتایا ہے کہ آسمان و زمین میں ایک ہی معبود ہے اسی کی حکمرانی ہے اور وہی قیامت کا صحیح علم رکھتا ہے۔ آپ ان کافروں کے ساتھ بحث بازی میں الجھنے کی بجائے انہیں نظر انداز کریں اور چشم پوشی کا مظاہرہ کریں۔ عنقریب انہیں سب کچھ معلوم ہو جائے گا۔

               *سورہ الدخان*

مکی سورت ہے۔ انسٹھ آیتوں اور تین رکوع پر مشتمل ہے۔ دخان دھوئیں کو کہتے ہیں۔ قیامت کی نشانی اور عذاب کے طور پر مشرکین مکہ پر مسلط کیا گیا تھا۔ اس سورت میں اس کا تذکرہ ہے۔
قرآن کریم ایسی واضح اور بابرکت کتاب ہے کہ جس رات میں اس کا نزول ہوا اسے بھی بابرکت بنا دیا۔
 توحید کا عقیدہ بیان کر کے مشرکین مکہ کے شکوک و شبہات کا تذکرہ کر کے بتایا کہ یہ آسمانی عذاب کے مستحق ہو چکے ہیں پھر ان پر ایسا دھواں مسلط کیا کہ انہیں کچھ سجھائی نہ دیتا تھا اس عذاب کے چھٹکارے کی دعائیں مانگنے لگے اور ایمان قبول کرنے کے عہد و پیمان کرنے لگے مگر جیسے ہی عذاب ختم ہوا وہ پھر انکار کرنے لگے اور نبی پر بھونڈے اعتراضات شروع کر دیئے۔
 انہیں بدر کی عبرتناک پکڑ کی وعید سنا کر موسیٰ و فرعون کا واقعہ اور فرعون کی عبرتناک گرفت کا تذکرہ کر کے بتایا کہ اسے جب غرق کیا گیا تو اس کے باغات و محلات سب رہ گئے اور بنی اسرائیل اس کے مالک بن گئے۔ اتنی بڑی قوت کے مالک فرعون کا جب خاتمہ ہوا تو اس پر زمین و آسمان میں رونے والا بھی کوئی نہیں تھا۔
 پھر دلائل توحید اور قیامت کا تذکرہ پھر نافرمانوں کے جہنم میں داخل ہونے کے بعد کی کیفیت کا بیان ہے کہ ان کی خوراک زقوم کا درخت ہو گا جو پیٹ میں ایسے ابال پیدا کرے گا جیسے ہنڈیا میں آگ پر ابال آتا ہے۔ جہنم کے بیچ میں لے جا کر ان پر کھولتا ہوا پانی ڈالا جائے گا اور انہیں کہا جائے گا کہ دنیا میں تم اپنے آپ کو بہت باعزت سمجھا کرتے تھے آج جہنم کا ذلت آمیز عذاب بھی چکھ لو۔
 پھر جنت میں متقیوں کے اعزاز و اکرام ریشم و کمخواب کے لباس اور خوبصورت بیگمات کا ذکر کر کے بتایا کہ یہ سب کچھ اللہ کے فضل سے حاصل ہو گا جو عظیم الشان کامیابی کا مظہر ہو گا۔ قرآن کریم کو ہم نے آپ کی زبان میں نہایت آسان بنا کر اس لئے اتارا ہے تاکہ یہ لوگ نصیحت حاصل کرسکیں۔

               *سورہ الجاثیہ*

مکی سورت ہے سینتیس آیتوں اور چار رکوع پر مشتمل ہے۔ اس سورت کا مرکزی مضمون توحید باری تعالیٰ ہے جبکہ حقانیت قرآن، اثبات رسالت محمدیہ اور قیامت کا بیان بھی موجود ہے۔
 ابتداء میں قرآن کے کلام اللہ ہونے کا برملا اظہار ہے اس کے بعد توحید پر کائناتی شواہد پیش کئے گئے ہیں۔ قدرت کے شاہکار آسمان میں دلائل ہیں۔ وسیع و عریض زمین میں، تخلیق انسانی میں، جانوروں اور باقی مخلوقات میں، دن رات کے آنے جانے اور بارشوں اور ہواؤں میں اللہ کی قدرت کے دلائل اور توحید باری کے شواہد موجود ہیں۔ 
پھر مجرمین کا مزاج بیان کیا کہ وہ دلائل سے استفادہ کرنے کی بجائے ضلالت و گمراہی میں اور ترقی کر جاتے ہیں۔ جس کے نتیجہ میں وہ دردناک عذاب اور جہنم کی گہرائیوں میں دھکیلے جانے کے مستحق قرار پاتے ہیں۔ اللہ کی نعمتوں اور ان میں غور و فکر کر کے منعم حقیقی کو پہچاننے کی تلقین کے ساتھ قوم بنی اسرائیل کا تذکرہ کہ ان پر بے شمار انعامات کئے گئے۔ فضیلت و اکرام سے نوازا گیا مگر انہوں نے ان نعمتوں کی قدر کرنے کی بجائے بغاوت و سرکشی کا راستہ اپنا کر اپنے لئے ہلاکت و بربادی کو لازم کر لیا۔
 پھر گمراہی کی جڑ کی نشاندہی کرتے ہوئے بتایا کہ ’’خواہشات نفسانی‘‘ کو معبود کا درجہ دے کر زندگی گزارنا ہی وہ لاعلاج بیماری ہے جو انسان کو گمراہی کی اتھاہ گہرائیوں میں دھکیل دیتی ہے اور یہ اندھا اور بہرا ہو کر اس کے پیچھے لگ جاتا ہے۔ دنیا کی زندگی کو اصل سمجھ کر آخرت سے غافل ہو جاتا ہے۔
 قیامت کے دن کی ہولناکی اور دہشت کا بیان کر کے بتایا گیا ہے کہ اس دن لوگ گھٹنوں کے بل گرے پڑے ہوں گے اور ان کی دو جماعتیں بن جائیں گی۔
 ایمان اور اعمال صالحہ والے اللہ کی رحمت اور واضح کامیابی کے مستحق قرار پائیں گے جبکہ کافر و متکبر اپنی مجرمانہ حرکات کی بناء پر ’’پرِکاہ‘‘ کی حیثیت بھی نہیں رکھیں گے اور بے یارو مددگار جہنم کا ایندھن بنادیئے جائیں گے۔ تمام تعریفیں آسمان و زمین اور ساری کائنات کے رب کے لئے ہیں اور آسمان و زمین کی بڑائی بھی اسی زبردست اور حکمتوں والے اللہ کو سزا وار ہے۔

 

کوئی تبصرے نہیں:

حالیہ اشاعتیں

مقوقس شاہ مصر کے نام نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کا خط

سیرت النبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم..قسط 202 2.. "مقوقس" _ شاہ ِ مصر کے نام خط.. نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک گرامی ...

پسندیدہ تحریریں