*صبر کرنے والوں کی سیرت*

الَّذِينَ ۔۔ إِذَا ۔۔۔ أَصَابَتْهُم ۔۔۔ مُّصِيبَةٌ ۔۔۔قَالُوا
وہ لوگ ۔۔ جب ۔۔ ان کو پہنچتی ہے ۔۔۔ کوئی مصیبت ۔۔ وہ کہتے ہیں 
 إِنَّا ۔۔۔  لِلَّهِ ۔۔۔ وَإِنَّا ۔۔۔  إِلَيْهِ  ۔۔۔ رَاجِعُونَ۔  1️⃣5️⃣6️⃣
بے شک ہم ۔۔۔ الله کے لئے ہیں ۔۔۔ اور بے شک ہم ۔۔ اسی کی طرف ۔۔ لوٹنے والے ہیں 

الَّذِينَ إِذَا أَصَابَتْهُم مُّصِيبَةٌ قَالُوا إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ.  1️⃣5️⃣6️⃣

وہ لوگ جب انہیں کچھ مصیبت پہنچے تو وہ کہیں ہم تو الله تعالی کے لئے ہیں اور ہم تو اسی کی طرف لوٹ کر جانے والے ہیں ۔ 

مُصِیْبَةٌ ۔ ( مصیبت ) ۔ لغوی معنی افتاد کے ہیں ۔رسول الله صلی الله علیہ نے ایک مرتبہ فرمایا ۔ جس کا مفہوم ہے کہ جو شئے بھی مسلمان کو ناگوار گزرے پس وہی اس کے حق میں مصیبت ہے ۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس لفظ کا مفہوم بہت وسیع اور عام ہے ۔ 
اس سے پہلی آیت میں ہم نے پڑھا کہ مسلمانوں کی مختلف طریقوں سے آزمائشیں اللہ تعالی کی طرف سے ہوتی رہیں گی ۔اور جو شخص صبر سے کام لے گا وہ ان آزمائشوں میں آسانی سے کامیاب ہو جائے گا ۔ اس لئے صبر کرنے والوں کا انجام بخیر ہو گا ۔ اس آیہ مبارکہ میں ان صبر کرنے والوں کی نشانی بیان کی گئی ہے ۔ کہ صابرین میں وہ لوگ شامل ہیں جو ہر مصیبت کے وقت یہ کہتے ہیں کہ ہم تو الله تعالی کا مال ہیں اور ہم اسی کی طرف جانے والے ہیں ۔ 
اس آیت سے ہمیں تین باتوں کا پتہ چلتا ہے ۔ 
پہلی یہ کہ ہم سب الله تعالی کی ملکیت ہیں ۔ہم خود بھی اور ہماری ہر چیز بھی ہماری اپنی نہیں ۔ نہ بیوی بچے نہ مال ، نہ جائیداد نہ وطن ، نہ خاندان نہ جسم نہ جان 
انسان کے رنج و غم اور درد و تکلیف کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ وہاپنی محبوب چیزوں کو اپنی ملکیت سمجھتا ہے ۔ جب ذہن سے یہ خیال نکال دیا جائے اور سمجھا جائے کہ ہر چیز الله تعالی کی ملکیت ہے پھر رنج و ملال کا موقع ہی نہیں رہتا ۔ ہر مشکل اور مصیبت کے موقع پر یہ ہی کلمہ دہرانہ چاہئیے کہ اپنا کچھ نہیں سب الله تعالی ہی کے لئے ہے ۔ اور سب کو اسی کے پاس لوٹ کر جانا ہے ۔ 
دوسری بات یہ کہ رنج اور تکلیفیں کتنی ہی بڑی ہوں سب آنی جانی ، فانی اور عارضی ہیں ۔  یہ ختم ہو جائیں گیاور عنقریب انہیں چھوڑ کر مالک حقیقی کی خدمت میں حاضری دینی ہے ۔ اس لئے ان سے گھبرانا کیا ۔ 
تیسری بات یہ ہے کہ یہ مصیبتیں اور آزمائشیں یونہی بے کار نہیں۔ ان کا اجر وثواب دوسری زندگی میں ضرور ملے گا ۔جو انہیں صبر سے برداشت کر گیا حق پر ثابت قدم رہا اور مقصد حقیقی کو ہاتھ سے نہ چھوڑا اُسے اس استقامت کا اجر ضرور ملے گا 
جس شخص کے یہ تینوں عقیدے جتنے مضبوط ہوں گے اسی قدر سکون اور اطمینان  نصیب ہوگا ۔ ہمیں چاہئیے کہ ہم ان باتوں کو اپنے ذہن میں خوب اچھی طرح بٹھا لیں ۔ تاکہ یہ دل پر نقش ہو جائیں ۔ اگرچہ صبر کا تعلق دل سے ہے لیکن زبان سے یہ کلمہ ادا کرنے سے زبان دل کی ساتھی ہو جاتی ہے ۔ اور اس سے قوت اور طاقت ملتی ہے ۔ 
رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی نسبت بیان کیا گیا ہے کہ آپ چھوٹی سے چھوٹی تکلیف یا ناگواریکے موقع پر بھی انّا للهِ و انّا الیہ راجعون  فرماتے تھے ۔ 
درس قرآن ۔۔۔ مرتبہ درس قرآن بورڈ 

کوئی تبصرے نہیں:

حالیہ اشاعتیں

مقوقس شاہ مصر کے نام نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کا خط

سیرت النبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم..قسط 202 2.. "مقوقس" _ شاہ ِ مصر کے نام خط.. نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک گرامی ...

پسندیدہ تحریریں