*پارہ ~~~23~~~ وَمَالِیَ*


اصحاب القریہ کا واقعہ دعوت  الی اللہ کی تربیت و تسلی کے لئے اور ہر دور کے مشرکین کی ذہنی ہم آہنگی کے اظہار اور وعید سنانے کے لئے بیان کیا ہے۔
 انطاکیہ بستی کے مشرکین کے لئے عیسائیت کے تین مبلغین توحید کا پیغام لے کر اس طرح پہنچے کہ پہلے دو مبلغ وہاں آئے۔ انطاکیہ کا ایک باشندہ ’’حبیب نجار‘‘ کسی موذی مرض کا شکار لوگوں سے الگ تھلگ شہر کے کنارے پر رہتا تھا۔ مبلغین کی دعوت قبول کر کے مسلمان ہو گیا، اللہ نے اسے صحت دے کر مال و دولت سے بھی نواز دیا۔
 شہر والوں نے مبلغین کی بات نہ مانی، انہیں مارنے پیٹنے اور قتل کی دھمکیاں دینے پر اتر آئے۔ کہنے لگے تمہاری نحوست سے ہم مہنگائی اور باہمی اختلافات کی پریشانی میں مبتلا ہو گئے ہیں۔
 انہوں نے کہا کہ نحوست کی اصل وجہ تمہاری ہٹ دھرمی اور اللہ کے پیغام کو تسلیم کرنے سے انکار ہے۔
 قوم کی زیادتی اور ظلم کا معلوم ہونے پر اللہ والوں کی حمایت میں حبیب نجار شہر کے کونے سے بھاگتا ہوا آیا اور قوم کو سمجھانے لگا کہ جس اللہ نے ہمیں پیدا کیا اور اسی کی طرف ہم نے لوٹ کر جانا ہے ہمیں عبادت بھی اسی کی کرنی چاہئے اور مفادات سے بالاتر ہو کر جو لوگ ہمیں پیغام حق پہنچانے آئے ہیں ہمیں ان کی دعوت پر ’’لبیک‘‘ کہنا چاہئے مگر قوم اپنے ظلم و ستم سے باز نہ آئی اور قاصدین حق کے قتل پر آمادہ ہو گئی۔ 
حبیب نجار نے قوم کی بجائے اللہ والوں کا ساتھ دیا اور ایمان کے تحفظ اور دین حق کی حمایت میں اپنی جان داؤ پر لگادی اور تینوں اللہ والے شہادت کے عظیم منصب پر فائز ہو گئے۔ 
حق کے دفاع اور حمایت میں اس عظیم الشان قربانی پر اللہ کا نظام غیبی حرکت میں آ گیا اور فرشتے نے فصیل پناہ کے دروازہ پر کھڑے ہو کر ایک زور دار چیخ ماری جس کی ہولناکی اور دہشت سے ان کے کلیجے پھٹ گئے اور وہ ٹھنڈے ہو کر رہ گئے۔ انہیں ہلاک کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ کو فرشتوں کے لشکر نہیں بھیجنے پڑے، اس لئے مشرکین مکہ کو مشرکین انطاکیہ کے اس عبرتناک انجام سے سبق سیکھ لینا چاہئے۔
 پھر مرنے کے بعد زندگی اور اللہ کی قدرت کاملہ کے دلائل کے طور پر بارش سے مردہ زمین کے اندر زندگی کے آثار، لہلہاتی کھیتیاں، کھجور و انگور کے باغات اور نہروں اور چشموں کی شکل میں آب پاشی کا نظام، انسانی خوراک کے لئے پھل اور سبزیاں اور مختلف سبزیوں کی ترکیب سے انواع و اقسام کے نت نئے کھانے۔ کیا یہ لوگ اس پر بھی اللہ کا شکر کرتے ہوئے آسمانی نظام کی افادیت کو تسلیم نہیں کریں گے۔ 
ہر چیز کی ’’جوڑوں ‘‘ کی شکل میں (نر اور مادہ یا مثبت اور منفی) تخلیق، انسانی زندگی میں مظاہر قدرت کی کار فرمائی، شب و روز کی آمد و رفت کا ایک منظم نظام کہ دن کا غلاف اتاریں تو رات کی تاریکی اور رات کا غلاف ہٹائیں تو دن کا اجالا، چاند سورج کا نظام شمسی کے تحت منٹوں اور سیکنڈوں کی رعایت کے ساتھ اپنے مدار میں نقل و حرکت کرنا کہ ایک دوسرے سے آگے نکل کر دن رات کی آمد و رفت میں کوئی خلل پیدا نہ کرسکیں، اللہ کی قدرت کے واضح دلائل ہیں۔ 
سمندر میں نقل و حمل کی سہولت کے لئے تیرتی ہوئی کشتیاں جنہیں اللہ تعالیٰ جب چاہیں اس طرح غرق کر دیں کہ تمہاری آواز بھی نہ نکل سکے اور اس قسم کی کتنی ہی جدید انداز کی سواریاں اللہ پیدا کرتے ہیں، یہ سب اس کی رحمت کے تقاضے کے تحت ایک مقررہ وقت تک دنیا سے استفادہ کا سامان ہے۔
 اس کے بعد تقویٰ اختیار کرنے اور غرباء و مساکین پر خرچ کرنے کی تلقین کے ساتھ مشرکین کی ہٹ دھرمی اور ضلالت کا تذکرہ اور قیامت قائم کرنے کے فوری مطالبہ پر مخصوص اسلوب میں تنبیہ کہ یہ لوگ ایک زور دار چیخ کے منتظر ہیں جو انہیں بھرپور زندگی گزارتے ہوئے اچانک آلے گی اور انہیں اپنے اہل خانہ تک پہنچنے اور کسی قسم کی وصیت کی مہلت بھی نہ مل سکے گی۔
 اس کے بعد قیام قیامت کی منظر کشی کی گئی ہے کہ جیسے ہی صور پھونکا جائے گا لوگ قبروں سے نکل کر اتنی بڑی تعداد میں اپنے رب کے سامنے حاضری کے لئے چل پڑیں گے کہ وہ پھسلتے ہوئے محسوس ہوں گے اور بے اختیار پکار اٹھیں گے کہ ہمیں قبروں سے کس نے نکال باہر کیا، پھر خود ہی یہ کہنے پر مجبور ہو جائیں گے کہ یہ تو رحمان کے وعدہ کی عملی تفسیر ہے اور رسولوں نے بالکل سچ کہا تھا۔
 اس کے بعد ظلم سے پاک محاسبہ اور ’’جیسی کرنی ویسی بھرنی‘‘ کے ضابطہ کے مطابق جزاء و سزا کا عمل ہو گا۔ جنت والے اپنے مشغلوں میں شاداں و فرحاں ہوں گے، گھنے سائے میں اپنی بیگمات کے پہلو بہ پہلو مسہریوں پر تکیہ لگائے ہوئے لطف اندوز ہو رہے ہوں گے جو طلب کریں گے وہ ان کے سامنے پیش کر دیا جائے گا۔ رب رحیم کی طرف سے انہیں ’’سلامیاں ‘‘ دی جا رہی ہوں گی۔
 اس کے بالمقابل مجرموں کو الگ تھلگ کر کے ان کے اعضاء و جوارح کی گواہی پر جہنم کا ایندھن بنا دیا جائے گا۔ اس کے بعد شعرو شاعری کو شانِ نبوت کے منافی قرار دے کر بتایا کہ یہ واضح قرآن ان لوگوں کے لئے مفید ہے جن میں زندگی کی رمق پائی جاتی ہے۔ 
پھر کچھ انعامات خداوندی کا تذکرہ کر کے شرک کی مذمت کی گئی ہے اور باطل پرستوں کے اعتراضات سے اثر قبول نہ کرنے کی تلقین ہے اور آخر میں مرنے کے بعد زندہ ہونے پر معرکۃ الآراء انداز میں عقلی دلائل دے کر سورت کو ختم کیا گیا ہے۔ 
واقعہ یہ ہوا کہ عاص بن وائل نے ایک بوسیدہ ہڈی کو مسل کر فضاء میں تحلیل کرتے ہوئے مذاق کے انداز میں کہا، اس قدر بوسیدہ ہڈیوں کو کون دوبارہ پیدا کرسکے گا؟
اس کا جواب دو طریقہ سے دیا: (۱)جس اللہ نے پہلے اس انسان کو پید اکیا وہی دوبارہ بھی پیدا کر لے گا۔ (۲)جس اللہ نے آسمان و زمین جیسے مشکل ترین اور بڑے بڑے اجسام کو پیدا کیا وہ انسان جیسی چھوٹی مخلوق کو بہت آسانی سے پیدا کرسکتا ہے۔
 کسی بھی بڑے یا چھوٹے کام کے لئے اسے اس سے زیادہ کچھ نہیں کرنا پڑتا کہ وہ وجود میں آنے کا حکم دیتے ہوئے ’’کُن٘‘‘ کہتا ہے تو وہ چیز وجود میں آ جاتی ہے۔

             *سورہ الصافات*

مکی سورت ہے۔ ایک سو بیاسی آیتوں اور پانچ رکوع پر مشتمل ہے، فرشتوں کو صافات کہا گیا ہے اس لئے کہ وہ دربار خداوندی میں صف بندی کا اہتمام کرتے اور ’’قطار اندر قطار‘‘ حاضری دیتے ہیں۔ اس سے حیات انسانی میں ’’قطار‘‘ کی اہمیت بھی اجاگر ہو جاتی ہے۔
 نزول قرآن کے وقت آسمان اس اعتبار سے بہت اہمیت کا حامل تھا کہ آسمانوں سے اوپر عرش معلیٰ پر لوح محفوظ سے منتقل ہو کر فرشتوں کے توسط سے زمین پر اتر رہا تھا اور اس بات کا امکان تھا کہ شرارتی جنات و شیاطین قرآن کریم کے بعض کلمات کو لے کر خلط ملط کر دیں اور تحریف کر کے لوگوں میں نشر کرنے کی کوشش کریں۔ اللہ تعالیٰ نے آسمان پر حفاظتی چوکیاں (بروج) قائم کر کے فرشتوں کو ان پر مامور کر دیا تاکہ شیاطین اپنے مقاصد میں کامیاب نہ ہو سکیں۔
 ستارے آسمان کی زینت بھی ہیں اور شیاطین سے حفاظت کا ذریعہ بھی ہیں، اگر کوئی شیطان چھپ کے سننے کی کوشش کرتا ہے تو ’’شہاب ثاقب‘‘ اس کا پیچھا کر کے اسے راہِ فرار پر مجبور کر دیتا ہے۔ 
انسان کی تخلیق چپکنے والی مٹی سے کی گئی ہے۔ پھر بتایا کہ مرنے کے بعد یہ انسان دوبارہ زندہ ہو گا اور اسے احتساب کے کڑے عمل سے گزرنا پڑے گا اور ہر شخص کو اپنے کئے کا بدلہ مل کر رہے گا۔ مخلصین کو با عزت طریقہ پر کھانے پینے اور لذت کا سامان فراہم کیا جائے گا جبکہ ظالم جہنم کے عذاب اور زقوم کے درخت سے اپنی بھوک مٹانے پر مجبور ہوں گے جس سے نہ سیری ہو گی اور نہ ہی صحت حاصل ہو سکے گی۔
دو دوستوں کا عبرتناک تذکرہ بھی کیا ہے کہ ایک جنتی اپنے ہم مجلس دوستوں سے کہے گا کہ دنیا میں میرا ایک دوست تھا جو کہ میرے قیامت کے عقیدہ پر استہزاء و تمسخر کیا کرتا تھا وہ آج یہاں نظر نہیں آرہا ہے۔ 
اللہ تعالیٰ فرمائیں گے کہ اگر تم اسے دیکھنا چاہو تو نیچے جھانک کر دیکھ لو وہ جب جھانکے گا تو اسے جہنم کے عذاب میں مبتلا نظر آئے گا۔ 
جنتی اس سے کہے گا کہ تو تو مجھے گمراہ کرنے پر کمربستہ رہتا تھا یہ تو اللہ کا فضل و کرم ہوا کہ اس نے تمہارے بہکاوے سے مجھے بچا لیا ورنہ میں بھی تمہاری طرح جہنم کی گہرائیوں میں پڑا سڑ رہا ہوتا۔ 
اس کے بعد سلسلہ انبیاء کا بیان شروع ہوتا ہے، سب سے پہلے نوح علیہ السلام اور ان کی قوم کا مختصر تذکرہ، ایمان والوں کی قلت تعداد کے باوجود نجات اور کافروں کی کثرت تعداد کے باوجود غرقابی۔
 پھر ابراہیم علیہ السلام اور ان کی قوم کا تذکرہ۔ بتوں کی توڑ پھوڑ اور آگ میں ڈالے جانے کا ذکر، پھر بڑھاپے میں اسماعیل علیہ السلام کی ولادت اور ان کی قربانی کا ایمان افروز بیان، باپ کا ایثار اور بیٹے کا صبر، قربانی کی قبولیت، اسماعیل کے بدلہ میں جنتی مینڈھے کی قربانی اور رہتی دنیا تک اس کی یاد مناتے ہوئے پوری ملت اسلامیہ کو قربانیاں پیش کرنے کا حکم۔ پھر اسحاق اور اس کی صالح اولاد کی بشارت پھر موسیٰ و ہارون اور اللہ کی مدد سے فرعونی مظالم کے مقابلے میں ان کی اور ان کی قوم کی نجات۔ 
ان کے ایمان و اخلاص کی تعریف اور اللہ کی طرف سے انہیں ’’سلامی‘‘ پیش کرنے کا اعلان، 
اس کے بعد الیاس علیہ السلام اور ان کی مشرک قوم کا ذکر اور حضرت الیاس کے بیان توحید کی تعریف، اس کے بعد حضرت لوط علیہ السلام اور ان کی بے حیا قوم کا عبرتناک انجام، اس کے بعد حضرت یونس علیہ السلام اور ان کے مچھلی کے پیٹ سے نجات کا واقعہ۔ پھر اللہ کے لئے اولاد ثابت کرنے والوں کی مذمت اور اللہ کے رسولوں اور نیک بندوں کی مدد و نصرت کا وعدۂ الٰہی اور آخر میں اللہ کی تسبیح و تحمید اور اللہ کے نیک بندوں پر سلامتی کے نزول کے وعدہ کے ساتھ سورت کا اختتام۔ حدیث شریف میں آتا ہے کہ جو شخص یہ چاہے کہ اس کا ثواب بڑی ترازو میں تولا جائے تو وہ مجلس کے اختتام پر (صافات کی آخری تین آیتیں )
 سبحان ربک رب العزۃ عما یصفون وسلام علی المرسلین والحمدللہ رب العالمین 
پڑھ لیا کرے۔

               *سورہ ص*

مکی سورت ہے۔ اٹھاسی آیتوں اور پانچ رکوع پر مشتمل ہے، قرآن کریم کے ’’کتاب نصیحت‘‘ ہونے کے بیان کے ساتھ ہی منکرین توحید کے لئے عذاب الٰہی کی وعید اور پھر انبیاء علیہم السلام کا ذکر جس میں اختصار اور تفصیل کی دونوں صنعتوں کی جھلک دکھائی گئی ہے۔
 قوم نوح، فرعون، عاد، ثمود کا اپنے انبیاء سے مقابلہ اور ان قوموں کی ہلاکت کا دل آویز اختصار کے ساتھ بیان کرنے کے بعد داؤد و سلیمان کا تفصیلی ذکر۔ حضرت داؤد کی دستکاری، انابت الی اللہ اور خوش الحانی سے تلاوت زبور جس میں پہاڑ اور پرندے بھی ساتھ چہچہانے لگ جاتے۔
 پھر دو افراد کا تمام سرکاری حفاظتی انتظامات کو نظر انداز کر کے دیوار پھلانگ کر آنا اور مسئلہ پوچھ کر آسمان کی طرف چلے جانا، جس سے یہ ظاہر ہوا کہ یہ عام انسان نہیں فرشتے تھے جو کہ آزمائش کے لئے اترے تھے۔ اس پر داؤد علیہ السلام کا اپنے انتظامات کی بجائے اللہ پر اعتماد و توکل کا بڑھ جانا اور اللہ کی طرف سے مغفرت اور اچھے انجام کی نوید مذکور ہے۔
 پھر سلیمان علیہ السلام ان کے بے پناہ وسائل، اصیل گھوڑے، ہواؤں کی تسخیر اور صبح و شام کا ہوائی سفر اس کے باوجود اللہ کے سامنے ان کی عجز و انکساری اور اللہ کی طرف سے مقربین بارگاہ میں شمولیت اور اچھے انجام کی نوید ہے۔
 پھر ایوب علیہ السلام اور بیماری اور تکلیف میں ان کا صبر و استقامت اور اللہ کی طر ف سے ان کے نقصانات کے ازالہ کا تذکرہ اور ان کی رجوع الی اللہ کی صفت کی تعریف کی گئی ہے۔ 
پھر اختصار کے ساتھ ابراہیم، اسحاق، یعقوب، اسماعیل، یسع، ذوالکفل علیہ السلام کا تذکرہ اور اللہ کے برگزیدہ بندوں کے جنت میں اعزاز و اکرام کا ذکر ہے جبکہ نافرمانوں کے عذاب اور سزا کا تذکرہ ہے۔ 
پھر دعوت توحید ہے اور قصۂ آدم و ابلیس کو بیان کرنے کے بعد آخر میں قرآن کریم کے ’’کتاب نصیحت‘‘ ہونے کا اعادہ اور قرآنی تعلیمات کی حقانیت روز قیامت ہر شخص کو کھلی آنکھوں نظر آنے کا اعلان ہے۔

               *سورہ الزمر*

مکی سورت ہے۔ پچھتر آیتوں اور آٹھ رکوع پر مشتمل ہے ’’الزمر‘‘ کے معنی جماعتیں اور گروہ۔ سورت کے آخر میں جنت اور جہنم کے لئے لوگوں کی جماعتوں کی روانگی کا ذکر ہے، اس لئے ’’الزمر‘‘ کے نام سے موسو م ہے۔ 
اس سورت کا مرکزی مضمون توحید ہے۔ قرآن کریم کے کلام الٰہی ہونے کے اعلان کے ساتھ سورت کی ابتداء کی گئی ہے۔ اس کے بعد مشرکین پر تابڑ توڑ حملے اور کائناتی شواہد اور واقعاتی دلائل کے ساتھ توحید کا اثبات ہے۔ 
ایک انسان (آدم) سے ’’دنیائے انسانیت‘‘ کی ابتداء اور اسی سے اس کی بیوی (حوّا) کی تخلیق، خوراک کے لئے آٹھ نرو مادہ چوپائے پیدا کئے۔ 
شکم مادر کے اندر تین اندھیروں (پیٹ، رحم، جھلی) کے اندر رکھ کر تیزی کے ساتھ بدلتی ہوئی کیفیت کے ساتھ اس انسان کی تخلیق۔ 
کفر اللہ کا ناپسندیدہ ترین عمل ہے جبکہ پسندیدہ ترین عمل شکر ہے۔
 کوئی دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھائے گا۔ 
انسانی مزاج کہ تکلیف میں فوراً اللہ کو پکارنے لگتا ہے اور راحت میں منکر اور گمراہ بن جاتا ہے۔ خالص اللہ کی عبادت مسلمانوں میں سرفہرست رہنے اور قیامت کا خوف اپنے دل میں پیدا کرنے کی تلقین ہے۔
 قرآن کریم کی اتباع کرنے والوں کو ہدایت یافتہ اور عقلمند ہونے کی خوشخبری ہے۔ 
قرآن کریم کی صفات کا تذکرہ کہ بہترین کلام ہے۔ کتابی شکل میں ہے۔ ملتی جلتی آیات ہیں، بار بار دہرائی جاتی ہیں۔ اسے سن کر خوف خدا رکھنے والوں کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ 
مشرک و مؤمن کا فرق واضح کرنے کی بہترین مثال کہ ایک شخص غلام ہو اور اس کی ملکیت میں بہت سے لوگ شریک ہوں اور دوسرا ایک ہی شخص کا غلام ہو۔ جس طرح یہ دونوں برابر نہیں ہو سکتے اسی طرح مشرک و مؤمن بھی برابر نہیں ہو سکتے۔ ان تمام باتوں کی حقانیت کا مشاہدہ کرنے کے لئے آپ بھی مریں گے اور یہ لوگ بھی مریں گے، پھر تم اپنے رب کے حضور تمام صورتحال بیان کر کے فیصلہ حاصل کرلو گے۔
 

کوئی تبصرے نہیں:

حالیہ اشاعتیں

مقوقس شاہ مصر کے نام نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کا خط

سیرت النبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم..قسط 202 2.. "مقوقس" _ شاہ ِ مصر کے نام خط.. نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک گرامی ...

پسندیدہ تحریریں