*پارہ ~~~3~~~ تِلْکَ الرُّسُلُ*


شروع میں انبیاء علیہم السلام اور ان کی ایک دوسرے پر فضیلت بیان کی گئی ہے۔ درجات کا یہ فرق کسی نبی یا رسول کی  کمی یا کوتاہی کا غماز نہیں ہے بلکہ ان کے منصب اور ذمہ داری میں فرق اور اہمیت کے پیش نظر ہے۔
 دنیا میں ہی صدقہ و خیرات کر کے اپنی عاقبت سنوار لو ورنہ قیامت کے دن کوئی سودے بازی، تعلقات یا سفارش کام نہیں دے گی۔ 
قرآن کریم کی آیات میں مرتبہ اور مقام کے اعتبار سے آیت الکرسی سب سے بڑی آیت ہے۔ یہ سورہ البقرہ کی آیت نمبر ۲۵۵ ہے اور اس کی عظمت کا راز یہ ہے کہ اس میں توحید کو بھرپور انداز میں بیان کیا گیا ہے۔
 اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں وہ زندہ جاوید اور کائنات کو قائم رکھنے والا ہے۔ اس پر اونگھ یا نیند کا غلبہ نہیں ہوتا۔ آسمان و زمین اور ان میں پائی جانے والی ہر چیز کا وہی مالک ہے۔ اس کی اجازت کے بغیر اس کے سامنے سفارش کرنے کی کوئی جرأت بھی نہیں کرسکتا۔ ان لوگوں سے پہلے کیا تھا اور ان کے بعد میں کیا ہو گا؟ اس سب کچھ کا علم اسی کے پاس ہے۔ یہ لوگ اتنا ہی جانتے ہیں جتنا وہ انہیں سکھاتا ہے۔ اس کے علم کی معمولی مقدار کا بھی احاطہ نہیں کرسکتے۔ اس کی کرسی کی وسعت اور بڑائی کا یہ عالم ہے کہ وہ آسمان و زمین پر حاوی ہے اور آسمان و زمین کی حفاظت، اس کے لئے کسی قسم کی مشکلات کا باعث نہیں ہے۔ وہ نہایت بلند ہے اور عظمتوں کا مالک ہے۔ ہدایت اور گمراہی واضح ہو چکی ہے، لہٰذا دین اسلام کو قبول کرنے کے لئے کوئی جبر یا زبردستی نہیں ہے۔ جو باطل قوتوں سے بغاوت کر کے اللہ کا وفادار بن گیا تو ا س نے ایسی مضبوط کڑی کو تھام لیا جو ٹوٹنے والی نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ ایمان والوں کا دوست ہے اور انہیں کفر کی ظلمتوں سے ایمان کے نور کی طرف لاتا ہے جبکہ کافروں کے دوست طاغوت (باطل قوتیں ) ہیں جو انہیں ایمان کی روشنی سے کفر کے اندھیروں کی طرف لے جاتے ہیں، یہ لوگ ہمیشہ ہمیشہ کے لئے جہنم کا ایندھن بنیں گے۔ 
اس کے بعد تین تاریخی واقعات بیان کئے جو توحید پر دلالت کرتے ہیں اور مرنے کے بعد زندہ ہونے کے قرآنی عقیدہ کو اجاگر کرتے ہیں۔
 پہلا واقعہ حضرت ابراہیم علیہ السلام اور نمرود کا ہے جس کا دعویٰ تھا میں مار بھی سکتا ہوں اور موت سے بچا بھی سکتا ہوں لہٰذا میں اس کائنات کا رب ہوں۔ ابراہیم علیہ السلام نے فرمایا: اللہ تعالیٰ سورج کو مشرق سے نکالتے ہیں تم مغرب سے نکال کر دکھاؤ۔ اس پر وہ لاجواب ہو کر حیران رہ گیا۔
 دوسرا واقعہ حضرت عزیر علیہ السلام کا ہے کہ کسی سفر میں ان کا گزر ایک تباہ شدہ بستی پر ہوا جس کے باشندے لاشوں کی صورت میں پڑے ہوئے تھے۔ انہوں نے ان کی تباہ شدہ کیفیت اور بوسیدگی اور اللہ تعالیٰ کی دوبارہ پیدا کرنے کی قوت پر تعجب کیا تو اللہ تعالیٰ نے ان پر اور ان کی سواری پر موت طاری کر کے سو سال کے بعد زندہ کیا۔ سواری کی بوسیدہ ہڈیوں کو ان کے سامنے جمع کر کے ان پر گوشت پوست چڑھایا اور ان کے زاد سفر (کھانے) کو سو سال تک باسی ہونے سے بچا کر ترو تازہ رکھا اور اس طرح اپنی قدرت کا انہیں عملی مشاہدہ کرا دیا۔
 تیسرا واقعہ: ابراہیم علیہ السلام نے مرنے کے بعد زندہ ہونے کی کیفیت کا مشاہدہ کیا۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے اطمینان قلب کے لئے مردوں کو زندہ کرنے کی کیفیت کو عملی شکل میں دیکھنا چاہا تو اللہ تعالیٰ نے انہیں حکم دیا کہ چار پرندے لے کر انہیں اپنے ساتھ مانوس کریں، پھر انہیں ذبح کریں اور بالکل قیمہ بنا کر ان کے ذرات آپس میں خلط ملط کر کے مختلف پہاڑیوں پر رکھ کر ان پرندوں کا نام لے کر پکاریں۔ ابراہیم علیہ السلام کے پکارنے پر ہر پرندے کی ہڈی سے ہڈی، پَر سے پَر، خون سے خون سب مل ملا کر اپنی اصلی شکل و صورت میں بن کر ان کے پاس آ گئے۔ جس سے اللہ تعالیٰ کی زبردست قوت اور حکمت کا عملی مشاہدہ ہو گیا۔
صدقہ و خیرات کے حوالے سے آیت نمبر ۲۶۱ سے آیت نمبر ۲۶۶ تک چار مثالیں بیان کی ہیں، دو مثالیں اخلاص کی اور دو مثالیں ریاء کاری کی۔
 اخلاص کے ساتھ اللہ کے نام پر مال خرچ کرنے کی مثال ایسے ہی ہے جیسے زمین میں ایک بیج ڈال کر سینکڑوں دانے حاصل کر لینا اور ریاء کار کا صدقہ ایسا ہے جیسے چٹان پر غلہ اگانے کی ناکام کوشش۔ 
اچھی بات کہنا اور درگزر کر دینا ایسی مالی امداد سے بہتر ہے جس میں ریا کاری اور احسان جتلانے کا عنصر شامل ہو۔
 اللہ کے لئے صدقہ و خیرات کی دوسری مثال زرخیز خطۂ زمین میں باغ لگانے کی ہے جو سال میں دو مرتبہ پھل دیتا ہو اور دکھاوے کے طور پر خیرات کرنے کی مثال اس شخص کی ہے جو اپنی جوانی میں محنت کر کے بہترین باغ اور فصل اگائے مگر اس کے بڑھاپے میں جب وہ محنت کے قابل نہ رہے، وہ اور اس کے چھوٹے چھوٹے بچے غلہ اور پھلوں کے محتاج ہوں تو یہ باغ کسی ناگہانی آفت سے تباہ ہو کر رہ جائے، اسی طرح ریا کار کا اجرو ثواب آخرت میں تباہ ہو جاتا ہے اور اسے کچھ نہیں ملتا۔
 اللہ کے عطا کردہ مال و جائیداد اور زمین سے حاصل شدہ غلوں اور فصلوں میں سے پاکیزہ چیزیں اللہ کے نام پر دینی چاہئیں، گھٹیا اور بیکار چیزیں جب اپنے لئے پسند نہیں کرتے تو اللہ کے نام پر کیوں دیتے ہو؟ صدقہ و خیرات کرنے پر شیطان غربت اور پیسہ کی کمی سے ڈراتا ہے جب کہ اللہ تعالیٰ مال میں برکت اور گناہوں کی معافی کا وعدہ کرتے ہیں۔ 
حکمت و دانائی اللہ کی عطاء ہے جسے حکمت مل جائے اسے بہت بڑی خیر میسر آ گئی۔ 
کھلے عام اور چھپا کر موقع محل کے مطابق دونوں طرح صدقہ کرتے رہنا چاہئے۔ دین دار غرباء جو اپنی سفید پوشی کا بھرم رکھنے کے لئے مانگتے نہیں ہیں وہ آپ کے مالی تعاون کے زیادہ مستحق ہیں۔ 
عدل و انصاف پر مشتمل معاشی نظام کے لئے رہنما اصول، غریب اور چھوٹے تاجروں کے لئے زہر قاتل اور تجارت کے لئے ’’رِستا ہوا ناسور‘‘ یہودی ذہنیت کی بدترین پیداوار ’’سودی نظام‘‘ کے تباہ کن عواقب و نتائج سے آیت نمبر ۲۷۵ سے آیت نمبر ۲۸۰ تک خبردار کرتے ہوئے سختی کے ساتھ اس سے باز رہنے کا حکم دیا ہے اور سود خوری سے بچنے کو ایمان کا تقاضا قرار دیا اور سودی نظام کو جاری رکھنے کو اللہ اور اس کے رسول سے جنگ کے مترادف قرار دیا ہے۔ 
یوم احتساب یعنی قیامت کی یاد دہانی کراتے ہوئے آیت نمبر ۲۸۱ میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : اس دن سے ڈرو جب تم اللہ کی طرف لوٹائے جاؤ گے اور ہر شخص کو نیک و بد اعمال کا پورا پورا حساب دینا ہو گا۔ کسی پر کوئی ظلم نہیں کیا جائے گا۔
 یہ قرآن کریم کی نزول کے اعتبار سے آخری آیت ہے اور اس میں حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے اس دنیا سے ارتحال کا اشارہ بھی موجود ہے۔
 آیت نمبر ۲۸۲ کمیت کے اعتبار سے قرآن کریم کی سب سے بڑی آیت ہے۔ اسے آیۃ المداینہ بھی کہتے ہیں۔
 اس میں ادھار لین دین کے قرآنی ضوابط، ادائیگی کی مدت کا تعین، تحریری وثیقہ کی تیاری اور گواہوں کی موجودگی وغیرہ کا بیان ہے۔ رہن رکھنے کے احکام کا تذکرہ ہے۔
 آسمان و زمین کے اندر سب کچھ اللہ کی ملکیت ہے، وہ دلوں کے ظاہر اور خفیہ تمام بھیدوں سے واقف ہے۔ اللہ کے نازل کردہ قرآن پر رسول اور مؤمنین سب کا ایمان ہے۔ اللہ پر، فرشتوں پر، آسمانی کتابوں پر اور تمام انبیاء و رسل پر بلا تفریق ایمان لانا ضروری ہے۔ اپنی اطاعت شعاری اور فرماں برداری کا عاجزانہ اعتراف کر کے اپنی کمی و کوتاہی پر اللہ سے مغفرت طلب کرنی چاہئے۔ اللہ تعالیٰ انسانی وسعت سے زیادہ بوجھ نہیں ڈالتے لہٰذا شریعت کے جتنے احکام ہیں وہ انسانی وسعت و قدرت کے اندر ہی ہیں اور ہر شخص کو اپنے برے بھلے اعمال کا نتیجہ بھگتنا ہو گا اس لئے فدویانہ طریقہ پر اپنی وفاداری کا اظہار کرتے ہوئے اللہ سے درخواست کریں۔ اے ہمارے رب! ہماری غلطی اور کمی پر ہماری گرفت نہ فرما۔ ہماری طاقت سے زیادہ ہم پر ذمہ داریاں نہ ڈال، ہمارے ساتھ عفو و درگزر کا معاملہ فرما۔ رحم فرما، تو ہی ہمارا مولا ہے، کافروں کے مقابلہ میں ہماری مدد فرما۔ آیت نمبر ۲۸۵ اور ۲۸۶ سورہ بقرہ کی آخری دو آیتیں ہیں ان کی بہت فضیلت ہے۔ 
حدیث شریف میں ہے جس نے رات کو سوتے وقت یہ دو آیتیں پڑھ لیں تو یہ اس کے لئے کافی ہیں۔
*سورہ آل عمران* 
قرآن کریم کی طویل ترین سورتوں میں سے ایک ہے۔ مدنی ہے دوسو آیتوں اور بیس رکوع پر مشتمل ہے۔ 
اس سورہ میں عقائد پر گفتگو کرتے ہوئے زیادہ تر روئے سخن عیسائیوں کی طرف ہے۔ عیسائیت کے مذہبی تقدس کے حامل خاندان کا تذکرہ اس میں موجود ہے۔ عمران حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے نانا تھے۔ 
عیسائیوں کے دلوں میں قرآن کریم کے لئے نرم گوشہ پیدا کرنے کی خاطر پوری سورہ کو ’’آل عمران‘‘ کے نام سے موسوم کر دیا۔ یہ سورہ ایک واقعہ کے پس منظر میں نازل ہونا شروع ہوئی۔ نجران کے عیسائیوں کا ساٹھ افراد پر مشتمل ایک بڑا وفد مدینہ منورہ میں حضور علیہ السلام سے ملاقات کے لئے آیا تھا۔ ان لوگوں نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو ان کے مرتبہ سے بڑھا چڑھا کر پیش کیا۔ کبھی کہتے کہ وہ ’’اللہ‘‘ ہیں کبھی کہتے کہ وہ ’’ابن اللہ‘‘ ہیں اور کبھی کہتے کہ الوہیت کے مثلث (باپ، ماں اور بیٹا) کا ایک حصہ ہیں۔
 حضور علیہ السلام نے انہیں مدلل جواب دیتے ہوئے فرمایا: 
اللہ تعالیٰ زندہ جاوید ہیں ان پر موت طاری نہیں ہو سکتی جبکہ عیسیٰ علیہ السلام پر موت طاری ہو کر رہے گی۔ بیٹا اپنے باپ کے مشابہ ہوتا ہے جبکہ عیسیٰ علیہ السلام میں اللہ تعالیٰ کی مشابہت نہیں۔
 اللہ تعالیٰ کھاتے پیتے نہیں جبکہ عیسیٰ علیہ السلام کھاتے پیتے ہیں۔ 
اللہ تعالیٰ سے آسمان کی بلندیوں اور زمین کی پنہائیوں میں کوئی چیز مخفی نہیں جبکہ عیسیٰ علیہ السلام سے بے شمار چیزیں مخفی ہیں۔
 اس پر وہ لاجواب ہو گئے۔
 اللہ تعالیٰ نے آپ صلی الله علیہ وسلم کی تائید میں یہ سورہ نازل فرمائی۔ 
ابتداء میں اللہ کی وحدانیت اور قرآن کریم، تورات اور انجیل کی حقانیت کو بیان کیا اور اللہ کی آیات کے منکروں کو عذاب شدید سے ڈرایا۔ علم الٰہی کی وسعتوں کو بیان کیا۔ قدرت کے تخلیقی شاہکار انسان کے رحمِ مادر میں تیاری کے مرحلہ کو بیان کیا اور بتایا کہ قرآن کریم اللہ تعالیٰ ہی نے نازل فرمایا ہے، جس میں محکم اور واضح معنی و مفہوم رکھنے والی آیات بھی ہیں اور متشابہات بھی ہیں، جن کے معنی و مفہوم ہر شخص پر واضح نہیں ہوتے، لیکن اگر متشابہ آیات پر حضور علیہ السلام کے بیان کردہ ضوابط کی روشنی میں غور کریں تو ان کے معنی واضح ہو سکتے ہیں، مگر جو لوگ ضلالت و گمراہی کے مریض ہیں وہ ان آیات کو من مانے معنی پہنا کر لوگوں کو گمراہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
 ایسی آیات کو اللہ کی طرف سے یقین کر کے ان پر مکمل ایمان رکھنا چاہئے۔ اللہ سے ہدایت کی دعا مانگنی چاہئے اور روز جزاء کے تصور کو فراموش نہیں کرنا چاہئے۔
 کافروں کا مال و اولاد ان کے کسی کام نہیں آ سکے گا۔ وہ جہنم کا ایندھن بنیں گے۔ فرعون اور اس سے پہلے اقوام کے واقعات سے یہ بات ظاہر ہے۔ انہوں نے ہماری آیات کا انکار کیا، ہم نے ان کے جرائم پر ان کی گرفت کر کے انہیں عبرت کا نشانہ بنا دیا۔
 بدر کے واقعہ میں غور کرو جب دو جماعتیں مقابلہ پر آئیں۔ ایک جماعت اللہ کے لئے جہاد کرنے والی اور دوسری جماعت کافروں کی تھی، جن کی تعداد مسلمانوں سے کئی گنا زیادہ نظر آ رہی تھی۔ اللہ تعالیٰ نے کافروں کو شکست دے کر ایمان والوں کو اپنی مدد سے غالب کیا۔ اس سے اہل بصیرت درس عبرت حاصل کرسکتے ہیں۔
 انسانوں کو بیوی، بچے، مال و دولت کے خزانے، سونا چاندی، سواریاں، چوپائے، جانور اور کھیتیاں بہت بھلی معلوم ہوتی ہیں، مگر یہ سب دنیا کی عارضی چیزیں ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے پاس بہترین انجام ہے۔ متقی لوگوں کے لئے باغات، نہریں، پاکیزہ بیویاں اور اللہ کی رضا ہے۔
 اللہ اپنے بندوں کو خوب جانتے ہیں۔ وہ بندے گناہوں پر استغفار اور جہنم سے حفاظت کے طلبگار ہیں۔ صبر کرنے والے، سچ بولنے والے، فرماں برداری کرنے والے، صدقہ و خیرات کرنے والے اور تہجد کے وقت اپنے گناہوں کی معافی مانگنے والے ہیں۔ اللہ تعالیٰ اور فرشتے اور تمام اہل علم، توحید کی گواہی دیتے ہیں۔ 
انسانی زندگی کے لئے نظام حیات جو اللہ تعالیٰ کے یہاں مستند و مسلم ہے وہ صرف اسلام ہے اور اس سے اختلاف رکھنے والے ہٹ دھرم اور ضدی ہیں۔ اللہ تعالیٰ جلد ہی ان کافروں کا احتساب کریں گے۔ بحث بازی اور جھگڑا کرنے کی بجائے اللہ تعالیٰ کے سامنے سر تسلیم خم کرنا ہی ہدایت ہے۔
 انبیاء اور عدل و انصاف کے داعی مذہبی پیشواؤں کا قتل یہودی ذہنیت کا غماز ہے۔ ایسے لوگوں کو دردناک عذاب ہو گا۔ 
ہر قسم کی حکمرانی اللہ ہی کی ہے وہ جسے چاہے عزت دے جسے چاہے ذلیل و رسوا کرے وہ ہر چیز پر قادر ہے۔ دن کو رات میں داخل کرتا ہے، رات کو دن میں داخل کرتا ہے۔ زندہ سے مردہ کو اور مردہ سے زندہ کو نکالتا ہے اور جب چاہتا ہے بے حساب رزق دیتا ہے۔
 ایمان والوں کے لئے کافروں سے گہری دوستی لگانا جائز نہیں۔ 
اللہ کی محبت اور مغفرت کے حصول کا آسان اور کامیاب راستہ اتباعِ رسول ہے۔
 انبیاء کی بعثت درحقیقت انتخاب ربانی ہوتا ہے۔ آدم و نوح اور ابراہیم و عمران کے خاندانوں کو اللہ تعالیٰ نے ہی منتخب فرمایا تھا۔ حضرت مریم کی ولادت ان کی کراماتی نشوونما اور انہیں بیت المقدس کی خدمت کے لئے وقف کرنے کی تفصیل کا بیان ہے۔ حضرت زکریا علیہ السلام کو بڑھاپے اور بیوی کے بانجھ پن کے باوجود یحییٰ جیسے پاکباز اور قائدانہ صلاحیتوں کے حامل بیٹے کی خوشخبری کا تذکرہ ہے۔
 پھر عیسیٰ علیہ السلام کی معجزانہ ولادت، بچپن اور بڑھاپے میں گفتگو کے امتیاز کا تذکرہ۔ آپ کی نبوت و رسالت کے ساتھ ہی آپ کے معجزات، مردوں کو زندہ کرنا، مٹی کے پرندے بنا کر اڑا دینا، اندھوں اور کوڑھیوں کو صحت مند کر دینا وغیرہ کو ذکر کر کے بتایا ہے کہ یہ تاریخی باتیں ایک نبی امی کے ذریعہ لوگوں کے سامنے آنا، اس نبی کی حقانیت کی واضح دلیل ہیں۔ پھر عیسیٰ علیہ السلام کے آسمان پر اٹھائے جانے اور ان کو نبی برحق مان کر ان کی پیروی کرنے والوں کے دنیا پر غلبہ اور قیامت تک ان کی حکمرانی کو بیان کیا ہے۔ 
پھر عیسائیوں کے ساتھ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے مباہلہ کا تذکرہ ہے، جس میں دو مقابل فریق اپنے اہل و عیال کے ساتھ میدان میں نکل کر بددعا کرتے ہیں، جس کے نتیجہ میں باطل فریق ہلاک ہو جاتا ہے۔ 
عیسائی مباہلہ کی بجائے فرار ہو گئے، جس سے ان کا بطلان واضح ہو گیا۔ 
قرآن کا اعلان ہے کہ ابراہیم علیہ السلام یہودی، عیسائی یا مشرک نہیں بلکہ یکسوئی کے ساتھ اللہ کی اطاعت کرنے والے مسلمان تھے۔ 
پھر یہودیوں کی خامیوں اور کمزوریوں کا تذکرہ ہے۔ خود راہِ راست پر آنے کی بجائے دوسروں کو بھی اپنے جیسا گمراہ دیکھنا چاہتے ہیں۔ حق و باطل کو خلط ملط کر کے لوگوں کو دھوکہ دیتے ہیں۔ سازش کے تحت اسلام کا اظہار کر کے پھر انکار کر دیتے ہیں تاکہ دوسروں کو بھی اسلام سے برگشتہ کریں۔ مسلمانوں کا مال ناجائز طریقہ پر کھانے کو اپنے لئے حلال سمجھتے ہیں، دنیوی مفادات کی خاطر اللہ کے کلام کو بیچ ڈالتے ہیں۔ 
نبی و رسول کی شان یہ ہے کہ وہ لوگوں کو اپنا پرستار بنانے کی بجائے اللہ کی عبادت پر آمادہ کرتے ہیں۔ 
پھر محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانے کے حوالے سے انبیاء کرام سے لئے جانے والے میثاق کا ذکر ہے، جس کی رو سے تمام انبیاء علیہم السلام آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نصرت کرنے کے پابند قرار دیئے گئے۔ 
اسلام کے علاوہ کوئی دین قابل قبول نہیں۔ اللہ کے نزدیک، تمام فرشتوں اور تمام انسانوں کے نزدیک کافر ملعون ہیں۔ ہمیشہ ہمیشہ جہنم میں رہیں گے۔ اگر زمین کے بھراؤ کے برابر سونا بھی فدیہ میں دے دیں تب بھی انہیں جہنم کے عذاب سے نجات حاصل نہیں ہو گی۔


کوئی تبصرے نہیں:

حالیہ اشاعتیں

مقوقس شاہ مصر کے نام نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کا خط

سیرت النبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم..قسط 202 2.. "مقوقس" _ شاہ ِ مصر کے نام خط.. نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک گرامی ...

پسندیدہ تحریریں