*پارہ~~~7~~~وَاِذَا سمِعُوا*

ابتداء میں عیسائیت کے منصف مزاج اور معتدل طبقہ کی تعریف کی گئی ہے۔ 
واقعہ یہ پیش آیا تھا کہ قریش مکہ کے مظالم سے تنگ آ کر حضور علیہ السلام کی اجازت سے مسلمانوں کی ایک جماعت ہجرت کر کے عیسائیوں کے ملک حبشہ چلی گئی۔ مشرکین نے ان کا تعاقب کیا اور غلط بیانی کے ساتھ نجاشی شاہ حبشہ کو مسلمانوں سے بد ظن کرنے کی کوشش کی۔ نجاشی نے انہیں طلب کر کے سوالات کئے۔ مسلمانوں کے نمائندہ جعفر رضی اللہ عنہ نے جواب میں قرآن کریم کی سورہ مریم پڑھ کر سنائی۔ نجاشی اور اس کے ساتھیوں پر قرآن کریم سن کر رقت طاری ہو گئی۔ ان کی آنکھیں آنسوؤں سے ڈبڈبانے لگیں اور کلام الٰہی سے متأثر ہو کر انہوں نے اسلام قبول کر لیا اور مسلمانوں کو سرکاری مہمان کے طور پر اپنے ملک میں ٹھہرانے کا اعلان کر دیا۔ 
ان کی اور اس قسم کے دوسرے عیسائیوں کی تعریف کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ جب یہ لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل شدہ قرآن کو سنتے ہیں تو حق کو پہچان کر ان کی آنکھوں میں آنسو بھر آتے ہیں اور اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لا کر اسلام کی حقانیت کے گواہ بن جاتے ہیں۔
 اس کے بعد حلال و حرام کے حوالے سے کچھ گفتگو اور انتہا پسندی کی مذمت کی گئی ہے۔ 
قسم کی اقسام اور کفارہ کا حکم بیان کیا گیا ہے۔
 شراب اور جوئے (قمار) کی حرمت کا حتمی فیصلہ دیتے ہوئے بتایا گیا ہے کہ شیطان اس کے ذریعہ اسلامی معاشرہ کے افراد میں نفرتیں پیدا کرنا چاہتا ہے۔ لہٰذا اس کے جواز کی کوئی گنجائش نہیں۔ مسلمانوں کو ام الخبائث کے استعمال سے باز آ جانا چاہئے۔ 
حدیث شریف میں آتا ہے کہ حضرت عمر نے جب فہل انتم منتہون (کیا تم باز نہیں آؤ گے؟) کا قرآنی جملہ سنا تو آسمان کی طرف ہاتھ اٹھا کر بے اختیار پکار اٹھے انتہینا یا ربنا (اے ہمارے رب! ہم باز آ گئے) 
حالت احرام میں شکار کی ممانعت اور اس کی جزا کا بیان ہے۔ محرم کو مچھلی کے شکار کی اجازت دی گئی ہے کہ سمندر میں حجاج کے قافلہ کو ضرورت پیش آ سکتی ہے۔ 
کعبۃ اللہ کی مرکزیت اور بقاء انسانیت کی علامت ہونے کا بیان ہے۔ خبیث اور طیب میں امتیاز برتنے کی تلقین ہے کہ کسی چیز کی قلت و کثرت اچھائی کا معیار نہیں ہے۔
 حلال و حرام، مطیع و عاصی، بھلا اور برا کبھی برابر نہیں ہو سکتے۔ بیجا سوال کرنے کی ممانعت کی گئی ہے۔ 
مختلف حوالوں سے جانور مخصوص کرنے کی مذمت کی گئی ہے کہ بحیرہ، سائبہ، وصیلہ اور حامی یا اس قسم کے ناموں سے جانوروں کے تقدس کی اسلامی تعلیمات میں کوئی گنجائش نہیں ہے۔ قرآنی تعلیمات کے خلاف آباء و اجداد کی ناجائز تقلید سے منع کیا گیا ہے۔ فساد زدہ معاشرہ میں تبدیلی لانے کی پوزیشن میں نہ ہونے کے باوجود اگر امر بالمعروف و نہی عن المنکر کا فریضہ انجام دیتے ہوئے اپنے ایمان کے تقاضے پورے کرتے رہے تو گمراہ اور نافرمانوں کے غلط اثرات سے محفوظ رہو گے۔
 قیامت کے دن کے بے لاگ محاسبہ کی یاددہانی کراتے ہوئے بتایا کہ اس ہولناک دن میں انبیاء علیہم السلام بھی جوابدہی کے لئے اللہ کے سامنے پیش کئے جائیں گے۔ 
حضرت عیسیٰ علیہ السلام جیسے صاحب عزیمت رسول جنہیں مردوں کو زندہ کرنے، بینائی اور برص کے لاعلاج مریضوں کو چنگا کرنے اور مٹی کے جانوروں میں اللہ کے حکم سے روح پھونکنے کے معجزات عطاء کئے گئے تھے۔ انہیں بھی احتساب کے عمل سے گزرنا پڑے گا اور ان سے پوچھا جائے گا کہ عیسائیوں نے تمہیں اور تمہاری والدہ کو اپنا معبود کیوں بنا رکھا تھا۔ وہ نہایت عجز و انکساری سے عرض کریں گے کہ اس میں میرا کوئی قصور نہیں۔ میں نے تو آپ کی توحید و الوہیت کی تبلیغ کی تھی۔ میرے بعد لوگوں نے اپنی طرف سے میری اور میری والدہ کی عبادت شروع کر دی تھی۔ یہ آپ کے بندے ہیں آپ ان کے ساتھ جو بھی معاملہ فرمائیں، معاف کریں یا عذاب دیں یہ آپ کا اختیار ہے۔ اللہ تعالیٰ فرمائیں گے آج کے دن سچائی کے علمبردار ہی عظیم الشان کامیابیوں سے ہمکنار ہو سکیں گے۔ ان کے لئے دائمی طور پر باغات اور بہتی نہریں تیار ہیں۔ اللہ ان سے راضی ہیں وہ اللہ سے راضی ہیں۔ 
اس سے پہلے مائدہ (دسترخوان) کا واقعہ بیان کیا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے ماننے والے کہنے لگے: اے عیسیٰ! اپنے رب سے کہئے کہ ہمیں جنت کے کھانے کھلائے۔ اللہ نے ایک دسترخوان اتارا، جس میں انواع و اقسام کے جنتی کھانے تھے۔ خیانت کرنے اور بچا کر رکھنے سے انہیں روکا گیا تھا، مگر انہوں نے بددیانتی کا مظاہرہ کیا۔ اللہ تعالیٰ نے خیانت کے مرتکب افراد کو بندروں اور خنزیروں کی شکل میں مسخ کر دیا۔

سورہ الانعام 

یہ مکی سورہ ہے۔ چونکہ اس سورہ میں انعام (چوپائے) اور ان سے متعلقہ انسانی منافع کا تذکرہ ہے۔ نیز جانوروں سے متعلق مشرکانہ و جاہلانہ رسوم و رواج کی تردید کی گئی ہے۔ اس لئے اس سورہ کا نام ’’الانعام‘‘ رکھا گیا ہے۔ ابن عباس فرماتے ہیں کہ مکہ مکرمہ میں ایک ہی رات میں بیک وقت اس شان سے اس سورہ کا نزول ہوا کہ اس کے جلوس میں ستر ہزار فرشتے تسبیح و تحمید میں مشغول تھے۔ 
اس کا مرکزی مضمون توحید کے اصول و دلائل کا بیان ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ رسالت و آخرت کے موضوع پر بھی بڑی آب و تاب کے ساتھ گفتگو کی گئی ہے۔ دعوت کا کام کرنے والوں کو دلائل و براہین کے تیز دھار اسلحہ سے مسلح کیا گیا ہے۔ دلائل کا انداز کہیں الزامی ہے تو کہیں مطمئن کرنے کے لئے عقل و خرد کے استعمال کی دعوت دی گئی ہے۔
 سورہ کی ابتداء سے ہی دو خداؤں (یزدان واھرمن) کے عقیدے کی نفی کرتے ہوئے فرمایا کہ آسمان و زمین کا خالق اور ظلمت و نور کا خالق ایک ہی ہے اور وہ قابل تعریف ’’اللہ‘‘ ہے۔ پھر رسالت محمدی کے منکرین کی مذمت کرتے ہوئے قرآن کریم کی حقانیت کا اثبات کیا اور دھمکی دیتے ہوئے فرمایا کہ کتنی ہی قومیں ہیں جنہیں ہم نے اقتدار سے نوازا اور پھر بارشیں برسا کر ان کے باغات کو سرسبز و شاداب بنایا اور انہیں معاشی خوشحالی عطا کی مگر وہ ہماری نافرمانی اور بغاوت سے باز نہ آئے تو ہم نے ان کے جرائم پر ان کی گرفت کر کے تباہ و برباد کر دیا اور ان کی جگہ دوسری قوموں کو لے آئے لہٰذا تمہیں ہلاک کر کے دوسروں کو تمہاری جگہ دے دینا ہمارے لئے کوئی مشکل نہیں ہے۔
 مشرکین کا کہنا تھا کہ یا تو فرشتہ ہم سے آ کر آپ کو نبی تسلیم کرنے کے لئے کہے یا ہمارے نام پر اللہ تعالیٰ خط بھیج دیں تو آپ کی نبوت کو تسلیم کر لیں گے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: اگر ہم نے خط بھیج بھی دیا اور انہوں نے اپنے ہاتھ سے چھوکر اسے دیکھ بھی لیا پھر بھی یہ لوگ ایمان نہیں لائیں گے اور اگر ہم فرشتے کو بھیجیں تو وہ بھی انسانی شکل میں ہی آئے گا اور ان کا اعتراض پھر بھی برقرار رہے گا۔ 
حضور علیہ السلام کو تسلی دیتے ہوئے فرمایا اگر آپ کا مذاق اڑایا جا رہا ہے تو آپ سے پہلے انبیاء کا مذاق بھی اڑایا گیا ہے۔ دنیا میں نکل کر دیکھیں وہ لوگ کیسے عبرتناک انجام سے دوچار ہوئے۔ پھر توحید باری تعالیٰ پر دلائل جاری رکھتے ہوئے فرمایا اگر آپ پر کوئی مصیبت آ جائے تو اسے اللہ ہی ٹالتے ہیں اور اگر وہ آپ کو فائدہ پہنچائیں تو اسے کوئی روک نہیں سکتا۔ 
پھر قیامت کا تذکرہ شروع کر دیا کہ ہم جب انہیں قیامت میں جمع کر کے پوچھیں گے تو یہ صاف انکار کر دیں گے کہ ہم شرک نہیں کرتے تھے۔ یہ لوگ آپ کی بات سنتے ہیں مگر ان کی بد عملی کی وجہ سے ان کے دلوں پر پردہ چڑھا ہوا ہے اور ان کے کانوں میں ڈاٹ لگے ہوئے ہیں اس لئے قرآن کی باتوں کا یہ اثر قبول نہیں کرتے۔ یہ لوگ سمجھتے ہیں کہ بس زندگی دنیا ہی کی ہے۔ قیامت کے دن ہم انہیں جہنم کے کنارے کھڑا کر کے پوچھیں گے اب بتاؤ یہ سچ ہے یا نہیں ؟ پھر انہیں اپنے کفر کی سزا برداشت کرنی پڑے گی۔
 حضور صلی اللہ علیہ وسلم کافروں کی ہدایت کے لئے اس فکر میں رہتے تھے کہ اگر ان کی مطلوبہ نشانیاں ظاہر کر دی جائیں تو شاید یہ لوگ ایمان لے آئیں، لیکن اللہ تعالیٰ جانتے تھے کہ یہ ہٹ دھرم ایمان نہیں لائیں گے اس لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا اگر آپ ان کا اعراض برداشت نہیں کرسکتے تو زمین کے اندر کوئی سرنگ کھود کر یا آسمان پر سیڑھی لگا کر ان کی مطلوبہ نشانی کہیں سے ڈھونڈ کر لے آئیے۔ یہ لوگ ہدایت پر نہیں آئیں گے اور ہم زبردستی کسی کو ہدایت نہیں دیتے۔ آپ ان سے کہئے! اگر اللہ کا عذاب تم پر آ جائے یا قیامت برپا ہو جائے تو کیا پھر بھی تم غیراللہ کو پکارو گے؟ ظاہر ہے کہ ایسے مشکل وقت میں اپنی مصیبتیں دور کرنے کے لئے تم اللہ ہی کو پکارتے ہو اور اپنے شرکاء کو بھول جاتے ہو۔
 پہلی اقوام پر ہم نے تنگدستی اور بیماری ڈالی مگر وہ راہ راست پر نہیں آئے پھر ہم نے انہیں آرام و راحت دی اس پر بھی وہ اپنی شرارتوں سے باز آنے کی بجائے سرکشی و ضلالت میں مزید ترقی کر گئے تو ہم نے اچانک انہیں ایسا پکڑا کہ وہ مبہوت ہو کر رہ گئے۔ ان کا نام و نشان مٹ گیا اور ظالموں کی جڑیں کٹ کر رہ گئیں۔
 آپ ان سے کہہ دیجئے کہ اللہ کے خزانے میرے اختیار میں نہیں ہیں اور نہ میں علم غیب جانتا ہوں اور نہ ہی میں فرشتہ ہونے کا دعویدار ہوں، میں تو اپنے رب کی وحی کا پابند ہوں۔
 جن لوگوں کو اللہ کا خوف ہے اور اپنے رب کے سامنے جمع ہونے سے ڈرتے ہیں آپ انہیں قرآن کریم کے ذریعہ ڈراتے رہئے۔ اللہ کے علاوہ اس دن کوئی حمایتی اور سفارشی نہیں بن سکے گا۔ مشرکین مکہ کے متکبر اور ہٹ دھرم سرداروں کو اپنے ساتھ مانوس کرنے اور ہدایت کے راستہ پر لانے کی امید میں آپ ایسے مخلص اور غریب اہل ایمان کو اپنی مجلس سے نہ دھتکاریں جو اپنے رب کو راضی کرنے کے لئے صبح و شام اس کا ذکر کرتے ہیں۔ یہ بھی امتحان کا ایک حصہ ہے کہ کافر و متکبر لوگ غریب مسلمانوں کو دیکھ کر حقارت سے ایسے جملے کسیں کہ کیا یہی وہ لوگ ہیں جنہیں اللہ نے ہم پر ترجیح دی ہے؟ اللہ شکر گزاروں کو بہت اچھی طرح جانتے ہیں، 
ایمان والے جب آپ کے پاس آئیں تو ان کے لئے سلامتی کی دعاء کریں اور انہیں اپنے رب کی رحمتوں کی خوشخبری سنائیں اور اگر نادانی کے ساتھ کسی سے کوئی غلطی سرزد ہو جائے تو اسے توبہ اور اپنی اصلاح کی تلقین کر کے امید دلائیں کہ اللہ تعالیٰ غفور رحیم ہیں۔ ہم اسی طرح وضاحت سے اپنی آیات بیان کرتے ہیں تاکہ مجرمین کا طریقہ کار واضح ہو جائے۔ 
پھر نظام کفر سے دو ٹوک براءت کے اظہار کی تلقین ہے اور یہ بتایا گیا ہے کہ مطلوبہ نشانیاں نبی کے اختیار میں نہیں ہیں۔ یہ اللہ کا اختیار ہے۔ غیب کی چابیاں اسی کے پاس ہیں بحر و بر کی ہر چیز کا علم اسی کے پاس ہے۔ درختوں سے گرنے والا ایک پتہ یا زمین کی پنہائیوں میں کوئی دانہ اور کوئی بھی خشک و تر اس کے علم سے خارج نہیں ہے۔
 اللہ کی قدرت اور اس کے حفاظتی نظام کا تذکرہ فرمایا گیا ہے اور یہ بتایا کہ اللہ کے عذاب کی مختلف صورتیں ہیں۔ آسمان سے بھی نازل ہو سکتا ہے۔ زمین سے بھی نکل سکتا ہے اور فرقہ واریت میں شدت کی بناء پر باہمی جنگ و جدل کی صورت میں بھی ظاہر ہو سکتا ہے۔ 
حضرت ابراہیم علیہ السلام کے اپنی ستارہ پرست قوم کے ساتھ مناظرہ کا بیان ہے کہ ستارے، چاند، سورج ڈوب جاتے ہیں اور ڈوبنے والا محتاج اور کمزور ہے رب نہیں ہو سکتا۔ پھر ابراہیم علیہ السلام کی امتیازی خوبی کا بیان ہے اور وہ ان کا یہ اعلان ہے ’’میں نے اپنا رخ ہر طرف سے موڑ کر یکسوئی کے ساتھ آسمان و زمین کے خالق کی طرف کر لیا اور میں مشرکین میں سے نہیں ‘‘ پھر کمال اختصار کے ساتھ تین سطروں میں اٹھارہ انبیاء و رسل کا تذکرہ اور تعریف بیان کی گئی ہے اور ان کی طرز زندگی کو اپنانے کی تلقین ہے۔ 
پھر قرآن کریم کے عموم و شمول اور اس کی حقانیت کا بیان ہے اور بتایا گیا ہے کہ اللہ پر جھوٹ باندھنے والوں کو روز قیامت ذلت و رسوائی اٹھانی پڑے گی۔ 
پھر قدرت خداوندی کی کائناتی حقائق میں مشاہدہ کرنے کی دعوت ہے۔ اللہ ہی دانے اور گٹھلی کو پھاڑ کر درخت اور پودے پیدا کرتا ہے۔ زندہ سے مردہ اور مردہ سے زندہ نکالتا ہے۔ 
(مادی طور پر جیسے مرغی سے انڈہ اور انڈے سے مرغی اور روحانی طور پر جیسے کافر کے گھر میں مسلمان اور مسلمان کے گھر میں کافر پیدا کرنا) دن وہی نکالتا ہے۔ سکون حاصل کرنے کے لئے رات کو لے آتا ہے۔
 سورج چاند کو حساب کے لئے مقرر کیا ہے۔ خشکی و تری میں راستہ متعین کرنے کے لئے ستارے اسی نے بنائے ہیں۔ اسی نے ایک جان (آدم علیہ السلام) سے تمام انسان پیدا کر کے ان کی عارضی رہائش گاہ (دنیا) اور ان کی مستقل رہائش گاہ آخرت کو بنایا۔ آسمان سے پانی برسا کر کھیتیاں اور باغات پیدا کئے جن کے اندر سبزیاں، پھل، کھجوریں اور انگور بنائے جو گچھے والے بھی ہیں اور بغیر گچھے کے پیدا ہونے والے پھل بھی ہیں۔ پھلوں کے موسم میں دیکھو کیسے خوشنما اور بھلے لگتے ہیں۔ علم، سمجھ بوجھ اور ایمان رکھنے والوں کے لئے قدرت الٰہی اور وحدانیت کے واضح دلائل ہیں۔ 
مشرکین مکہ کی تردید کی جن کا عقیدہ تھا کہ جنات کے سرداروں کی بیٹیاں اللہ کی بیویاں ہیں اور فرشتے اللہ کی بیٹیاں ہیں اور عیسائیوں کے عقیدہ کی تردید کرتے ہوئے فرمایا: اللہ کی بیوی ہی نہیں ہے۔ اس کی اولاد کیسے ہو سکتی ہے، وہ ہر چیز کا خالق ہے اور ہر چیز کا علم رکھتا ہے۔ وحی کی اتباع کی تلقین کی اور مشرکین کے معبودوں کی برائی کرنے سے روکا کیونکہ وہ ضد اور مقابلہ میں اللہ کو برا بھلا کہنے لگیں گے۔ یہ لوگ قسمیں کھا کر کہتے ہیں کہ اگر ہماری مطلوبہ نشانی دکھا دی جائے تو ضرور ایمان لے آئیں گے۔ نشانیاں دکھانا تو اللہ کیلئے کوئی مشکل نہیں مگر اس بات کی کیا ضمانت ہے کہ یہ لوگ نشانی دیکھ کر ایمان لے ہی آئیں گے۔


کوئی تبصرے نہیں:

حالیہ اشاعتیں

مقوقس شاہ مصر کے نام نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کا خط

سیرت النبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم..قسط 202 2.. "مقوقس" _ شاہ ِ مصر کے نام خط.. نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک گرامی ...

پسندیدہ تحریریں