*پارہ ~~~6~~~لا یحب الله*

مظلوم کو ظالم سے بدلہ لینے کی اجازت ہے لیکن در گزر کرنے والے سے اللہ بھی درگزر کر دیتے ہیں۔
 جو لوگ اللہ کو مانیں اور رسولوں کا انکار کریں یا کچھ رسولوں کو مانیں کچھ کا انکار کریں وہ پکے کافر اور ذلت آمیز عذاب کے مستحق ہیں اور جو لوگ اللہ اور اس کے تمام رسولوں کو تسلیم کریں وہ کامل ایمان والے ہیں اور قیامت میں اجرو ثواب کے مستحق ہیں۔
اس کے بعد یہود اور ان کی فطری خباثتوں کا تذکرہ آیت نمبر ۱۵۳ سے آیت نمبر۱۶۱ تک آٹھ آیتوں میں کیا گیا ہے۔ 
یہودِ مدینہ نے حضور علیہ السلام سے کہا تھا کہ ہم آپ پر اس وقت ایمان لائیں گے جب آپ ہمارے نام پر اللہ تعالیٰ سے ایک خط لے کر آئیں۔
 اللہ تعالیٰ نے اس کے جواب میں فرمایا کہ آپ اس قسم کے بیجا مطالبات سے دل برداشتہ نہ ہوں، ان کے آباء و اجداد نے حضرت موسیٰ علیہ السلام سے اس سے بھی بڑا مطالبہ کیا تھا کہ ہم سے اللہ کی بالمشافہ ملاقات کراؤ! ان پر ایک کڑک مسلط کی گئی۔
 موسیٰ علیہ السلام کو ہم نے واضح دلائل اور معجزات عطاء کئے تھے۔ مگر اس کے باوجود یہ بچھڑے کی پرستش میں مبتلا ہو گئے۔ ان کے سروں پر کوہ طور معلق کر کے ان سے عہدو پیمان لیا گیا۔ انہیں بیت المقدس میں عجز و انکساری کے ساتھ داخلہ کا حکم دیا، سنیچر کا دن ان کی عبادت کے لئے مقرر کیا مگر یہ کسی بات پر بھی پورے نہیں اترے۔ ان کے جرائم کی فہرست بڑی طویل ہے۔ 
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : ان کی نازیبا حرکات کی بناء پر اللہ نے ان کے دلوں پر ایسا ٹھپہ لگا دیا ہے کہ اب یہ ایمان لاہی نہیں سکتے۔
 انہوں نے عیسیٰ علیہ السلام کے قتل کا دعویٰ کیا جبکہ یہ عیسیٰ علیہ السلام کو قتل کرنے یا سولی پر چڑھانے میں کامیاب نہیں ہو سکے۔ انہوں نے شبہ کے اندر کسی دوسرے کو پھانسی پر لٹکا دیا اور عیسیٰ علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے آسمانوں پر زندہ اٹھا لیا، اللہ بڑے زبردست اور حکمت والے ہیں۔عیسیٰ علیہ السلام پر ان کی موت سے پہلے پہلے تمام اہل کتاب کو ضرور ایمان لانا پڑے گا۔
 ان یہودیوں کی ظالمانہ حرکتوں کی بناء پر پاکیزہ اور حلال چیزوں کو ان پر حرام کیا گیا۔ منع کرنے کے باوجود سود کھانے، لوگوں کا مال ناجائز طریقہ پر ہڑپ کر جانے کی وجہ سے ان کے لئے دردناک عذاب تیار کیا گیا ہے۔ 
لیکن ان میں ایسے اعتدال پسند علم و فضل والے بھی ہیں جو علم کے تقاضے پورے کرتے ہوئے اللہ پر، اس کے نازل کردہ کلام پر اور آخرت پر ایمان لاتے ہوئے اسلام کو قبول کر کے نماز اور زکوٰۃ کی پابندی کرتے ہیں۔ ایسے لوگوں کو ہم عظیم الشان جزا دیں گے۔
 پھر اختصار کے ساتھ سلسلۂ انبیاء کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا کہ ہم نے نوح، ابراہیم، اسماعیل، اسحاق، یعقوب، عیسیٰ، ایوب، یونس، ہارون، سلیمان علیھم السلام کو نبی بنایا۔ ان سب کو بشیر و نذیر بنا کر ہم نے بھیجا تھا تاکہ لوگوں کے پاس کوئی بہانہ باقی نہ رہ جائے، آپ کو بھی انہی انبیاء علیہم السلام کی طرح نبی برحق بنایا گیا ہے۔ اگر آپ کی نبوت کی گواہی یہودی دینے کے لئے تیار نہیں ہیں تو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ اللہ تعالیٰ اور فرشتوں کی گواہی کافی و شافی ہے۔
 اس کے بعد قرآن کریم کا روئے سخن عیسائیوں کی طرف ہو گیا۔ فرمایا دین میں مبالغہ آمیزی نہ کیا کرو۔ ادب و احترام کے جذبات کو اپنی حدود میں رکھنا چاہئے۔ عیسیٰ علیہ السلام کو اللہ کہنا یا اللہ کا بیٹا کہنا کوئی دین داری نہیں ہے۔ عیسیٰ علیہ السلام یا اللہ کے مقرب فرشتوں نے اللہ کا بندہ کہلانے میں کبھی کسی قسم کا عار محسوس نہیں کیا۔ 
معبود تو ایک ہی اللہ ہے، وہ اولاد سے پاک ہے۔ اس کے ہاں قرب کا معیار اعمال ہیں۔ جو ایمان اور اعمال صالحہ کرے گا اسے پورا پورا اجرو ثواب ملے گا اور اللہ اپنی طرف سے اضافی جزا بھی دیں گے اور بندگی سے شرم محسوس کرنے والے متکبرین کو دردناک عذاب دے گا اور اللہ کی گرفت سے انہیں بچانے والا کوئی نہیں ہو گا۔ 
سورہ نساء کے آخر میں کلالہ (ایسی میت جس کے والدین اور اولاد موجود نہ ہوں ) کی وراثت کے باقی ماندہ مسائل ذکر کر کے فرمایا کہ تمہیں گمراہی سے بچانے کے لئے اللہ تعالیٰ اپنے احکام کھول کھول کر بیان کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کو ہر چیز کے بارے میں مکمل معلومات حاصل ہیں۔

               *سورہ المائدہ*
یہ سورہ مدنی ہے ایک سو بیس آیات اور سولہ رکوعات پر مشتمل ہے۔ 
اس سورہ میں تشریعی مسائل، چوری، ڈاکہ اور قتل یا زخمی کر دینے کے حوالہ سے قانون سازی کی گئی ہے اور قیامت کا تذکرہ ہے اور یہود و نصاریٰ کی طرف بھی روئے سخن رکھا گیا ہے۔ 
سورہ کی ابتداء میں ہر قسم کے عہود و مواثیق کی پاسداری کا حکم ہے خصوصاً کلمہ شہادت پڑھنے کی وجہ سے ایمانی بنیادوں پر جو ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں انہیں نبھانے کا حکم ہے۔
 ایک موقع پر کافروں نے مسلمانوں کے جانور چھین لئے اور احرام باندھ کر بیت اللہ کی طرف عمرہ کے لئے چل دیئے۔ مسلمانوں نے ان پر حملہ آور ہو کر ان سے اپنے جانور واپس لینے کا ارادہ کیا جس پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا حالتِ احرام میں کسی پر حملہ درحقیقت شعائر اللہ کی توہین ہے۔ کسی کی دشمنی میں اس حد تک تجاوز درست نہیں کہ تم ظلم و زیادتی پر اتر آؤ۔ تمہیں تو نیک کام میں تعاون اور برے کام میں عدم تعاون کا راستہ اختیار کرنا چاہئے۔
 حلال و حرام جانوروں کا تذکرہ اور حالت احرام میں شکار سے ممانعت کا بیان ہے۔ 
حجۃ الوداع کے موقع پر دین اسلام کے مکمل اور اللہ کے پسندیدہ نظام حیات ہونے کا اعلان ہے۔ پرندوں، چوپایوں اور درندوں کی مدد سے شکار کے لئے اصول و ضوابط وضع کئے گئے ہیں۔ 
اہل کتاب کے ذبیحہ کا حکم اور ان کی خواتین سے نکاح کے جواز کا بیان ہے۔
 پھر طہارت حاصل کرنے کے لئے وضو اور تیمم کا طریقہ اور اس کے بعض مسائل کا تذکرہ ہے۔ شرعی احکام میں آسانی اور سہولت کے پہلو کو مد نظر رکھنے کی نوید سنائی گئی اور نِعَم خداوندی پر شکر ادا کرنے کی تلقین ہے۔ 
حدیبیہ کے موقع پر کافروں نے حملہ آور ہونے کا پروگرام بنایا اللہ تعالیٰ نے انہیں مرعوب کر کے حملہ کرنے سے باز رکھا، اس انعام خداوندی کا شکر ادا کرنے اور توکل کا اہتمام کرنے کی تلقین کی گئی ہے۔
اس کے بعد اہل کتاب کا تذکرہ آیت نمبر ۱۲ سے ۸۲ تک ستر آیتوں میں کیا گیا ہے اور اس ضمن میں فوجداری معاملات کے لئے قانون سازی بھی کی گئی ہے۔ یہودیوں کو یاد دلایا گیا ہے کہ ان کے آباء و اجداد کو عہدو میثاق کا پابند بنا کر ان کے بارہ قبیلوں پر بارہ نگران مقرر کئے گئے تھے مگر انہوں نے عہد شکنی کی جس کی وجہ سے وہ سنگدل ہو گئے اور اللہ کے کلام میں رد و بدل اور خیانت کے جرم میں مبتلا ہو گئے۔
 عیسائیوں کو بھی عہدو پیمان کا پابند بنایا گیا مگر وہ بھی عہد شکنی کے مرتکب ہوئے جس کی نحوست اور برے اثرات نے ان کے اندر بغض و عداوت کی خطرناک بیماری پیدا کر دی۔ 
اہل کتاب سے خطاب ہے کہ تمہارے پاس ہم نے اپنا رسول بھیج دیا ہے جو تمہاری خیانتوں پر تمہیں مطلع کرتا ہے اور نور ہدایت اور کتاب مبین لے کر آیا ہے۔ اس کی اتباع سے تم سلامتی کے راستے پا سکتے ہو اور کفر کی ظلمتوں سے نکل کر ایمان کی روشنی میں صراط مستقیم پر گامزن ہو سکتے ہو۔
عیسائیوں کے ’’الوہیت مسیح‘‘ کے عقیدہ کی مدلل تردید اور یہودیوں کے من گھڑت عقیدہ پر گرفت ہے کہ اگر وہ اللہ کے بیٹے اور محبوب ہوتے تو اللہ انہیں عذاب میں کیوں مبتلا کرتے۔
حضرت موسیٰ علیہ السلام کا تذکرہ ہے کہ انہوں نے اپنی قوم کو جہاد کے لئے تیار کرتے ہوئے فرمایا کہ ا للہ تعالیٰ نے تمہیں ’’مذہبی اور سیاسی قیادت‘‘ کے منصب پر فائز فرما کر تمہارے خاندان میں انبیاء و رسل اور بادشاہ و ملوک پیدا کئے۔ تمہیں بیت المقدس کو عمالقہ کے قبضہ سے آزاد کرانے کے لئے پیش رفت کرنی ہو گی۔ اللہ نے تمہیں فتح و کامرانی سے ہمکنار کرنے کا وعدہ کر رکھا ہے مگر وہ لوگ اپنی بزدلی اور طبعی خباثت کے پیش نظر جہاد سے پہلو تہی کرنے لگے اور عمالقہ کی طاقت و قوت سے مرعوب ہو کر حضرت موسیٰ علیہ السلام سے کہنے لگے کہ آپ اپنے رب کے ساتھ مل کر جہاد کر کے بیت المقدس کو آزاد کرا لیں ہم تو اپنے گھروں میں ہی بیٹھے رہیں گے۔ 
پھر اللہ تعالیٰ نے آدم علیہ السلام کے دو بیٹوں کے باہمی اختلاف اور ان کی قربانی کا تذکرہ کر کے بتایا ہے کہ خیر و شر کی قوتیں روز اول سے باہم دست و گریبان ہیں۔ اللہ تعالیٰ متقی کی قربانی قبول کیا کرتے ہیں۔
 قابیل دنیائے انسانیت کا پہلا قاتل ہے، جس نے اپنی ضد اور عناد کی خاطر اپنے بھائی ہابیل کو قتل کر دیا۔ دنیا میں قیامت تک جتنے قتل ہوں گے ان کا گناہ قاتل کے ساتھ ساتھ قتل کی طرح ڈالنے والے پہلے قاتل قابیل کو بھی ملے گا اور یہ ضابطہ بھی بیان کر دیا کہ انسانی جان اللہ کی نگاہ میں اس قدر اہمیت کی حامل ہے کہ ایک انسان کے قتل کا گناہ پوری انسانیت کے قتل کے برابر ہے اور کسی انسانی جان کو بچا لینے کا اجر و ثواب پوری انسانیت کو بچا لینے کے برابر ہے۔ 
اسلامی حکومت کے باغی اور ڈاکو چونکہ معاشرہ میں بدامنی اور فساد پھیلانے کے مرتکب ہوتے ہیں اس لئے انہیں ملک بدر کر دیا جائے یا مخالف سمت کے ہاتھ پاؤں کاٹ کر پھانسی پر لٹکا کر قتل کر کے ان کے وجود سے اسلامی سرزمین کو پاک کر دیا جائے۔ یہ تو دنیا کی رسوائی ہے۔ آخرت میں بھی ان کے لئے عذاب عظیم ہے۔ البتہ گرفتاری سے پہلے اگر تائب ہو کر اپنی اصلاح کر کے ان جرائم سے باز آنے کی ضمانت دیں تو انہیں معافی دی جا سکتی ہے۔
 اہل ایمان کو تقویٰ پر کاربند رہنے، اللہ کا قرب حاصل کرنے کے لئے اعمال صالحہ کو وسیلہ بنانے اور جہاد فی سبیل اللہ میں مصروف ہو کر فلاح و کامیابی حاصل کرنے کی دعوت دی ہے۔ 
چور کے ہاتھ کاٹنے کا حکم دے کر چوری کے سدباب کا بہترین انتظام کیا ہے کہ ہاتھ کٹ جانے کے بعد وہ چور بھی اس جرم سے تائب ہو جائے گا اور دوسرے چوروں کے لئے بھی عبرت کا سامان پیدا ہو جائے گا۔ 
یہودیوں کے اعتراضات کرنے اور حضور علیہ السلام پر ایمان نہ لانے سے آپ دل گرفتہ اور پریشان ہوئے تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ان کافروں اور یہودیوں کی نازیبا حرکات سے آپ پریشان اور غمگین نہ ہوں۔ یہ لوگ عادی مجرم ہیں۔ اللہ کے کلام میں تحریف، جھوٹ اور حرام خوری ان کی گھٹی میں داخل ہے۔ یہ ایسے لاعلاج مریض ہو چکے ہیں کہ اللہ ا نہیں پاک و صاف کرنا ہی نہیں چاہتے۔ دنیا میں ذلت اور آخرت میں عذاب عظیم ان کا مقدر بن چکا ہے
 پھر فوجداری قانون بیان کر دیا کہ جان کے بدلہ جان، آنکھ کے بدلہ آنکھ، کان کے بدلہ کان، دانت کے بدلہ دانت ہو گا، لیکن اگر کوئی متأثر فریق درگزر اور معافی کا فیصلہ کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کے لئے گناہوں کی معافی کا وعدہ کر رہے ہیں۔
 اللہ کے بنائے ہوئے قوانین کی مخالفت کی نوعیت دیکھتے ہوئے ان پر عمل درآمد نہ کرنے والے کافر و فاسق ہیں۔
 قرآن کریم سابقہ کتب سماویہ کی تعلیمات کا جامع اور محافظ ہے لہٰذا حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کو حکم دیا گیا کہ یہود و نصاریٰ کی خواہش کے مطابق قرآنی نظام سے انحراف نہ کیا جائے۔ ہر قوم کے لئے اللہ نے نظام حیات وضع کیا ہوا ہے۔ ہم چاہتے تو دنیا کے تمام انسانوں کو ایک ہی مذہب کا پابند بنا دیتے مگر دنیا دار الامتحان ہے اس میں کئے جانے والے پر ہی اخروی جزاء و سزا کا انحصار ہے۔ اس لئے ہر شخص کو اعمال صالحہ میں سبقت لے جانے کی کوشش کرنی چاہئے۔
 انسانوں کے وضع کردہ قوانین جاہلیت پر مبنی ہوتے ہیں جو فسق و فجور کی ترویج کا باعث ہوتے ہیں۔ یقین و ایمان کے حاملین کے لئے اللہ سے بہتر قانون سازی کون کرسکتا ہے؟
 یہود و نصاریٰ سے تعلقات ایمان کے منافی ہیں۔ اہل کتاب سے دوستی چاہنے والے قلبی مریض ہیں۔ دنیا کا عارضی نفع و نقصان ان کے پیش نظر ہے۔ یہ سمجھتے ہیں کہ یہود و نصاریٰ کی مخالفت سے ہماری معیشت تباہ ہو جائے گی حالانکہ اللہ تعالیٰ اہل ایمان کو غلبہ عطا فرما کر ان کے معاشی حالات درست فرما سکتے ہیں، جو ان کے حمایتیوں کے لئے ندامت و شرمندگی کا باعث ہو سکتا ہے۔ اگر کوئی اسلامی نظام حیات کو چھوڑ کر مرتد ہو جائے تو اس سے اسلام کی حقانیت پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔ اللہ ایسے لوگوں کو منظر سے ہٹا کر کسی دوسری قوم سے اپنے دین کا کام لے سکتے ہیں۔ وہ لوگ آپس میں محبت کرنے والے، اپنے مسلمان بھائیوں کے لئے نرم گوشہ رکھنے والے، کافروں کے لئے سختی کرنے والے، جہاد فی سبیل اللہ میں سردھڑ کی بازی لگانے والے اور کسی کی طعن و تشنیع کو خاطر میں لانے والے نہیں ہوں گے۔ 
اہل کتاب کو مسلمانوں سے دشمنی کی وجہ صرف ان کا اللہ پر ایمان اور آسمانی نظام پر غیر متزلزل یقین ہے۔ مسلمان قابل اعتراض نہیں بلکہ قابل اعتراض تو وہ بدترین لوگ ہیں، جن پر اللہ کی لعنت اور غضب ہوا اور سزا کے طور پر انہیں بندروں اور خنزیروں کی شکل میں مسخ کر دیا گیا۔ یہ لوگ اس حد تک ہٹ دھرمی اور ضد میں مبتلا ہو چکے ہیں۔ اللہ پر اعتراض کرنے سے بھی نہیں چوکتے، یہ کہتے ہیں کہ (نعوذ باللہ) اللہ بخیل ہے۔ اس کے ہاتھ بندھے ہوئے ہیں، ہاتھ تو ان کے بندھے ہوئے ہیں اور انکی زبان درازی کی وجہ سے ان پر لعنت کی گئی ہے۔ اللہ کے ہاتھ تو کھلے ہوئے ہیں۔ وہ جیسے چاہتا ہے اپنے بندوں پر خرچ کرتا ہے۔ یہ لوگ بدزبانی اور سرکشی میں روز بروز بڑھتے ہی جا رہے ہیں۔ یہ قوموں کو لڑانے کی سازشیں کرتے رہتے ہیں۔ اللہ ان جنگوں کی آگ کو ٹھنڈا کرتے رہتے ہیں۔ 
پھر حضور علیہ السلام کو تبلیغ رسالت کے فریضہ کی ادائیگی میں اپنی تمام صلاحیتیں صرف کرنے کا حکم ہے اور دشمنانِ اسلام سے آپ کو مکمل تحفظ فراہم کرنے کی ضمانت دی گئی ہے۔ 
اس کے بعد نصاریٰ کے عقیدۂ تثلیث پر رد اور مریم وعیسیٰ علیہما السلام کی الوہیت کا بطلان واضح کر کے بتلایا ہے کہ عیسیٰ کیسے خدا ہو سکتے ہیں وہ تو اپنی والدہ مریم کے ہاں پیدا ہوئے اور وہ دونوں کھانے پینے کے محتاج ہیں۔
 بنی اسرائیل کے ملعون قرار پانے کی وجہ ممنوعات و محرمات سے اجتناب نہ کرنا ہے۔ نصاریٰ کے مقابلہ میں مشرکین اور یہود مسلمانوں کے ساتھ زیادہ دشمنی رکھتے ہیں۔





کوئی تبصرے نہیں:

حالیہ اشاعتیں

مقوقس شاہ مصر کے نام نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کا خط

سیرت النبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم..قسط 202 2.. "مقوقس" _ شاہ ِ مصر کے نام خط.. نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک گرامی ...

پسندیدہ تحریریں