*پارہ ~~~ 26~~~حمٓ*


               سورہ الاحقاف
مکی سورت ہے۔ پینتیس آیتوں اور پانچ رکوع پر مشتمل ہے۔ 
احقاف اس دور کی سپر پاور قوم عاد کے دار السلطنت کا نام ہے اور اس کی تباہی ایسی ہی بڑی خبر ہے جیسے امریکی ٹاوروں کی تباہی کی خبر۔
 زبردست اور حکمت والے رب کا کلام قرآن کریم ہے، پھر آسمان و زمین کی تخلیق سے وحدانیت باری تعالیٰ پر استدلال ہے اور پھر معبود برحق کی طرف سے معبودانِ باطلہ کو چیلنج ہے کہ اس ساری کائنات کا خالق تو اللہ وحدہٗ لاشریک ہے، تم بتاؤ تم نے کیا بنایا ہے؟
 گمراہی کی انتہا ہے کہ ایسے معبودوں کو پکارتے ہیں جو قیامت تک بھی جواب دینے کے قابل نہیں ہیں۔ ہمارا قرآن جب انہیں سنایا جاتا ہے تو یہ کہتے ہیں کہ ’’نرا جادو‘‘ ہے اور اپنی طرف سے گھڑ کر اللہ کے نام پر لگا دیا ہے۔
 آپ کہئے کہ اگر میں اللہ کے نام پر جھوٹا کلام گھڑ کر پیش کرنے لگوں تو مجھے اللہ کی گرفت سے کون بچائے گا۔ میں کوئی انوکھا رسول نہیں ہوں اور مجھے اس سے کوئی سروکار نہیں کہ میرے اور تمہارے ساتھ کیا ہونے والا ہے میں تو ’’وحی‘‘ کا پابند ہوں اور میں واضح ڈرانے والا ہوں۔
 کافر لوگ کہتے ہیں کہ اگر کوئی اچھی بات ہوتی تو یہ لوگ اسے قبول کرنے میں ہم سے سبقت نہ لے جاتے۔ انہیں جب قرآن کی ہدایت نہ مل سکی تو اسے پرانا جھوٹ قرار دینے لگ گئے۔ 
پھر والدین کے ساتھ حسن سلوک کی تلقین اور اولاد کی خاطر والدین خصوصاً ’’ماں ‘‘ کی طرف سے اٹھائی جانے والی تکالیف کا تذکرہ ہے کہ حمل، ولادت اور رضاعت میں کس قدر مصائب برداشت کرتی ہے۔ پھر اولاد دو طرح کی ہوتی ہے: (۱)صالح، فرماں بردار، والدین کے لئے دعاء گو (۲)فاسق و نافرمان، والدین کی گستاخ۔ہر ایک کو اس کے عمل کے مطابق صلہ ملے گا۔ 
پھر قوم عاد کو ان کے نبی حضرت ہود علیہ السلام کی طرف سے دعوت توحید اور قوم کے انکار اور ہٹ دھرمی پر اللہ کی طرف سے بادلوں کی شکل میں عذاب۔ قوم اسے بارش برسانے والے بادل سمجھتی رہی مگر ان بادلوں کے ساتھ تیز آندھی اور طوفان تھا۔ ایسی تیز ہوا تھی کہ جس چیز کو لگتی اسے راکھ بنا کر تباہ کر دیتی۔
 پھر جنات اور ان کے قرآن سننے کا واقعہ جس سے حضور علیہ السلام اور آپ کے ساتھیوں کی تسلی کا سامان کیا گیا ہے کہ اگر مشرکین مکہ آپ پر ایمان نہیں لاتے تو اللہ کی دوسری مخلوقات آپ کی نبوت کی تصدیق کرنے کے لئے موجود ہیں۔ 
قیامت کے دن کافروں کو جہنم کے کنارے پر کھڑے کر کے پوچھا جائے گا کہ بتاؤ تم اس کو ’’جادو‘‘ کہتے تھے کیا یہ حق نہیں ہے؟
 تو وہ اللہ کی قسم کھا کر اسے درست تسلیم کریں گے، اللہ کہیں گے کہ اپنے کفر کا آج عذاب چکھ لو۔ حضور علیہ السلام سے کہا جا رہا ہے کہ آپ پہلے انبیاء و رسل کی طرح ثابت قدمی کا مظاہرہ کرتے رہیں اور ان کافروں کی ہلاکت کے لئے جلدی نہ کریں۔ جب ان پر عذاب آئے گا تو انہیں ایسا ہی محسوس ہو گا جیسے ایک آدھ دن کی مہلت بھی انہیں نہیں ملی ہے۔ نافرمانوں کا مقدر ہلاکت ہی ہوتی ہے۔
 
               *سورہ محمد*

مدنی سورت ہے۔ اڑتیس آیتوں اور چار رکوع پر مشتمل ہے۔ اس کا دوسرا نام سورہ القتال ہے۔ غزوۂ بدر کے بعد نازل ہوئی، اس میں جہاد کے احکام قیدیوں کے بارے میں قانون سازی اور صلح کے متعلق قرآنی تعلیمات مذکور ہیں۔
 ابتداء میں خیر و شر اور کفرو اسلام کی بنیاد پر انسانی معاشرہ کی تقسیم اور ان کا انجام مذکور ہے۔ اللہ کے راستہ سے روکنے والے کافروں کے اعمال ضائع ہو کر رہ جاتے ہیں جبکہ ایمان و اعمال صالحہ والے کامیابیوں سے ہمکنار ہوتے ہیں۔ اللہ ان کے گناہوں کو معاف فرما کر ان کے حالات کو سنوار دیتے ہیں۔ کافروں سے جب تمہارا مقابلہ ہو تو سستی دکھانے اور راہِ فرار اختیار کرنے کی بجائے ان کی گردنیں مارو اور انہیں قتل کرو۔ جب تم کفر کی شان و شوکت کو توڑ چکو تو پھر ان کے باقی ماندہ افراد کو گرفتار کر کے ان کو رسیوں میں مضبوطی سے جکڑ دو، پھر تم مسلمانوں کی مصلحت کے پیش نظر چاہو تو ان پر احسان کر کے آزاد کر دو اور چاہو تو فدیہ وصول کر کے چھوڑ دو مگر مقصد ان کی جنگی قوت کو توڑنا اور حربی صلاحیت کو ختم کرنا ہونا چاہئے۔ اللہ انہیں کراماتی طریقہ پر آسمان سے آفت نازل کر کے بھی ختم کرسکتے ہیں مگر وہ تمہارے ہاتھوں سے سزا دلا کر آزمانا چاہتے ہیں۔
 شہداء اسلام کے اعمال ضائع نہیں ہونے دیئے جائیں گے۔ اے ایمان والو! تم اللہ کے دین کی مدد کرو گے تو اللہ تمہاری مدد فرمائیں گے اور تمہارے قدم جما دیں گے۔
 دنیا میں چل پھر کر مجرمین کا انجام دیکھ لو۔کتنی بستیاں تم سے زیادہ جاہ و حشمت اور طاقت و قوت والی تھیں۔ ہم نے جب انہیں ہلاک کیا تو کوئی ان کی مدد کو بھی نہ آ سکا۔ 
دین پر علی وجہ البصیرت عمل کرنے والا اور خواہشات پر چل کر اپنے گناہوں کو نیکیاں باور کرنے والا کبھی برابر نہیں ہو سکتے۔ 
متقیوں کے لئے تیار کردہ جنتوں کے اندر ایسی نہریں ہوں گی جن کا پانی سڑنے اور بدبو مارنے سے محفوظ ہو گا۔ دودھ کی نہریں ہوں گی جس کا ذائقہ خراب نہیں ہو گا۔ مزیدار شراب کی نہریں اور صاف و شفاف شہد کی نہریں ہوں گی، ہر قسم کے پھل اور مغفرت انہیں ملے گی۔ 
اس کے بالمقابل جہنم میں اگر کوئی جا کر کھولتا ہوا پانی پئے اور اس کی آنتیں کٹ کر باہر نکل آئیں تو یہ اس کے برابر نہیں ہو سکتا۔
 بعض منافقین آپ کی مجلس میں بیٹھ کر قرآن سنتے ہیں مگر بعد میں دوسروں سے کہتے پھرتے ہیں کہ آج کیا بات بیان کی گئی ہے؟ اس سے ان کا مقصد تعریض کرنا ہوتا ہے۔ انہیں اگر آج سمجھ میں نہیں آرہا ہے تو کیا قیامت کے دن سمجھیں گے۔ مؤمنین تو قرآن کی سورتوں اور آیتوں کے نزول کے متمنی رہتے ہیں۔ اور قرآن نازل ہو کر ان کی تمنا پوری کر دیتا ہے مگر منافقین کا حال یہ ہوتا ہے کہ جب آیات قرآنیہ جہاد کا حکم لے کر اترتی ہیں تو ان کا نفاق کھل کر سامنے آ جاتا ہے اور موت کے خوف سے یہ لوگ مرے چلے جاتے ہیں۔ یہ لوگ ظاہراً اطاعت و فرماں برداری کے دعوے کرتے ہیں مگر حقیقت یہ ہے کہ یہ معاشرہ میں فساد پھیلانا چاہتے ہیں اور قطع رحمی کے داعی ہیں۔ ان پر اللہ کی طرف سے ایسی پھٹکار ہے کہ یہ اندھے اور بہرے ہو کر رہ گئے ہیں۔
 منافقین کی مذمت کا سلسلہ جاری ہے یہ لوگ قرآن میں غور و خوض کیوں نہیں کرتے؟ کیا ان کے دلوں پر تالے پڑے ہوئے ہیں۔ منافقین سمجھتے ہیں کہ ان کے دلوں کا کھوٹ ظاہر نہیں ہو گا۔ حالانکہ ان کی شکل و صورت اور لب و لہجہ ان کے دلوں کی بیماری کا پتہ دے رہا ہے، 
ہم جہاد کی آزمائشی بھٹی میں ڈال کر ثابت قدم مجاہدین کو منفرد و ممتاز بنا کر منافقین کو ان سے جدا کر دیں گے۔ تم کمزوری دکھا کر صلح کا مطالبہ نہ کرو۔ تمہی غالب ہو گے، اللہ کی مدد تمہارے شامل حال رہے گی اور وہ تمہارے اعمال کو ضائع نہیں جانے دیں گے۔
 البتہ اگر کافر صلح کی درخواست کریں تو مسلمانوں کے مفاد میں اس پر غور کرسکتے ہو (جیسا کہ سورہ الانفال میں ہے) جب جہاد کے لئے مال خرچ کرنے کا مطالبہ ہوتا ہے تو یہ بخل کا مظاہرہ کرنے لگتے ہیں حالانکہ بخیل اپنا ہی نقصان کرتے ہیں اللہ کو تمہارے مال کی کوئی ضرورت نہیں ہے وہ غنی ہے اور تم محتاج ہو۔
 اگر تم نے جہاد سے پہلو تہی کی تو تمہیں ہٹا کر اللہ کسی دوسری قوم کو لے آئیں گے اور وہ تمہاری طرح سستی اور بخل کا مظاہرہ نہیں کریں گے۔

               *سورہ الفتح*

مدنی سورت ہے۔ انتیس آیتیں اور چار رکوع پر مشتمل ہے، صلح حدیبیہ کے موقع پر نازل ہوئی جو بذات خود ایک بہت بڑی کامیابی تھی اور فتح مکہ کے لئے تمہید بھی تھی اس لئے اس سورت کو ’’الفتح‘‘ کا نام دیا گیا۔ 
جہاد سے پیچھے رہنے والے منافقین کی اس سورت میں کھل کر مذمت کی گئی ہے اور ان کے اندر کی بیماری کو بیان کرتے ہوئے بتایا گیا ہے کہ بیوی بچوں اور کاروبار کا بہانہ بنا کر جہاد سے راہِ فرار کی کوشش کرتے ہیں۔ اصل میں ان کے دل میں یہ بات ہے کہ مسلمانوں کی تعداد اور وسائل اس قدر کم ہیں کہ کافروں سے مقابلہ میں یہ لوگ مارے جائیں گے اور اپنے گھروں کو زندہ سلامت نہیں لوٹ سکیں گے۔ اس لئے اپنی جان بچانے کے خیال سے پیچھے رہ گئے۔
 نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے عظیم الشان اعزاز اور منفرد خصوصیت کا ذکر ہے کہ آپ جیسا بھی اقدام کریں صلح کا یا جنگ کا اللہ تعالیٰ اس کی حمایت کرتے ہیں اور اگلے پچھلے تمام تصرفات سے درگزر کرنے کا اعلان کرتے ہیں۔ 
صحابۂ کرام نے اس موقع پر جس طرح آپ کا ساتھ دیا اور آپ کے تمام اقدامات کی حمایت کے لئے آپ کے دست مبارک پر بیعت کر کے اپنی مکمل وفاداری کا اظہار کیا۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے ان نفوس قدسیہ کی مدح سرائی کی ہے اور اس بیعت کو بیعت رضوان کا نام دے کر ان تمام صحابۂ کرام سے اپنی رضا مندی اور خوشنودی کی نوید سنائی ہے۔ 
اس میں حضرت عثمان کی خصوصی فضیلت بھی ہے کہ انہیں اس موقع پر ’’قاصد رسول‘‘ اور سفیر اسلام ہونے کا اعزاز ملا۔ ان کی وفات کی خبر پر ان کا بدلہ لینے کے لئے مرنے مارنے کی بیعت لینے کا اتنا بڑا اقدام کیا گیا۔ صلح کے نتیجہ میں جنگ ٹل گئی اور بہت سے بے گناہ جنگ کی لپیٹ میں آنے سے بچ گئے۔ 
صحابہ کرام کے لئے تقویٰ کی اہلیت کا قرآنی سرٹیفکیٹ جاری کیا گیا۔ اسلام کے تمام ادیان پر غلبہ کی نوید سنائی گئی۔ آپ نے خانہ کعبہ میں داخل ہو کر طواف کرنے کا جو خواب دیکھا تھا آئندہ سال کو اس کی عملی تعبیر کا سال قرار دیا گیا۔ صحابۂ کرام کی امتیازی خوبیوں میں آپس میں رحمدل ہونے اور کافروں کے مقابلہ میں سخت گیر ہونے کا خصوصی تذکرہ اور اس بات کا بیان کہ صحابۂ کرام کی کمزور جماعت کو آہستہ آہستہ تقویت فراہم کر کے ان کے مربی ومرشد صلی اللہ علیہ وسلم کی خوشی کا ذریعہ بنایا گیا اور اس بات کا اشارہ بھی کہ صحابہ کی جماعت کو دیکھ کر غیض وغضب میں مبتلا ہونے والے ایمان سے محروم ہو کر کفر کی وادی میں بھٹکنے لگ جاتے ہیں۔ اس پاکیزہ جماعت کے لئے مغفرت اور اجر عظیم کے وعدہ کے ساتھ سورت کا اختتام کیا گیا ہے۔

              *سورہ الحجرات*

مدنی سورت ہے۔ اس میں اٹھارہ آیتیں اور دو رکوع ہیں۔ اس سورت کا دوسرا نام ’’سورہ الآداب‘‘ ہے۔ مجلس رسول کا ادب سکھایا گیا کہ آپ کی آواز سے اونچی آواز نہ کی جائے۔ آپ سے کوئی آگے بڑھنے کی کوشش نہ کرے، دروازہ پر کھڑے ہو کر چلا چلا کر آپ کو پکارا نہ جائے آپ کے آرام و راحت کا خیال رکھا جائے۔ 
پھر اسلامی معاشرہ کے آداب کہ افواہوں پر کان نہ دھرا جائے۔ بلا تحقیق کوئی ایسا اقدام نہ کیا جائے جو دوسرے کے لئے مالی و جانی نقصان اور اپنے لئے ندامت و پشیمانی کا باعث بن جائے۔ مؤمنین کو آپس میں بھائیوں کی طرح زندگی گزارنے کی تلقین کے ساتھ ہی باہمی اختلافات کی صورت میں صلح صفائی کی تعلیم دے کر ظالم اور ہٹ دھرم کے خلاف مظلوم کی مدد کا حکم دیا گیا۔ 
معاشرہ کے کسی بھی فرد یا جماعت کے استہزاء و تمسخر سے باز رہنے اور بدگمانی سے بچنے کی ترغیب دی گئی اور غیبت کو اس قدر بدترین عمل قرار دیا کہ اپنے بھائی کی میت سے گوشت نوچ کر کھانے کے مترادف قرار دیا۔ پوری انسانیت کو ایک گھرانے کے افراد بتا کر خاندانوں اور برادریوں کی تقسیم کو تسلیم کرتے ہوئے اسے فضیلت یا اعزاز کی بنیاد قرار دینے سے باز رہنے کی تلقین کے ساتھ ہی اسلامی معاشرہ میں اعزاز و احترام کی بنیاد ’’تقویٰ‘‘ کی تعریف کی گئی۔ 
ایمان کو محض اللہ کا فضل قرار دے کر عُجب اور کبر کی بیخ کنی کر دی گئی اور بتایا کہ ایمان کی صداقت کے ثبوت کی علامت ’’جہاد فی سبیل اللہ‘‘ میں جانی و مالی شرکت ہے۔

               *سورہ ق*

مکی سورت ہے۔ پینتالیس آیتوں اور تین رکوع پر مشتمل ہے۔ اس مختصر سورت میں توحید ورسالت اور بعث بعد الموت کے تینوں عقیدے پوری آب و تاب کے ساتھ مذکور ہیں۔
 قرآن کریم کی عظمت کے بیان کے ساتھ ہی اس حقیقت سے پردہ اٹھایا گیا ہے کہ منکرین کے انکارِ قرآن کی وجہ مرنے کے بعد زندہ ہونے کے عقیدہ کا بیان ہے۔ یہ سمجھتے ہیں کہ گوشت پوست کے بوسیدہ ہو کر ذرات کی شکل میں ہواؤں کی لہروں، پانی کی موجوں اور زمین کی پنہائیوں اور فضاء کی وسعتوں میں بکھرنے کے بعد ان کے ذرات کو علیحدہ علیحدہ شناخت کر کے کس طرح جمع کیا جائے گا؟ 
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ ہمارے پاس ایسی محفوظ کتاب ہے جس میں ہر ایک کے اجزاء اور ذرات کی تفصیل اس طرح مذکور ہے کہ وہ زمین میں جہاں بھی چھپ جائے یا بکھر کر غائب ہو جائے تو وہ ہمارے علم میں رہتا ہے اور اسے جمع کر کے دوبارہ انسان بنادینا ہمارے لئے کوئی مشکل نہیں ہے۔ 
پھر توحید پر کائناتی شواہد اور رسالت پر واقعاتی حقائق سے استدلال کر کے بتایا ہے کہ انبیاء و رسل کے انکار پر پہلی قوموں کی طرح مشرکین مکہ کا مقدر بھی ہلاکت و تباہی بن سکتی ہے۔ 
اس کے بعد جہنم کا تذکرہ اور اللہ کی قدرت کا بیان ہے کہ ساتوں آسمان اور زمین جیسی عظیم مخلوقات کو بنا کر بھی وہ نہیں تھکا تو انسان کو دوبارہ بنانے سے وہ کیسے تھک جائے گا۔ موت و حیات اللہ ہی کے قبضۂ قدرت میں ہونے کے اعلان کے ساتھ ہی اس بات کی تلقین پر سورت کا اختتام کیا گیا ہے کہ اپنی وعظ و تبلیغ کی بنیاد قرآن کریم کو بنا کر اللہ کے وعدے اور وعیدیں لوگوں کو سنائی جائیں۔

               *سورہ الذاریات*

مکی سورت ہے۔ ساٹھ آیتوں اور تین رکوع پر مشتمل ہے۔ دوسری مکی سورتوں کی طرح عقیدہ کے موضوع پر ذہن سازی کا عمل اس سورت میں بھی جاری ہے۔
 غبار اڑانے والی ہواؤں، بارش برسانے والے بادلوں، پانی پر تیرنے والی بادبانی کشتیوں اور دنیا کا نظام چلانے والے فرشتوں کی قسمیں کھا کر بتایا ہے کہ مرنے کے بعد کی زندگی برحق ہے۔ 
پھر منکرین قرآن و آخرت کی ہٹ دھرمی اور عناد اور ان کا بدترین انجام اور ایمان والوں کی صفات فاضلہ اور ان کا انجام خیر ذکر فرمایا ہے۔
 پھر حضرت ابراہیم علیہ السلام کا مہمان بننے والے فرشتوں کا تذکرہ اور بڑھاپے میں انہیں اولاد کی خوشخبری سنائی اور بتایا ہے کہ قادر مطلق کے لئے اولاد عطاء فرمانے کے لئے جوانی اور بڑھاپے کے عوامل اثر انداز نہیں ہوتے، وہ اپنی قدرت کاملہ سے میاں بیوی کے بڑھاپے اور بانجھ پن کے باوجود اولاد دینے پر مکمل قدرت رکھتا ہے۔

کوئی تبصرے نہیں:

حالیہ اشاعتیں

مقوقس شاہ مصر کے نام نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کا خط

سیرت النبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم..قسط 202 2.. "مقوقس" _ شاہ ِ مصر کے نام خط.. نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک گرامی ...

پسندیدہ تحریریں