نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

*شہید زندہ جاوید ہوتا ہے*

وَلَا  ۔۔۔ تَقُولُوا ۔۔۔ لِمَن ۔۔۔ يُقْتَلُ 
اور نہ ۔۔ تم کہو ۔۔ اس شخص کو ۔۔ مارا گیا 
فِي ۔۔۔سَبِيلِ ۔۔۔اللَّهِ ۔۔۔ أَمْوَاتٌ ۔۔۔بَلْ 
میں ۔۔ راستہ ۔۔۔ الله تعالی ۔۔۔ مردہ ۔۔۔ بلکہ 
أَحْيَاءٌ ۔۔۔ وَلَكِن ۔۔۔لَّا تَشْعُرُونَ۔ 1️⃣5️⃣4️⃣
زندہ ۔۔۔ اور لیکن ۔۔۔ نہیں تم شعور رکھتے 

وَلَا تَقُولُوا لِمَن يُقْتَلُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَمْوَاتٌ بَلْ أَحْيَاءٌ وَلَكِن لَّا تَشْعُرُونَ.  1️⃣5️⃣4️⃣

اور جو الله کی راہ میں مارے گئے انہیں مردہ نہ کہو بلکہ وہ زندہ ہیں  لیکن تم شعور نہیں رکھتے 

فِیْ سَبِیْلِ اللهِ ۔ ( الله کی راہ میں ) ۔ ظاہر ہے الله تعالی کا کوئی خاص راستہ  سڑک اور شاہراہ کی شکل میں نہیں ۔ بلکہ الله تعالی کی راہ سے مراد وہ طریقہ ہے جو الله تعالی نے مقرر فرمایا ۔ مثلا الله تعالی کے لئے مال و دولت خرچ کرنا ۔ جہاد وغیرہ 
اب ان مواقع اور حالات کا ذکر شروع ہوتا ہے جہاں صبر کی ضرورت ہوتی ہے ۔ یہ ہر اس شخص کو پیش آتے ہیں جو حق کی راہ پر چل رہا ہو اور دوسروں کواس کی دعوت دے رہا ہو ۔ کیونکہ ان تکلیفوں اور مصیبتوں کے بغیر اچھے اور بُرےآدمی میں تمیز نہیں ہو سکتی ۔ قرآن مجید نے بہت سی جگہوں پر جہاں قتال اور لڑائیوں کا فلسفہ بیان کیا ہے ۔ وہاں بار بار یہ چیز واضح کی ہے کہ جنگ صرف اس لئے ہوئی اور مسلمانوں پر مصیبتیں صرف اس لئے آئیں کہ منافق اور مؤمن میں فرق ہو جائے 
دوسری حقیقت یہ ہے کہ قوموں کی زندگی شہیدوں کے خون سے وابستہ ہے ۔ جس طرح کھیتی کے لئے پانی اور سورج کی گرمی کی ضرورت ہوتی ہے ایسے ہی آزادی اُس وقت تک حاصل نہیں ہو سکتی ۔ جب تک اس کے لئے گردنیں نہ کٹیں ۔ بے شمار مجاھدوں کا خون نہ بہے اور قوم کے لئے ہر شخص سر کٹانے کے لئے تیار نہ ہو ۔
جب اُمت کے قابل قدر لوگ جنگ میں قتل ہونے لگتے ہیں تو قوم میں جوش اور ولولہ پیدا ہوتا ہے ۔ کسی دوسری قوم کو اس کا مقابلہ کرنے کی ہمت نہیں ہوتی ۔ یہی جذبہ اور جوش قوم کی اصلی زندگی اور شہ رگ ہے ۔ اس لئے الله تعالی فرماتا ہے جو لوگ ہماری راہ میں جانیں دیں گے ۔ ان کی قوم کبھی غیروں کی غلام نہیں ہو سکتی ۔ 
جہاد کا مقصد یہ ہے کہ اپنے بعد کے زمانے اور آنے والی نسلوں کی حفاظت کے لئے اپنے آپ کو قربان کرنے کے لئے تیار رہا جائے ۔ ظاہر ہے کہ کوئی عمل ایسا نہیں جو اس سے زیادہ سچی اور بے لاگ انسانی خدمت اور اپنی نسل کی حفاظت کے جذبات کا مجموعہ ہو ۔ اس لئے ضروری ہوا کہ اس کام کا اجر بھی دائمی ہو اور ہمیشہ قائم رہنے والا ہو ۔ اس آیت میں اس طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ جب حق کبھی ختم نہیں ہو سکتا تو یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ اس کی راہ میں جان قربان کرنے والے پر موت طاری ہو ۔ لہذا شھید ہمیشہ زندہ رہتا ہے ۔ البتہ ہماری کم فہمی کی وجہ سے ہم اس کی زندگی کا احساس نہیں رکھتے ۔ 

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

تعوُّذ۔ ۔۔۔۔۔ اَعُوذُ بِالله مِنَ الشَّیطٰنِ الَّرجِیمِ

     اَعُوْذُ ۔                بِاللهِ  ۔ ُ     مِنَ ۔ الشَّیْطٰنِ ۔ الرَّجِیْمِ      میں پناہ مانگتا / مانگتی ہوں ۔  الله تعالٰی کی ۔ سے ۔ شیطان ۔ مردود       اَعُوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّیطٰنِ الَّجِیْمِ  میں الله تعالٰی کی پناہ مانگتا / مانگتی ہوں شیطان مردود سے اللہ تعالٰی کی مخلوقات میں سے ایک مخلوق وہ بھی ہے جسےشیطان کہتے ہیں ۔ وہ آگ سے پیدا کیا گیا ہے ۔ جب فرشتوں اور آدم علیہ السلام کا مقابلہ ہوا ۔ اور حضرت آدم علیہ السلام اس امتحان میں کامیاب ہو گئے ۔ تو الله تعالٰی نے فرشتوں کو حکم دیاکہ وہ سب کے سب آدم علیہ السلام کے آگے جھک جائیں ۔ چنانچہ اُن سب نے انہیں سجدہ کیا۔ مگر شیطان نے سجدہ کرنے سے انکار کر دیا ۔ اس لئے کہ اسکے اندر تکبّر کی بیماری تھی۔ جب اس سے جواب طلبی کی گئی تو اس نے کہا مجھے آگ سے پیدا کیا گیا ہے اور آدم کو مٹی سے اس لئے میں اس سے بہتر ہوں ۔ آگ مٹی کے آگے کیسے جھک سکتی ہے ؟ شیطان کو اسی تکبّر کی بنا پر ہمیشہ کے لئے مردود قرار دے دیا گیا اور قیامت ت...

سورۃ بقرہ تعارف ۔۔۔۔۔۔

🌼🌺. سورۃ البقرہ  🌺🌼 اس سورت کا نام سورۃ بقرہ ہے ۔ اور اسی نام سے حدیث مبارکہ میں اور آثار صحابہ میں اس کا ذکر موجود ہے ۔ بقرہ کے معنی گائے کے ہیں ۔ کیونکہ اس سورۃ میں گائے کا ایک واقعہ بھی  بیان کیا گیا ہے اس لئے اس کو سورۃ بقرہ کہتے ہیں ۔ سورۃ بقرہ قرآن مجید کی سب سے بڑی سورۃ ہے ۔ آیات کی تعداد 286 ہے ۔ اور کلمات  6221  ہیں ۔اور حروف  25500 ہیں  یہ سورۃ مبارکہ مدنی ہے ۔ یعنی ہجرتِ مدینہ طیبہ کے بعد نازل ہوئی ۔ مدینہ طیبہ میں نازل ہونی شروع ہوئی ۔ اور مختلف زمانوں میں مختلف آیات نازل ہوئیں ۔ یہاں تک کہ " ربا " یعنی سود کے متعلق جو آیات ہیں ۔ وہ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کی آخری عمر میں فتح مکہ کے بعد نازل ہوئیں ۔ اور اس کی ایک آیت  " وَ اتَّقُوْا یَوْماً تُرجَعُونَ فِیہِ اِلَی اللهِ "آیہ  281  تو قران مجید کی بالکل آخری آیت ہے جو 10 ہجری میں 10  ذی الحجہ کو منٰی کے مقام پر نازل ہوئی ۔ ۔ جبکہ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم حجۃ الوداع کے فرائض ادا کرنے میں مشغول تھے ۔ ۔ اور اس کے اسی نوّے دن بعد آپ صلی الله علیہ وسلم کا وصال ہوا ۔ اور وحی ا...

*بنی اسرائیل کی فضیلت*

يَا۔۔۔۔۔۔  بَنِي إِسْرَائِيلَ ۔۔۔۔۔۔        اذْكُرُوا    ۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔    نِعْمَتِيَ ۔۔۔۔۔۔۔۔  ۔ الَّتِي    اے  ۔ اولاد اسرائیل ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تم یاد کرو ۔۔۔۔۔۔۔ میری نعمتوں کو ۔۔۔۔ وہ جو  أَنْعَمْتُ    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ عَلَيْكُمْ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔   ۔ وَأَنِّي ۔۔۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔ فَضَّلْتُكُمْ        میں نے انعام کیں ۔ تم پر ۔ اور بے شک میں نے ۔۔۔۔۔۔۔فضیلت دی تم کو   عَلَى     ۔    الْعَالَمِينَ۔  4️⃣7️⃣ پر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔  تمام جہان  يَا بَنِي إِسْرَائِيلَ اذْكُرُوا نِعْمَتِيَ الَّتِي أَنْعَمْتُ عَلَيْكُمْ وَأَنِّي فَضَّلْتُكُمْ عَلَى الْعَالَمِينَ.   4️⃣7️⃣ اے بنی اسرائیل میرے وہ احسان یاد کرو  جو میں نے تم پر کئے اور یہ کہ میں نے تمہیں تمام عالم پر بڑائی دی ۔  فَضَّلْتُکُم۔ ( تمہیں بڑائی دی ) ۔ یہ لفظ فضل سے نکلا ہے ۔ جس کے معنی ہیں بڑائی ۔ تمام عالم پر فضیلت دینے کا مطلب یہ ہے کہ بنی اسرائیل تمام فِرقوں سے افضل رہے اور کوئی ان کا ہم پلہ نہ تھا...