*پارہ~~~ دوم ~~~ سیقول*

مسلمان پہلے بیت المقدس کی طرف رخ کر کے نماز پڑھتے تھے، پھر بیت اللہ کی طرف رخ کرنے کا حکم ہوا تو یہودیوں نے اعتراض کیا۔
 پارہ کی ابتداء میں اس کا جواب دیتے ہوئے الله جل شانہ نے فرمایا: 
تحویل قبلہ کے حکم خداوندی پر ناسمجھ لوگ اعتراض کریں گے کہ مسلمان بیت المقدس کو چھوڑ کر بیت اللہ کا رخ کیوں کرنے لگے؟ 
اس کا جواب دیا کہ تمام جہات: مشرق و مغرب اللہ ہی کی ہیں، وہ جس طرف چاہے اپنے بندوں کو رخ کرنے کا حکم دے۔ کسی بندہ کو اعتراض کا حق نہیں ہے۔ اللہ نے فرماں برداروں اور نا فرمانوں میں تمیز کے لئے تحویلِ قبلہ کا حکم دیا ہے کہ فرماں بردار فوراً اسے مان لیں گے اور نافرمان ماننے کی بجائے اعتراضات پر اتر آئیں گے اور اس طرح مخلص مسلمان اور کافر و منافق کھل کر سامنے آ جائیں گے۔
 اس کے بعد امت مسلمہ کے اعتدال اور میانہ روی کا تذکرہ اور فضیلت کا بیان ہے کہ قیامت کے دن جب کافر اپنے نبیوں پر تبلیغ رسالت میں کوتاہی کرنے کا اعتراض کریں گے تو امت محمدیہ کے لوگ انبیاء علیہم السلام کے فریضۂ نبوت کی ادائیگی پر گواہ کے طور پر پیش ہوں گے اور حضرت محمد علیہ الصلوٰۃ والسلام ان سب کی گواہی دیں گے اور تصدیق کریں گے۔ 
آپ کتنے دلائل پیش کر دیں ان اہل کتاب پر تعصب و ہٹ دھرمی کا ایسا پردہ پڑا ہوا ہے کہ یہ کسی قیمت پر ماننے کے لئے تیار نہیں ہوں گے۔ نماز میں قبلہ کی طرف سفر و حضر میں رخ کرنا ضروری ہے۔ 
اہل کتاب حضور علیہ السلام کے نبی برحق ہونے کو اس طرح جانتے ہیں جس طرح اپنی اولاد کو جانتے ہیں مگر حق کو چھپانے کے مرض میں مبتلا ہیں اس لئے آپ پر ایمان نہیں لاتے۔
 اللہ کا ذکر اور اس کا شکر ادا کرنے کی عادت بنائیں۔ نماز اور صبر کے ذریعہ مشکلات پر قابو پانا چاہئے اور اسلام کے لئے جانی و مالی ہر قسم کی بڑی سے بڑی قربانی کے لئے تیار رہیں۔ اللہ کے راستہ میں جانی قربانی دینے والے مردہ نہیں ہیں، وہ زندہ ہیں مگر تمہیں اس کا شعور نہیں ہے۔
حج و عمرہ کے موقع پر کئے جانے والے اعمال خصوصاً صفا و مروہ کی سعی اسلامی شعائر ہیں۔
 اللہ تعالیٰ کے نازل کردہ دلائل اور ہدایت کے واضح احکام کو چھپانے والے لعنت خداوندی کے مستحق ہیں لیکن توبہ تائب ہو کر اپنا رویہ درست کر کے احکامِ خداوندی کو بیان کرنے لگیں تو وہ لعنت سے بری ہو سکتے ہیں۔ 
معبود حقیقی ایک ہی ہے، اس کے علاوہ کوئی عبادت کے لائق نہیں، اس کی رحمت تمام مخلوقات کے لئے عام ہے اور اہل ایمان کے لئے اس کی رحمت تام ہے۔
 آسمان و زمین کی تخلیق، دن رات کی ترتیب اور انسانی نفع کے لئے پانی میں چلنے والی کشتیاں، بادل، بارش، زمین سے نکلنے والے پھل اور سبزیاں اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کے عقلی دلائل ہیں۔
اللہ کے مقابلہ میں معبودان باطل کے ماننے والے قیامت کے دن پچھتائیں گے اور ایک دوسرے سے برأت کا اظہار کریں گے مگر جہنم سے کسی طرح بھی بچ نہیں سکیں گے۔
 قرآن کریم کے اتباع کی تلقین ہے اور قرآن کے مقابلے میں آباء و اجداد کی اندھی تقلید کی مذمت کرتے ہوئے ایسے لوگوں کو اندھے بہرے کہہ کر جانوروں کی مانند قرار دیا گیا ہے۔ 
پاکیزہ اور حلال کھانے کا حکم ہے۔ مردار، جاری خون، خنزیر اور غیر اللہ کے لئے نامزد اشیاء کی حرمت کا اعلان ہے۔ نیز اس ضابطہ کا بیان بھی ہے کہ جان بچانے کے لئے ضرورت کے وقت حرام کا استعمال بھی گناہ نہیں ہے۔ 
نیکی اور اس کی مختلف اقسام کی فہرست بیان کی گئی ہے۔ نیکی دراصل ایمانی بنیادوں پر سر انجام پانے والے اعمال ہیں۔ عزیز و اقارب،یتیم و مسکین کے ساتھ مالی تعاون، نماز اور زکوٰۃ کا اہتمام، ایفاء عہد، مشکلات میں حق پر صبر و ثابت قدمی کا مظاہرہ، سچائی کا التزام کرنے والے ہی متقی کہلا سکتے ہیں۔
 قصاص و دیت کے قانون کو بیان کر کے بلا امتیاز اس پر عمل درآمد کی تلقین ہے۔ قصاص حیات انسانی کے تحفظ کا ضامن ہے۔ وصیت کی تلقین کرتے ہوئے کسی پر ظلم و نا انصافی نہ کرنے کی ہدایت کی گئی ہے۔ 
روزہ کے احکام اور اس کی حکمتوں کا بیان ہے۔ رمضان المبارک کی فضیلت کا سبب اس مہینہ میں قرآن کریم کا نازل ہونا ہے۔ رمضان کی راتوں میں کھانے پینے اور بیویوں سے ملنے کی اجازت ہے۔ نیز اعتکاف کے عمل کا تذکرہ ہے، روزہ کے ابتدائی اور انتہائی وقت کا بیان ہے۔ 
دوسروں کا مال ناجائز طور پر کھانے اور لوگوں کو ناجائز مقدمات میں الجھانے سے باز رہنے کی تلقین ہے۔
 قمری مہینہ کے مختلف ایام میں چاند کے چھوٹا بڑا ہونے کی حکمت بتائی گئی ہے کہ اوقات کے انضباط اور حج وغیرہ کی تاریخوں کے تعین کے لئے ایسا کیا جاتا ہے۔
 دنیا سے برائی ختم کرنے کے لئے قتال فی سبیل اللہ اور اس کے احکام کا تذکرہ ہے،
 احترام کے ضابطہ کا بیان ہے۔ حرمت بدلہ کی چیز ہے لہٰذا احترام کروانے کے لئے دوسروں کے مقدسات کا بھی احترام کرنا ہو گا۔ اللہ کے دین کے دفاع میں مال خرچ کرنا ہی تباہی سے بچنے کا بہترین ذریعہ ہے۔ 
عمرہ اور حج کے احکام ہیں۔ اگر حالت احرام میں خانہ کعبہ تک پہنچنے میں کوئی رکاوٹ پیدا ہو جائے تو ’’دم‘‘ دے کر احرام کھول سکتے ہیں۔ حج تمتع یا قران کی صورت میں ’’دم شکر‘‘ دینا ہو گا۔ احرام کی حالت میں غیر اخلاقی حرکتوں سے گریز کیا جائے۔ جنسی موضوع پر گفتگو نہ کریں، مساوات کو مد نظر رکھ کر تمام افعال حج کی ادائیگی ہونی چاہئے۔ جمرات کی کنکریاں تین دن واجب ہیں۔ چوتھے دن حاجی کی صوابدید پر منحصر ہے۔ اس موقع پر اللہ تعالیٰ کو خوب یاد کیا جائے اور دنیا و آخرت کی خیر اور بھلائی مانگی جائے۔
دو قسم کے انسانوں کا تذکرہ کیا گیا ہے ۔ 
کبر و نخوت، فساد و ہٹ دھرمی کے خوگر جو اللہ کی بات کسی قیمت پر بھی تسلیم نہ کریں ان کا ٹھکانہ جہنم ہے۔ 
عجزو اخلاص کے پیکر جو اپنی جان و مال اللہ کے لئے خرچ کرنے کے لئے ہر وقت تیار ہوں وہ اللہ کی رحمتوں اور مہربانیوں کے مستحق ہیں۔ 
شیطان کی اتباع چھوڑ کر پورے پورے اسلام میں داخل ہونے کی تلقین۔
بنی اسرائیل اور ان پر انعامات خداوندی کا تذکرہ۔
 مذہبی اختلافات اور فرقہ واریت کے لئے ضابطہ کا بیان کہ دلائل کی بنیاد پر حق کی اتباع کرنے والے ہدایت یافتہ اور پسندیدہ لوگ ہیں جبکہ دلائل سے تہی دامن اپنے من مانے نظریات پر چلنے والے قابل مذمت اور گمراہ ہیں۔ جنت کے حصول کے لئے قربانیوں کے لمبے سلسلے اور تکالیف و مشقت کی پر خطر وادی سے گزرنا پڑتا ہے۔ 
جہاد طبیعتوں پر گراں گزرتا ہے مگر انسانیت کا اس میں فائدہ ہے۔ دوسروں پر اعتراض کرنے والوں کو خود اپنے کردار پر نظر ثانی کرنی چاہئے۔ مسلمانوں پر جہاد کے حوالہ سے اعتراض کرنے والے اپنے ظلم و نا انصافی پر بھی غور کریں کہ وہ مسلمانوں کو بیت اللہ سے روکتے ہیں۔ اسلام پر عمل پیرا ہونے کے راستہ میں رکاوٹ بنتے ہیں، مسلمانوں کو ان کے گھروں سے بے گھر کرتے ہیں۔ ایسی فتنہ پردازی تو قتل سے بھی بدتر ہے۔
 شراب اور قمار کے بارے میں ابتدائی ذہن سازی کرتے ہوئے ان کے فوائد و نقصانات میں تقابل کی تلقین کی گئی ہے۔ 
یتیموں کی کفالت کی تعلیم ہے اور نکاح میں توحید پرست کو بت پرستوں پر ترجیح دینے کا حکم ہے۔ خواتین کے مسائل جن میں حالت حیض میں اپنی بیویوں سے دور رہنے کا حکم ہے۔ جھوٹی قسم سے بچنے کی ترغیب ہے۔ بیویوں کے پاس نہ جانے کی قسم (ایلاء) کے حکم کا بیان ہے۔ طلاق اور عدت گزارنے کا خاص طور پر تین طلاق کا حکم اور حلالہ شرعی کا بیان ہے۔ بچوں کو دودھ پلانے کی مدت دو سال مقرر کی گئی ہے اور زچہ و بچہ کی کفالت شوہر کے ذمہ رکھی گئی ہے۔ 
شوہر کے انتقال کی صورت میں عورت کو چار ماہ دس روز عدت گزارنے کا حکم ہے۔ عدت کے ایام میں نکاح یا منگنی کے موضوع پر گفتگو کی ممانعت کی گئی ہے۔ نکاح کے بعد اگر بیوی سے ملاقات سے پہلے ہی طلاق اور علیحدگی کی نوبت آ جائے تو مہر متعین ہونے کی صورت میں نصف مہر کی ادائیگی لازم ہو گی۔ ان شرعی ضوابط کی پابندی اللہ کا حق ہے، لہٰذا ایک دوسرے کے لئے پریشانیاں اور مسائل پیدا کرنے کے لئے شرعی ضوابط کو پامال نہ کیا جائے۔
 نماز کی پابندی اور اس کے اہتمام کی تلقین ہے کہ کسی خوف و خطرہ کی وجہ سے اگر کھڑے ہو کر نہ پڑھ سکیں تو سواری پر ہی ادا کر لیں۔
 جہاد کی ترغیب دینے کے لئے ایک قوم کا تذکرہ ہے، جو موت کے ڈر سے اپنے گھروں سے محض اس لئے نکل بھاگے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں موت دے دی اور بنی اسرائیل کے ایک نبی حضرت حزقیل کی دعا سے انہیں دوبارہ زندہ کر دیا۔ 
پھر جہاد کا حکم اور اس کے ساتھ ہی اللہ کے نام پر مال خرچ کرنے کی تلقین ہے۔
 پھر مسلم حکمران طالوت اور کافر حکمران جالوت کے درمیان مقابلہ کا تذکرہ ہے۔ بنی اسرائیل کے جہاد سے راہِ فرار اختیار کرنے کی وجہ سے ایک ظالم قوم عمالقہ کو اللہ تعالیٰ نے ان پر مسلط کر دیا تو انہیں جہاد کی فکر لاحق ہوئی۔ حضرت شمویل علیہ السلام کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کو مسلم بادشاہ طالوت کی زیر قیادت جہاد کا حکم دیا۔ طالوت کی امارت پر بنی اسرائیل نے اعتراض کیا تو اللہ تعالیٰ نے اس کی جسمانی قوت اور جنگی علوم میں مہارت کو اس کی اہلیتِ امارت کی دلیل کے طور پر بیان کیا اور بنی اسرائیل کے مذہبی مقدسات اور حضرت موسیٰ و ہارون کے تبرکات پر مشتمل تابوت جو کہ دشمنوں کے قبضہ میں تھا۔ انہیں واپس دلا کر ان کی تسلی اور دل جمعی کا انتظام کر دیا۔ بنی اسرائیل نے کچھ پس و پیش کے بعد جہاد پر آمادگی ظاہر کر دی۔ 
طالوت نے جنگی نقطۂ نظر سے کچھ پابندیاں عائد کیں، جن میں راستہ میں آنے والے دریا سے پانی پینے کی ممانعت بھی شامل تھی۔ بہت سے لوگ اس کی پابندی نہ کرسکے اور جہاد میں شرکت کے لئے نا اہل قرار پائے۔ ایک قلیل تعداد جو کہ بعض روایات کے مطابق تین سو تیرہ تھی جہاد میں شریک ہوئی۔ 
اللہ تعالیٰ نے کفار کو شکست دے کر اہل ایمان کو غالب کر کے ہمیشہ کے لئے یہ ضابطہ بتا دیا کہ اللہ کی مدد قلت و کثرت کی بنیاد پر نہیں بلکہ ایمان و عمل کی بنیاد پر ہوا کرتی ہے اور دوسرا ضابطہ یہ بتایا کہ جب ظلم اپنی انتہا کو پہنچ جاتا ہے تو اللہ تعالیٰ اپنے بعض مؤمن بندوں کو استعمال کر کے ظالموں کا صفایا کر دیا کرتے ہیں۔ اگر ایسا نہ ہو تو دنیا کا نظام درہم برہم ہو کر رہ جائے۔ 
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا نبی امی ہونے کے باوجود ان تاریخی واقعات کو بیان کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ یہ قرآن اللہ کی نازل کردہ حق کتاب ہے اور آپ اللہ کے رسول برحق ہیں۔

کوئی تبصرے نہیں:

حالیہ اشاعتیں

مقوقس شاہ مصر کے نام نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کا خط

سیرت النبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم..قسط 202 2.. "مقوقس" _ شاہ ِ مصر کے نام خط.. نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک گرامی ...

پسندیدہ تحریریں