*پارہ~~~24~~~فَمَنْ اَظْلَمُ*


جھوٹ کے علمبرداروں اور ان کے حمایتیوں کو دنیا کے ظالم ترین افراد قرار دے کر ان کا ٹھکانہ جہنم بتایا ہے اور سچائی کے علمبرداروں اور حمایتیوں کو متقیوں میں شامل فرما کر ان کی ہر خواہش کو پورا کرنے کی خوشخبری سنا کر بتایا ہے کہ اپنے بندوں کے لئے اللہ ہی کافی و شافی ہے اس کے بعد کسی اور کی حمایت انہیں درکار نہیں رہتی۔
 یہ لوگ، اللہ کے علاوہ دوسری طاقتوں سے آپ کو ڈرانے کی کوشش کرتے ہیں حالانکہ اللہ اگر کسی کو نقصان پہنچانا چاہے یا بیماری میں مبتلا کرے یا کسی کو نفع پہنچانا چاہے تو یہ اسے روکنے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔ اللہ کی حمایت کو کافی سمجھ کر اسی پر توکل کرنا چاہئے۔ انسانوں کی موت و زیست اللہ ہی کے قبضۂ قدرت میں ہے۔ نیند کی حالت میں اللہ ہی روح نکالتے ہیں پھر جس کی موت کا وقت آچکا ہو اس کی روح واپس نہیں کی جاتی جس کا ابھی وقت نہ آیا ہو اس کی روح واپس کر دی جاتی ہے غور و فکر کرنے والوں کے لئے اس میں دلائل موجود ہیں۔
 اللہ کے مقابلہ میں انہوں نے اپنے سفارشی ڈھونڈ رکھے ہیں حالانکہ ان کے پاس کوئی اختیار نہیں ہے ہر قسم کی شفاعت کا اختیار صرف اللہ ہی کو حاصل ہے۔ اکیلے اللہ کے تذکرہ سے ان کے ماتھے پر بَل پڑ جاتے ہیں اور جب اللہ کے سوا دوسروں کا نام لیا جائے تو ان کے چہروں پر خوشی کی لہر دوڑ جاتی ہے۔
 قیامت کے دن یہ ظالم ساری دنیا سے دُگنا مال و دولت دے کر عذاب سے چھٹکارا پانا چاہیں گے مگر انہیں کامیابی حاصل نہیں ہو گی ان کے تمسخر و استہزاء کے نتیجہ میں عذاب کی جو صورتحال درپیش ہو گی وہ ان کے وہم و گمان سے بھی بالاتر ہو گی۔ مگر اللہ نے توبہ کے ذریعہ واپسی کا دروازہ کھلا رکھا ہوا ہے۔ اگر کسی نے گناہوں میں ساری عمر تباہ کر دی ہو تو اسے بھی مایوسی کا شکار نہیں ہونا چاہئے توبہ کرنے پر اللہ ہر قسم کے گناہوں کو معاف کر دیتے ہیں۔ اللہ کی طرف رجوع کر کے اللہ کے نازل کردہ قرآن پر عملدر آمد کرو تاکہ کل قیامت کے روز حسرت و افسوس کا سامنا نہ کرنا پڑے۔
 دنیا میں احکام خداوندی سے روگردانی تکبر کی علامت ہے اور متکبرین کا ٹھکانہ جہنم ہے۔ قیامت کے دن متقی لوگ نجات پائیں گے اور کامیابیاں ان کے قدم چومے گی۔
 اللہ ہر چیز کے خالق و مالک ہیں آسمان و زمین کے خزانوں کی کنجیاں اسی کے پاس ہیں۔ اللہ کے منکر گھاٹے اور نقصان میں ہیں۔ غیراللہ کی عبادت کرنے والا کتنا بڑا پڑھا لکھا ہو قرآن کریم اسے جاہل شمار کرتا ہے۔ مشرک کتنا بڑا نیک عمل کر لے اللہ کے ہاں اسے تسلیم نہیں کیا جائے گا۔ 
جب صور پھونکا جائے گا تو ہر چیز فنا ہو کر رہ جائے گی اور دوبارہ صور پھونکنے پر سب زندہ ہو کر قیامت کا منظر دیکھنے لگیں گے۔ اللہ کے نور سے پوری سرزمین چمک اٹھے گی۔ نبیوں اور گواہوں کی موجودگی میں عدل و انصاف کے مطابق فیصلہ کر کے ہر انسان کو اس کے کئے کا پورا پورا بدلہ دے دیا جائے گا۔ کافروں کی ٹولیاں بنا کر انہیں جہنم کی طرف دھکیلا جائے گا اور ان سے پوچھا جائے گا کہ ہمارے رسولوں نے قرآن سنا کر تمہیں قیامت کے دن سے نہیں ڈرایا تھا؟ 
وہ تسلیم کریں گے لیکن کافروں کے لئے اللہ کے عذاب کا فیصلہ ہو چکا ہو گا اور وہ متکبرین کے بدترین ٹھکانہ جہنم میں ہمیشہ ہمیشہ کے لئے داخل کر دیئے جائیں گے۔
 متقیوں کی جماعتیں بنا کر انہیں جنت کی طرف روانہ کیا جائے گا ان کے استقبال میں جنت کے دروازے کھلے ہوئے ہوں گے انہیں سلامی پیش کی جائے گی اور ہمیشہ ہمیشہ کے لئے جنت میں داخل کر دیئے جائیں گے۔ وہ اپنے اعمال پر اترانے کی بجائے اللہ کی تعریف میں رطب اللسان ہو رہے ہوں گے۔
 تم فرشتوں کو دیکھو گے کہ وہ عرش کے چاروں طرف اللہ کی تسبیح و تحمید میں مصروف ہوں گے۔ عدل و انصاف کے مطابق فیصلہ ہو چکا ہو گا اور اعلان کر دیا جائے گا کہ تمام خوبیوں اور صفات کے مالک اللہ رب العالمین ہی ہیں۔

              *سورہ المؤمن*

مکی سورت ہے۔ یہ پچاسی آیتوں اور نو رکوع پر مشتمل ہے۔
 اس میں ایک ’’مرد مؤمن‘‘ کی حق گوئی و بے باکی کا تذکرہ ہے نیز اللہ کے لئے غافر (گناہوں کو معاف کرنے والا) کی صفت کا اطلاق کیا گیا ہے اس لئے ’’سورہ الغافر‘‘ بھی کہا گیا ہے۔
زبردست قوت اور علم کے مالک اللہ کا یہ کلام ہے وہ گناہوں کو معاف کرنے والا توبہ قبول کرنے والا، سخت عذاب دینے والا ہے اس کے سوا کوئی معبود نہیں۔ اسی کی طرف سب لوٹ کر جائیں گے۔ اللہ کی آیات میں جھگڑنے والے کافر ہیں۔ عیش و عشرت کے وسائل کی فراوانی اور دنیا میں آزادانہ نقل و حرکت سے آپ دھوکہ میں نہ پڑ جانا۔
 قوم نوح اور ان سے پہلوں اور پچھلوں نے بھی انبیاء کو جھٹلایا۔ انہیں گرفتار کرنے کی کوشش کی انہیں جھگڑا کر کے حق کی آواز دبانے کی کوشش کی مگر ناکام ہو کر ہمارے عذاب کے مستحق قرار پائے۔ 
حاملین عرش اللہ کے مقرب فرشتے اللہ کی حمد و ثنا میں مشغول رہتے ہیں اور اہل ایمان اور ان کے متعلقین کے لئے استغفار و دعاء کرتے رہتے ہیں۔ 
اے ہمارے رب آپ کی رحمت اور آپ کا علم ہر چیز پر وسیع ہے آپ کی تابعداری کر کے توبہ کرنے والوں کی مغفرت فرما کر انہیں جہنم کے عذاب سے بچا لیجئے۔ انہیں اپنے خاندان کے نیکوکار افراد سمیت دائمی جنتوں میں داخل کر کے ہر قسم کی پریشانیوں سے نجات عطا فرما دیجئے۔ 
کافر جہنم میں پڑے ہوئے دوبارہ زندہ ہونے کو تسلیم کرتے ہوئے اپنے گناہوں کا اعتراف بھی کریں گے مگر جہنم سے چھٹکارے کا کوئی راستہ نہیں ہو گا۔
 قیامت کے دن اللہ کی حکمرانی کے مقابلہ میں کوئی جھوٹا دعوے دار بھی پیدا نہیں ہو گا۔ اکیلے اللہ ہی ہر چیز پر غالب ہوں گے۔ بغیر کسی ظلم و زیادتی کے ہر شخص کو اس کے اعمال کا پورا پورا بدلہ مل جائے گا۔
 فرعون، ہامان اور قارون جو کہ اقتدار اعلیٰ، انتظامیہ اور سرمایہ داری کے نمائندے ہیں ان کے مقابلہ میں حضرت موسیٰ علیہ السلام ہماری آیات اور معجزات کے ساتھ مبعوث ہوئے۔ مگر انہوں نے ماننے کی بجائے قتل و غارت گری کی مدد سے مسلمانوں کو ختم کرنے کی کوشش کی اور موسیٰ علیہ السلام کو بھی قتل کرنے کا پروگرام بنایا اور ’’کلابی تقویٰ‘‘ کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہنے لگے کہ موسیٰ دراصل لوگوں کا دین بگاڑ رہا ہے اور زمین میں فساد برپا کر رہا ہے اس لئے ہم اس کے خلاف یہ اقدامات کر رہے ہیں۔ موسیٰ علیہ السلام نے اللہ کی پناہ اور حفاظت طلب کی تو فرعون کے خاندان کا ایک با اثر شخص کھڑا ہو گیا اس نے لسانی، قومی اور سیاسی تمام مصلحتوں کو بالائے طاق رکھ کر حضرت موسیٰ علیہ السلام کی حمایت کا واضح اعلان کر دیا۔
اس کے ایمان افروز اور طاغوت شکن گفتگو کو قرآن کریم نے آیت ۲۸ سے لیکر آیت ۴۵ تک نہایت تفصیل کے ساتھ ذکر کی ہے، جس میں اس نے موسیٰ علیہ السلام کے حق و صداقت کا اعتراف کیا۔ 
امم ماضیہ کے اپنے انبیاء کا انکار اور ان پر اللہ کے عذاب کا ذکر کیا۔ قیامت کے دن اللہ کی پکڑ سے ڈرایا اور بتایا کہ وہاں پر گناہوں کی سزا مل کر رہے گی، جبکہ ایمان اور اعمال صالحہ والے مرد و عورت جنت میں بے حساب نعمتوں کے مزے لوٹیں گے۔ آخر میں اس نے نہایت حسرت و افسوس کے ساتھ کہا کہ تم آج میری بات نہیں مان رہے ہو، مگر عنقریب میری باتیں تمہیں یاد آئیں گی، مگر اس وقت کی ندامت تمہارے کام نہ آ سکے گی۔ میں اپنا معاملہ اللہ کے حوالہ کر رہا ہوں۔ 
چنانچہ اللہ تعالیٰ نے اسے ظلم و ستم سے بچا کر فرعون اور اس کے تمام لاؤ لشکر کو بدترین عذاب میں مبتلا کر دیا۔ 
روزانہ صبح و شام جہنم کی آگ ان کی قبروں میں پیش کی جاتی ہے۔ قیامت کے دن سخت ترین عذاب چکھنے کے لئے انہیں جہنم میں داخل کر دیا جائے گا۔
 پھر قیامت کے دن مجرموں کا باہمی جھگڑا اور اپنے جرائم کی ذمہ داری دوسروں پر ڈالنے کی مذموم حرکت کو ذکر کر کے بتایا کہ وہ ایک آدھ دن کے لئے ہی جہنم کے عذاب میں تخفیف کی درخواست کریں گے، مگر وہ بھی پوری نہیں کی جائے گی۔ اپنے بندوں کی مدد کا برحق وعدہ اور ظالموں کے لئے لعنت اور بدترین عذاب کی خبر دیتے ہوئے آگے فرمایا کہ ’’بعث بعدالموت‘‘ کے منکرین یہ کیوں نہیں سوچتے کہ آسمان و زمین کی تخلیق کا مشکل ترین کام جس اللہ نے کر لیا اس کے لئے انسانوں کو دوبارہ پیدا کرنا کیا مشکل ہو گا۔ جس طرح بینا اور نابینا برابر نہیں اسی طرح نیک و بد اور مؤمن و کافر بھی برابر نہیں ہو سکتے۔
ہر مشکل میں اللہ ہی کو پکارنا چاہئے جو اللہ سے دعا مانگنے سے پہلوتہی کرتا ہے وہ متکبر اور اسے انتہائی ذلت و رسوائی کے ساتھ جہنم میں جانا پڑے گا۔ پھر دن رات کے آنے جانے اور آسمان و زمین کی تعمیر میں غور و فکر کی دعوت دیکر انسانی تخلیق کا بیان شروع کر دیا کہ انسان کو قدرت کا بہترین اور خوبصورت شاہکار بنایا گیا ہے۔ اسے حسین پیکر میں تبدیل ہونے کے لئے جن تخلیقی مراحل سے گزرنا پڑتا ہے ان کا تذکرہ اور پھر زندگی اور موت کے اللہ کے قبضہ میں ہونے کا بیان ہے، پھر بتایا ہے کہ اللہ کی آیات کے بارے میں جھگڑا کرنے اور قرآن کا انکار کرنے والوں کو طوق ڈال کر بیڑیوں اور ہتھکڑیوں میں جکڑ کر جہنم میں گھسیٹا جائے گا اور ان کے غرور و تکبر کی بناء پر ہمیشہ ہمیشہ کے لئے جہنم کو ان کا ٹھکانہ قرار دے دیا جائے گا۔
 اس کے بعد بتایا گیا کہ انبیاء و رسل آپ سے پہلے بھی آتے رہے ہیں۔ مگر ایمان سب پر لانا ضروری ہے کوئی رسول اپنے طور پر کبھی بھی نشانی نہیں لایا کرتا اور پھر انسان اپنے نواح و اطراف میں اگر غور کرے تو پوری کائنات نشانیوں سے بھری پڑی ہے۔ جب ہمارا عذاب یہ لوگ دیکھتے ہیں تو کہنے لگتے ہیں کہ ہم ایک اللہ پر ایمان لاتے ہیں، لیکن ’’حالتِ نزع‘‘ کے ایمان کا کوئی اعتبار نہیں ہوتا اور اس وقت کافروں کو اپنا نقصان واضح نظر آنے لگ جاتا ہے۔

               *سورہ السجدۃ*

مکی سورت ہے۔ اس میں چون آیتیں اور چھ رکوع ہیں۔ قرآن کریم کے رحمان و رحیم کا کلام ہونے کی خبر کے ساتھ ماننے والوں کا انجامِ خیر اور نہ ماننے والوں کا انجام بد مذکور ہے اور زکوٰۃ کی ادائیگی نہ کرنے والے کو مشرکین کی صف میں کھڑا کیا ہے۔ 
اس کے بعد آسمان وزمین کو چھ دن کے اندر مکمل کرنے کا بیان ہے۔ دو دن میں زمین بنائی اور دو دن میں اس کے اندر خزانے ودیعت کر کے چار دن میں اس سے فارغ ہو گئے اور پھر مزید دو روز کے اندر آسمان کو دھوئیں سے بنایا۔ اس کی زینت اور حفاظت کے لئے ستاروں کو پیدا کر کے کل کائنات کی تخلیق چھ روز میں مکمل کر دی۔ اگر یہ لوگ پھر بھی اللہ کو ماننے کے لئے تیار نہیں ہوتے تو انہیں قوم عاد و ثمود کی تاریخ سے درس عبرت حاصل کرنے کی تلقین کرو۔
 ان کے پاس توحید کا پیغام لیکر رسول آتے رہے قوم عاد تو کہنے لگی کہ ہم بہت طاقتور لوگ ہیں۔ ہم سے زیادہ طاقت والا دنیا میں اور کوئی نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ جس اللہ نے تمہارے جیسے طاقت ور پیدا کئے وہ تم سے بھی زیادہ طاقتور ہے، مگر انہیں یہ بات سمجھ میں نہ آئی تو اللہ نے شدید آندھی ان پر مسلط کر کے انہیں تباہ و برباد کر کے رکھ دیا اور ثمود کے انکار پر انہیں بھی ذلت آمیز کڑک سے دوچار کر کے ہلاک کر دیا اور ایمان و تقویٰ والوں کو نجات عطاء فرما دی۔ 
پھر قیامت میں اٹھائے جانے اور حساب و کتاب کے لئے ہاتھ پاؤں اور دوسرے اعضاء کی گواہی اور کافروں کے تعجب کو ذکر کر کے بتایا کہ جس اللہ نے تمہاری زبان کو قوت گویائی دی تھی۔ اس کے لئے دوسرے اعضاء کو بلوانا کوئی مشکل نہیں ہے۔ 
پھر حق کے مقابلہ میں کفر کا ایک بھونڈا انداز کہ جب قرآن پڑھا جائے تو اتنا شور مچاؤ کہ ان کی آواز دب جائے اور تم غالب آ جاؤ۔ ایسے کافروں اور اللہ کے دشمنوں کے لئے جہنم کا ذلت آمیز ٹھکانہ ہو گا۔
 اللہ کو رب مان کر استقامت کا مظاہرہ کرنے والوں کی دلجوئی اور تسلی کے لئے فرشتے اتریں گے اور انہیں ہر قسم کے خوف اور غم سے نجات کی بشارت سنائیں گے۔ جنت میں ان کی ہر خواہش پوری کی جائے گی۔ یہ غفور رحیم کی مہمانی ہو گی۔
بہترین انسان وہ ہے جو اعلیٰ کردار اور بہترین عملی زندگی کے ساتھ اپنے مسلمان ہونے پر فخر کرتا ہو اور دوسروں کو بھی اچھی زندگی اپنانے کی دعوت دیتا ہو۔ 
ایسے لوگ برائی کا بدلہ بھلائی سے دیتے ہیں اور حسن اخلاق کا مظاہرہ کر کے اپنے دشمن کا دل بھی موہ لیتے ہیں۔ یہ لوگ صبر و شکر کی زندگی گزارنے والے ہوتے ہیں اور یہ خوبیاں بڑے نصیب والوں کو ہی ملا کرتی ہیں۔
اللہ کی قدرت کی نشانیاں دن رات، سورج چاند ہیں۔ لہٰذا انہیں سجدہ کرنے کی بجائے ان کے پیدا کرنے والے کو سجدہ کرو۔ بنجر و ویران زمین بھی اس کی نشانی ہے کہ جیسے ہی پانی برستا ہے تو وہ لہلہانے اور نشوونما پانے لگ جاتی ہے، جس ذات نے اسے زندہ کر دیا وہ مردوں کو بھی زندہ کر دے گا۔ 
قرآن کریم میں ترمیم و تنسیخ کے خواب دیکھنے والے ہماری نگاہوں سے اوجھل نہیں ہو سکتے اور قرآن کریم پر باطل کسی طرح بھی اثر انداز نہیں ہو سکتا۔ 
قرآن کریم کو ہم نے عجمی نہیں بلکہ عربی بنایا ہے اس میں ایمان والوں کے لئے ہدایت اور شفاء ہے۔
جو نیکی کرے گا تو اپنا ہی فائدہ کرے گا اور برائی کرے گا تو اپنا ہی نقصان کرے گا۔ تیرا رب بندوں پر کسی قسم کا ظلم نہیں کیا کرتا۔

 

 

کوئی تبصرے نہیں:

حالیہ اشاعتیں

مقوقس شاہ مصر کے نام نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کا خط

سیرت النبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم..قسط 202 2.. "مقوقس" _ شاہ ِ مصر کے نام خط.. نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک گرامی ...

پسندیدہ تحریریں