*پارہ ~~~13~~~وَمَا اُبَرّئُ*

حکومت وقت کی مدعیت میں درج ہونے والے مقدمہ سے برأت ایک بہت بڑا اعزاز تھا جو خود پنداری اور عجب میں مبتلا کرسکتا تھا اس لئے حضرت یوسف علیہ السلام نے فرمایا کہ 
گناہ سے بچنے میں میرا کوئی ذاتی کمال نہیں بلکہ اللہ کا فضل و کرم شامل حال تھا۔ آپ کو وزارت خزانہ کی ذمہ داری سونپ دی گئی اور یہ بھی اللہ کی قدرت کا مظہر تھا کہ جیل کی پستیوں سے اقتدار کی بلندیاں نصیب فرما دیں۔ 
کنعان سے آنے والے تاجروں میں برادران یوسف بھی شامل تھے۔ انہیں علم نہیں تھا کہ ان کا بھائی وزارت خزانہ کے منصب پر فائز ہے مگر یوسف علیہ السلام اپنے بھائیوں کو پہچان چکے تھے۔
 بادشاہ کے خواب کے مطابق حضرت یوسف نے اناج کا مناسب ذخیرہ کیا ہوا تھا۔ قحط سالی شروع ہو چکی تھی اور یہ لوگ کنعان سے اناج خریدنے کے لئے آئے تھے، حضرت یوسف نے پہچاننے کے باوجود ان سے ان کے حالات معلوم کئے۔ انہوں نے بتایا کہ ہم بارہ بھائی ہیں ایک جنگل میں ہلاک ہو گیا تھا۔ والد اس کے صدمہ سے پریشان ہے اور اس نے چھوٹے بھائی کو اپنی تسلی اور تسکین کے لئے اپنے پاس روکا ہوا ہے اور ہم تجارت کی غرض سے آئے ہیں۔ یوسف علیہ السلام نے انہیں کافی خیرات دے کر واپس روانہ کیا اور آئندہ چھوٹے بھائی کو بھی ساتھ لانے کا وعدہ لے لیا۔ انہوں نے واپس جا کر بادشاہ کے حسن سلوک کا تذکرہ کیا اور سامان کھول کر دیکھا تو ان کا مال بھی پورا موجود تھا اور ان کی ضرورت کا غلہ و سامان بھی تھا۔ انہوں نے والد صاحب کو راضی کرنے کی کوشش کی کہ چھوٹے بھائی (بنیامین) کو بھی بھیج دیں تاکہ ایک مزید آدمی کا راشن بھی مل سکے۔ والد نے کہا کہ تم پہلے یوسف کے بارے میں میرے اعتماد کو ٹھیس پہنچا چکے ہو مگر گھریلو اخراجات کی مجبوری ہے اس لئے اللہ کی حفاظت میں اسے تمہارے ساتھ بھیجتا ہوں۔
 جب برادران یوسف چھوٹے بھائی کے ہمراہ دوبارہ پہنچے تو یوسف علیہ السلام نے موقع پا کر اپنے بھائی بنیامین کو ساری صورتحال سے آگاہ کر کے اسے اپنے پاس روکنے کا حیلہ یہ کیا کہ مصر کے قانون میں چور کی سزا یہ تھی کہ اسے غلام بنا کر اپنے پاس رکھ لیا جاتا تھا۔ شاہی کارندوں نے بنیامین کے سامان میں ایک پیمانہ چھپا کر تلاشی کے دوران برآمد کر لیا۔ برادران یوسف پریشان ہو گئے ہم پہلے ہی والد کا اعتماد کھو چکے ہیں۔ اب کیا جواب دیں گے۔ مجبوراً واپس جا کر یعقوب علیہ السلام کو بنیامین کے سامان سے پیمانے کی برآمدگی اور مصری قانون کے مطابق اس کی گرفتاری کی خبر دی۔ حضرت یعقوب علیہ السلام کا غم بے انتہا بڑھ گیا اور یوسف کی یاد کے ساتھ بنیامین کا غم بھی شامل ہو گیا۔ 
برادران یوسف نے کہا کہ یوسف کب کا مر کھپ چکا اور اس کی یاد میں ہلکان ہو رہے ہیں۔
 والد نے کہا میرے بیٹو! مجھے یقین ہے کہ یوسف اور اس کا بھائی مجھے مل کر رہیں گے۔ میں اللہ سے مایوس نہیں اللہ سے مایوس تو کافر ہوا کرتے ہیں۔ جاؤ دونوں کو تلاش کرو اور گھر کے اخراجات کا انتظام بھی کر کے آؤ۔ قحط سالی کی شدت میں ان کے پاس تجارت کے لئے بھی کچھ نہیں بچا تھا۔ یہ لوگ پھر مصر پہنچ گئے اور شاہ مصر کے انتقال کے بعد یوسف علیہ السلام عزیز مصر کے عہدہ پر فائز ہو چکے تھے۔ 
انہوں نے جا کر اپنی بپتا سنائی اور خیرات و غلہ کے لئے درخواست گزار ہوئے حضرت یوسف علیہ السلام نے اس موقع پر ان کی حالت زار اور والد کی پریشانی کے پیشِ نظر صورتحال واضح کرنے کے لئے انہیں یاد دلایا کہ یوسف اور اس کے بھائی کے ساتھ کی جانے والی زیادتیوں کو تم کیسے بھول گئے ہو؟
 ان کا ماتھا ٹھنکا اور وہ حیران ہو کر پوچھنے لگے کہ آپ یوسف ہی تو نہیں ہیں۔ یوسف علیہ السلام نے بتا دیا کہ میں ہی یوسف ہوں اور یہ میرا بھائی بنیامین ہے۔ اللہ نے اپنے فضل و کرم سے ہمیں دوبارہ اکٹھا کر دیا۔
 یوسف علیہ السلام جو کہ مصر کے اقتدار اعلیٰ پر متمکن ہونے کے ساتھ ساتھ نبوت کے منصب اعلیٰ پر بھی فائز تھے، ایمان اور تحمل کی بلندیوں پر پہنچے ہوئے تھے۔ انہوں نے بھائیوں کی پریشانی اور جرم کے طشت از بام ہونے پر گھبراہٹ کو بھانپ لیا اور فرمایا کہ آپ لوگوں سے کسی قسم کا انتقام نہیں لیا جائے گا۔ میں تمام زیادتیوں اور مظالم کو معاف کرتا ہوں۔ اس حلم و بردباری نے ان پر بڑا اثر کیا اور انہوں نے بھی اعتراف جرم کے ساتھ اپنے لئے عفو و درگزر کی درخواست پیش کر دی۔
 بیٹے کے غم میں رو رو کر حضرت یعقوب اپنی بینائی سے محروم ہو چکے تھے۔ 
یوسف علیہ السلام نے معجزانہ تاثیر کی حامل اپنی قمیص روانہ کر دی کہ باپ کے چہرہ پر ڈالو گے تو ان کی بینائی واپس آ جائے گی۔ جیسے ہی قاصد قمیص لے کر مصر سے روانہ ہوا کنعان میں حضرت یعقوب نے حاضرین مجلس سے کہا کہ مجھے یوسف کی مہک آ رہی ہے۔ وہ لوگ کہنے لگے کہ آپ نے پھر یوسف کی رٹ لگا لی ہے۔ مگر اتنی دیر میں قاصد پہنچ چکا تھا اور قمیص کا کرشمہ ظاہر ہو کر ان کی بینائی مل چکی تھی۔ بیٹوں کو اپنی غلطی کا شدت سے احساس ہونے لگا، انہوں نے والد صاحب سے معافی کی درخواست کی والد صاحب نے خود بھی معاف کر دیا اور اللہ سے بھی ان کے لئے مغفرت طلب کی اور مصر کے لئے روانہ ہو گئے۔ 
شہر سے باہر سرکاری پروٹوکول کے ساتھ ان کا استقبال کیا گیا اور دربار شاہی میں پہنچتے ہی والدین اور گیارہ بھائی یوسف کے سامنے سجدہ ریز ہو گئے۔ یوسف علیہ السلام نے اپنے خواب کی عملی تعبیر پالی اور تشکر آمیز جذبات سے اللہ کے حضور دست بہ دعا ہو گئے کہ اللہ تو نے مجھے نبوت و حکمرانی سے سرفراز فرمایا اور میرے جان کے دشمن بھائیوں کے دل صاف کر کے مجھے میرے ساتھ ملایا تو ہی میرا سرپرست اور ولی ہے، مجھے اسلام پر ثابت قدم رکھ اور اپنے نیکو کار بندوں میں شامل رکھ۔ 
اس واقعہ میں بہت سے دروس و عبر موجود ہیں۔ باپ کی محبت سے بھائیوں کی عداوت اور اندھے کنویں سے شاہی محل اور وہاں سے جیل اور پھر اقتدار مصر پر فائز ہو کر والدین اور بھائیوں کے سامنے سرخروئی اس سارے منظر میں مکہ مکرمہ کے اندر حضور علیہ السلام اور اپنوں کے مظالم کا شکار آپ کے ساتھیوں کے لئے بشارت موجود تھی کہ ایک دن مشرکین مکہ بھی آپ کے سامنے جھکنے پر مجبور ہوں گے 
اور دس رمضان کو تاریخ نے ہمیشہ کے لئے منظر محفوظ کر لیا کہ کعبۃ اللہ کی دہلیز پر کھڑے ہو کر حضور علیہ السلام نے یوسف علیہ السلام والا جملہ لا تثریب علیکم الیوم (آج تم پر کوئی گرفت یا انتقامی کارروائی نہیں ہو گی) کہہ کر اپنی قوم کو معاف کرنے کا اعلان کر دیا۔
 پھر قرآن کریم نے ’’جمہوریت‘‘ کی بنیاد ’’اکثریت و اقلیت‘‘ پر ضرب کاری لگاتے ہوئے بتایا کہ دنیا میں اچھے لوگ کبھی اکثریت میں نہیں رہے جس سے یہ منطقی نتیجہ نکلتا ہے کہ ’’جمہوری‘‘ نظام سے پاکیزہ معاشرہ اور اچھی حکومت کبھی بھی تشکیل نہیں پا سکتی۔ 
نبوت کا راستہ دلائل کے ساتھ اللہ کا پیغام پہنچانا ہے، نصرت خداوندی تب آتی ہے جب اللہ کے علاوہ تمام سہاروں سے مسلمان برأت کا اظہار کر دے اور ہر طرف سے مایوس ہو کر ایک اللہ سے اپنا رشتہ استوار کر لے۔
 قرآن کریم قصے کہانیاں سنا کر جی نہیں بہلاتا بلکہ تاریخی واقعات سے کارکنوں کی تربیت کرتا ہے اور مسلمانوں کو اس سے ہدایت و رحمت کی دولت میسر آتی ہے  

سورہ الرعد

 مدنی سورت ہے۔ چھیالیس آیتوں اور چھ رکوع پر مشتمل ہے۔ مدنی سورت ہونے کے باوجود اس میں قانون سازی کی بجائے عقیدۂ توحید و آخرت پر بحث کی گئی ہے۔
 پہلی آیت میں حقانیت قرآن کو بیان کیا اور توحید باری تعالیٰ پر کائناتی شواہد پیش فرمائے۔ منکرین کو قیامت کے دن طوق اور بیڑیاں ڈال کر جہنم رسید کر دیا جائے گا۔ نشانیوں کا مطالبہ کرنے والوں کو بتا دو کہ میں تو ڈرانے اور انسانیت کو پیغامِ ہدایت سنانے والا ہوں 
پھر اللہ کے علم و قدرت کا مزید بیان ہے۔ ماں کے پیٹ میں کیا ہے۔ اسے اللہ ہی جانتے ہیں۔ جدید طب زیادہ سے زیادہ بچہ کی جنس (Sex) اور صحت کے بارے میں الٹراساؤنڈ کی مدد سے اندازہ لگا سکتی ہے، لیکن نیکی بدی، غربت و امارت، علم و جہالت اور زندگی کے ماہ و سال ان تمام باتوں کا علم بچہ کے بارے میں اللہ کے علاوہ کسی کے پاس نہیں ہے۔ انسانی حفاظت کے لئے فرشتوں کے ذریعہ اللہ نے سیکیورٹی نظام بنایا ہوا ہے۔
 قوموں کے عروج و زوال کا ضابطہ کہ جب تک کسی قوم کی عملی زندگی نہیں بدلتی اللہ اس کی حالت کو نہیں بدلتے۔ 
بارش سے بھرے ہوئے بادل، بجلی کی چمک اور کڑک اللہ کی تسبیح و تحمید کرتے ہیں۔ فرشتے بھی خوف اور ڈر کے ساتھ اللہ کی تعریف میں رطب اللسان رہتے ہیں۔
 صحیح معنی میں دعا تو اللہ ہی سے مانگی جا سکتی ہے۔ غیر اللہ سے مانگنے والوں کی مثال ایسے ہے جیسے کوئی پیاسا دور سے ہاتھ پھیلا کر پانی اپنے منہ تک پہنچانے کی ناکام کوشش کرے۔ 
پھر حق و باطل کی دو مثالیں : آسمان سے بارش برسی جس نے سیلاب کی شکل اختیار کر لی، غیر مفید جھاگ اور کوڑا کباڑ اوپر ہوتا ہے اور مفید پانی نیچے ہوتا ہے۔ 
آگ میں زیور پگھلایا تو غیر مفید کھوٹ اوپر آ جاتی ہے اور مفید سونا چاندی نیچے رہ جاتا ہے، ایسے ہی حق و باطل کے مقابلہ میں باطل کے اوپر آ جانے سے دھوکا نہیں کھانا چاہئے۔ حق کے ماننے والے اور منکرین کی مثال ایسی ہے جیسے آنکھوں والا اور اندھا۔ عقل والے ہی درس عبرت حاصل کیا کرتے ہیں پھر مالی اور جسمانی نیکی اور برائی کرنے والوں کا تذکرہ کر کے جنت و جہنم میں ان کے ٹھکانے کو بیان کیا۔
 رزق میں کمی زیادتی اللہ ہی کرتے ہیں۔ دنیاوی نعمتیں تو عارضی فائدہ پہنچاتی ہیں۔ اللہ پر ایمان رکھنے والوں کو اللہ کے تذکرہ سے ہی سکون ملتا ہے۔ ان کے لئے مبارک اور بہترین ٹھکانہ ہے۔ 
لوگوں کی ہدایت کو کرامات اور معجزات کے ساتھ منسلک نہیں کیا گیا بلکہ ہر قوم کی ہدایت کے لئے انبیاء و رسل نے مستقل محنت کی ہے۔ 
اگر کسی کلام کی تاثیر سے پہاڑوں کو اپنی جگہ سے ہٹا کر چلایا جا سکے، زمین کو پھاڑ کر ٹکڑے ٹکڑے کیا جا سکے یا مردوں کو زندہ کر کے ان سے گفتگو کی جا سکے تو وہ کلام یہ قرآن ہی ہو سکتا ہے۔ نشانیاں طلب کرنے والوں کے لئے اس سے بڑی نشانی اور کیا ہو سکتی ہے؟ 
پہلے انبیاء و رسل کا مذاق اڑانے والوں کو مہلت دے کر عبرتناک طریقہ سے پکڑا گیا لہٰذا آپ کا مذاق اڑانے والے بھی بچ نہیں سکیں گے۔
 نبی کوئی مافوق الفطرت مخلوق نہیں ہوتی وہ تو عام انسانی زندگی گزارنے والے افراد ہوتے ہیں۔ بیوی بچے اور بشری تقاضے ان کے ساتھ لگے ہوئے ہوتے ہیں۔ اللہ کے حکم کے بغیر کوئی نشانی دکھانے کا انہیں اختیار نہیں ہوتا۔ انہیں غور کرنا چاہئے کہ جب سے نزول قرآن شروع ہوا ہے اہل ایمان پھیلتے جا رہے ہیں اور کفر کا دائرہ محدود ہوتا جا رہا ہے اور یہ تنگ جزیرہ میں محصور ہوتے جا رہے ہیں۔ اللہ کے فیصلہ کے بعد کسی دوسرے کا فیصلہ نہیں چل سکتا۔ 
اے میرے نبی! ان کافروں کی طرف سے آپ کی رسالت کا انکار کرنے سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ اللہ تعالیٰ بھی اور اہل علم بھی آپ کی رسالت کی گواہی دینے کے لئے کافی ہیں۔               

   سورہ ابراہیم

مکی سورت ہے۔ باون آیتوں اور سات رکوع پر مشتمل ہے۔ اس سورت کا مرکزی مضمون ’’اثبات رسالت‘‘ ہے جبکہ جنت اور جہنم کا تذکرہ اور ظالموں کی عبرتناک گرفت کا تذکرہ بھی موجود ہے۔ 
انبیاء کا اختصار کے ساتھ تذکرہ ہے مگر ابو الانبیاء ابراہیم علیہ السلام کی اپنے معصوم بچے اور بیوی کو لق و دق صحراء میں چھوڑنے کا خصوصیت کے ساتھ تفصیل سے تذکرہ ہے۔ 
ابتداء سورت میں نزول قرآن کا مقصد بیان کرتے ہوئے بتایا ہے کہ انسان اس سے کفر کی ظلمتوں سے نکل کر ایمان کی روشنی میں آ جاتا ہے۔ پھر بتایا گیا ہے کہ ہر قوم میں اس کی زبان میں سمجھانے والے نبی ہم نے مبعوث کئے۔ 
پھر موسیٰ علیہ السلام اور ان کی قوم کا تذکرہ ہے۔ اللہ نے بنی اسرائیل پر نعمتیں اتاریں فرعون کے بدترین تعذیب کے طریقوں سے نجات دی۔ شکر کرنے سے نعمت میں اضافہ ہوتا ہے۔ ناشکری سے نعمت چھن جاتی ہے۔ 
قوم نوح، عاد، ثمود کا مختصر تذکرہ اور نبیوں کے خلاف ان کے گھسے پٹے اعتراض کا بیان ہے کہ تم ہمارے جیسے انسان ہو نبی کیسے ہو سکتے ہو؟ 
ہمیں ہمارے آباء و اجداد کے طریقہ سے ہٹانا چاہتے ہو۔ ہم تمہیں اپنے ملک سے نکال باہر کریں گے۔ اللہ تعالیٰ نے ان سب کے جواب میں فرمایا کہ ظالم اور معاند و متکبر ہلاک ہوں گے اور ان کی جگہ انبیاء کے متبعین زمین کے اقتدار کے وارث بنا دئے جائیں گے۔
 کافروں کے اعمال کی مثال راکھ کی طرح ہے جب تیز ہوا چلتی ہے تو اسے اڑا کر لے جاتی ہے۔ قیامت کے دن جب مجرمین کو آپس میں بات چیت کا موقع ملے گا تو وہ ایک دوسرے پر اعتراضات کر کے اپنے دل کی بھڑاس نکالیں گے کہیں گے کہ دنیا میں تم نے ہم سے گناہ کروائے اب عذاب کو بھی ہم سے ہٹواؤ۔ تو وہ کہیں گے کہ ہم تو خود عذاب میں پھنسے ہوئے ہیں تمہیں کس طرح بچا سکتے ہیں۔
 پھر جہنمی شیطان کی طرف متوجہ ہو کر اسے ملامت کریں گے، وہ کہے گا کہ مجھے کیوں ملامت کرتے ہو میں نے تو ذرا سا اشارہ کیا تھا تم خود ہی ا س پر چل کر گناہوں کے مرتکب بنے ہو لہٰذا نہ تو میں اپنے آپ سے عذاب کو ہٹا سکتا ہوں اور نہ ہی تم سے ہٹا سکتا ہوں۔
 پھر ایمان اور کفر کی مثال دی کہ کلمۂ طیبہ کی بدولت ایمان کا مضبوط اور تناور درخت بن جاتا ہے جسے آندھی اور طوفان بھی نقصان نہیں پہنچا سکتے 
جبکہ کلمۂ خبیثہ کے نتیجہ میں کفر کی کمزور جھاڑیاں اگتی ہیں جو معمولی اشارہ سے زمین سے اکھڑ جاتی ہیں۔
 پھر ابراہیم علیہ السلام کی عظیم الشان قربانی اور دعاء کا تذکرہ ہے کہ معصوم بچے اور بیوی کو اللہ کے حکم سے جنگل بیابان میں سکونت پذیر کر دیا اور اللہ سے دعاء مانگی، لوگوں کے دلوں میں ان کی محبت پیدا فرما۔ پھلوں اور سبزیوں اور ہر قسم کی ضروریات زندگی میں برکت عطاء فرما۔ مجھے اور میری اولاد کو نماز کا پابند بنا اور ہمارے ساتھ تمام اہل ایمان کی مغفرت فرما۔
 اس کے بعد ظالموں کی گرفت کے آسمانی نظام کا تذکرہ ہے کہ ظالموں کو آزادی کے ساتھ دندناتے ہوئے پھرتا دیکھ کر دھوکا میں نہیں پڑنا چاہئے۔ یہ اللہ کی طرف سے مہلت ہے اور جب اچانک ان کی گرفت کے لئے نظام الٰہی متحرک ہو گا تو انہیں کوئی بچا نہیں سکے گا۔   



کوئی تبصرے نہیں:

حالیہ اشاعتیں

مقوقس شاہ مصر کے نام نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کا خط

سیرت النبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم..قسط 202 2.. "مقوقس" _ شاہ ِ مصر کے نام خط.. نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک گرامی ...

پسندیدہ تحریریں