*پارہ ~~~ 10 ~~~ وَاعْلَمُوا*

پارے کی ابتداء میں بتایا گیا ہے ’’مال غنیمت‘‘ میں سے پانچواں حصہ بیت المال کے لئے نکال کر باقی چار خمس مجاہدین میں تقسیم کر دیئے جائیں گے۔

پھر اللہ تعالیٰ نے پہلے سے کسی تیاری کے بغیر غزوہ بدر میں کفر و اسلام کو مدمقابل لانے کی حکمت بیان فرمائی کہ اگر تم مقابلہ کا وقت مقرر کر لیتے تو اس بات کا قوی امکان تھا کہ مسلمان اپنی تعداد و اسلحہ کی قلت کے پیش نظر پس و پیش کا مظاہرہ کرتے یا کافر مرعوب ہو کر مسلمانوں کے مقابلہ سے گریز کرتے۔ لیکن اللہ تعالیٰ مسلمانوں اور کافروں سے جنگ چاہتے تھے تاکہ بے سروسامانی کے باوجود انہیں کامیاب کر کے حق و باطل کا فرق واضح کر دیں اور جو مسلمان ہونا چاہے علی وجہ البصیرت ہو اور جو کافر رہنا چاہے وہ بھی سوچ سمجھ کر ہو۔

اس کے بعد جہاد میں ثابت قدمی کا مظاہرہ کرنے اور ذکر الٰہی میں مشغول رہنے کی تلقین ہے، اس بات کا بیان ہے کہ اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کے ساتھ باہمی اختلاف و نزاع سے بھی بچنا ضروری ہے۔ ورنہ ناکامی کا منہ دیکھنا پڑے گا۔

 کافر ریاکاری اور تکبر کے ساتھ میدان میں اس لئے نکلے تھے تاکہ اہل ایمان کو اللہ کے راستہ سے روکیں اور شیطان انسانی شکل میں ان کی حوصلہ افزائی کر رہا تھا مگر جب اس نے فرشتوں کی شکل میں اللہ کی مدد اترتی ہوئی دیکھی تو بھاگ اٹھا اور کہنے لگا کہ میں جس صورتحال کا مشاہدہ کر رہا ہوں وہ تمہیں نظر نہیں آرہی ہے۔

 اس وقت بعض منافق اور دلوں میں مرض رکھنے والے لوگ یہ کہہ رہے تھے، ان مسلمانوں کو ان کے دین نے دھوکے میں ڈال رکھا ہے اور انہوں نے اللہ کے بھروسہ پر اتنا بڑا خطرہ مول لے لیا ہے۔

 اللہ فرماتے ہیں کہ ہم اپنے پر توکل کرنے والوں کو بہت اچھی طرح جانتے ہیں اور انہیں کامیابی عطا فرمایا کرتے ہیں۔ پھر اللہ تعالیٰ نے فرعون اور اس سے پہلے کافروں کے عبرتناک انجام کو بیان کیا اور بتایا کہ کافر بھی اسی صورتحال سے دوچار ہو کر رہیں گے۔

اس کے بعد قوموں کے عروج و زوال کا ناقابل تردید ضابطہ بیان فرمایا۔ اللہ کسی قوم کو اس وقت تک زوال پذیر نہیں کرتے جب تک وہ اپنی عملی زندگی میں انحطاط کا شکار نہ ہو جائیں۔

حضرت محمد علیہ السلام پر ایمان نہ لانے والے لوگ بدترین جانور ہیں۔

یہودیوں نے اس موقع پر میثاق مدینہ کی مخالفت کرتے ہوے مشرکین مکہ کی حمایت کی تھی۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :

عہد شکنی کرنے والوں کے ساتھ آہنی ہاتھوں سے نمٹنا چاہئے تاکہ دوسروں کو عبرت حاصل ہو اور خیانت کرنے والوں کے ساتھ کئے گئے معاہدوں کی پاسداری لازمی نہیں رہ جاتی ایسے معاہدے توڑ دینے چاہئیں۔ کافر یہ نہ سمجھیں کہ وہ بچ نکلنے میں کامیاب ہو جائیں گے وہ اللہ کو عاجز نہیں کرسکتے۔

مسلمانوں کو حکم دیا گیا ہے کہ دشمنان اسلام پر رعب ڈالنے کے لئے تم لوگ جس قدر ہو سکے قوت اور مضبوط گھوڑے تیار رکھو۔ اللہ کے راستہ میں تم جو بھی اخراجات کرو گے اللہ تمہیں واپس کر دیں گے۔ تم کافروں کے مقابلہ میں کسی قسم کی کمزوری کا مظاہرہ نہ کرنا البتہ اگر وہ تمہارے ساتھ صلح کرنا چاہیں تو پھر صلح کر لینا۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے فرمایا کہ اللہ نے اپنی مدد اور ایمان والوں کی قوت سے آپ کو مضبوط کیا ہوا ہے اور ایمان والوں کو اللہ تعالیٰ نے محض اپنے فضل و کرم سے باہم شیر و شکر بنا کر آپ کے گرد جمع کر دیا ہے۔ ساری دنیا کا مال دولت خرچ کر کے بھی آپ انہیں اس طرح جمع نہیں کرسکتے تھے جس طرح اللہ نے انہیں جمع کر دیا ہے۔ جہاد میں کامیابی کے لئے اللہ کی مدد اور مسلمانوں کا تعاون آپ کے لئے بہت کافی ہے۔ خود بھی جہاد کریں اور اہل ایمان کو بھی جہا دکی ترغیب دیں۔ ابتداء میں جب مسلمانوں کی تعداد کم تھی تو، اگر مسلمانوں اور کافروں میں ایک اور دس کا تناسب ہو تو میدان سے ہٹ جانے کو فرار عن الزحف اور گناہ کبیرہ قرار دیا گیا پھر جب تعداد زیادہ ہو گئی تو ایک اور دو کا تناسب باقی رکھا گیا اور اس سے زیادہ ہونے کی صورت میں میدان چھوڑ دینے کی اجازت دے دی گئی۔

غزوہ بدر میں ستر کافر قتل ہوئے اور ستر ہی گرفتار ہوئے تو قیدیوں کا مسئلہ درپیش آ گیا۔ اس سلسلہ میں دو رائے سامنے آئیں کہ مسلمانوں کا رعب پیدا کرنے کے لئے انہیں قتل کر دیا جائے یا ان کے ایمان لانے کی امید پر فدیہ لے کر رہا کر دیا جائے۔ دوسری رائے کو اختیار کیا گیا مگر اس میں شبہ تھا کہ یہ قیدی رہائی کے بعد پھر اسلام کے خلاف استعمال ہو سکتے ہیں۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے اس رائے کے مطابق فیصلہ پسند نہیں فرمایا مگر بعد کے حالات نے ثابت کر دیا کہ اس سے اسلام کو کوئی نقصان نہیں پہنچا اس لئے اللہ نے فدیہ کا فیصلہ کرنے والوں کو کوئی سزا نہیں دی۔

اس کے بعد ہجرت و نصرت کا حکم بیان کیا کہ جب کسی علاقہ میں رہ کر اپنا ایمان و عمل بچانا مشکل ہو جائے تو رشتہ داروں اور وطن کی محبت میں وہاں رہنے کی اجازت نہیں بلکہ وہاں سے ہجرت کر کے اپنے ایمانی رشتہ داروں کے ساتھ جا کر مقیم ہو جانے کا حکم ہے۔ ایمانی تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے ہجرت نہ کرنے پر بہت سخت وعید سنائی گئی کہ اس سے دنیا میں فتنہ و فساد پھیل جائے گا۔

               سورہ توبہ

مدنی سورت ہے۔ ایک سو انتیس ۱۲۹ آیتوں اور سولہ رکوع پر مشتمل ہے۔

 اس میں جہاد سے پیچھے رہ جانے والے تین مخلص مسلمانوں کی توبہ قبول ہونے کا اعلان ہے۔ اس لئے اس کا نام توبہ رکھا گیا ہے اور اس سورت کا مضمون پہلی سورت سے جہاد کے حوالہ سے ملتا جلتا ہے اور اس میں کفار کے لئے مہلت ختم کر کے کھلا ہوا اعلان جنگ ہے اس لئے اس کے شروع میں بسم اللہ نہیں لائی گئی۔

یہ سورت غزوہ تبوک کے بعد واپسی پر نازل ہوئی۔ جہاد اور زکوٰۃ کے حوالہ سے منافقین کی خباثتوں کی نشاندہی کی گئی ہے اور ان کے مکروہ چہرے سے اسلام کا نقاب ہٹا کر انہیں معاشرے میں ظاہر کیا گیا ہے۔ صلح اور امن کے معاہدوں سے کافروں نے کوئی فائدہ نہیں اٹھایا اور ان کے اسلام دشمن طرز عمل میں کوئی تبدیلی نہیں آئی، لہٰذا ان معاہدوں کو چار مہینہ کی مہلت دے کر ختم کرنے کا اعلان کیا جا رہا ہے اور حکم دیا جا رہا ہے کہ جس طرح یہ کافر مسلمانوں کے خلاف جنگ کرنے اور انہیں نقصان پہنچانے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے۔ اسی طرح مسلمانوں کو بھی چاہئے کہ کافر جہاں بھی ملیں انہیں تہِ تیغ کریں۔

 اللہ ان کافروں پر آسمان سے کوئی عذاب اتارنے کی بجائے میدان جہاد میں مسلمانوں کے ہاتھ سے قتل کرانا چاہتے ہیں تاکہ انہیں سزا بھی مل جائے، یہ ذلیل و رسوا بھی ہوں اور مسلمانوں کے دلوں کا غصہ بھی اتر جائے اور بعض کافر اس عبرتناک انجام سے سبق حاصل کر کے اسلام قبول کرنے کا شرف حاصل کرسکیں۔

 دو مسلمانوں کی آپس میں گفتگو ہوئی، ایک نے کہا حضور علیہ السلام کے ساتھ جہاد میں شرکت کے بہت سے مواقع مل چکے ہیں۔ اب تو میں کعبۃ اللہ میں رہ کر عبادت کرنے اور حاجیوں کو پانی پلانے کی سعادت حاصل کرنا چاہتا ہوں۔ دوسرے نے کہا کہ جہاد کے برابر کوئی دوسرا عمل نہیں ہو سکتا۔ لہٰذا میں تو اللہ کے نبی کے ہمراہ جہاد کی سعادت حاصل کرتا رہوں گا۔ حضور علیہ السلام نے آیت قرآنی پڑھ کر سنائی۔ کیا تم نے کعبۃ اللہ کی عبادت اور حاجیوں کو پانی پلانے کی خدمت کو جہاد فی سبیل اللہ کے برابر سمجھ لیا ہے؟ یہ اللہ کی نگاہ میں کبھی بھی برابر نہیں ہو سکتے۔

 رشتہ داریوں، کاروباری مفادات اور اپنے گھروں کو اللہ اور اس کے رسول اور جہاد پر ترجیح دینے والے اللہ کے عذاب کے لئے تیار ہو جائیں۔ ایسے فاسقوں کو اللہ ہدایت نہیں دیا کرتے۔

اس کے بعد غزوۂ حنین اور اس میں کثرت تعداد کے باوجود مسلمانوں کے نقصان اٹھانے اور پھر اللہ کی مدد سے کامیاب ہونے کا تذکرہ ہے۔

 آئندہ کے لئے کافروں کے حرم شریف میں داخلے پر پابندی کا قانون بیان کیا گیا ہے اور بتایا گیا ہے کہ توحید و آخرت پر ایمان نہ لانے والے اور اسلامی نظام حیات سے پہلو تہی کرنے والے اسلامی معاشرہ کے افراد بن کر نہیں رہ سکتے۔ انہیں ذلت و رسوائی کے ساتھ جزیہ ادا کر کے اپنے رہنے کے لئے جواز پیدا کرنا ہو گا۔

اللہ تعالیٰ کے لئے اولاد ثابت کرنے کے عقیدہ کی تردید ہے اور بتایا گیا ہے کہ کسی مذہبی رہنما کو اتنا تقدس نہیں دیا جا سکتا کہ اللہ کی بجائے اسی کو معبود بنا لیا جائے اور عبادت سے مراد احکام کی پابندی ہے۔ مذہبی رہنماؤں کے احکام اسی وقت تک قابل عمل ہیں جب تک وہ قوم کو آسمانی وحی کی روشنی میں رہنمائی فراہم کرتے رہیں۔

 اس کے بعد مال و دولت اور سونے چاندی میں اللہ کے احکام کی ادائیگی نہ کرنے والوں کے لئے وعید ہے کہ سونا چاندی جہنم میں تپا کر انہیں داغا جائے گا۔

پھر مہینوں اور تاریخوں میں تبدیلی کر کے حرام کو حلال کرنے کی کافرانہ حرکت پر تنبیہ کی گئی ہے۔

 پھر جہاد کے لئے نہ نکلنے پر وعید بیان کی ہے اور دردناک عذاب کا پیغام دیا گیا ہے اور اس اٹل حقیقت کا اعلان ہے کہ اسلام ہمیشہ غالب رہے گا اور کفر کو اللہ نے مغلوب کرنے کا فیصلہ کیا ہوا ہے۔

تبوک کے پر مشقت اور طویل جہادی سفر میں شریک نہ ہونے والے منافقین نے امام المجاہدین صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے ساتھی مجاہدین پر مختلف اعتراض اٹھائے تھے۔ کوئی کہتا تھا کہ خوبصورت رومی عورتوں کی وجہ سے ہم بد نظری کے فتنہ میں پڑسکتے ہیں۔

 اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ جہاد سے انکار بڑا فتنہ ہے، جس میں مبتلا ہو چکے ہیں۔ کوئی جہاد کے لئے چندہ اور صدقات جمع کرنے پر اعتراض کرتا، کوئی حضور علیہ السلام کی گستاخی کرتے ہوئے کہتا کہ یہ سنی سنائی باتوں پر عمل کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ چندہ پر اعتراض کرنے والوں کو اگر اس میں سے ’’مال‘‘ مل جائے تو ان کا سارا اعتراض ختم ہو جائے گا اور سنی سنائی باتوں کے حوالہ سے فرمایا کہ وہ اللہ سے سنی ہوئی باتوں پر عمل کرتے ہیں اور ایمان و رحمت کے پھیلانے اور بدی کے راستہ میں رکاوٹ پیدا کرنے والے ہیں۔ ان کے لئے باغات اور نہریں ہیں، جن میں ہمیشہ رہیں گے۔

کفار و منافقین کے خلاف جہاد جاری رکھنے کا دو ٹوک اعلان کیا گیا ہے۔

ایک شخص نے حضور علیہ السلام سے دعاء کرائی کہ اللہ مجھے مال و دولت دے تو میں فی سبیل اللہ خرچ کروں گا۔ جب اس کے پاس بہت مال و دولت ہو گیا تو اس نے زکوٰۃ دینے سے بھی انکار کر دیا۔

اس کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا بعض لوگ ایسے بھی ہیں جو اللہ سے صدقہ و خیرات کا عہد و پیمان کرتے ہیں اور جب اللہ انہیں عطاء کر دے تو وہ بخل کرتے ہیں اور صدقہ سے انکار کر دیتے ہیں۔

منافقین کو ہمیشہ کے لئے مسترد کرتے ہوئے فرمایا کہ آپ اگر ستر مرتبہ بھی ان کے لئے معافی کی درخواست کریں گے تو اللہ تعالیٰ ہرگز انہیں معاف نہیں کریں گے۔

گرمی اور راستہ کی مشقت کا بہانہ بنا کر یہ لوگ جہاد میں شریک نہیں ہوئے اور رسول اللہ کی مخالفت کر کے خوش ہو رہے ہیں۔ ان سے کہہ دو کہ جہنم کی گرمی بہت سخت ہے اور جہاد پر نہ جانے کی وجہ سے تمہیں جہنم میں جانا پڑے گا۔

اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کو منافقین کا جنازہ پڑھنے اور ان کی قبروں پر جا کر دعاء مغفرت کرنے سے منع کر دیا،

 نبی پیغمبرانہ تقاضوں کے مطابق مسلمانوں کے لئے نرم دل ہیں اور نبی کے گستاخوں اور دل آزاری کرنے والوں کے لئے دردناک عذاب تیار ہے۔

ایمان والے کبھی جہاد سے نہیں بھاگتے۔ جہاد سے راہِ فرار تو بے ایمان اور کافر ہی اختیار کرتے ہیں۔ یہ کہتے ہیں کہ ہم بھی جہاد کے لئے نکلنے کو تیار ہیں۔ تیاری کا مطلب تو یہ ہے کہ تربیت اور اسلحہ کے ساتھ تیار ہوں (جبکہ ان لوگوں نے ایسی کوئی تیاری نہیں کی)۔ ان منافقین کو بد عملی اور دوغلی پالیسی کے پیش نظر آئندہ بھی جہاد کے سفر میں شریک نہیں کیا جائے گا۔

آپ نے انہیں جہاد سے پیچھے رہ جانے پر معافی دے دی ہم اس بات پر آپ کو معاف کر رہے ہیں ورنہ آپ کو ایسا نہیں کرنا چاہئے تھا تاکہ مخلص ایمان والے اور منافق سامنے آ جاتے۔

 پھر زکوٰۃ و صدقات کے مستحقین کی آٹھ اقسام کو بیان کیا ہے کہ

 فقراء، مساکین، زکوٰۃ وصول کرنے والے عامل، مؤلفۃ القلوب، غلاموں کو آزاد کرانے، قرض دار، مسافر اور جہاد فی سبیل اللہ ہے۔

پھر منافقین کے متعلق بتایا کہ برائی کی نشر و اشاعت اور نیکی کے راستہ میں رکاوٹ ہیں ان کے لئے جہنم کی سزا ہے جبکہ مؤمنین ایک دوسرے کے دوست، نیکی پھیلانے والے ہیں جبکہ منافقین نے جہاد کے مقابلہ میں گھروں میں رہنے کو ترجیح دے کر نسوانیت کا مظاہرہ کیا ہے۔ اللہ نے ان کے دلوں پر مہر لگا دی ہے۔ اگر کوئی شرعی معذور، غربت و مسکنت کا شکار جہاد سے پیچھے رہ گیا تو کوئی حرج نہیں ہے

کچھ لوگ سواری طلب کرنے کے لئے حضور علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوئے تھے، آپ کے پاس سواری کا انتظام نہ پا کر ان کی آنکھوں میں آنسو بھر آئے کہ وہ سواری نہ ہونے کی وجہ سے جہاد کے عظیم الشان عمل سے محروم ہو جائیں گے۔ اللہ نے ان کی تعریف کی اور صاحبِ حیثیت کے سفر خرچ کی گنجائش رکھنے کے باوجود جہاد کے لئے نہ جانے پر مذمت کی گئی ہے۔

کوئی تبصرے نہیں:

حالیہ اشاعتیں

مقوقس شاہ مصر کے نام نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کا خط

سیرت النبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم..قسط 202 2.. "مقوقس" _ شاہ ِ مصر کے نام خط.. نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک گرامی ...

پسندیدہ تحریریں