*پارہ~~~21~~~ اُتْلُ مَا اُوْحِیَ*

 
قرآن کریم کی تلاوت کے حکم کے ساتھ اکیسویں پارہ کی ابتداء ہو رہی ہے۔ نماز کی پابندی کی تلقین کے ساتھ نظام صلوٰۃ کا سب سے بڑا فائدہ بیان کیا گیا ہے کہ اس سے بے حیائی اور ناشائستہ حرکتوں کا قلع قمع ہو جاتا ہے۔
 اہل کتاب سے اگر بحث و مباحثہ کی نوبت آ جائے تو اخلاق کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑا جائے اور توحید باری تعالیٰ اور آسمانی نظام سے اپنی وفاداری برقرار رکھتے ہوئے اہل کتاب کے ظالموں کو دو ٹوک جواب دینے کی اجازت ہے۔ 
اللہ کی آیتوں کے منکر کفر اور ظلم کے علمبردار ہوتے ہیں۔ قرآن کریم کی حقانیت کی اس سے بڑھ کر اور کیا دلیل ہو سکتی ہے کہ ایک امی ایسا معجزانہ کلام سنارہا ہے۔ اگر آپ اس سے پہلے لکھنا پڑھنا جانتے تو باطل پرست شکوک و شبہات پیدا کر دیتے۔ یہ لوگ کہتے ہیں کہ آسمان سے نشانیاں کیوں نہیں اترتیں ؟
 ان سے پوچھئے: قرآن کریم سے بڑی اور کون سی نشانی ہو سکتی ہے؟ 
پھر قدرت خداوندی کے کائناتی شواہد پیش کر کے دنیا کی حقیقت واضح کر دی کہ دنیا کی زندگی کھیل تماشے کی طرح ختم ہونے والی ہے اور حقیقی زندگی آخرت کی زندگی ہے۔
 یہ لوگ مشکلات اور پریشانیوں میں اللہ سے وفاداری کا دم بھرنے لگتے ہیں اور جب نجات پا کر مطمئن ہو جاتے ہیں تو شرک کرنے لگ جاتے ہیں۔ انہیں سوچنا چاہئے کہ انہیں اللہ تعالیٰ نے امن وسکون کے خطے حرم محترم میں سکونت عطاء فرمائی ہے، جہاں ہر قسم کے دشمن کی دستبرد سے یہ محفوظ ہیں جبکہ ان کے اطراف کے بسنے والوں کو ان کے دشمن اچک کر لے جاتے ہیں۔
 کیا یہ پھر اللہ کے انعامات کی ناشکری کرتے ہوئے باطل پر ایمان لاتے ہیں۔ آخر میں حق و صداقت کی جدوجہد کرنے والوں کو خوشخبری سنا کر سورت کا اختتام کیا جا رہا ہے کہ جو لوگ ہمارے راستہ کی جدوجہد میں مصروف رہتے ہیں ہم انہیں اپنے راستوں کی ہدایت سے سرفراز فرماتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کی مدد یقیناً مخلصین کے ساتھ ہوا کرتی ہے۔
 
               *سورہ الروم*

ابتدائی آیات کے نزول کا پس منظر یہ ہے کہ رومی باشندے عیسیٰ علیہ السلام پر ایمان لانے کی وجہ سے آسمانی نظام کے قائل تھے اور مسلمانوں کی ہمدردیاں ان کے ساتھ رہتی تھیں اور فارسی باشندے آتش پرست ہونے کی وجہ سے آسمانی نظام کے منکر تھے اور مشرکین کی ہمدردیاں ان کے ساتھ رہتی تھیں۔ 
روم کے عیسائیوں اور فارس کے مجوسیوں کے درمیان جنگ میں مجوسی غالب آ گئے اور عیسائی مغلوب ہو گئے، اس پر مشرکین مکہ بہت خوش ہوئے اور کہنے لگے کہ جس طرح ’’ہمارے والوں ‘‘ نے ’’تمہارے والوں ‘‘ کو شکست دی ہے ایسے ہم بھی تمہیں شکست دیں گے۔
 قرآن کریم اتر آیا کہ تمہاری یہ خوشیاں عارضی ہیں اور عنقریب اللہ تعالیٰ رومیوں کو فتحیاب کر کے مسلمانوں کے لئے خوشیاں منانے کی صورت پیدا کر دیں گے۔ اس قرآنی پیشگوئی کے مطابق سات سال کے عرصہ کے اندر اندر مجوسی مغلوب ہوئے اور رومی غالب آ گئے اور اللہ کی قدرت دیکھئے کہ ادھر معرکۂ بدر میں مسلمان بھی مشرکین پر غالب آ گئے اور اس طرح قرآنی پیشگوئی حرف بہ حرف سچی ثابت ہو کر اہل ایمان کی خوشیوں کا باعث بنی۔
 اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ اللہ کا وعدہ برحق اور سچا ہے، لیکن اکثر لوگ حقیقت کو نہیں جانتے۔ ظاہری اسباب کو دیکھ کر فتح و شکست کے فیصلے کرنے لگ جاتے ہیں۔ معلوم ہوا کہ آسمانی علوم کے جاننے والے قرآن کی نگاہ میں عالم ہیں جبکہ دنیوی سوجھ بوجھ رکھنے والے بے علم اور غافل ہیں۔ 
پھر کائناتی شواہد میں غور و خوض، توحید باری تعالیٰ کو تسلیم کرنے اور زمین میں گھوم پھر کر مکذبین کے عبرتناک انجام سے سبق حاصل کرنے کی تلقین فرمائی۔ 
اس کے بعد قیامت میں مجرمین کے حیران و پریشان اور بے یار و مددگار رہ جانے اور عذاب میں مبتلا ہو جانے اور اہل ایمان و اعمال صالحہ کے جنت میں شاداں و فرحاں رہنے کی نوید سنائی ہے۔ آسمان و زمین کے اندر صبح دوپہر شام اللہ کی تسبیح و تحمید بیان کرنے کی تلقین کی۔
آیت ۱۷،۱۸،۱۹ کے بارے میں حدیث شریف میں آتا ہے کہ یومیہ اوراد  وظائف میں اگر کمی رہ جائے تو ان تین آیات کے پڑھنے سے اللہ تعالیٰ پوری کر دیتے ہیں۔ 
اللہ کی قدرت کے دلائل میں سے یہ بھی ہے کہ تمہیں مٹی سے انسان بنا کر دنیا میں پھیلا دیا۔ پھر سکون حاصل کرنے کے لئے تمہارا جوڑا پیدا کر کے باہمی الفت و محبت پیدا کر دی۔ 
آسمان و زمیں کی تخلیق، تمہاری رنگت اور زبانوں کا اختلاف دنیا والوں کے لئے بہت بڑی دلیل ہے۔ دن اور رات میں تمہارا سونا اور روزی کمانا بھی قدرت الٰہی پر ایک دلیل ہے۔ 
آسمانی بجلی کی چمک اور گڑگڑاہٹ سے تمہارے اندر امید و بیم کے ملے جلے جذبات کا پیدا ہونا اور آسمان سے پانی برس کر زمین کا لہلہاتے کھیتوں میں تبدیل ہو جانا بھی عقل والوں کے لئے بہت بڑی آیت اور نشانی ہے۔ آسمان و زمین کا بغیر کسی سہارے کے اللہ کے حکم سے فضاء میں معلق رہنا بھی ایک بہت بڑی دلیل ہے۔ 
اللہ تمہاری ہی ایک مثال پیش کر کے تمہیں سمجھاتے ہیں کہ تمہارا ایک غلام ہو۔ ہم نے جو نعمتیں تمہیں عطاء فرما رکھی ہیں، کیا تم اسے ان نعمتوں میں برابر کا شریک ماننے کے لئے تیار ہو جاؤ گے؟ اگر نہیں تو پھر تم میری مخلوق کو میرا شریک کیوں بناتے ہو؟
 پھر آیت ۲۹، ۳۰، ۳۱، ۳۲ میں مشرکوں اور ظالموں کی مذمت کرتے ہوئے جو قرآنی گفتگو کی گئی ہے اس کی روشنی میں ’’فرقہ واریت‘‘ کی تعریف اور اس کے سدباب کے لئے زرین اصول اخذ کئے جا سکتے ہیں۔
 اپنی خواہشات کو بغیر کسی دلیل کے اپنا مذہب قرار دے لینا ایک ظالمانہ فعل اور گمراہی کی بات ہے۔ ایسا کرنے والوں کو نہ ہدایت ملتی ہے اور نہ ہی ان کا کوئی حمایتی اور مددگار ہوتا ہے۔ ایسی حرکت کے مرتکب مشرکانہ ذہنیت کے حامل لوگ ہوتے ہیں جو اپنے دین میں فرقہ واریت کو رواج دے کر دھڑے بندیاں اور گروہ بنا لیتے ہیں۔ ہر گروہ اپنے نظریات میں مگن رہتا ہے کہ اس سے اس کا تشخص برقرار رہتا ہے۔
 اس کا حل یہ ہے کہ انسانی فطرت کے عین مطابق دین کو یکسوئی کے ساتھ اختیار کر لیا جائے۔ اللہ کا نظام کسی بھی دور میں تبدیل نہیں ہوتا۔ یہ سیدھا اور مضبوط نظام حیات ہے، جس کے بنیادی عوامل انابت الی اللہ، تقویٰ اور اقامت صلوٰۃ ہیں۔ رزق میں فراخی و تنگی اللہ تعالیٰ ہی کی طرف سے ہوتی ہے۔ عزیز و اقارب، غریب و مسکین اور مسافروں پر خرچ کرنا چاہئے۔ اللہ کی رضا کے طلبگار اور فلاح پانے والوں کا یہی وطیرہ ہے۔ 
واپسی میں زیادہ ملنے کی نیت سے رشتہ داروں یا دوسرے لوگوں پر خرچ کرنا سود خور ذہنیت کا عکاس ہے۔ اس سے مال میں کوئی ترقی نہیں ہوتی البتہ پاکیزہ ذہن کے ساتھ اللہ کی رضا کے حصول کے لئے جو زکوٰۃ دیتے ہو اس میں اضافہ اور ترقی ضرور ہوتی ہے۔ 
بحر و بر میں فساد کا برپا ہونا انسانی کرتوتوں کا نتیجہ ہے۔ کفر کا وبال خود کافر پر ہی ظاہر ہوتا ہے جبکہ اعمال صالحہ کرنے والے اپنے عمل کے پھل سے مستفید ہوتے ہیں۔ 
اللہ تعالیٰ نے بچپن کی کمزوری سے تمہاری ابتداء کرنے کے بعد تمہیں جوانی کی قوت سے نوازا اور پھر تمہیں بڑھاپے کی کمزوری سے دوچار کر دیا۔ وہ جو چاہتا ہے پیدا کرتا ہے وہ بڑا علم اور قدرت والا ہے۔
 قیامت کے دن ظالموں کی عذرخواہی ان کے کسی کام نہیں آئے گی اور نہ ہی ان کی مشکلات میں کمی کا باعث بنے گی۔
 لوگوں کو سمجھانے کے لئے قرآن کریم میں ہر قسم کی مثالیں دے دی گئی ہیں، لیکن باطل پرست اسے ماننے کے لئے تیار نہیں ہوتے۔ بے علم لوگوں کے دلوں میں مہریں لگی ہوئی ہیں۔ آپ دین پر ثابت قدمی کا مظاہرہ کرتے رہیں۔

             *سورہ لقمان*

حکمت و دانائی کے پیکر حضرت لقمان حکیم کے تذکرہ کی بناء پر یہ سورت ’’لقمان‘‘ کے نام سے موسوم ہے۔ ابتداء سورت میں قرآن کریم کے کامل اور حکمت و دانائی سے بھرپور ہونے کے تذکرہ کے ساتھ اس سے استفادہ کرنے والوں کی صفات اور خوبیوں کا تذکرہ ہے۔ ان کے ہدایت و فلاح پانے کی نوید ہے اور قرآنی ہدایت کے راستہ میں رکاوٹیں پیدا کرنے اور روڑے اٹکانے والوں کی مذمت ہے۔
 اس کے بعد جنت و جہنم کے مستحقین کا تذکرہ اور اللہ کی بے پایاں قدرت کے دلائل کا بیان ہے۔ پھر چیلنج کیا گیا ہے کہ یہ سب کچھ تو اللہ کی تخلیق ہے۔ آپ لوگ بتائیں کہ غیر اللہ نے کیا پیدا کیا ہے؟ 
پھر لقمان کی حکمت و دانائی کو عطاء خداوندی قرار دے کر ان کی پند و نصائح کو بیان کیا گیا ہے۔
 انہوں نے اپنے بیٹے کو نصیحت کرتے ہوئے شرک سے بچنے کی تعلیم دیتے ہوئے بتایا کہ ماں اپنے بچے کو دو سال تک جب دودھ پلاتی ہے تو کمزوری در کمزوری کا شکار ہوتی چلی جاتی ہے۔
 والدین کی اطاعت کی حدود بھی بیان کر دیں کہ شرک اور اللہ کی نافرمانی میں ان کی بات نہیں مانی جائے گی۔ البتہ دنیا میں ان کے ساتھ بھلائی اور خیر کے معاملات میں تعاون جاری رہے گا، مگر اتباع ایسے افراد کی کی جائے جو اللہ کی طرف رجوع کرنے والے ہوں۔
 انسان کی محنت پر بدلہ ملتا ہے۔ اگر رائی کے دانے کے برابر عمل آسمان و زمین کی وسعتوں میں بکھرا ہوا یا کسی چٹان کی تہہ میں چھپا ہوا ہو گا تو اللہ تعالیٰ اسے بھی نکال کر لے آئیں گے اور اس کے مطابق بدلہ مل کر رہے گا۔
 اقامت صلوٰۃ، امر بالمعروف و نہی عن المنکر کرتے رہو اور مشکلات و مصائب میں صبر سے کام لو۔ یہ بڑے عزم و ہمت کی بات ہے۔ 
تکبر و غرور کی بجائے عجز و انکساری کا پیکر بن کر زندگی گزارو، اللہ تعالیٰ کو مغرور و متکبر لوگ پسند نہیں ہیں۔ زندگی میں اعتدال و میانہ روی اختیار کرو اور نرم گفتاری کی عادت بناؤ اور گدھے کی طرح بے ہنگم آواز نکالنے سے بچنے کی تلقین کی۔ 
پھر کائنات کے دلائل و شواہد میں غور و خوض کے ساتھ توحید باری تعالیٰ تک رسائی حاصل کرنے کی طرف متوجہ کرتے ہوئے اللہ کی بے حد و حساب خوبیوں اور صفات کو ایک حسین پیرائے میں بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ اگر دنیا کے تمام درختوں کی قلمیں بنا کر اور ساتوں سمندروں کی سیاہی بنا کر اللہ کی تعریف لکھنی شروع کر دی جائے تو قلم اور سیاہی ختم ہو جائے گی مگر حمد باری تعالیٰ ختم نہیں ہو گی۔ 
اس کے بعد قیامت کے دن کی ہولناکی اور انسانی بے چارگی کو بیان کیا کہ وہاں پر ہر انسان اپنی پریشانیوں میں اس قدر الجھا ہوا ہو گا کہ باپ اولاد کے کام نہیں آئے گا اور اولاد اپنے باپ کے لئے کچھ نہیں کرسکے گی۔ لہٰذا دنیا کی عارضی زندگی اور شیطان کے دھوکہ میں نہیں پڑنا چاہئے۔ 
قیامت کب آئے گی؟ بارش کب برسے گی؟ رحمِ مادر میں کیا ہے؟ کوئی شخص کل کو کیا کرے گا؟ اور کون کس سرزمین میں آسودۂ خاک ہو گا؟ اللہ ہی ان باتوں کا علم رکھتے ہیں وہ یقیناً بہت زیادہ علم اور خبر رکھنے والے ہیں۔
 
               *سورہ السجدۃ*

سورت کے شروع میں قرآن کریم کے کلام رب العالمین ہونے اور تمام شکوک و شبہات سے بالاتر ہونے کا بیان ہے۔ پھر توحید باری تعالیٰ پر کائناتی شواہد اور تخلیق انسانی کے مختلف مراحل سے استدلال کرتے ہوئے بتایا ہے کہ انسان بوسیدہ ہو کر زمین کی وسعتوں میں گم ہو جائے گا تب بھی اللہ تعالیٰ اسے دوبارہ زندہ کر لیں گے۔
 پھر مجرمین کی مذمت اور قیامت کے دن ان کی بے کسی اور بے بسی کو ذکر کرتے ہوئے انہیں جہنم کی ذلت و رسوائی کا مستحق قرار دیا ہے جبکہ ایمان والے جن کی زندگیاں عجز و انکساری کا پیکر بن کر رکوع، سجدے اور تسبیح و تحمید میں گزرتی ہیں ان کے لئے آنکھوں کی ٹھنڈک اور جنت کے باغات میں بہترین مہمانی اور عمدہ ترین جزا کا مژدہ سنایا گیا ہے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام اور ان کی کتاب ہدایت بنی اسرائیل کے لئے نظام حیات کے طور پر عطاء کی گئی، اس سلسلہ میں کسی قسم کے شکوک و شبہات میں پڑنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔
 یہ لوگ سوال کرتے ہیں کہ حق کی فتح کا دن کون سا ہو گا؟ آپ بتا دیجئے کہ فتح کا دن جب آئے گا تو تمہارا ایمان کام نہیں آ سکے گا۔ لہٰذا ان سے چشم پوشی کرتے ہوئے اللہ کے فیصلہ کا آپ بھی انتظار کیجئے۔ وہ بھی انتظار کر رہے ہیں۔

               *سورہ الاحزاب*

الاحزاب سے گروہ اور جماعتیں مراد ہیں۔ مشرکین مکہ نے تمام عرب کے قبائل کو اسلام کے خلاف آمادۂ جنگ کر کے مدینہ منورہ کا محاصرہ کر لیا تھا۔ حضور علیہ السلام نے مسلمانوں کے مشورہ سے اپنے دفاع کے لئے خندق کھود لی تھی اس لئے اسے غزوہ احزاب یا غزوۂ خندق کہا جاتا ہے۔
 اس سورت میں مدنی سورتوں کی طرح قانون سازی کے ساتھ ساتھ اس واقعہ کا بھی تذکرہ ہے۔ اس لئے اسے ’’الاحزاب‘‘ کے نام سے موسوم کیا گیا ہے۔ 
سورت کی ابتداء میں ’’تقویٰ‘‘ کے حکم کے ساتھ کافروں اور منافقوں کی عدم اطاعت اور وحی الٰہی کے اتباع اور توکل کی تلقین ہے۔
 اس کے بعد بتایا کہ کسی کے سینہ میں اللہ نے دو دل نہیں رکھے۔ 
ظہار یعنی اپنی بیویوں کی کمر کو اپنی ماؤں کی کمر کے مشابہ قرار دینے کی مذمت کرتے ہوئے ’’منہ بولے‘‘ رشتوں کے احکام بیان کئے ہیں کہ کسی کو بیٹا، بیٹی، بہن یا ماں کہہ دینے سے یہ رشتے ثابت نہیں ہو جاتے۔ لہٰذا متنبی کو اس کے باپ کی طرف ہی منسوب کیا جائے اور اپنے بھائی یا اتحادی قرار دیا جائے۔
 ایمان والوں پر نبی کا حق سب سے زیادہ ہے اور نبی کی زوجات مطہرات ’’امہات المؤمنین‘‘ ہیں۔ 
پھر غزوہ احزاب میں پورے عرب کے کفر کا اجتماع اور ہر طرف سے یلغار کے مقابلہ میں اللہ کی مدد و نصرت کا تذکرہ ہے کہ اللہ نے تیز ہوا چلا کر نصرت فرمائی اور مشرکین کے قدم اکھاڑ دیئے۔ منافقین اور یہودیوں کی مذمت ہے، جنہوں نے اس موقع پر اسلام اور مسلمانوں کو نقصان پہنچانے میں کوئی کسر نہیں اٹھا رکھی۔
 پھر غزوہ بنی قریظہ میں یہود کے مقابلہ میں اللہ کی نصرت اور ان کی جائیدادوں اور زمینوں پر مسلمانوں کے قبضہ کو یاد دلا کر ہر چیز پر اللہ کی قدرت و غلبہ کی تمہید بنائی گئی ہے اور آخر میں ’’آیت تخییر‘‘ ہے، جس میں ازواج مطہرات کے سالانہ نفقہ میں اضافہ کے مطالبہ پر انہیں مطالبہ سے دستبردار ہو کر حرم نبوی میں رہنے یا علیحدگی اختیار کر لینے کا حکم دیا گیا،
 جس پر تمام امہات المؤمنین نے حرم نبوی میں رہنے کو ترجیح دیتے ہوئے کسی بھی قسم کے مالی مطالبہ سے دستبرداری کا اظہار کر دیا، جس پرا للہ نے ان مخلص خواتین کے لئے اجر عظیم کا وعدہ کرنے کا اعلان کیا ہے۔

کوئی تبصرے نہیں:

حالیہ اشاعتیں

مقوقس شاہ مصر کے نام نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کا خط

سیرت النبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم..قسط 202 2.. "مقوقس" _ شاہ ِ مصر کے نام خط.. نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک گرامی ...

پسندیدہ تحریریں