*پارہ~~~15~~~ سُبْحَانَ الّذِی*

          سورہ الاسراء اس سورت کے مضامین میں غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ توحید اور قیامت کے اثبات کے ساتھ اخلاق فاضلہ کی تعلیم بھی ہے مگر مرکزی مضمون اثبات رسالت اور خاص طور پر ’’رسالت محمدیہ‘‘ کا اثبات ہے۔ 
جس ذات نے اپنے بندہ کو رات کے تھوڑے سے حصہ میں مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ تک کا سفر کرا دیا وہ ہر قسم کی کمزوری اور نقص سے پاک ہے۔
 مسجد اقصیٰ جس کے چاروں طرف مادی اور روحانی برکتیں پھیلی ہوئی ہیں کہ پھل پھول اور باغات کی سرزمین ہونے کے علاوہ نبیوں اور فرشتوں کی بعثت و نزول کی جگہ ہے۔
 ’’عبد‘‘ چونکہ جسم و روح کے مجموعہ کو کہتے ہیں اس لئے معراج نبی عالم بیداری میں بہ نفس نفیس پیش آیا تھا۔
 آیت نمبر ۶۰ میں معراج کے سفر کو مؤمن اور کافر میں امتیاز اور فرق کا ذریعہ قرار دیا ہے اور یہ تبھی ہو سکتا ہے جب جاگتے ہوئے جسمانی سفر کی شکل میں ہو۔ ورنہ خواب تو کوئی بھی دیکھ سکتا ہے۔
 ہم نے موسیٰ علیہ السلام کو بنی اسرائیل کی ہدایت کے لئے کتاب عطا فرمائی اور ساتھ ہی یہ بھی بتا دیا کہ تم اللہ کی کتاب پر عمل کرنے کی بجائے زمین میں سرکشی اور بغاوت پھیلاؤ گے اور دو مرتبہ بڑا فساد کرو گے۔ پہلی مرتبہ حضرت زکریا علیہ السلام کو قتل کر کے ظلم و ستم کا بازار گرم کیا اور اللہ تعالیٰ کے احکام سے بغاوت میں حد کر دی تو شاہ بابل بخت نصر کی شکل میں تم پر عذاب مسلط کیا جس نے چادر اور چاردیواری کے تقدس کو پامال کیا۔ پھر جب تم نے توبہ کی تو ہم نے دوبارہ تمہیں اقتدار اور مال و دولت سے نواز دیا۔ 
اس کے بعد ضابطۂ خداوندی کو بیان کیا کہ اگر کوئی قوم اپنا رویہ درست رکھے تو اس میں ان کا اپنا فائدہ ہے اور اگر بغاوت و سرکشی کرے تو اس میں اس کا اپنا ہی نقصان ہے۔ 
پھر تم نے اللہ کے نبی یحییٰ علیہ السلام کے قتل کی صورت میں قتل و بربریت اور فساد کی آگ بھڑکائی، مجوسیوں کے اقتدار کی شکل میں تم پر عذاب اتارا جنہوں نے قتل و غارت گری کے ذریعہ تمہیں تباہی کے دہانے پر پہنچا دیا۔ پھر اللہ نے اپنے رحم و کرم سے تمہیں بچایا لیکن اگر تم نے اپنی حرکتیں نہ چھوڑیں تو ہمارے عذاب کی شکل پھر لوٹ سکتی ہے۔ 
جب کسی آبادی کے مقتدر لوگ سرکشی و نافرمانی پر اتر آئیں تو ہم انہیں عذاب اتار کر ملیا میٹ کر دیا کرتے ہیں۔
 اس کے بعد اخلاق فاضلہ کی تعلیم دیتے ہوئے والدین کے ساتھ حسن سلوک کرنے اور فضول خرچی سے بچنے کی تلقین فرمائی ہے۔
 پھر روزی کی کمی کے ڈر سے اولاد کو قتل کرنے کی مذمت کرتے ہوئے بتایا ہے کہ تمہاری روزی بھی اللہ کے ذمہ ہے اور تمہاری اولاد کی روزی بھی اللہ ہی کے ذمہ ہے۔ 
زنا کاری سے بچو ناحق قتل نہ کرو، یتیم کا مال ناجائز طریقہ سے نہ کھاؤ، عہد شکنی نہ کرو، ناپ تول میں کمی نہ کرو، بغیر تحقیق کے کسی بات کو نقل نہ کرو، زمین پر متکبرانہ انداز میں نہ چلو۔ یہ سب برائی کے ناپسندیدہ کام ہیں۔ تمہارے رب کی طرف سے حکمت سے بھرپور وحی بھیجی جا رہی ہے۔ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ ورنہ جہنم میں قابل ملامت اور ملعون بن کر پڑے رہو گے۔
قرآن کریم میں ہر بات کو مختلف انداز میں ہم بیان کرتے ہیں تاکہ یہ لوگ نصیحت حاصل کر لیں مگر یہ لوگ حق سے اور بھی دور ہوتے چلے جا رہے ہیں۔
 آسمان و زمین کی ہر چیز اللہ کی تسبیح و تحمید کرتی ہے۔ تم اسے سمجھنے سے قاصر ہو۔ جب آپ قرآن کریم کی تلاوت فرماتے ہیں تو آپ کے اور بے ایمانوں کے درمیان میں ایک حد فاصل قائم ہو جاتی ہے ان کے دلوں پر پردہ پڑ جاتا ہے ان کے کانوں میں ڈاٹ لگ جاتے ہیں اور اکیلے وحدہٗ لاشریک رب کا تذکرہ سن کر یہ لوگ دور بھاگنے لگتے ہیں اور قرآن سنتے ہوئے یہ ظالم باہمی سرگوشیوں میں کہنے لگتے ہیں کہ یہ مسلمان تو ایک جادو زدہ شخص کی پیروی کر رہے ہیں۔
 یہ لوگ ہڈیوں کو بوسیدہ اور پرانا دیکھ کر کہتے ہیں کہ انہیں کس طرح زندہ کیا جائے گا۔ یہ لوگ اگر سخت ترین چیز لوہے اور پتھر میں بھی تبدیل ہو جائیں تو جس ذات نے انہیں پہلے پیدا کیا تھا وہ دوبارہ بھی پیدا کر لے گا۔ 
تمہارا رب تمہیں بہت اچھی طرح جانتا ہے وہ جانتا ہے کہ کس کو عذاب دینا ہے کس پر رحم کرنا ہے۔ تیرے رب کے عذاب سے ڈرنا ہی چاہئے، جس بستی کی ہلاکت یا عذاب قیامت سے پہلے مقدر ہے وہ ہمارے پاس لکھی ہوئی ہے۔ ہم اپنی نشانیاں اس لئے ظاہر نہیں کرتے کہ لوگ انہیں دیکھ کر ماننے کی بجائے انکار پر اتر آتے ہیں اور اس طرح وہ عذاب کے مستحق قرار پا جاتے ہیں۔ 
ہم نے قوم ثمود کی مطلوبہ نشانی اونٹنی کی شکل میں بھیج دی تھی انہوں نے ا س پر ظلم کر کے اپنی ہلاکت کو خود ہی دعوت دی۔ ہم تو ڈرانے اور راہِ راست پر لانے کے لئے نشانیاں اتارا کرتے ہیں۔
 اس کے بعد خیر و شر کے ازلی معرکہ کا آئینہ دار قصۂ آدم و ابلیس ذکر کر کے انسان کو شیطان کے گمراہ کن داؤ پیچ سے بچنے کی تلقین فرمائی ہے اور بتایا ہے کہ بحرو بر میں انسانی مشکلات کو اللہ کے سوا کوئی نہیں حل کرسکتا۔
پھر بتایا کہ تمام مخلوقات میں انسان کو خصوصی فضیلت اور اعزاز کا مستحق قرار دیا گیا ہے۔ قیامت کے دن انسان کے نامۂ اعمال کے مطابق اس کے مستقبل کا فیصلہ کیا جائے گا۔ جو شخص دنیا میں اپنی آنکھوں سے دلائل قدرت کا مشاہدہ کر کے بھی کفر کے اندھے پن سے نجات حاصل نہ کرسکا وہ ان دیکھی آخرت کے بارے میں زیادہ اندھے پن کا مظاہرہ کرے گا۔
 یہ لوگ دوستی کا دم بھر کر آپ کو وحی الٰہی کے مقابلہ میں خود ساختہ باتیں بیان کرنے پر مجبور کرنا چاہتے ہیں مگر ہماری دی ہوئی توفیق سے آپ حق پر ثابت قدمی کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔ اگر آپ ان کافروں کی طرف میلان کا اظہار کرتے تو ہم دنیا و آخرت دونوں جہانوں میں آپ کو عذاب میں مبتلا کر دیتے۔ جس طرح پہلے لوگوں نے اپنے رسولوں کو اپنے وطن سے نکال کر عذاب کو دعوت دی تھی مکہ والے بھی ایسا ہی کرنا چاہتے تھے مگر ہم نے آپ کے اعزاز میں آپ کی قوم کو عذاب سے بچانے کے لئے انہیں ایسا نہیں کرنے دیا۔
 آپ صبح و شام نماز پڑھیں اور قرآن کریم کی تلاوت کریں۔ فجر کے وقت قرآن سننے کے لئے دن رات کے فرشتوں کا خصوصی اجتماع ہوتا ہے۔ رات کو تہجد کا اہتمام جاری رکھیں۔ آپ کو ’’مقام محمود‘‘ عطا کرنے کا وعدہ کیا جا رہا ہے۔ حق آنے پر باطل زائل ہو جایا کرتا ہے۔ 
قرآن کریم مؤمنین کے لئے شفاء و رحمت ہے اور ظالموں کے لئے خسارہ اور نقصان کا باعث ہے۔
 روح اللہ کا ایک امر ہے، اس کی حقیقت کو جاننے کی علمی صلاحیت تمہارے اندر مفقود ہے۔ ساری دنیا کے جنات و انسان مل کر بھی قرآن کریم جیسا کلام بنانے پر قادر نہیں ہو سکتے۔
 پھر حضرت موسیٰ علیہ السلام کا فرعون کے ساتھ مباحثہ اور انہیں عطا کی جانے والی نو نشانیوں کا اجمالی تذکرہ کیا اور فرعون نے جب موسیٰ علیہ السلام اور ان کے ساتھیوں کو ملک بدر کرنا چاہا تو ہم نے فرعونیوں کو غرق کر کے ان کا قصہ ہی تمام کر دیا۔ 
قرآن کریم حق کے ساتھ اترا ہے اسے تھوڑا تھوڑا کر کے اتارنے کی حکمت یہ ہے کہ آپ انہیں ٹھہر ٹھہر کر پڑھ کر سناتے رہیں اور ان کی دل جمعی کا باعث بنتا رہے۔ اپنی دعا میں نہ زیادہ چلاؤ اور نہ ہی بالکل خفیہ آواز رکھو بلکہ میانہ روی اختیار کرو۔ 
سورت کے آخر میں فرمایا آپ اعلان کر دیں کہ تمام تعریفیں اس اللہ کے لئے ہیں، جس کی نہ کوئی اولاد ہے اور نہ ہی اس کے ملک میں کوئی شریک ہے۔       
       
    *سورہ الکہف* 

الکہف عربی میں غار کو کہتے ہیں، اس سورت میں چند ایمان والے نوجوانوں کا ذکر ہے، جنہیں ایمان کے تحفظ کے لئے غار میں پناہ لینی پڑی تھی اس لئے پوری سورت کو کہف کے نام سے موسوم کر دیا۔
 مشرکین کے تین سوالوں کے جواب میں یہ سورت اتری تھی۔
 روح کیا ہے ؟
اس کا جواب سورۂ بنی اسرائیل میں ہے۔ 
کہف میں پناہ لینے والے نوجوانوں کے ساتھ کیا بیتی ؟
اور مشرق و مغرب میں فتح و کامرانی کے جھنڈے گاڑنے والے بادشاہ کا کیا واقعہ ہے ؟
ان دونوں سوالوں کا جواب اس سورت میں دیا گیا ہے۔
اس سورت میں چار واقعات (۱)اصحاب کہف (۲)آدم و ابلیس (۳)موسیٰ و خضر (۴)ذوالقرنین کا ذکر ہے 
جبکہ دنیا کی بے ثباتی کے بیان کے لئے دو مثالیں دی گئی ہیں۔
 ابتداء میں تمام تعریفوں کا مستحق اللہ کو قرار دے کر بتایا ہے کہ اسی نے واضح اور ہر قسم کی کجی سے پاک و صاف قرآن اتارا ہے پھر اللہ کے لئے اولاد ثابت کرنے والوں کی مذمت کرتے ہوئے بتایا ہے کہ اس سرزمین پر ہر قسم کی نعمتیں اور آسائشیں اتار کر انسان کی آزمائش مقصود ہے۔
 پھر اصحاب کہف کا واقعہ شروع کر دیا۔ ان کا واقعہ اللہ کی نشانیوں میں سے ایک نشانی ہے اور دعوت الی اللہ اور جہاد فی سبیل اللہ کے اس مرحلہ کو بیان کرتا ہے جس میں حکمت عملی کے تحت کارکنوں کو زیرِ زمین ہونا پڑتا ہے۔ 
حضور علیہ السلام سے تقریباً تین سو سال قبل اردن کے ملک میں دقیانوس نامی بادشاہ تھا، اس نے اپنی حکومت کو مضبوط کرنے کے لئے ملک کے ہر علاقہ سے نمائندے طلب کئے، جن میں چند نوجوان ایسے نکلے جو اس کے کفر و شرک اور ظلم و ستم میں اس کی حمایت کے لئے تیار نہیں تھے۔ انہوں نے بادشاہ سے مہلت طلب کی اور باہمی مشورہ کر کے طے کیا کہ ایمان و کفر میں سے ایک چیز کا انتخاب کرنا ہو گا۔
 لہٰذا ایمان بچانے کے لئے یہ لوگ رات ہی رات خاموشی سے نکل کھڑے ہوئے۔ ایک کتا بھی ان کے پیچھے ہولیا۔ لمبا سفر کر کے یہ لوگ تھک گئے اور ایک غار میں آرام کے لئے لیٹ گئے اور کتا غار کے دہانے پر بیٹھ کر سوگیا۔ جب یہ لوگ دوسرے روز بادشاہ کو نہ ملے تو انہیں تلاش کرایا گیا اور پھر مایوس ہو کر ان کے نام ایک تختی پر لکھ کر رکھ دیئے گئے۔ 
یہ لوگ غار میں پڑے سوتے رہے سردی گرمی، دن رات ہر حال میں اللہ نے ان کی حفاظت کی۔ ان کی آنکھیں کھلی ہوئی تھیں اور یہ کروٹیں بھی بدلتے تھے۔ دیکھنے والا انہیں بیدار خیال کر کے مرعوب ہو کر بھاگ جاتا۔ کتا بھی غار کے دہانہ پر ایسے بیٹھا ہوا سورہا تھا جیسے وہ گھات لگا کر کسی پر حملہ آور ہونا چاہتا ہو جب اللہ نے انہیں بیدار کیا تو آپس میں ایک دوسرے سے پوچھنے لگے کہ ہمیں سوتے ہوئے کتنا وقت گزرا ہو گا۔
 ان کا خیال تھا کہ ایک دن یا آدھا دن ہوا ہو گا مگر اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ شمسی حساب سے تین سو سال اور قمری حساب سے تین سو نوسال تک یہ لوگ سوتے رہے تھے۔
 بیدار ہونے پر انہیں بھوک نے ستایا۔ رقم جمع کر کے ایک آدمی کو احتیاط کے تمام پہلو مد نظر رکھتے ہوئے کھانا لینے کے لئے شہر بھیجا، جس ہوٹل سے اس نے کھانا لیا اس کے مالک نے پرانے سکے دیکھ کر اسے پولیس کے حوالہ کر دیا۔ اس طرح اسے بادشاہ کے دربار میں پہنچا دیا گیا۔ 
ان دنوں وہاں کا بادشاہ مسلمان تھا مرنے کے بعد زندہ ہونے کا قائل تھا۔ لوگ اس کے عقیدہ کو نہیں مانتے تھے وہ دعائیں کیا کرتا تھا کہ اللہ کی کوئی ایسی نشانی ظاہر ہو کہ وہ اپنی قوم کو صحیح عقیدہ کا قائل کرسکے۔
 جب اس نوجوان کو اس کے سامنے پیش کیا گیا اور تحقیقات سے پتہ چلا کہ یہ ان نوجوانوں کا ساتھی ہے، جن کے نام آج سے تین صدیاں قبل ایک تحریر کی شکل میں محفوظ کر دیئے گئے تھے تو بہت خوش ہوا۔ لوگ اس واقعہ کو سن کر ایمان لے آئے اور جہاں اصحاب کہف دریافت ہوئے تھے ان کی یادگار کے طور پر مسجد تعمیر کر دی گئی۔ 
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ دوبارہ زندہ کرنے سے ہم لوگوں کو یہی پیغام دینا چاہتے تھے کہ قیامت برحق ہے اور مرنے کے بعد ہر انسان کو زندہ ہونا ہے۔
 یہ لوگ تین تھے چوتھا کتا تھا۔ پانچ تھے چھٹا کتا تھا یا سات تھے آٹھواں کتا تھا۔ اللہ ہی جانتے ہیں کہ ان کی صحیح تعداد کتنی تھی اور اس سے کوئی فرق بھی نہیں پڑتا۔ اللہ کی قدرت ہر حال میں ظاہر ہو جاتی ہے۔
 کافروں کے سوالوں کے جواب میں حضور علیہ السلام نے فرما دیا تھا کہ کل جواب دے دوں گا اور ان شاء اللہ نہیں کہا تھا۔ اللہ تعالیٰ کو یہ بات ناپسند ہوئی اور فرمایا کہ آئندہ جب بھی کوئی کام کرنا ہو تو ان شاء اللہ کہا کریں۔
 پھر قرآن کریم پر غیر متزلزل ایمان رکھنے اور اسے دوسروں تک پہنچانے کا حکم دیا اور غریب اہل ایمان کے ساتھ اٹھنے بیٹھنے کی تلقین فرمائی۔ پھر جنت جہنم کا تذکرہ کیا اور دو دوستوں کی مثال دی جن میں ایک کافر، متکبر اور مال و دولت کا پجاری دوسرا غریب متواضع اور اللہ کی مشیت پر راضی۔
 اللہ نے کافر کا مال و دولت تباہ کر کے بتا دیا کہ جب اللہ کی پکڑ آ جائے تو اس سے کوئی نہیں بچ سکتا۔ 
پھر دنیا کی زندگی کی بے ثباتی کی مثال دے کر بتایا کہ بارش کے نتیجہ میں کھیتیاں لہلہانے لگتی ہیں مگر اچانک کسی آفت سے تباہ ہو کر رہ جاتی ہیں اور کسان ہاتھ ملتا رہ جاتا ہے۔
 پھر آدم و بلیس کا قصہ ہے۔ قرآن کریم میں ہر قسم کے انسانوں کی رہنمائی کے لئے مختلف پیرائے اور اسالیب میں دلائل پیش کرنے کا تذکرہ اور اس بات کا بیان ہے کہ اللہ اگر دنیا کو ہلاک کرنا چاہے تو کوئی روک نہیں سکتا۔ مگر اس نے ایک وقت مقرر کیا ہوا ہے اور اس کی رحمت کے تقاضے کے پیش نظر گناہ گاروں کو مہلت دی ہوئی ہے۔
 پھر حضرت موسیٰ و خضر علیہما السلام کے واقعہ کا بیان ہے۔ ایک مرتبہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے بڑی زبردست تقریر فرمائی، جس سے لوگ بہت متأثر ہوئے اور پوچھنے لگے کہ آپ سے بڑا کوئی عالم ہے؟ آپ نے اپنی معلومات کے مطابق فرما دیا کہ مجھ سے بڑا اس وقت کوئی عالم نہیں ہے۔
 اللہ تعالیٰ نے آپ کو دنیا کے سب سے بڑے عالم سے ملاقات کے لئے رخت سفر باندھنے کا حکم دیا اور زاد راہ کے طور پر ایک بھنی ہوئی مچھلی ساتھ لینے کے لئے فرمایا۔
 حضرت موسیٰ ارشاد خداوندی کے مطابق ایک شاگرد کو ساتھ لے کر مقررہ سمت میں روانہ ہو گئے۔ ساحل سمندر پر آپ کا سفر جاری رہا۔ ایک جگہ تھک کر آرام کرنے کے لئے ٹھہرے تو مچھلی سمندر میں چلی گئی اور ایک سرنگ نما راستہ بناگئی۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام اس سرنگ میں پانی کے اندر چلے گئے، جہاں حضرت خضر علیہ السلام سے ملاقات پر ان سے تحصیل علم کے لئے درخواست کی، انہوں نے فرمایا کہ میرا علم آپ کی قوت برداشت سے باہر ہے۔ آپ میری باتوں پر صبر نہیں کرسکیں گے۔
 حضرت موسیٰ علیہ السلام نے صبر کرنے اور کسی قسم کے سوالات نہ کرنے کا دعویٰ کیا،
 جس پر موسیٰ و خضر علیہما السلام ’’علمی سفر‘‘ پر سمندر کے کنارے کنارے روانہ ہو گئے۔


کوئی تبصرے نہیں:

حالیہ اشاعتیں

مقوقس شاہ مصر کے نام نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کا خط

سیرت النبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم..قسط 202 2.. "مقوقس" _ شاہ ِ مصر کے نام خط.. نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک گرامی ...

پسندیدہ تحریریں