زمانہ حج اور اخلاقی حدود


الْحَجُّ ۔۔۔  أَشْهُرٌ۔۔۔  مَّعْلُومَاتٌ ۔۔۔  فَمَن ۔۔۔ فَرَضَ ۔۔۔فِيهِنَّ 
حج ۔۔ مہینے ۔۔ معلوم ۔۔۔ پھر جو ۔۔۔ لازم کیا اس نے ۔۔ ان میں 
الْحَجَّ ۔۔۔  فَلَا رَفَثَ ۔۔۔  وَلَا فُسُوقَ ۔۔۔ وَلَا جِدَالَ ۔۔۔۔ فِي الْحَجِّ
حج ۔۔۔ تو نہیں بے حجاب ہونا عورت سے ۔۔۔ نہ گناہ کرنا ۔۔۔ اور نہ جھگڑا کرنا ۔۔۔ حج میں 

الْحَجُّ أَشْهُرٌ مَّعْلُومَاتٌ فَمَن فَرَضَ فِيهِنَّ الْحَجَّ فَلَا رَفَثَ وَلَا فُسُوقَ وَلَا جِدَالَ فِي الْحَجِّ

حج کے چند مہینے معلوم ہیں ۔ پس جس نے ان میں حج لازم کر لیا تو عورت سے بے حجاب نہ ہو اور نہ حج کے زمانہ میں گناہ اور جھگڑا کرے ۔ 
اَشْهُرُ ۔( مہینے) ۔ حج کے لئے شوال ۔ ذی قعدہ  اور ماہ ذالحج کے دس دن مقرر ہیں ۔ حج کے اصل ارکان ذی الحجہ کے دوسرے ہفتہ میں ادا ہوتے ہیں ۔ لیکن احرام دو ماہ پہلے شوال ہی کے مہینے سے باندھنا شروع ہو جاتا ہے ۔
 احرام اس پوشاک کا نام ہے ۔ جو حرم ( میقات ) کی حدود میں داخل ہوتے ہی ہر حاجی پر واجب ہو جاتی ہے ۔ 
یہ پوشاک کیا ہے ؟ بغیر سلی دو چادریں ۔ 
حضرت اما م ابو حنیفہ رحمہ الله کا قول ہے حاجی جب چاہے احرام باندہ سکتا ہے ۔  لیکن ماہِ شوال سے پہلے اس کا احرام باندھنا ناپسندیدہ ہے ۔ ان کے نزدیک شوال سے  پہلے بھی احرام باندھ لینا اس لئے جائز ہے کہ احرام حج کا رُکن نہیں ۔ بلکہ صرف حج کے لئے شرط ہے ۔ 
فَرَضَ فيهنّ الْحج ( ان میں حج لازم کر لیا ) ۔ یعنی حج کے موسم میں حج کرنے کی نیت کرلی اور حج اپنے اوپر واجب کر لیا ۔ اس کے لئے لازم کرنے کی عملی نشانی احرام باندھ لینا 
رَفَث ۔( عورت سے بے حجاب ہونا ) ۔ یہاں مراد ہے بیوی سے خلوت کے ساتھ مضصوص باتوں کا کرنا ۔ 
فُسُوق ۔( گناہ) ۔ اس سے مراد ہر قسم کے چھوٹے بڑے گناہ ہیں ۔ 
جِدَال  (جھگڑا کرنا ) ۔ مار پیٹ ، ہاتھا پائی ، حجت ، تکرار ، گالی گلوچ اور نا شائستہ الفاظ سے خطاب کرنا ۔ 
اس آیت میں حج کے چند ضروری احکام بیان کئے گئے ہیں ۔ 
حج کے مہینے  مقرر کر دئیے گئے ہیں ۔ اور اس کے دوران خاص طور پر تین باتوں سے باز رہنے کی تلقین کی گئی ہے ۔ 
1- بیوی  کے ساتھ اختلاط اور بے حجابی بالکل ممنوع ہے ۔ حتٰی کہ شہوانی خیالات زبان پر لانے کی بھی اجازت نہیں ۔ جس طرح روزہ میں کئی جائز امور سے پرھیز کا حکم ہے ۔ اسی طرح حج کے زمانہ میں بھی پوری طہارت اور پاکیزگی برقرار رکھنے کا حکم ہے ۔ 
2- تمام قسم کے چھوٹے اور بڑے گناہوں سے بچا جائے ۔  ظاہر ہے کہ احرام کی حالت میں جب کئی جائز کام بھی ناجائز ہو جاتے ہیں تو دوسرے گناہوں سے تو بچنے کی سختی سے تلقین لازمی تھی ۔ 
3- ہر قسم کے جھگڑے سے پرھیز کرنا چاہئیے ۔  حج کے موقع پر دنیا  کے تمام حصوں سے لوگ آتے ہیں ۔  ہر عمر ، ہر قماش اور ہر مزاج کے لوگ ہوتے ہیں ۔ ایسے موقعوں پر کسی قسم کی بدکاری اور جھگڑوں کی طرف رغبت ہو سکتی ہے ۔ اس لئے الله تعالی نے ان تمام باتوں سے پہلے ہی منع کر دیا ۔ تاکہ مسلمانوں میں پاکدامنی اور قوت برداشت پیدا ہو ۔ 
درس قرآن ۔۔ مرتبہ درس قرآن بورڈ 

حج اور عمرہ کی قربانی

حج اور عمرہ کی قربانی 


فَإِذَا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔  أَمِنتُمْ ۔۔۔۔۔۔۔۔ فَمَن۔۔۔  تَمَتَّعَ ۔۔۔ بِالْعُمْرَةِ ۔۔۔ إِلَى ۔۔۔ الْحَجِّ 

پس جب ۔۔ تم امن میں ہو ۔۔۔ پس جو ۔۔ فائدہ اٹھائے ۔۔۔ تک ۔۔۔ حج 

فَمَا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اسْتَيْسَرَ۔۔۔۔  مِنَ ۔۔۔ الْهَدْيِ ۔۔۔ فَمَن ۔۔۔ لَّمْ يَجِدْ 

پس جو ۔۔۔ میسر ہو ۔۔۔ سے ۔۔۔  قربانی ۔۔۔ پس جو ۔۔۔ نہ پائے 

فَصِيَامُ ۔۔۔۔۔۔ ثَلَاثَةِ ۔۔۔ أَيَّامٍ ۔۔۔فِي الْحَجِّ ۔۔۔ وَسَبْعَةٍ 

پس روزے ۔۔۔ تین ۔۔ دن ۔۔۔ حج میں ۔۔۔ اور سات 

إِذَا ۔۔۔ رَجَعْتُمْ ۔۔۔۔۔۔۔۔ تِلْكَ ۔۔۔۔  عَشَرَةٌ ۔۔۔ كَامِلَةٌ

جب ۔۔ تم واپس لوٹو ۔۔۔ یہ ۔۔۔ دس ۔۔۔ پورے 


فَإِذَا أَمِنتُمْ فَمَن تَمَتَّعَ بِالْعُمْرَةِ إِلَى الْحَجِّ فَمَا اسْتَيْسَرَ مِنَ الْهَدْيِ فَمَن لَّمْ يَجِدْ فَصِيَامُ ثَلَاثَةِ أَيَّامٍ فِي الْحَجِّ وَسَبْعَةٍ إِذَا رَجَعْتُمْ تِلْكَ عَشَرَةٌ كَامِلَةٌ 


پس جب تمہاری خاطر جمع ہو تو جو کوئی فائدہ اٹھائے عمرے کو حج کے ساتھ ملا کر تو جو کچھ قربانی میسر ہو ۔ پھر جسے قربانی نہ ملے وہ روزے رکھے تین دن حج کے دنوں میں اور سات روزے جب تم لوٹو ۔ یہ دس پورے ہوئے ۔ 

أَمِنْتُمْ ۔ تم امن میں ہو ۔ یعنی خطرے اور مرض کی حالت سے نکل کر تم امن امان میں آجاؤ ۔ 

تَمَتّعَ ۔ ( فائدہ اٹھائے ) لفظی معنی فائدہ اٹھانے کے ہیں ۔ فقہ کی اصطلاح میں اس سے مراد حج اور عمرہ کو ملا کر ادا کرنا ہے ۔ یعنی حج کے زمانہ میں ایک احرام باندھ کر عمرہ ادا کیا جائے ۔ پھر دوسرے احرام سے حج ادا کیا جائے ۔ جاہلیت کے زمانے میں عربوں نے یہ غلط عقیدہ گھڑ لیا تھا کہ حج کے موسم میں عمرہ کرنا گناہ ہے ۔۔۔۔ 

اَذِا رَجِعْتُم ۔ ( جب تم لوٹو)  اس سے مراد یہ ہے کہ حج کے اعمال سے فارغ ہو کر واپس آؤ ۔ خواہ حج کرنے والا ابھی 

مکہ میں ہی ہو ۔ اور اپنے وطن واپس نہ گیا ہو ۔ البتہ بعض علماء نے اس سے صرف یہ مراد لیا ہے کہ جب مکہ سے گھر واپس پہنچ جاؤ ۔ 

اس آیت میں اس حاجی کا حکم بیان کیا گیا ہے ۔ جو موسمِ حج میں عمرہ اور حج دونوں ادا کرے ۔ اس کو حج قران یا تمتع کہتے ہیں ۔ ایسے حاجی پر قربانی واجب ہے ۔ جو ایک بکرا ہے ۔ یا اونٹ یا گائے کا ساتواں حصہ ہے ۔ یہ قربانی اس پر واجب نہیں جو فقط حج ادا کرے اور اس کے ساتھ عمرہ  نہ کرے ۔ 

جو حج قران یا تمتع کریں لیکن انہیں قربانی میسر نہ ہو افلاس کی وجہ سے یا کسی اور قوی عذر کی وجہ سے قربانی نہ دے سکیں ۔ تو ان کے لئے ضروری ہے کہ وہ دس روزے رکھیں ۔ تین حج کے دنوں میں ۔۔ جو یوم عرفہ یعنی نویں ذالحج پر ختم ہوتے ہیں ۔ اور سات واپس وطن پہنچ کر  

روزوں کی شکل میں یہ کفارہ دینا اس لئے ضروری قرار دیا گیا کہ آدمی جب الله تعالی کا حکم پورا نہ کرسکے تو کہیں اس کا نفس اسے بغاوت یا نافرمانی کی طرف نہ لے جائے ۔ اس لئے اس کے بدلے روزے رکھے تاکہ اس کا نفس پاکیزہ اور اس کی نیت نیک رہے ۔ 


درس قرآن ۔۔۔ مرتبہ درس قرآن بورڈ

حج و عمرہ کے چند احکام

حج و عمرہ کے چند احکام

 

وَالْعُمْرَةَ ۔۔۔۔۔۔۔   لِلَّهِ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔   فَإِنْ ۔۔۔۔۔    أُحْصِرْتُمْ

اور عمرہ ۔۔ الله تعالی کے لئے ۔۔ پس اگر ۔۔۔ تم روک دئے جاؤ

فَمَا ۔۔۔۔۔۔۔۔   اسْتَيْسَرَ ۔۔۔ مِنَ ۔۔۔الْهَدْيِ

 ۔۔ پس جو ۔۔ میسر ہو ۔۔ سے ۔۔۔ قربانی 


وَالْعُمْرَةَ لِلَّهِ فَإِنْ أُحْصِرْتُمْ فَمَا اسْتَيْسَرَ مِنَ الْهَدْيِ


اور عمرہ الله تعالی کے لئے پورا کرو پھر اگر روک دئیے جاؤ تو جو میسر آئے قربانی کرنی چاہئیے ۔ 


اَلْعُمْرَة ۔ عمرہ ۔۔۔ اسے چھوٹا حج بھی کہتے ہیں ۔ عمرہ ادا کرنے کے آداب حج جیسے ہی ہیں ۔ البتہ عمرہ کرنے کے لئے ایّامِ حج کی قید نہیں ۔ ہر وقت ادا ہو سکتا ہے ۔ دوسرے اس کے مناسک و مراسم بھی حج سے کم ہیں ۔ 

لِلّٰه ( الله کے لئے ۔ حج و عمرہ محض الله سبحانہ تعالی کی رضا کے لئے بجا لاؤ ۔ نیت خالص رکھو ۔ اور ان قاعدوں اور حکموں کا دیانتداری کے ساتھ خیال رکھو ۔ جو الله تعالی نے مقرر فرمائے ہیں ۔ ان باتوں سے بچو جن سے منع کیا گیا ہے ۔ 

یوں تو سارے کام اور ارادے الله تعالی کی خوشنودی کے لئے ہی ہونے چاہئیے ۔ لیکن یہاں حج اور عمرہ کے ساتھ اس پرخاص  زور اس وجہ سے دیا گیا ہے کہ اس میں سفر در پیش آتا ہے ۔ جس میں سیر و تفریح اور اچھی بُری بہت سی اغراض بآسانی شامل ہو سکتی ہیں ۔ اس لئے لازم ہے کہ تمہاری اوّلین غرض الله جل شانہ کی رضا کے سوا کچھ نہ ہو ۔ سیروسیاحت ازخود ہو جائے گی ۔ تجارت کی اجازت ہے ۔ اس اجازت سے فائدہ اٹھا سکتے ہو ۔ لیکن تجارت کو سفرِ حج کا مقصد نہیں بنا سکتے ۔ نہ بے ایمانی اور چوری کی تجارت کر سکتے ہو ۔ ان باتوں کی اجازت نہیں ۔ 

اُحْصِرْتُمْ ۔ (تم روک دئیے جاؤ ) یہ لفظ حصار سے بنا ہے ۔ جس کے معنی گِھر جانے اور بند ہوجانے کے ہیں ۔ خواہ یہ گِھر جانا کسی سبب سے ہو ۔ یہاں اس سے مراد یہ ہے کہ حج کا ارادہ رکھنے والا کسی بیماری کی وجہ سے منزل پر نہ پہنچ سکے یا کسی دشمن نے اس کا راستہ روک رکھا ہو ۔ یا کوئی موسمی اور دوسری رکاوٹ حائل ہو گئی ہو ۔ 

ھَدی ۔ ( قربانی) ۔ لفظی معنی اس پیشکش کے ہیں ۔ جو خانہ کعبہ کے لئے بھیجی جائے ۔ یہاں اس سے مراد قربانی کے جانور ہیں ۔ 

اس آیت میں الله تعالی نے مسلمانوں کو حج اور عمرہ کے حکم کے ساتھ یہ فرمایا ہے ۔ کہ اس عبادت کو بجا لانے میں صرف ایک مقصود پیشِ نظر ہونا چاہئیے ۔ یعنی الله جل جلالہ کی رضامندی اور خوشنودی ۔ نہ تو اس سفر سے کھیل تماشہ مطلوب ہو اور نہ سیر و تفریح ۔ بلکہ جس قدر قواعد الله تعالی نے بیان فرمائے ہیں ان کے مطابق عمل ہونا چاہئیے ۔ 

اس حکم میں الله تعالی نے معذور لوگوں  کے لئے رعائت بھی رکھی ہے ۔ ہو سکتا ہے کہ ایک شخص حج یا عمرہ کرنے کے لئے احرام باندھ لے لیکن بدقسمتی سے راستے میں وہ بیمار پڑ جائے ۔ یا کوئی اور دشواری یا مجبوری پیش آجائے ۔مثلا راستہ نہ ملے ۔ زادِ راہ نہ رہے وغیرہ ان تمام صورتوں میں اس کے لئے حکم ہے کہ وہ اپنی استطاعت کے مطابق قربانی کا جانور کسی دوسرے کے ہاتھ بیت الله بھیج دے ۔ 


درس قرآن ۔۔ مرتبہ درس قرآن بورڈ 

سر منڈانا

سر منڈانا

 

وَلَا تَحْلِقُوا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔  رُءُوسَكُمْ ۔۔۔ حَتَّى ۔۔۔۔۔۔۔   يَبْلُغَ ۔۔۔ الْهَدْيُ 

اور نہ تم منڈاؤ ۔۔۔ اپنے سر ۔۔ یہاں تک ۔۔۔ پہنچ جائے ۔۔۔ قربانی 

مَحِلَّهُ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔   فَمَن ۔۔۔۔۔۔۔۔۔   كَانَ ۔۔۔ مِنكُم ۔۔۔ مَّرِيضًا ۔۔۔  أَوْ بِهِ 

اپنی جگی ۔۔۔ پھر جو کوئی ۔۔۔ ہو ۔۔ تم میں سے ۔۔۔ مریض ۔۔ یا اس کو 

أَذًى ۔۔۔ مِّن ۔۔۔۔۔۔۔  رَّأْسِهِ ۔۔۔۔۔۔۔  فَفِدْيَةٌ ۔۔۔ مِّن ۔۔۔   صِيَامٍ ۔۔۔ أَوْ ۔۔۔ صَدَقَةٍ ۔۔۔ أَوْ نُسُكٍ

تکلیف ۔۔۔ سے ۔۔ سر اس کا ۔۔۔ پس بدلہ  ۔۔  سے ۔۔۔ روزے ۔۔۔ یا ۔۔۔ صدقہ ۔۔۔ یا قربانی 


وَلَا تَحْلِقُوا رُءُوسَكُمْ حَتَّى يَبْلُغَ الْهَدْيُ مَحِلَّهُ فَمَن كَانَ مِنكُم مَّرِيضًا أَوْ بِهِ أَذًى مِّن رَّأْسِهِ فَفِدْيَةٌ مِّن صِيَامٍ أَوْ صَدَقَةٍ أَوْ نُسُكٍ


اور اپنے سر کی حجامت نہ کرواؤ۔ جب تک قربانی اپنی جگہ نہ پہنچ جائے پھر تم میں سے جو کوئی بیمار ہو یا اسے سر کی تکلیف ہو تو وہ بدلہ دے روزے یا خیرات یا قربانی سے ۔ 


نُسُكٍ ۔( قربانی ) ۔ لفظی معنی ذبح کے ہیں ۔ یہاں مراد الله تعالی کی راہ میں قربانی ہے ۔ جو کم از کم ایک بکری ہونی چاہئیے ۔ اور اس سے بہتر یہ کہ ایک گائے یا اونٹ کی ہو ۔ 

مَحِلَّة ۔( اپنی جگہ) ۔ یعنی قربانی کی جگہ ۔ اس سے مراد حرم شریف ہے ۔ 

اسلام ایک فطری مذہب ہے ۔ اس کے احکام انسان کی فطرت کے مطابق بنائے گئے ہیں ۔ اسلام میں ہر انسان کی خوبیوں اور کمزوریوں کو مد نظر رکھا گیا ہے ۔ اس کی ضرورتوں اور تقاضوں کا لحاظ کیا گیا ہے ۔ ایسے کام جو انسان کی تربیت ، ترقی اور کامیابی کے لئے ضروری تھے انہیں ضروری اور لازم قرار دیا گیا ہے ۔ جو باتیں انسان کی زندگی اور نصب العین کے لئے مفید نہ تھیں ۔ انہیں ناجائز اور حرام قرار دیا گیا ہے ۔ 

آیت کا ابتدائی حصہ محصر کے احکام کا تتمہ ہے ۔ جس کا ذکر پچھلی آیت میں شروع ہوا تھا ۔ یہاں تک بیان کر دیا گیا تھا کہ جو شخص حج یا عمرہ کا احرام باندھ لے اور راستے میں کوئی ایسا عذر پیش آجائے کہ حج یا عمرہ پورا نہیں کر سکتا ۔ تو وہ کسی کے ہاتھ قربانی کا جانور بیت الله بھیج دے ۔ اس آیت میں اس حکم کو یہ کہہ کر پورا کیا گیا ہے کہ جب تک جانور حرم تک نہ پہنچے اور وہاں اس کی قربانی نہ کر دی جائے اس وقت تک یہ روکا ہوا شخص سر نہیں منڈوا سکتا ۔ یعنی احرام نہیں کھول سکتا ۔ 

اس کے بعد حج کے عام احکام کا بیان ہے ۔ 

الله جل شانہ نے حج کے حکم میں معذور لوگوں کے لئے ایک اور رعایت مقرر فرمائی ہے ۔ یعنی جو شخص حج کے زمانہ میں سر نہ منڈانے کا حکم پورا نہ کر سکتا ہو ۔ یعنی کسی بیماری یا کسی اور سبب سے سر نہ منڈانے پر مجبور ہو تو اسے چاہئیے ۔ کہ اس کے بدلے یا تو تین روزے رکھے ۔ تاکہ اس کا نفس سرکشی سے پاک رہے ۔ یا چھ مسکینوں کو صدقہ فطر کی مقدار کے مطابق پونے دو سیر کے حساب سے گیہوں دے  تاکہ پہلا حکم بجا نہ لانے کی صورت میں وہ الله تعالی کی راہ سے ہٹ نہ جائے ۔ یا جانور کی قربانی دے ۔ 

درس قرآن ۔۔۔ مرتبہ درس قرآن بورڈ 

حج

حج


وَ اَتِمُّوا ۔۔  الْحَجَّ 

اور پورا کرو ۔۔۔ حج



وَ اَتِمُّوا ۔۔  الْحَجَّ 

اور حج پورا کرو 


الحج ۔ اسلام کا پانچواں رکن ہے ۔ ہر شخص جو استطاعت رکھتا ہو اس پر حج زندگی میں ایک بار اداکرنا فرض ہے ۔ ورنہ وہ گنہگار ہو گا ۔ حج اسلامی سال کے آخری مہینے ذوالحج کی نو تاریخ کو ادا ہوتا ہے ۔ پہلے سارے مسلمان شہر مکہ میں خانہ کعبہ کی زیارت کے لئے جمع ہوتے ہیں ۔ پھر میدانِ عرفات میں اکٹھے ہوتے ہیں ۔ 

اس سورۃ میں حج کے احکام سے قبل اورحج ولی آیات کے بعد قتال وجہاد کے مسائل بیان ہوئے ہیں ۔ اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ دونوں کا آپس میں کس قدر گہرا تعلق ہے ۔ اسلام کا کوئی رکن ایسا نہیں جس میں ذاتی نیکی اور پاکیزگی کے علاوہ قوم کی اجتماعی بہبودی ، ترقی و خوشحالی اور سر بلندی کا مقصود نہ ہو ۔ 

حج میں خاص بات یہ ہے کہ روئے زمین کے تمام مسلمان ہر سال ایک مرتبہ مرکز اسلام میں جمع ہوتے ہیں ۔ وہاں کوئی اونچ نیچ نہیں ہوتی ۔ کالے ، گورے ، امیر ، غریب ، بادشاہ ، فقیر ، عالم ، جاہل ، اور چھوٹے بڑے کاندھے سے کاندھا ملا کر یک جا کھڑے ہوتے ہیں ، سب کا ایک ہی لباس ہوتا ہے ۔ ہر ایک کے لبوں پر ایک ہی صدا ہوتی ہے ۔ 


لَبَّيْكَ اَللّٰهُمَّ لَبَّيْكَ


میں حاضر ہوں ۔ اے الله میں حاضر ہوں ۔ میں تیرے لئے حاضر ہوں ۔ تمام تعریفیں اور تمام نعمتیں تیری ہیں اور شکر تیرا ہے ۔ 

ہر حاجی احرام باندھتا ہے ۔ یہ بغیر سلا ہوا ہر ایک کا ایک جیسا لباس ۔ مساوات ۔ سادگی ۔ یک جہتی اور عشقِ الٰہی کا اظہار کرتا ہے ۔ حج کے دوران سر منڈانا ، ناخن تراشنا ، شکار کرنا ، بیوی سے مباشرت کرنا منع ہے ۔ گویا خواہشات اور طبعی زیبائش و آرائش سے باز رہ کر ایک مستقل تربیت حاصل کرنی مقصود ہے ۔ 

تمام حاجی ایک وقت مقررہ میں میدانِ عرفات میں حج کے روز جمع ہوتے ہیں ۔ خطبہ سنتے ہیں ۔ الله کے حضور دعائیں کرتے ہیں ۔ گناہ بخشواتے ہیں ۔ اور رحمت الٰہی کے خزانے جمع کرتے ہیں ۔ 

منٰی کے اندر قربانیاں دیتے ہیں ۔ صفا و مروہ کے درمیان سعی کرتے ہیں ۔ بیت الله کے گرد طواف کرتے ہیں ۔ جمرات پر کنکریاں مارتے ہیں ۔ حجرِ اسود کو بوسہ دیتے ہیں ۔ آبِ زم زم سے عشق کی پیاس بجھاتے ہیں ۔ ہر قسم کی معصیت ۔ گناہ  اور بد خلقی سے رُکے رہتے ہیں ۔ گویا گناہ بخشوا کر آج ازسرِ نو زندگی کا حساب شروع کر رہے ہیں ۔ 

مبارک ہیں وہ جنہیں حج کی توفیق ملی اور انہوں نے حج ادا کیا ۔ حج کے مقاصد کو سمجھا ۔ اور آئندہ اپنی زندگی نیکی اور پاکیزگی سے بسر کی ۔ 

درس قرآن ۔۔۔ مرتبہ درس قرآن بورڈ


قتال و جہاد کے احکام

قتال و جہاد کے احکام


آیۃ( ۱۹۵) پر جہاد کے احکام ختم ہو جاتے ہیں ۔ اس کے بعد حج کا بیان شروع ہو گا ۔ 

مناسب معلوم ہوتا ہے کہ خلاصہ کے طور پر قتال و جہاد کی فرضیت ۔ شرائط و حدود اور احکام بیان کر دئے جائیں ۔ چونکہ ایک طرف تو گمراہ لوگ سرے سے قتال کے ہی منکر معلوم ہوتے ہیں ۔ دوسری طرف ہمارے دشمن مؤرخین خصوصاً مغربی مصنف جہاد کو محض مار دھاڑ ، قتل و غارت گری اور مزہبی خونی جنگ بیان کرکے اسلام اور مسلمانوں کو بدنام کرتے ہیں ۔ 

ہم سورۃ بقرہ کی آیات کے حوالے سے نمبر وار مسائل بیان کرتے ہیں ۔ جہاد سے متعلق جو احکام قرآن مجید کے دوسرے  مقامات پر آتے ہیں ۔ وہ اپنی جگہ بیان ہوں گے ۔ 


۱۔  الله کی راہ میں جنگ کرو ۔۔۔ (۱۹۰) 


۲۔  جنگ صرف ان لوگوں سے کرو جو تم سے لڑیں  (۱۹۰)  

بالفاظ دیگر امن پسندوں یعنی بچوں ، عورتوں ، بیماروں ، معذوروں اور نہتے لوگوں سے نہیں ۔ 


۳۔ زیادتی نہ کرو ۔ الله تعالی زیادتی کرنے والوں کو دوست نہیں رکھتا  ہے ۔ (۱۹۰) 


۴۔   جنگ کے اندر دشمن کو جہاں پاؤ قتل کرو ۔ (۱۹۱)

 یاد رہے ۔ کہ یہ حکم حالت جنگ کا ہے زمانہ امن کا نہیں ۔


۵۔ جن جن علاقوں سے دشمنوں نے تمہیں ملک بدر کیا تھا ۔ وہاں سے تم انہیں نکال دو ۔ (۱۹۱)


۶۔  فتنہ و فساد نہ خود کرو ۔ نہ کسی کو کرنے دو ۔ یہ قتل سے بھی بدتر کام ہے ۔ (۱۹۱) 


۷۔  مسجدِ حرام (خانہ کعبہ )۔ میں صرف انہی کو مار سکتے ہو  جو وہاں لڑیں  ورنہ نہیں ۔ (۱۹۱)


۸۔ اگر دشمن جنگ سے رُک جائے ۔ تو جنگ بند کر دو ۔ (۱۹۲) 


۹۔  فتنہ دب جانے اور الله کا دین غالب ہونے تک جنگ کرو ۔ (۱۹۳) 


۱۰۔  ظالموں کے سوا کسی پر تشدد نہ کرو ۔ (۱۹۳) 


۱۱۔  حُرمت والے مہینوں کا احترام کرو ۔ ان میں جنگ بند کر دو ۔( ۱۹۴)


۱۲۔  تقوٰی اختیار کرو ۔ یعنی الله تعالی سے ڈرو ۔ الله متقیوں کا ساتھ دیتا ہے ۔ (۱۹۴) 


١٣۔ الله تعالی کی راہ میں مال خرچ کرو ۔ اگر ایسا نہ کرو گے تو اپنے آپ کو اپنے ہاتھوں سے ہلاکت میں ڈال لو گے ۔ (۱۹۵) 


۱۴۔ نیکی اور حسنِ سلوک کرو ۔ الله تعالی احسان کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے ۔ (۱۹۵) 


غور کیجئے ان میں سے کون سی بات ہے جو عقل ۔ انصاف اور شرافت کے منافی ہے ۔ 


درس قرآن ۔۔۔ مرتبہ درس قرآن بورڈ 


انفاق فی سبیل الله

انفاق فی سبیل الله


وَأَنفِقُوا ۔۔۔ فِي ۔۔ سَبِيلِ ۔۔۔۔۔  اللَّهِ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔  وَلَا تُلْقُوا 

اور خرچ کرو ۔۔ میں ۔۔ راہ ۔۔ الله تعالی ۔۔۔ اور نہ تم ڈالو 

بِأَيْدِيكُمْ ۔۔۔۔ إِلَى ۔۔۔۔ التَّهْلُكَةِ ۔۔۔۔۔۔۔ وَأَحْسِنُوا 

اپنے ہاتھوں سے ۔۔۔ طرف ۔۔۔ ہلاکت ۔۔۔ اور نیکی کرو 

  إِنَّ ۔۔۔۔۔۔۔  اللَّهَ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔   يُحِبُّ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔  الْمُحْسِنِينَ    1️⃣9️⃣5️⃣

بے شک ۔۔ الله تعالی ۔۔ وہ پسند کرتا ہے ۔۔۔ نیکی کرنے والے 


وَأَنفِقُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَلَا تُلْقُوا بِأَيْدِيكُمْ إِلَى التَّهْلُكَةِ وَأَحْسِنُوا 

إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ    1️⃣9️⃣5️⃣


اور الله کی راہ میں خرچ کرو اور( اپنی جان ) اپنے ہاتھوں سے ہلاکت میں نہ ڈالو اور نیکی کرو  بیشک الله تعالی نیکی کرنے والوں کو دوست رکھتا ھے 


وَلَا تُلْقُوا بِاَيْدِيْكُمْ اِلَى التّهْلُكَةِ )اپنے ہاتھوں سے اپنی جانوں کو ہلاکت میں نہ ڈالو ) پہلی آیات میں قتال و جہاد کا حکم تھا اور اس جملے سے پہلے الله تعالی کی راہ میں مال و دولت خرچ کرنے کا حکم موجود ہے ۔ 

گویا ارشاد ربّانی یہ ھے کہ جب ملک و ملت اور دین و اسلام کے لئے جہاد کی ضرورت ہو اور مالی قربانی مطلوب ہو ۔ اس وقت بخل سے کام نہ لو ۔ الله جل شانہ کی راہ میں دولت صرف کرنے سے ہاتھ نہ روکو ۔ اگر ایسا کرو گے تو گویا خود اپنے پاؤں پرکلہاڑی مارو گے ۔ اپنے آپ کو خود ہلاک کرو گے ۔ اس طرح صرف ملک و ملت کو نقصان نہیں پہنچے گا بلکہ قوم کی شکست تمہاری شکست ہوگی ۔ اور دین کا نقصان تمہارا زوال ہوگا ۔ 

بعض لوگ اس جملہ کا بالکل غلط مطلب نکالتے ہیں ۔ کہ جان بوجھ کر خطرہ میں نہ کودو اور جان جوکھوں میں نہ ڈالو ۔ یہاں اس جملہ سے ہرگز ہرگز یہ منشاء نہیں ہے ۔ بات صحیح ہے لیکن یہاں اس کا نہ ذکر ہے نہ موقع ہے ۔

پہلی آیات میں جہاد اور قتال کا حکم دے کر مسلمانوں پر یہ فرض کیا گیا کہ الله جل جلالہ کی راہ میں جانیں قربان کر دیں ۔ اسکے دین کو بلند کرنے کے لئے دین کے دشمنوں سے لڑیں اور اگر مشرک و کافر ان کے کام میں مزاحم ہوں تو ان سے جنگ کریں ۔ اور ظلم کو روکنے کے لئے تلوار اٹھائیں ۔ اس آیت میں الله تعالی کی راہ میں اپنے مال کو خرچ کرنے کا حکم ہے ۔ 

دشمنوں کو کچلنے اور فتنہ و فساد کو دبانے کے لئے اول جانوں کی ضرورت ہوتی ھے ۔ تاکہ الله کے سپاہی جانوں کو ہتھیلی پر رکھ کر جوشِ اسلام سے معمور ، موت و ہلاکت سے بے پرواہ ہو کر میدانِ جنگ میں کود پڑیں ۔ اور الله کا نام بلند کرنے کے واحد مقصد کے لئے جان لڑا دیں ۔ اس مقصد کے لئے دوسرے درجہ پر مال و دولت کی ضرورت ہوتی ہے ۔ تاکہ ہتھیار اور جنگ کے آلات خریدے جاسکیں ۔ سپاہیوں کے پسماندگان کی کفالت کی جا سکے ۔ شہید ہونے والوں کے یتیم بچوں اور بیواؤں کی ضروریات زندگی پوری کی جا سکیں ۔ فوج کے لئے خورد و نوش کی اشیاء فراہم کی جاسکیں ۔ اور محصور ہو جانے کی صورت میں سامان خوراک وغیرہ کا ذخیرہ کیا جاسکے ۔ 

اَحْسَنُوا ۔( نیکی کرو )  احسان کے معنی حسن سلوک اور نیکی کرنے کے ہیں ۔ مراد یہ ہے کہ تم جو کچھ بھی کرو وہ حسنِ نیت اور اخلاص سے کرو ۔ کوئی کام محض بیگار اتارنے اور قرض چکانے کے طور پر نہ کرو ۔ نیز یہ کہ قتال و جہاد کے اندر بھی حسن سلوک میں کوئی چیز مانع نہیں  ہو سکتی ۔ 

نبی آخر الزماں صلی الله علیہ وسلم نے حسنِ سلوک کی یہاں تک تلقین فرمائی کہ جانور ذبح کرنے لگو تو ایسے کرو کہ اس کو کم سے کم تکلیف ہو ۔ 

درس قرآن ۔۔۔ مرتبہ درس قرآن بورڈ 


قربانی کے حکم کی وضاحت

حکم قربانی کی وضاحت 

ذَلِكَ ۔۔۔  لِمَن ۔۔۔ لَّمْ يَكُنْ ۔۔۔ أَهْلُهُ ۔۔۔ حَاضِرِي 
یہ ۔۔۔ اس کے لئے ۔۔ نہیں ہے ۔۔۔ گھر والے اس کے ۔۔۔ پاس 
الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ ۔۔۔ وَاتَّقُوا ۔۔۔ اللَّهَ ۔۔۔ وَاعْلَمُوا
مسجد حرام ۔۔ اور ڈرتے رہو ۔۔۔ الله تعالی ۔۔۔ اور جان لو 
 أَنَّ ۔۔۔ اللَّهَ ۔۔۔ شَدِيدُ ۔۔۔ الْعِقَابِ
بے شک ۔۔۔ الله تعالی ۔۔۔ سخت ۔۔۔ عذاب 

ذَلِكَ لِمَن لَّمْ يَكُنْ أَهْلُهُ حَاضِرِي الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ وَاتَّقُوا اللَّهَ وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ شَدِيدُ الْعِقَابِ

یہ حکم اس کے لئے ہے جس کے گھر والے مسجد حرام کے پاس نہ رہتے ہوں ۔ اور الله جل شانہ سے ڈرتے رہو اور جان لو کہ بے شک الله تعالی کا عذاب سخت ہے ۔

ذالك۔ ( یہ) ۔ اسم اشارہ ہے ۔ اور یہ اشارہ پہلی آیت کے مسئلہ کی طرف ہے ۔ یعنی تمتع ( حج اور عمرہ ملا کر ادا کرنا )  آیت کامقصد یہ ہے کہ حج اور عمرہ کو ملا کر ادا کر لینے کا فائدہ اٹھانے کی اجازت صرف باہر والوں کو ہے ۔ مکہ میں رہنے والوں کو نہیں ۔ 
حاضرى المسجد الحرام (مسجد حرام کے پاس ) ۔ مراد ہے کہ مکہ اور اس کے گرد و نواح میں رہنے والے تمام باشندے  یعنی میقات کی حد کے اندر رہنے والے سب اس میں شامل ہیں ۔ 
میقات ۔۔۔ اس مقام کو کہتے ہیں جہاں سے حرم کی حدود شروع ہو جاتی  ہے ۔ اور جہاں پہنچ کر حج اور عمرہ کی نیت کر لینا اور احرام باندھ لینا واجب ہو جاتا ہے ۔ مختلف اطراف سے خانہ کعبہ میں حج کے لئے آنے والوں کے لئے میقات الگ الگ ہے ۔ 
واتقوا الله ( الله سے ڈرتے رہو) ۔ یعنی ان تمام احکام کی بجا آوری اور تعمیل میں الله سبحانہ وتعالی کا خوف اور الله کی موجودگی کا تصور سامنے رکھو ۔ کہ تمام نیکیوں کی بنیاد تقوٰی ہے ۔ ایک بار پھر غور کیجئے کہ ہر حکم کے بعد تقوٰی کا ہی مطالبہ ہو رہا ہے ۔ 
شديد العقاب (سخت عذاب دینے والا ) ۔  علماء کا قول ہے کہ یہاں عذاب کے ساتھ  شدید کا لفظ خاص طور پر اس لئے لایا گیا ہے کہ جس طرح بیت الله جیسے مقدس مقام میں انسان نیکی کرے ۔ تو اس کا ثواب زیادہ ملتا ہے ۔ اسی طرح اگر یہاں پہنچ کر کسی گناہ کا مرتکب ہو تو اسے اس فدرمقدس مقام کے لحاظ سے بھی سخت سزا ملے گی ۔ 
پچھلے سبق میں جو رعایت بیان کی گئی تھی ۔ یہ اس کی شرط بیان کی گئی ہے ۔ رعایت یہ تھی  کہ اگر لوگ حج اور عمرہ ملا کر کرنا چاہیں تو وہ ایسا کر سکتے ہیں ۔ البتہ انہیں  اپنی استطاعت کے مطابق قربانی دینی ہو گی ۔ حج اور عمرہ ملا کر کرنے کی اجازت ان کے لئے ہے جو مکہ معظمہ اور اور اس کے آس پاس کی بستیوں کے رہنے والے نہ ہوں ۔ 
اس حکم کے ساتھ ایک مرتبہ پھر واضح کر دیا گیا ۔ کہ اصل چیز تو تقوٰی ہے ۔ہر حکم اور عبادت کو پورا کرتے وقت الله جل جلالہ کا خوف اور اس کی خوشنودی پیشِ نظر رہنی چاہئیے ۔ کیونکہ تمام احکام کا مقصود نفس کی پاکیزگی اور اخلاق کی تکمیل ہے ۔ الله تعالی کے یہ اعلٰی ترین احکامات ہیں ۔ جن پر اسلامی زندگی کی بنیاد کھڑی ہے ۔ اگر کسی نے انہیں بدلنے کی کوشش کی یا ان کا انکار کیا ۔ تو الله جل جلالہ اسے سخت سزا دے گا ۔ 

الله متقیوں کے ساتھ ہے



وَاتَّقُوا ۔۔۔۔۔ اللَّهَ ۔۔۔۔۔۔۔۔وَاعْلَمُوا

اور ڈرتے رہو۔۔۔ الله تعالی سے ۔۔۔ اور جان لو ۔

أَنَّ ۔۔۔ اللَّهَ ۔۔۔ مَعَ ۔۔۔۔۔۔۔الْمُتَّقِينَ۔ 1️⃣9️⃣4️⃣

۔ بےشک۔۔۔  الله ۔۔ ساتھ ۔۔ متقیوں کے 


وَاتَّقُوا اللَّهَ وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ مَعَ الْمُتَّقِينَ  1️⃣9️⃣4️⃣


اور الله تعالی سے ڈرتے رہو اور جان لو کہ الله پرھیزگاروں کے ساتھ ھے ۔ 


اِتَّقُواااللهَ 

( الله سے ڈرتے رہو ) ۔ پرھیزگاری (تقوٰی) اختیار کرنے کا یہ حکم قرآن مجید میں بار بار آیا ھے ۔ کہہر کام کرتے وقت اس سے خوف کھاؤ ۔ پرھیزگاری اختیار کرو ۔ تقوٰی کی زندگی بسر کرو ۔ بری باتوں سے پرھیز کرو ۔ بدی اور شطینیت سے نفرت کرو ۔ 

یہ تمام احکام صرف ایک جملے کے ماتحت آتے ہیں ۔ اور وہ ھے اِتِّقُواالله  ۔

مسلمان کی زندگی کے ہر شعبے میں تقوٰی کا عنصر بہت اہم ھے ۔ جب تک مسلمان کے قول وفعل اور عمل میں یہ چیز نمایاں نہ ہو ۔ اس کا اسلام مکمل نہیں ہو سکتا ۔ تقوٰی اسے اعتدال سکھاتا ھے ۔ نیکو کاری کی طرف رغبت دلاتا ھے ۔ اور بدکاری سے دُور کرتا ھے ۔ 

اس وقت تک سورۃ بقرہ کی صرف (۱۹۴) آیات گذری ہیں ۔ اور یہاں تک تقوٰی کا ذکر مختلف شکلوں میں (۱۴) بار آچکا ھے ۔ 

خصوصاً ۔۔۔۔ حُکم عبادت کے بعد ۔۔۔ بنی اسرائیل کے تذکرہ کے بعد ۔۔۔۔ اخلاقی اصولوں کے ذکر کے بعد ۔۔۔ حکم قصاص کے بعد ۔۔۔ وصیت کے حکم کے بعد ۔۔۔ روزے کے حکم کے بعد ہر جگہ تقوٰی ہی کو مقصود ومطلوب بیان کیا گیا ھے ۔ 

قرآن مجید خواہ حلال و حرام کا ذکر کر رہا ہو ۔ نکاح و طلاق کے مسائل پر بحث کر رہا ہو ۔ یتیم و مسکین کے مال و دولت کے قوانین بتا رہا ہو ۔ وصیت اور ورثہ کی تقسیم پر گفتگو کر رہا ہو ۔ باہمی معاشرت اور میل جول کے اصول واضح کر رہا ہو یا جہاد وقتال کے امور پر روشنی ڈال رہا ہو ۔ ہر جگہ تقوٰی کا سبق اس کے ساتھ ضرور دے گا ۔ اور اس کی اہمیت ضرور جتائے گا ۔ آخر کیوں؟ 

انسان خواہشات کا پُتلا ، جذبات کا غلام اور احساسات کا خادم ہوتا ھے ۔ وہ ہر کام کرتے وقت اس کے زیر اثر ہوتا ھے ۔ وہ اعتدال اور انصاف پر قائم رہنے کی بجائے بے انصافی پر اُتر آتا ھے ۔ اعتدال کو چھوڑنا اسے ظلم ، حق تلفی ، بے انصافی اور زیادتی کی طرف لے جاتا ھے ۔ یہ تمام چیزیں ایک مسلمان کی شان سے بہت نیچی ہیں ۔ لہذا ضروری ھے کہ وہ خواہ زندگی کے کسی میدان میں سرگرمِ عمل ہو ۔ اعتدال کو ہاتھ سے نہ چھوڑے ۔ 

اعتدال پر قائم رھنے کے لئے اسے یہ سبق سکھایا جاتا ھے کہ وہ ہر لمحہ الله تعالی کی ہستی ، اس کے احکام اور اس کے حضور حاضری کو پیشِ نظر رکھے ۔ وہ سمجھے کہ دنیاوی مال ومتاع اور عزت وشہرت سب عارضی ھے ۔ 

اصل چیز الله سبحانہ و تعالی کے ہاں کامیابی ھے ۔ اس لئے انصاف پسندی سے اگر عارضی نقصان ہوتا بھی ہو تو اسے برداشت کر لینا چاہئیے ۔ کیونکہ الله تعالی کی مدد صرف متقیوں کو ہی  ملتی ھے اور ظاہر ھے جسے الله جل شانہ کی حمایت نصیب ہو جائے اس سے زیادہ سعادت مند اور خوش قسمت اور کامیاب انسان اور کون ہو سکتا ھے ۔ 

درس قرآن ۔۔۔ مرتبہ درس قرآن بورڈ 


حرمت والے مہینے

الشَّهْرُ ۔۔۔۔۔  الْحَرَامُ ۔۔۔۔۔۔۔   بِالشَّهْرِ ۔۔ الْحَرَامِ ۔۔۔۔۔۔   وَالْحُرُمَاتُ 

مہینہ ۔۔ حرمت والا ۔۔ بدلہ مہینے کا ۔۔ حرمت والا ۔۔ اور حرمات 

قِصَاصٌ ۔۔۔۔  فَمَنِ ۔۔۔۔۔۔۔۔   اعْتَدَى۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔   عَلَيْكُمْ ۔۔۔  فَاعْتَدُوا 

بدلہ ۔۔ پس جو شخص ۔۔ زیادتی کی اس نے ۔۔ تم پر ۔۔ پس تم زیادتی کرو

عَلَيْهِ ۔۔۔۔۔۔۔   بِمِثْلِ ۔۔۔۔۔۔۔   مَا اعْتَدَى ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔    عَلَيْكُمْ

 اس پر ۔۔ اس جیسی ۔۔ جو اس نے زیادتی کی ۔۔ تم پر


الشَّهْرُ الْحَرَامُ بِالشَّهْرِ الْحَرَامِ وَالْحُرُمَاتُ قِصَاصٌ فَمَنِ اعْتَدَى عَلَيْكُمْ فَاعْتَدُوا عَلَيْهِ بِمِثْلِ مَا اعْتَدَى عَلَيْكُمْ


حرمت والا مہینہ حرمت والے مہینے کا بدلہ ھے اور ادب رکھنے میں بدلہ ھے پھر جس نے تم پر زیادتی کی تم اس پر زیادتی کرو جیسی اس نے تم پر زیادتی کی ۔


اَلشَّھْرُ الْحَرَام

حرمت والا مہینہ 

جاہلیت کے زمانے میں عرب کے مختلف قبیلے آپس میں ہمیشہ جنگ کرتے رہا کرتے تھے ۔ لیکن یہ بات انہوں نے ٹہرا لی تھی کہ سال میں چار مہینے جنگ بند رہا کرے گی ۔ اور یہ زمانہ امن اور صلح کے ساتھ گزارا جائے گا ۔ ان کے نزدیک ان چار مہینوں کی پاکی اور بزرگی بہت مانی ہوئی تھی ۔ وہ چار مہینے یہ تھے ۔ 

محرم ۔۔۔ قمری سال کا پہلا مہینہ 

رجب ۔۔۔ قمری سال کا ساتواں مہینہ 

ذی قعدہ ۔۔۔ قمری سال کا گیارہواں مہینہ 

ذالحجہ ۔۔۔ قمری سال کا بارھواں مہینہ 

اس آیۃ کا شانِ نزول اور تاریخی پس منظر یوں بیان کیا جاتا ھے ۔ کہ رسول الله صلی الله علیه وسلم چند صحابیوں کو ساتھ لے کر عمرہ کی غرض سے ذیقعدہ سن۷ھجری میں مدینہ سے مکہ کی جانب روانہ ہوئے ۔ لیکن وہاں کے مشرک آپ سے اور آپ کے ساتھیوں سے جنگ پر آمادہ ہو گئے ۔ بلکہ تیر اندازی اور سنگ باری شروع کر دی ۔ انہوں نے اس حرمت والے اور مقدس مہینے کی بھی پرواہ نہ کی ۔ 

یہ آیت اسی واقعہ کی طرف اشارہ کرتی ھے ۔ الله تعالی فرماتا ھے کہ کسی مہینے کی حرمت اور عزت اسی وقت تک برقرار رہ سکتی ھے جبکہ دوسرا فریق بھی اس کا عزت اور احترام کرے ۔ اور اگر یہ نہیں تو پھر کسی حرمت والے مہینے کی بنیاد ہی نہیں ۔ اگر دوسرا فریق احترام والے مہینے میں بھی جنگ سے بازنہیں آتا تو تم بھی ان کے مقابلے میں جنگ شروع کر دو ۔ اگر انہوں نے اس بات کا لحاظ نہیں کیا کہ یہ مہینہ حرمت والا ھے یا یہ جگہ حرمت والی ھے یا تم مسلمانوں نے احرام باندھ رکھا ھے تو پھر تم بھی تیار ھو جاؤ اور ہتھیار اٹھا لو ۔ 

اس کے بعد یہ بتایا کہ اگر انہوں نے تمہاری حرمتوں کی پرواہ نہ کرتے ہوئے تم پر زیادتی کی ھے تو تم بھی ان کو جواب دو ۔ 

یہاں لفظ اعتداء ( ان پر زیادتی کرو ) اس لئے آیا ھے کہ عربی زبان میں یہ محاورہ ھے کہ جس فعل کی سزا دینی ھے اس کی سزا کے لئے بھی وہی لفظ بولا جاتا ھے ۔ مطلب یہ کہ انہیں جواب میں سزا دو اور قتل کرو ۔ یہ مراد ہرگز نہیں کہ تم بھی زیادتی کرو ۔

درس قرآن ۔۔۔ مرتبہ درس قرآن بورڈ

*قتال کی حدِ آخر*


وَقَاتِلُوهُمْ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔   حَتَّى ۔۔ لَا تَكُونَ ۔۔ فِتْنَةٌ ۔۔۔۔۔۔۔ وَيَكُونَ ۔۔الدِّينُ 
اور ان سے لڑو ۔۔ یہاں تک ۔۔ نہ رہے ۔۔ فتنہ ۔۔ اور ہو ۔۔ دین
لِلَّهِ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔   فَإِنِ ۔۔۔۔۔  انتَهَوْا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔  فَلَا ۔۔۔۔۔۔  عُدْوَانَ 
الله کے لئے ۔۔ پس اگر ۔۔ وہ باز آجائیں ۔۔پس نہیں ۔۔ زیادتی 
  إِلَّا عَلَى ۔۔الظَّالِمِينَ  1️⃣9️⃣3️⃣
مگر ۔۔ پر ۔۔ ظالم

وَقَاتِلُوهُمْ حَتَّى لَا تَكُونَ فِتْنَةٌ وَيَكُونَ الدِّينُ لِلَّهِ فَإِنِ انتَهَوْا فَلَا عُدْوَانَ 
إِلَّا عَلَى الظَّالِمِينَ  1️⃣9️⃣3️⃣

اور ان سے یہاں تک لڑو کہ فتنہ باقی نہ رہے ۔ اور الله تعالی ہی کا دین ہو جائے پھر اگر وہ باز آجائیں تو ظالموں کے سوا کسی پر زیادتی نہیں ۔
قٰتِلُوْھُمْ
ان سے لڑو
اس سے تمام کافر مراد ہو سکتے ہیں ۔ لیکن علماء نے صرف مکہ کے مشرکین ہی مراد لئے ہیں ۔ چونکہ یہاں روئے سخن انہی کی طرف معلوم ہوتا ھے ۔ 
الدّین
دین 
یہ لفظ عربی میں جزا و سزا یعنی بدلے کے معنوں میں استعمال ہوتا ھے ۔ قرآن مجید میں یہ متعدد معنوں میں آیا ھے ۔ مثلا بدلہ ۔ طریق ۔ فکر وعمل ۔ مذہب ۔ الله تعالی کی عبادت اور فرمانبرداری وغیرہ ۔
اس آیت میں یہ حکم عام کر دیا گیا کہ تم فتنہ پرداز کافروں اور اسلام کے دشمنوں سے مسلسل جنگ کرتے رہو ۔ حتی کہ فتنہ و فساد ختم ہو جائے اور الله کا قانون غالب ہو جائے ۔ کسی شخص میں الله جل جلالہ کے قانون کی مخالفت ، دشمنی اور خلاف ورزی کی طاقت نہ رھے اور اگر کوئی شخص اس کی توہین کرے تو اسے فورا سزا مل جائے ۔ 
اسلام اس چیز کا خواہشمند ھے کہ الله سبحانہ تعالی کا قانون عام ہو ۔ تمام دوسرے مذاہب کے ماننے والے اطمینان سے اپنی اپنی جگہ زندگی بسر کر سکیں ۔ عبادت گاہیں اور مذہبی مقامات بدکار لوگوں کی دست برداری سے محفوظ رہیں ۔ اور اسلام کی راہ میں کوئی رکاوٹ پیدا نہ ہو ۔ صرف یہی ایک صورت ہے جس سے دنیا میں امن قائم رہ سکتا ھے ۔ ورنہ فتنہ ہمیشہ سر اٹھاتا رھے گا ۔ اور لوگ کبھی چین کی زندگی بسر نہ کر سکیں گے ۔
اس کے لئے اسلام کے پاس تین راہیں کُھلی ہیں ۔
۱۔ لوگوں کو اسلام قبول کرنے کی دعوت دے ۔ اگر وہ مان لیں ۔۔۔ اور الله جل شانہ ، اس کے رسول صلی الله علیہ وسلم اور یومِ آخر پر ایمان لے آئیں ۔ تو الله تعالی ان کے گناہ بخش دے گا ۔ اور وہ اسلامی معاشرہ میں مسلمانوں کے برابر حقوق پا لیں گے ۔ 
۲۔ اگر لوگ اسلام قبول کرنے کے لئے تیار نہ ہوں ۔ البتہ اس کی مخالفت سے باز آنے کا اقرار کر لیں ۔ تو وہ شوق سے اسلامی سلطنت میں رہیں ۔ اس صورت میں ان کی حفاظت مسلمانوں کے ذمہ ہو گی ۔ 
۳۔ اگر ان دونوں باتوں پر راضی نہ ہوں اور وہ الله جل جلالہ کے قانون کی خلاف ورزی کرتے رہیں ۔ یعنی خود غرضی میں دیوانے ہو جائیں ۔ تو پھر ان کا فیصلہ تلوار سے کر دینا چاہئیے ۔ ان کی سزا قتل کے سوا کوئی اور نہیں ۔ فتنہ پرداز اور امن دشمن انسانوں کو کبھی معاف نہیں کیا جا سکتا ۔
درس قرآن ۔۔۔ مرتبہ درس قرآن بورڈ 

*فتنہ قتل سے بدتر ہے*


وَالْفِتْنَۃُ ۔۔۔ اَشَدُّ ۔۔۔۔۔۔۔   مِنَ ۔۔۔۔۔۔۔ الْقَتْلِ
اور فتنہ ۔۔ زیادہ سخت ۔۔ سے ۔۔ قتل
وَالْفِتْنَۃُ اَشَدُّ مِنَ الْقَتْلِ
اور فتنہ مار ڈالنے سے بھی زیادہ سخت ھے ۔
اَلْفِتْنَۃُ 
فتنہ
فتن سے بنا ھے ۔ کھوٹ نکالنے کے لئے سونے کو آگ میں ڈالنا اس کے لفظی معنی ہیں ۔ محض آگ میں ڈالنا بھی اس کے معنی ہیں ۔ اس اعتبار سے اصطلاحی طور پر دکھ اور تکلیف ، آزمائش اور امتحان کے معنی میں بھی بولا جاتا ھے ۔ اس کے علاوہ الله تعالی کی راہ میں ایذا پہنچانے اور بدامنی ، قتل و غارت گری اور زبردستی دین سے ہٹانے کے معنوں میں بھی آتا ھے ۔ یہاں انہی آخری معنوں میں استعمال ھوا ھے ۔ 
انسان کو قتل کرنا بالاتفاق بہت بڑی برائی ھے ۔ لیکن اس سے بھی بڑی برائی یہ ھے کہ لوگ دوسروں کی آزادی گویا حقِ زندگی چھیننے کی کوشش کریں ۔ ان کے حقوق کو پامال کریں ۔ ایک قوم کو صرف اس لئے کہ وہ توحید کی قائل اور شرک سے بے زار ھے مٹانا چاہیں ۔ 
توحید کی جگہ کفر و شرک پھیلانا چاہیں ۔ اگر اس فتنہ اور شرارت کو دور نہ کیا جائے تو پھر یہ پھیلتا پھیلتا اس قدر عام ہو جائے گا کہ کوئی قوم زندہ نہ رہ سکے گی ۔ بلکہ سبھی جنگ و جدال اور آگ کی لپیٹ میں آجائیں گے ۔ اس لئے اگر فتنہ کو دبانے کے لئے کچھ لوگ قتل کرنے پڑیں تو کوئی حرج نہیں ۔ کیونکہ بڑی برائی کو روکنے کے لئے تھوڑی بہت قربانی کوئی معنی نہیں رکھتی ۔ 
اسلام ایک دین ھے جو انسان کو انسانیت ، اخلاق ، سچائی و انصاف ، نیکی اور پرہیزگاری کی راہ دکھاتا ھے ۔ اس لئے اس دین سے دشمنی کرنا گویا انسانیت سے دشمنی کرنا ھے ۔ اور اس کا منکر ہونا زندگی کا منکر ہونا ھے ۔ اسلام سے ہٹنے والا اپنی تباہی و بربادی کو دعوت دیتا ھے ۔ اس لئے الگ ہونے والا گویا موت کے منہ میں آجاتا ھے ۔ 
ہر وہ آدمی جو اسلام جیسے فطری دین سے لوگوں کو روکتا ھے وہ فتنہ پرداز ھے ۔ اور اگر وہ زندہ رہے گا تو دوسرے لوگوں کے اعمال اور اخلاق کو خراب کرے گا ۔ اس لئے ایسے انسانیت دشمن طبقے کا کا وجود ہر حالت میں ناقابل برداشت ھے ۔ بہتر ھے کہ اسے ختم کر دیا جائے ۔ تاکہ ایک بھیڑ سب کو گندہ نہ کرے ۔ اس کی یہ فتنہ پردازی پرامن تبلیغ کی معاندانہ مخالفت ۔ انسان کی فطری آزادی کو سلب کرنے کے مترادف ھے ۔ ۔ اور یہ آخر کار دنیا کو فتنہ و فساد ، کشت وخون اور غدر و بدامنی کی طرف لے جا کر رہے گی ۔ اس لئے پیشتر اس کے کہ وسیع پیمانے پر قتل و خون ہو بہتر یہ ھے کہ ابھی اس کی جڑ اکھاڑ دی جائے ۔ 
یہ بات بھی قابل غور ھے کہ گھروں سے نکال دینا ۔ جلا وطن کر دینا یا قتل کر دینا تو بعد کی بات ھے اصل چیز تو یہ ھے کہ جس کے نتیجہ میں یہ چیزیں ظاہر ہوتی ہیں 
اس لئے اخراج ، جلا وطنی اور قتل و خون کو روکنے کے لئے اس جڑ کو کاٹنے کی ضرورت ھے ۔ اور وہ جڑ ھے فتنہ ۔۔۔ فتنے کی تمام شکلوں کو سرے سے مٹا دینا چاہئیے ۔ خواہ ان کے لئے قتل ہی کیوں نہ کرنا پڑے ۔ کیونکہ یہی وسیع قتل کو جنم دیتا ھے ۔ قتل سے بھی اشدتر اور بُری چیز ناحق فتنہ و فساد پھیلانا ھے ۔ اس لئے فتنہ پردازو مفسدوں کو ختم کرنا انسانیت پر بہت بڑا احسان ھے ۔
درس قرآن ۔۔۔ مرتبہ درس قرآن بورڈ 

*خانہ کعبہ کا احترام*

وَلَا تُقَاتِلُوهُمْ ۔۔ عِندَ ۔۔ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ ۔۔۔ حَتَّى ۔۔۔يُقَاتِلُوكُمْ
اور نہ ان سے لڑو ۔۔۔ پاس ۔۔ مسجد حرام ۔۔۔ یہاں تک کہ ۔۔۔وہ لڑیں تم سے
 فِيهِ ۔۔۔ فَإِن ۔۔ قَاتَلُوكُمْ ۔۔۔۔ فَاقْتُلُوهُمْ ۔
 اس  جگہ ۔۔۔ پس اگر ۔۔۔ وہ لڑیں تم سے ۔۔ پس تم ان سے لڑو 
كَذَلِكَ ۔۔۔ جَزَاءُ ۔۔۔ الْكَافِرِينَ۔ 1️⃣9️⃣1️⃣
یہی ۔۔۔ بدلہ ۔۔ کافر 

فَإِنِ ۔۔۔انتَهَوْا ۔۔۔ فَإِنَّ ۔۔۔اللَّهَ ۔۔۔ غَفُورٌ ۔۔۔۔ رَّحِيمٌ 1️⃣9️⃣2️⃣
پھر اگر ۔۔ وہ باز آجائیں ۔۔ پس بے شک ۔۔۔ الله تعالی ۔۔ بخشنے والا ۔۔ مہربان  

وَلَا تُقَاتِلُوهُمْ عِندَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ حَتَّى يُقَاتِلُوكُمْ فِيهِ فَإِن قَاتَلُوكُمْ فَاقْتُلُوهُمْ
كَذَلِكَ جَزَاءُ الْكَافِرِينَ. 1️⃣9️⃣1️⃣

اور ان سے مسجد حرام کے پاس نہ لڑو جب تک کہ وہ تم سے اس جگہ نہ لڑیں  ۔ پھر اگر وہ تم سے لڑیں تو انہیں مارو۔ کافروں کی سزا یہی ہے  

فَإِنِ انتَهَوْا فَإِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ 1️⃣9️⃣2️⃣

 پھر اگر وہ باز نہ آجائیں تو بے شک الله تعالی بخشنے والا نہایت مہربان ہے ۔

عِنْدَ الْمَسْجِدِ الْحَرَام  ۔ ( مسجد حرام کے پاس ) ۔ 
خانہ کعبہ کے چاروں طرف کئی میل کا علاقہ اصطلاح میں حرم کہلاتا ہے ۔ اس کے احترام میں یہ بھی شامل ہے کہ یہاں جنگ نہ لڑی جائے ۔ اور کشت و خون نہ کیا جائے ۔ حتی کہ جانور کا شکار بھی نہ کیا جائے گا ۔ 
آیت کے ابتدائی حصہ میں  بیان ہوچکا ہے کہ دین سے روکنا ۔ فساد پھیلانا ۔ ایذا پہنچانا ۔ بد امنی ۔ غارت گری اور زبردستی دین سے ہٹانا فتنہ میں شامل ہیں ۔ اور فتنہ ہر حال میں دبانا چاہئیے ۔ خواہ قتل ہی کیوں نہ کرنا پڑے ۔ فتنہ کو دبانے کے لئے اگر ابتدا میں جنگ نہ کی جائے تو یہ پھیلتا پھیلتا پوری قوم اور ملک کو لپیٹ میں لے لے گا ۔ پھر وسیع پیمانے پر جھگڑے ، کشمکش اور لُوٹ مار بدامنی اور قتل و غارت گری شروع ہو جائے گی ۔ 
اس آیت میں یہ بتایا گیا ہے کہ اگر دشمنان اسلام اپنی شرارتوں سے باز نہ آئیں اور حرم شریف میں ہی جنگ شروع کر دیں گے ۔ تو پھر تم بھی ان سے اس جگہ جنگ کرسکتے ہو ۔ عام حالات میں یہ حکم ہے کہ خانہ کعبہ کے نزدیک جنگ اور خونریزی نہ ہو ۔ کیونکہ یہ گھر احترام اور امن کی جگہ ہے لیکن فتنہ کو فرو کرنا اس قدر ضروری ہوا ۔ 
کہ وہ لڑائی کی لپیٹ میں آسکتی ہے ۔ امن کے دشمنوں کی سزا یہی ہے کہ انہیں ان کے وطنوں سے جلاوطن کیا جائے یا قتل کیا جائے ۔ ہاں البتہ اگر وہ فتنہ اور فساد سے باز آجائیں ۔ بدکاری اور بدعملی سے توبہ کر لیں اور اسلام کی پناہ میں آجائیں تو پھر تم ان پر تلوار نہ اٹھاؤ ۔ بلکہ انہیں اپنا بھائی سمجھو ۔ کیونکہ الله تعالی توبہ کرنے والوں کے پچھلے گناہ بخش دیتا ہے 
اس آیت سے تین باتیں ثابت ہوتی ہیں ۔ 
مسجد حرام ایک امن کی جگہ ہے ۔ یہاں قتل و خونریزی اور جنگ نہیں کرنا چاہئیے ۔
اگر یہاں حملہ ہو تو جوابی جنگ لڑی جا سکتی ہے ۔ 
قتال اور جہاد اجتماعی فریضہ ہے ۔ چنانچہ بار بار اور ہر جگہ جمع کے صیغہ میں ہی حکم دیا گیا ہے 
درس قرآن ۔۔۔ مرتبہ درس قرآن بورڈ 

*جنگ اور جلا وطنی*


وَاقْتُلُوهُمْ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔   حَيْثُ ۔۔۔۔۔۔  ثَقِفْتُمُوهُمْ 
اور تم مار ڈالو ان کو ۔۔جہاں ۔۔ تم پاؤ ان کو ۔۔
وَأَخْرِجُوهُم ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔   مِّنْ حَيْثُ ۔۔۔۔۔۔  أَخْرَجُوكُمْ 
 اور تم نکال دو ان کو ۔۔ جہاں سے ۔۔ نکالا انہوں نے تم کو 

وَاقْتُلُوهُمْ حَيْثُ ثَقِفْتُمُوهُمْ وَأَخْرِجُوهُم مِّنْ حَيْثُ أَخْرَجُوكُمْ

اور انہیں جس جگہ پاؤ مار ڈالو اور جہاں سے انہوں نے تمہیں نکالا تم انہیں نکال دو۔
اُقْتُلُوْھُمْ
انہیں مار ڈالو 
سے مراد وہی لوگ ہیں جو لڑائی کے لئے نکلے ہوں ۔ ۔ یہ حکم حالتِ جنگ کا ھے ہر وقت کا نہیں ۔ 
حَیْثُ ثَقِفْتُمُوْھُمْ
جس جگہ انہیں پاؤ ۔
یعنی ان جنگ کرنے والوں اور قتل کرنے والوں کو جہاں کہیں پاؤ قتل کر دو۔ جب جنگ ہو رہی ہو تو ہاتھ نہ روکو ۔ 
مِنْ حَیْثُ اَخْرَجُوْکُمْ
جہاں سے انہوں نے تمہیں نکالا ۔
یعنی مکہ سے کفار و مشرکین نے تمہیں نکالا تھا 
اس آیت میں قتال اور جہاد کا حکم دیا گیا ھے ۔ اسلام کے دشمن ہمیشہ اس کوشش میں رہتے ھیں کہ مسلمان ابھرنے نہ پائیں ۔ انہیں صفحۂ ہستی سے مٹا دیا جائے ۔ اس لئے ایسے مخالفوں کا وجود اسلام کے لئے ہر وقت خطرے کا باعث ھے ۔ لہذا جہاں کہیں مسلمان ان پر غلبہ حاصل کریں ۔ وہ پُر امن شہری بن کر رہنا پسند نہ کریں اور شرارتوں سے باز نہ آئیں تو انہیں قتل کر دیں ۔ 
بیت الله کو حضرت ابراھیم علیہ السلام نے الله تعالی کے حکم سے اس لئے تعمیر کیا تھا کہ تمام روئے زمین کے لوگ وہاں آکر خالص طور پر الله تعالی کی عبادت کریں ۔ اس کے اصل وارث مسلمان تھے ۔ اس لئے کہ مسلمان ہی اقوامِ عالم میں دینِ ابراھیمی کے نام لیوا تھے ۔ اور الله تعالی کی شریعت اور دین حق کے پابند تھے ۔ ۔ مسلمانوں نے اسے نئے سرے سے دین اسلام کا مرکز بنانا چاہا لیکن کافروں اور مشرکوں نے اس کی مخالفت کی ۔ ۔ ان کے راستے میں روڑے اٹکائے ۔ انہیں کلمۂ حق کہنے سے روکا ۔ اور ان پر ظلم اور سختیاں کیں ۔ حتی کہ مسلمانوں کو مکہ ہی سے نکال دیا ۔
مظلوم مسلمان اپنے آبائی وطن اور مرکز کو چھوڑ کر مدینہ چلے آئے ۔ وہاں بھی کافروں نے انہیں چین سے بیٹھنے نہ دیا ۔ ۔ مختلف قسم کی سازشیں کیں ۔ برابر چھیڑ چھاڑ اور مخالفت جاری رکھی ۔ مسلمانوں کو حج کرنے سے روکا ۔ دعوت اسلامی میں ایک بڑی رکاوٹ بن گئے ۔ ۔ مدینہ پر حملے شروع کر دئیے ۔ 
ان حالات میں مسلمانوں کو حکم دیا گیا کہ ایسے کافر دشمنوں کو جہاں پاؤ قتل کر دو ۔ اور اپنا آبائی وطن اور روحانی مرکز واپس لینے کے لئے انہیں وہاں سے نکال دو ۔ کیونکہ ان کی ایذا رسانیاں حد سے گزر چکی ہیں ۔
ایک مسلمان کی ہستی انسانیت کا صحیح نمونہ ھے ۔ وہ دین فطرت اسلام پر عمل پیرا ھے ۔ وہ اپنے قول و فعل سے اخلاقِ حسنہ کا علمبردار ھے ۔ ۔ کامل انسانیت کا نمونہ ہونے کی حیثیت میں اسے پوری آزادی سے زندہ رھنے کا حق ملنا چاہئیے ۔ اسلام نہ کسی کی آزادی چھینتا ھے نہ اپنی آزادی قربان کر سکتا ھے ۔ نہ کسی ایسے دستور ، طریق کار اور نظام کو برداشت کر سکتا ھے جو امن سوز ۔۔ باطل پرست ۔۔ خدا دشمن اور شرافت و انسانیت کے لئے باعثِ ننگ ھو ۔
درس قرآن ۔۔۔ مرتبہ درس قرآن بورڈ 

*الله تعالی کی راہ میں جنگ*

 وَ قاتِلُوا ۔۔۔في ۔۔ سَبيلِ ۔۔۔اللَّهِ ۔۔۔الَّذينَ 
اور لڑو ۔۔۔ میں ۔۔۔   راہ  ۔۔۔۔ الله تعالی ۔۔ وہ لوگ
يُقاتِلُونَکُمْ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔   وَ لا تَعْتَدُوا ۔۔۔۔۔۔۔۔إِنَّ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔اللَّهَ 
وہ لڑتے ہیں تم سے ۔۔ اور نہ تم زیادتی کرو ۔۔بے شک ۔۔  الله تعالی
لا يُحِبُّ ۔۔۔۔۔۔۔۔الْمُعْتَدينَ۔ 1️⃣9️⃣0️⃣
 نہیں وہ پسند کرتا ۔۔ زیادتی کرنے والے 

وَ قاتِلُوا في سَبيلِ اللَّهِ الَّذينَ يُقاتِلُونَکُمْ وَ لا تَعْتَدُوا
إِنَّ اللَّهَ لا يُحِبُّ الْمُعْتَدينَ۔ 1️⃣9️⃣0️⃣

اور الله کی راہ میں لڑو ان لوگوں سے جو تم سے لڑتے ہیں ۔ اور زیادتی نہ کرو بے شک الله تعالی زیادتی کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا ۔

وَقَاتِلُوا
اور لڑو 
لفظ قتال سے ھے ۔ جس کےمعنی ہیں جنگ کرنا ۔ یہ حکم مسلمانوں کو اس حالت میں مل رہا ھے جب کہ ان پر ان کے دشمن اور مخالفین اسلام ظلم ڈھا چکے ہیں۔ یہ ظلم چند دن کے لئے نہیں بلکہ تیرہ برس تک مکہ میں قیام کے دوران ہوتا رہا ۔ کافروں کی زیادتی اور بے رحمی کے جواب میں صبر کرتے ہوئے مسلمان جب وطن اور گھر بار چھوڑ کر کر بے وطن ہوئے ۔ مدینہ میں جا بسے ۔ تو اسقدر لمبے اور سخت امتحان کے بعد دشمنوں سے مدافعت کے لئے جنگ کی اجازت ہوئی ۔ وہ بھی ظالموں کے بار بار چھیڑ چھاڑ اور حملے کرنے کے بعد ۔ 
فِیْ سَبِیْلِ اللهِ
الله کی راہ میں 
یعنی ذاتی غرض کے لئے نہیں ۔ بلکہ صرف الله جل شانہ کا بول بالا کرنے کے ، شرک مٹانے اور دین حق کی حمایت اور الله تعالی کی رضا حاصل کرنے کے لئے ۔ 
اَلَّذِیْنَ یُقَاتِلُونَکُمْ
جو لوگ تم سے لڑتے ہیں 
یعنی وہ جنہوں نے تم پر ہتھیار اٹھائے ۔ ان الفاظ سے دو باتیں ظاہر ہوتی ہیں ۔ 
۱۔ یہ کہ جنگ میں پہل کرنے والے مسلمان نہ تھے ۔ اور نہ انہیں ہونا چاہئیے تھا ۔ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کی تمام جنگیں حفاظت اور مدافعت کے لئے تھیں ۔ 
۲۔ یہ کہ جنگ صرف ان لوگوں کے خلاف کی جائے جو عملی طور پر لڑائی میں حصہ لے رہے ہوں ۔ اس حکم کی رو سے تمام بوڑھے ۔ بچے ۔ عورتیں ۔ بیمار اور غیر جانبدار لوگ مستثنی ہو جاتے ہیں ۔ اسلام میں ان سے جنگ کرنا جائز نہیں ھے ۔ البتہ اَلّذِیْنَ یُقَاتِلُوْنَکُمْ 
میں وہ تمام دشمن شامل ہیں جو اسلام اور مسلمانوں کے خلاف جنگ کی تیاریوں میں مصروف ہوں ۔ اور کسی صورت میں لڑنے والوں کی مدد کر رہے ہوں ۔ 
لَا تَعْتَدُوْا
زیادتی نہ کرو 
یہ لفظ اعتداء سے نکلا ھے ۔ جس کے معنی ہیں حق سے بڑھنا اور حد سے آگے نکل جانا ۔ 
اسکی کئی صورتیں ہو سکتی ہیں ۔ 
۱۔ حد سے مراد شریعت کی حد بھی ہو سکتی ھے ۔ مثلا یہ کہ انتقام اور غصہ کے جوش میں دشمن قوم کے ایسے لوگوں کو بھی قتل کر دینا جو لڑائی میں شامل نہ ہوں ۔ ان کے کھیتوں ۔ باغوں اور پھلدار درختوں کو آگ لگا دینا ۔ان کے بے زبان جانوروں کو مار دینا ۔ 
۲۔ حد سے مراد معاھدہ کی حد بھی ہو سکتی ھے ۔ مثلا یہ کہ دوسری قوموں کی تقلید کرکے خود بھی معاھدوں کی پرواہ نہ کرنا اور حد شکنی کی ابتداء کرکے ہلّہ بول دینا ۔ 
۳۔ زیادتی کی ایک شکل یہ بھی ہو سکتی ھے کہ فی سبیل الله کے علاوہ کسی اور مقصد اور غرض کے لئے جنگ کی جائے ۔ 

درس قرآن ۔۔۔ مرتبہ درس قرآن بورڈ 

*رشوت*

وَ تُدْلُوا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔   بِها ۔۔۔إِلَي ۔۔۔الْحُکَّامِ ۔۔ لِتَأْکُلُوا ۔۔۔۔۔۔۔۔ فَريقاً ۔۔۔۔۔  مِنْ۔۔۔ أَمْوالِ
اور (نہ) پہنچاؤ۔۔اس کو ۔۔ تک ۔۔حاکم۔۔ تاکہ تم کھاؤ۔۔کوئی حصہ ۔۔ سے ۔۔ مال
 ۔۔النَّاسِ ۔۔۔بِالْإِثْمِ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔    وَ أَنْتُمْ تَعْلَمُونَ
 ۔۔ لوگ ۔۔ گناہ کے ساتھ ۔۔ اور تم جانتے ہو

تُدْلُوا بِها إِلَي الْحُکَّامِ لِتَأْکُلُوا فَريقاً مِنْ أَمْوالِ النَّاسِ بِالْإِثْمِ وَ أَنْتُمْ تَعْلَمُونَ
اور انہیں حاکموں تک نہ پہنچاؤ کہ لوگوں کے مال میں سے کوئی حصہ کھا جاؤ ناحق اور تم جانتے ہو ۔

تُدْلُوْا 
تم پہنچاؤ
لفظ۔ اولاء۔ سے نکلا ہے ۔ جس کے معنی ہیں کنویں میں ڈول ڈالنا ۔ کسی چیز کو کہیں پہنچانا ۔ یا اسے وسیلہ بنانا بھی معنی مراد لئے جاتے ہیں ۔ مطلب یہ ہوا کہ حاکموں کو اپنا طرفدار بنانے یا ان تک رسائی حاصل کرنے کے کا مال کو فدیہ نہ بناؤ ۔ اور رشوت یا مالی تحائف دے کر حاکموں پر اثر نہ ڈالو ۔ 
فَرِیْقاً 
کوئی حصہ ۔
اس لفظ کے معنی کسی گروہ یا فریق بھی ہوتے ہیں ۔لیکن یہاں یہ حصہ یا جزو کے معنی میں استعمال ہوا ہے ۔ 
بِالاِثْمِ
ناحق ۔ 
ہر قسم کی برائیاں اثم کے مفہوم میں شامل ہیں ۔ 
معاشرے میں عدل و انصاف اور لوگوں کے حقوق کی حفاظت کی خاطر قرآن مجید نے یہاں دو باتوں پر زور دیا ھے ۔ 
ایک یہ کہ نذرانے ، ڈالیاں ، دعوتیں اور رشوت کے دوسرے تمام ایسے ذرائع جن سے حاکموں پر اثر ڈالنا اور ان سے رسوخ پیدا کرنا مقصود ہو ناجائز ہیں ۔ کیونکہ اس طرح حاکم جانب دار ہو سکتے ہیں ۔ انصاف کی ترازو ٹیڑھی ہو جاتی ھے۔ عدل اور حق پرستی کا وجود ختم ہو جاتا ھے ۔ ظلم اور حق تلفی عام ہو جاتی ھے ۔ 
جھوٹے دعوے ، جعلی کاغذات ، جھوٹی گواہیاں ، جھوٹے حلف نامے اور حق بات سے کترانا عام ہو جاتا ھے ۔ اس طرح بد عنوانیاں پھیلتی ہیں اور قتل و خون زیادہ ہو جاتے ہیں ۔ ان سب سے بچنے کے لئے یہ قانون بنا دیا گیا ۔ کہ حاکموں کو غیر جانبدار ، عدل پرست اور حق کا طرفدار رکھنے کے لئے ضروری ھے کہ کوئی فرد اپنے مال سے حاکم کو ورغلانے کی کوشش نہ کرے۔ 
دوسری اہم بات جو اس سلسلے میں قرآن مجید نے بتائی ۔ وہ یہ کہ ہر معاملہ اور لین دین میں خود انسان کا ضمیر اسے نیکی کی طرف متوجہ کرتا ھے ۔ اور برائی پر ملامت کرتا ھے ۔ ظاہر ہے کہ دنیا کی بہتر سے بہتر عدالت اور عادل سے عادل حاکم کے فیصلے بہرحال مقدمہ کی صورتحال اور گواہوں کی شھادت کے مطابق ہی ہوں گے ۔ اور ان میں غلطی اور لغزش ممکن ھے ۔ 
لہٰذا کسی حاکم اور قاضی کے فیصلے کے باوجود اصل مجرم ان کی نگاہ میں جرم سے اور گنہگار اپنے گناہ کی سزا سے بچ سکتا ھے ۔ لیکن انسان کا ضمیر اسے دھوکا نہیں دے سکتا ۔ بشرطیکہ اس نے ضمیر کی آواز کو دبا دبا کر مار ہی نہ دیا ہو ۔ 
ایک حدیث مبارکہ کا مفہوم ھے کہ 
آپ صلی الله علیہ وسلم نے ایک مرتبہ فرمایا ۔ میرے پاس مقدمہ آتا ھے مدعی ثابت کر دیتا ھے حالانکہ حق دوسری جانب ھوتا ھے ۔ میں اس بیان کے مطابق فیصلہ کر دیتا ہوں ۔ لیکن وہ سمجھ لے کہ ایک مسلمان کا مال ناجائز طریق سے لینا آگ کو لینا ھے ۔ 
درس قرآن ۔۔۔ مرتبہ درس قرآن 

*ناحق مال*

وَلَا ۔۔۔ تَاْکُلُوآ ۔۔۔۔۔۔۔۔   اَمْوَالَکُمْ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔    بَیْنَکُمْ ۔۔۔ بِالْبَاطِلِ 
اور نہ ۔۔ تم کھاؤ ۔۔ ایک دوسرے کا مال ۔۔۔ آپس میں ۔۔۔ ناحق

وَلَا تَاْکُلُوْا ٓاَمْوَالَکُمْ بَیْنَ کُمْ۔ بِالْبَاطِلِ 
اور آپس میں ایک دوسرے کا مال ناحق نہ کھاؤ ۔ 

لا تَاْکُلوا 
نہ کھاؤ 
یہ لفظ اکل" سے نکلا ھے ۔ جس کے معنی کھانا ھے ۔ محاورہ کے اعتبار سے صرف کھانا ہی مراد نہیں ۔ بلکہ کسی طرح بھی ناجائز طور پر مال حاصل کر کے استعمال کرنا مراد ھے ۔ 
اَمْوالَکُمْ 
ایک دوسرے کا مال 
تمام مسلمانوں کو خطاب کیا گیا ھے ۔ اور یہاں اس کے معنی اپنا مال نہیں بلکہ ایک دوسرے کا مال ہوں گے ۔ 
بَیْنَکُمْ 
آپس میں 
عُلماء نے اس لفظ کا دائرہ بہت وسیع بیان کیا ہے ۔ صرف مسلمانوں کے مال تک ہی یہ حکم محدود نہیں بلکہ مراد تمام انسانوں کا مال ھے ۔ خواہ مسلم ہو یا کافر ۔ کسی کا مال بھی دغا ۔ فریب ۔ظلم اور ناحق لینا جائز نہیں ۔ 
بِالْبَاطِلِ 
ناحق
مراد ہر ناجائز طریقہ ھے ۔ اس کی بے شمار صورتیں ہوسکتی ہیں ۔ جائز طریقہ ایک ہی ہوتا ھے ۔ اس کے سوا جو صورت بھی اختیار کی جائے وہ ناجائز اور باطل تصوّر ہو گی ۔ 
روزوں کی فرضیّت سے یہ مقصود تھا کہ اُمّت کے افراد کے نفس پاکیزہ ہوں ۔ الله سبحانہ تعالی کی رضامندی حاصل کرنے کے لئے پہلے وہ اپنے اندر حلال چیزوں کو چھوڑنے کی عادت پیدا کریں ۔ تاکہ آئندہ ناجائز طریق سے حاصل کیا ہوا مال ان کے لئے چھوڑنا آسان ہو جائے ۔ اور اس سے مکمل پرھیز کر سکیں ۔ 
مل جل کر رہنے سے تبادلہ اشیاء کی ضرورت کی پڑتی ھے ۔ اس لئے فرمادیا کہ باہمی لین دین میں کسی کا مال ظلم کرکے کھانے کی کوشش ہرگز نہ ہونی چاہئیے ۔ لوٹ مارکرنا ۔قمار بازی میں الجھنا ، دھوکے فریب چالبازی اور دیگر باطل طریق سے مال حاصل کرنا ایک دم ترک کر دینا چاہئیے 
اسی طرح گانے بجانے کی اجرت ۔ شراب کا کاروبار مثلا بنانا ، خرید و فروخت وغیرہ رشوت لینا ، جھوٹی گواہی دینا ، امانت میں خیانت کرنا ، کمزور و بے بس کا ناحق مال کھانا باطل طریقے ہیں جو چھوڑنے چاہئیے ۔
قرآن مجید نے اس کا فیصلہ زیادہ تر لوگوں کے ضمیر پر چھوڑ دیا ہے کہ ہر شخص اپنی ذمہ داری خود محسوس کرے ۔ اپنا چال چلن اور برتاؤ درست کرے۔ اعمال کے حساب کا ڈر اپنے اندر رکھے ۔ ہر معاملہ دیانت اور امانت کے ساتھ کرے۔ تاکہ حکومت کو صرف خاص خاص حالتوں میں مداخلت کرنے کی ضرورت ہو ۔ 
اس آیت کا نچوڑ یہ ہے کہ نیکی صرف یہ نہیں کہ تم رمضان کے دنوں میں پاک اور جائز چیزوں کو ترک کر دو۔ بلکہ اصل نیکی یہ ھے کہ تم ہمیشہ کے لئے ناجائز مال حاصل کرنا اور کھانا چھوڑ دو ۔ کبھی دھوکے ، فریب ، خیانت ، ظلم ، زیادتی ، بے انصافی سے کسی کا مال حاصل نہ کرو ۔ 
رشوت اور ناجائز تحفے وصول کرنا حرام ھے ۔ جس طرح روزوں سے مسلمانوں کے نفس پاکیزہ ہوں گے ۔ اس طرح اس حکم کی پیروی سے انکے عمل پاک ہو جائیں گے ۔ 
اس کا مبارک اثر اخلاق ، معاشرت، سیاست ، عدالت غرض زندگی کے ہر شعبے پر پڑے گا ۔
درس قرآن ۔۔۔ مرتبہ درس قرآن بورڈ 

*حدود الله*


تِلكَ ۔۔۔ حُدُودُ ۔۔ اللهِ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ فلا ۔۔۔۔۔۔ تَقرَبُوهَا 
یہ ۔۔ حدیں ۔۔ الله تعالی ۔۔۔ پس نہ ۔۔ تم قریب جاؤ ان کے 
كَذٰلِكَ ۔۔۔۔۔۔۔   يُبيِّنُ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔   اللهُ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ آيَاتهِ ۔۔۔۔۔۔۔۔   للِنَّاسِ ۔۔۔۔۔۔۔۔ لَعلَّهُمْ ۔۔ يَتَّقُون 
اس طرح ۔۔ وہ بیان کرتا ہے ۔۔۔ الله تعالی ۔۔ اپنی آیات ۔۔ لوگوں کے لئے ۔۔ تاکہ وہ ۔۔ بچتے رہیں 

تِلْكَ حُدُودُ اللَّهِ فَلَا تَقْرَبُوهَا كَذَلِكَ يُبَيِّنُ اللَّهُ آيَاتِهِ لِلنَّاسِ لَعَلَّهُمْ يَتَّقُونَ

یہ الله تعالی کی باندھی ہوئی حدیں ہیں سو ان کے نزدیک نہ جاؤ اسی طرح الله تعالی اپنی آیات لوگوں کے لئے بیان فرماتا ھے ۔ تاکہ وہ بچتے رہیں ۔ 
تِلْکَ
یہ ۔۔۔۔ اس سے ان چھ سات احکام کی طرف اشارہ ہے جو پچھلے اسباق میں بیان ہو چکے ہیں 
حُدُودٌ 
حد کی جمع 
اس سے مراد الله تعالی کے مقرر کئے ہوئے ضابطے اور قاعدے ہیں ۔ جن کی پابندی پر بار بار قرآن مجید میں زور دیا گیا ہے ۔ 
روزے کی برکات اور اس کی فرضیت بیان کرنے کے بعد قرآن مجید نے اس سے متعلق ضمنی قوانین بتا دئیے ہیں ۔ اعتکاف کے لوازمات اور دوسرے ضابطے بھی واضح کر دئیے ۔ اب آیت کے اس آخری حصے میں یہ تنبیہ کی گئی ھے کہ 
تمام قوانین ، اصول ، حدیں اور بندشیں الله جل جلالہ نے وضع کی ہیں ۔ ان سے منہ موڑنا اور ان کی خلاف ورزی کرنا معمولی بات نہ ہو گی ۔ انہیں مقرر کرنے والا الله تعالی ھے ۔ جو حکمت اور علم والا ھے ۔ اس کی ھدایات اور احکام برحق ہیں ۔ مصلحت پر مبنی ہیں ۔ انسانوں کی فلاح اور کامیابی کے ضامن ہیں ۔ ان کی پیروی اور تعمیل سے دنیا و آخرت سنورے گی ۔ 
ان کی روگردانی اور سرتابی تباھی اور بربادی کا پیش خیمہ ہو گی ۔ اس لئے کسی انسان کو ان حدود سے باہر نہیں جانا چاہئیے ۔الله سبحانہ تعالی کی باندھی ہوئی حدوں کے اندر رہنا چاہئیے ۔ 
جس طرح الله تعالی نے روزے کے احکام ، اس کی حدیں ، اوقات ، اعتکاف اور اس سےمتعلق دوسرے اُمور تفصیل سے بیان کر دئیے ۔ اسی طرح وہ باقی احکام انسان کی فلاح اور بہتری کے لئے تفصیل سے بیان فرماتا ھے ۔ ان احکام پر مضبوطی سے کاربند ہونے سے انسان میں تقوٰی ، پرھیزگاری ، جذبہ اطاعت و فرمانبرداری ، اخلاص و ایثار ، پاکدامنی اور پاکبازی ، نیک عملی و نیکو کاری پیدا ہوگی ۔
انسان اپنی کم فہمی کی بنا پر اپنی مصلحت اور بہبود کے لئے خود کوئی راہ قائم نہیں کر سکتا ۔ اسے ایک بزرگ و برتر ہستی ۔ عالم کُل اور حاکم مطلق کی ھدایات کی ضرورت ہوتی ھے ۔ وہ الله جل جلالہ ھے ۔ اس نے نہایت شفقت سے کام لے کر ہمیں کامیابی و کامرانی کی راہ بتا دی ۔ ہمیں چاہئیے کہ بلا تامّل اس صراطِ مستقیم پر چل پڑیں ۔ اور مقصودِ اصلی پا لیں ۔
درس قرآن ۔۔۔ مرتبہ درس قرآن بورڈ 

*اعتکاف کے احکام*


وَلَا تُبَاشِرُوْھُنَّ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔     وَاَنْتُمْ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔    عَاکِفُوْنَ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔  فِی الْمَسَاجِدِ۔ ط
اور نہ تم عورتوں سے مباشرت کرو ۔۔۔ اور ہو تم ۔۔۔ اعتکاف کرنے والے ۔۔۔ مسجدوں میں

وَلَا تُبَاشِرُوْھُنَّ وَ اَنْتُمْ عَاکِفُوْنَ فِی الْمسَاجِدِ 

اور عورتوں سے نہ ملو جب تم اعتکاف میں ہو مسجدوں میں 

تُبَاشِرُوْھُنّ 
عورتوں سے نہ ملو 
یہاں لفظ مباشرت وسیع معنوں میں استعمال ہوا ھے ۔ یعنی صحبت کے علاوہ بوس و کنار بھی نہ کرو ۔ 
عَاکِفُوْنَ 
اعتکاف کرنا 
لفظ اعتکاف سے ھے ۔ جس کے لغوی معنی ہیں خود کو کسی شئے سے روک کر رکھنا ۔ یا اسے اپنے آپ پر لازم کر لینا ۔ اصطلاح میں اس سے مراد ھے ۔ مسجد میں بیٹھ کر اپنے آپ کو عبادت کے لئے وقف کر لینا ۔
روزوں کے سلسلے میں ایک اور حکم یہ دیا کہ جب تم مسجد میں اعتکاف کر رہے ہو تو عورتوں کے پاس مت جاؤ ۔ 
اعتکاف کے بارے میں چند ضروری احکام درج ذیل ہیں ۔ 
۱۔ اعتکاف کرنے والے پر لازم ھے کہ وہ دوران اعتکاف ہر وقت مسجد میں رھے ۔ وہیں کھائے پیئے اور سوئے جاگے ۔ صرف بدنی اور شرعی ضرورتوں کے لئے ہی مسجد سے باہر نکل سکتا ھے ۔ 
۲۔۔ اعتکاف کے لئے مدت کم از کم ایک دن ھے ۔ اور زیادہ سے زیادہ کی کوئی حد نہیں ۔ 
۳۔۔ فی المساجد سے ظاہر ہوتا ہے کہ اعتکاف ہمیشہ مسجد ہی میں ہونا چاہئیے ۔
البتہ عورتوں کا اعتکاف مسجد کی بجائے گھر کے کسی گوشہ میں ہو سکتا ھے ۔ 
۴۔ اعتکاف کے دوران گفتگو جائز ھے ۔ بشرطیکہ مسجد کے احترام اور اعتکاف کے آداب کے خلاف نہ ہو ۔ 
نبی آخر الزماں صلی الله علیہ وسلم کی عادت  مبارک تھی آپ ماہِ رمضان کے آخری عشرہ میں پورے دس دن کے لئے مسجد میں اعتکاف فرماتے ۔اور دنیاوی معاملات سے اپنا تعلق بالکل توڑ لیتے ۔ 
اسی لئے اعتکاف سنت کفایہ ھے ۔ یعنی ایسی سنت کہ محلّہ کا ایک آدمی کرلے ۔ تو دوسروں کی ذمہ داری ختم ہو جاتی ھے ۔ لیکن اگر ایک بھی نہ کرے تو تمام لوگ گنہگار ہوں گے ۔ 
اعتکاف کے بہت سے فوائد ہیں ۔ روحانی قوت حاصل کرنےاور ایمانی اعتبار سے تازہ دم ہونے کے لئے اس سے بہتر طریقہ اور کوئی نہیں ۔ کیونکہ اعتکاف کے دوران انسان اپنا وقت مسلسل اطاعت اور عبادت میں گزارتا ھے ۔ اسے تنہائی اور یکسوئی میسر آتی ھے ۔ 
ہمیں چاہئیے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی اس سنت پر پورا پورا عمل کریں ۔ ایمان کی روشنی حاصل کریں ۔ رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی خوشنودی کے مستحق ہوں ۔ اور کم از کم چند دن کے لئے کامل طور پر پاکیزگی حاصل کریں ۔ دنیاوی تعلقات اور معاملات سے کچھ مدت کے لئے رشتہ توڑ لیں ۔ اور معبودِ حقیقی کی طرف متوجہ ہو جائیں ۔
درس قرآن ۔۔۔ مرتبہ درس قرآن بورڈ 

روزہ کے اوقات

روزہ کے اوقات

کُلُوْا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔   وَاْشْرَبُوْا ۔۔ حَتّٰی ۔۔۔۔۔۔  یَتَبَیَّنَ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔   لَکُمَ 
اور کھاؤ ۔۔۔ اور پیو ۔۔ یہاں تک ۔۔۔ واضح ہو جائے ۔۔ تمہارے لئے
الْخَیْطُ ۔۔ الْاَبْیَضُ ۔۔ مِنَ الْخَیْطِ ۔۔۔ الْاَسْوَدِ
دھاری ۔۔ سفید ۔۔ دھاری سے ۔۔۔۔  سیاہ 
مِنَ الْفَجَرِ  ۔۔۔   ثُمَّ اَتِمُّوا ۔۔۔۔۔۔ الصّیَامَ ۔۔۔ اِلَی ۔۔۔ الَّیْلِ 
صبح سے ۔۔۔ پھر پورا کرو ۔۔۔ روزہ ۔۔۔۔۔   تک ۔۔ رات 

وَکُلُوْا وَ اشْرَبُوْا حَتّٰی یَتَبَیَّنَ لَکُمُ الْخَیْطُ الاَبْیَضُ مِنَ الْخَیْطِ الْاَسْوَدِ مِنَ الْفَجْرِ   ثُمَّ اَتِمُّوا لاصّیَامَ اِلَی الَّیْلِ ج 

اور کھاؤ اور پیو جب تک تمہیں صاف نظر آئے صبح کی دھاری سیاہ دھاری سے جُدا پھر رات تک روزہ پورا کرو ۔
اَلْفَجْر 
فجر ۔ مراد صبح کاذب نہیں 
بلکہ وہ نور کا تڑکا ھے ۔ جو صبح کاذب کے کچھ دیر بعد ہوتا ھے ۔ جب روشنی مشرق اور مغرب کی جانب پھیلنے لگتی ھے ۔اور اس کو صبح صادق کہتے ہیں ۔ سحری کا وقت صبح صادق تک رہتا ھے ۔ حدیث مبارکہ میں سحری آخری وقت کھانے کی بڑی فضیلت آئی ھے ۔ 
رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا ۔ کہ بلال رضی الله عنہ جو لوگوں کی نماز کی تیاری کے لئے بہت سویرے آذان دے دیتے ہیں ۔ انکی آذان سے یا محض شمال جنوب میں روشنی دیکھ کر سحری ختم نہ کرو ۔ بلکہ روشنی کے پھیل جانے کو معتبر سمجھو ۔ 
حضرت عمر رضی الله تعالی عنہ نے ایک مرتبہ فرمایا ۔ کہ سحری کے وقت کھانے پینے سے احتیاط اس وقت ضروری ھے ۔ جب صبح کی روشنی راستوں اور پہاڑوں کی چوٹیوں پر ظاہر ہو جائے ۔ 
اَلَّلیْل ۔ 
رات ۔ 
عربی میں رات کا آغاز دن کے خاتمہ اور سورج غروب ہوجانے کے فوراً بعد شروع ہو جاتا ہے ۔ چنانچہ اسلامی کیلنڈر یعنی قمری سن کی تاریخ غروبِ آفتاب کے فورا بعد شروع ہو جاتی ہے ۔ اس کے برعکس شمسی سال میں تاریخ نصف رات گزرنے پر بدلتی ہے ۔ 
اِلَی اللَّیْل 
رات تک ۔ 
مطلب یہ ہوا کہ جونہی رات داخل ہونے لگے ۔ روزہ افطار کر دو ۔ یہ مطلب نہیں کہ رات کی تاریکی چھا جانے تک روزہ رکھے ۔ 
اس حکم سے پہلے مسلمان روزہ افطار کرنے کے بعد اگر سو جاتے تو پھر اگلی شام تک کچھ نہ کھاتے ۔ اس آیت میں یہ اجازت دے دی کہ روزہ افطار کرنے کے بعد سے لیکر فجر تک کھاؤ پیو ۔ اور عورتوں سے صحبت بھی کر سکتے ہو ۔ 
یہ ایک اور رعایت اور سہولت ھے ۔ جو بعد میں دی گئی ۔ کہ جب تک رات کی دھاری صبح کی دھاری سے جدا ہو جائے ۔ کھانے پینے کی عام اجازت ھے ۔ اور پھر سحری ختم ہونے کے بعد سارا دن روزہ رکھنا ہو گا ۔ حتی کہ سورج غروب ہو جائے اور تاریکی پھیلنی شروع ہو جائے ۔ 
اس حکم سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ بغیر سحری کھائے ہوئے اور بغیر روزہ افطار کئیے مسلسل روزے رکھنا مکروہ ھے ۔ 
اسلام اعتدال کی راہ سکھاتا ہے ۔ شدت اور سختی پسند نہیں کرتا ۔ لہذا شریعت نے جو طریقہ مقرر کیا ہے ہمیں اس کی پابندی کرنی چاہئیے اور جو رعایات دی ہیں ان سے فائدہ اٹھانا چاہئیے ۔
درس قرآن ۔۔۔ مرتبہ درس قرآن بورڈ 

*مباشرت کا مقصود*


عَلِمَ ۔۔۔۔۔۔۔۔   اللهُ ۔۔۔۔۔۔۔  اَنَّکُمْ ۔۔۔ کُنْتُمْ ۔۔۔۔۔۔۔    تَخْتَانُوْنَ ۔۔۔ اَنْفُسَکُمْ ۔
معلوم ہے ۔۔ الله کو ۔۔ بے شک تم ۔۔ تھے ۔۔ تم خیانت کرتے ۔۔ اپنی جانوں میں
۔۔ فَتَابَ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ عَلَیْکُمْ ۔۔۔۔۔۔۔ وَعَفَا ۔۔۔۔۔۔۔   عَنْکُمْ 
 سو معاف کیا ۔۔ تم کو ۔۔ اور درگزر کیا ۔۔ تم سے
فَلْئٰنَ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔   بَاشِرُوْھُنَّ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔   وَابْتَغُوْا 
 پس اب ۔۔ تم ملو اپنی عورتوں سے ۔۔اور طلب کرو
مَا کَتَبَ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔  اللهُ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔    لَکُمْ 
 جو لکھ دیا ۔۔۔۔ الله تعالی ۔۔۔۔  تمہارے لئے ۔

عَلِمَ اللهُ اَنّکُمْ کُنْتُمْ تَخْتَانُونَ اَنْفُسَکُمْ فَتَابَ عَلَیْکُمْ وَ عَفَا عَنْکُمْ ج فَالْئٰنَ بَاشِرُوْھُنَّ وَ ابتَغُوا ما کَتَبَ اللهُ لَکُمْ

الله تعالی کو معلوم ہے کہ تم خیانت کرتے تھے اپنی جانوں سے سو تمہیں معاف کیا اور تم سے درگزر کیا پھر اب اپنی عورتوں سے ملو اور جو الله تعالی نے تمہارے لئے لکھ دیا ہے وہ طلب کرو ۔ 

تَخْتَانُوْنَ اَنْفُسَکُمْ 
تم اپنی جانوں سے خیانت کرتے تھے 
بعض کمزور مسلمان اپنے ساتھ خود خیانت کے مجرم ہوتے تھے ۔ علامہ راغب اصفہانی نے اختیان کے معنٰی کئے ہیں ۔ خیانت کا ارادہ کرنا " اس رو سے معنی یہ ہوں گے کہ تم دل میں خیانت کا ارادہ کرتے تھے ۔ 
بَاشِرُوْھُنَّ ۔
اپنی عورتوں سے ملو 
لفظ مباشرت اسی مادہ سے ھے ۔ جس کے معنٰی ہیں عورت سے صحبت کرنا ۔ 
ابتدائے اسلام میں اہل کتاب کی طرح مسلمان بھی روزوں کے ایّام میں سونے کے بعد بیوی سے صحبت نہ کرتے تھے ۔ مگر بعض لوگ جذبات سے مغلوب ہو کر اس پابندی کو توڑ بیٹھتے ۔ یا کسی کے دل میں خیانت کا ارادہ اور جذبہ پیدا ہوتا ۔ الله تعالی نے بات صاف کر دی ۔ اور رات کے وقت کھانے پینے کی طرح مباشرت کی بھی صاف اجازت فرما دی ۔ 
ابْتَغُوا مَا کَتَبَ اللهُ لَکُمْ 
جو الله تعالی نے تمہارے لئے لکھ دیا ہے وہ طلب کرو ۔
ابْتِغاء کے معنی کسی چیز کے طلب کرنے اور حاصل کرنے کی کوشش کرنا ۔ 
مَا کَبَ اللهُ لَکُمْ ۔ جو الله تعالی نے لکھ دیا ہے ۔ اس سے مراد اولاد اور نسل ھے ۔ جو مباشرت کے نتیجے میں پیدا ہوتی ھے ۔ 
اجازت دینے کے ساتھ گویا ایک تنبیہ بھی کر دی ۔ یعنی عورتوں کے پاس اولاد پیدا کرنے کی غرض سے جانا چاہئیے ۔ مباشرت کے عمل سے اگرچہ طبعی لذت بھی حاصل ہوتی ھے ۔ لیکن اسلام نے اس عمل سے اصلی اور بڑا مقصد حصول اولاد اور افزائش نسل رکھا ھے ۔ تاکہ انفرادی لذت مجموعی مفاد کا سبب بنتی رھے ۔ 
درس قرآن مرتبہ درس قرآن بورڈ 

*میاں بیوی کا تعلق


اُحِلَّ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔  لَکُمْ ۔۔۔۔۔۔   لَیْلَةَ ۔۔ الصّیَامِ ۔۔۔۔۔۔ الرَّفَثُ ۔۔۔۔۔۔  اِلٰی ۔۔ نِسَآئِکُمْ 
حلال کیا گیا ۔۔ تمہارے لئے ۔۔ رات ۔۔ روزہ ۔۔ بے حجاب ہونا۔۔ طرف ۔۔ تمہاری بیویاں
ھُنَّ ۔۔ لِبَاسٌ ۔۔۔ لَّکُمْ ۔۔۔۔۔۔۔۔  وَ اَنْتُمْ ۔۔ لِبَاسٌ ۔۔۔ لّھُنَّ     ط
 وہ ۔۔ لباس ۔۔ تمہارے لئے ۔۔ اور تم ۔۔ لباس ۔۔ ان کے لئے 

اُحِلَّ لَکُمّ لَیْلَةَ الصّیَامِ الرَّفَثُ اِلٰی نِسائِکُمْ ھُنَّ لِبَاسٌ لَّ کُمْ وَاَنْتُمْ لِبَاسٌ لَّھُنَّ ط

تمہارے لئے جائز ہوا روزے کی رات میں بے حجاب ہونا اپنی بیویوں سے وہ تمہارا لباس ہیں اور تم ان کا لباس ہو ۔ 

اَلرَّفَثُ 
بے حجاب ہونا 
رفث کے لفظی معنٰی ہیں ایسا کلام جو جنسی جذبے اور نفسانی خواہشات کو اُکسائے ۔ یہاں مراد خود خواہشات کو پورا کرنا ھے ۔ 
شریعت اسلامی کے احکام آہستہ آہستہ نازل ہوئے ۔ اہل کتاب ( یہود )کی طرح مسلمان بھی روزوں کے ایّام میں رات کے وقت سونے کے بعد بیویوں سے صحبت سے باز رہتے تھے ۔ اس آیت کے ذریعے اس میں نرمی کی گئی ۔ اور رات کے وقت مباشرت کی اجازت دے دی گئی 
اس سے ظاہر ہے کہ اسلام جذبات و خواہشات کو سرے سے مٹانا نہیں چاہتا ۔ بلکہ تمام کام الله جل جلالہ کے حکم اور اس کی مرضی کے مطابق ڈھالنا چاہتا ھے ۔ جب الله تعالی چاہے تو کوئی کام کرو اور جب وہ منع فرمائے تو اس سے رُک جاؤ ۔ چونکہ ہمار مصلحت اور بہتری وہی سمجھتا ھے ۔ ہمیں اپنے نفع و نقصان کا کچھ پتا نہیں ۔
روزوں کے علاوہ میاں بیوی پر دن رات کوئی پابندی نہیں ۔ لیکن روزے کے دوران دن کے وقتمنع کر دیا گیا ۔ اگر کوئی اس حکم کی خلاف ورزی کرے تو اس کی سزا یہ ھے کہ مسلسل ساٹھ روزے رکھے ۔ یا ایک غلام آزاد کرے یا ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلائے ۔
لِبَاسٌ ۔ میاں بیوی کو ایک دوسرے کا لباس فرما کر اس قریبی رشتہ کو ظاہر کیا ھے جو انہیں الله جل جلالہ کی اجازت سے ایک دوسرے سے حاصل ھے ۔ یہ لباس کی تشبیه کئی صورتوں میں موجود ھے ۔ 
مثلا ان کے آپس کے قریبی تعلقات ، ایک دوسرے کی محتاجی ، جسمانی اعتبار سے انتہائی قُرب ، ایک دوسرے کے لئے زیب و زینت اور اطمینان و آسائش کا موجب ہونا ۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ ایک دوسرے کے انتہائی رازدار ہونے کے باوجود پردہ پوشی کرنا 
غور کیجئے کہ لفظ لباس سے کتنی باتیں سمجھا دی ہیں ۔ میاں بیوی دونوں پر لازم ہے کہ وہ واقعی ایک دوسرے کا لباس یعنی رازدار ۔ امین ۔ پردہ پوش ۔ سکون قلب کا سامان اور رحمت کا موجب ثابت ہوں ۔
درس قرآن ۔۔۔ مرتبہ درس قرآن بورڈ 

حالیہ اشاعتیں

یٰمَعْشَرَ الْجِنِّ وَ الْاِنْسِ اِنِ اسْتَطَعْتُمْ اَنْ تَنْفُذُوْا مِنْ اَقْطَارِ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ۔۔۔۔ الرحمٰن

یٰمَعْشَرَ الْجِنِّ وَ الْاِنْسِ اِنِ اسْتَطَعْتُمْ اَنْ تَنْفُذُوْا مِنْ اَقْطَارِ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ فَانْفُذُوْاؕ-لَا تَنْفُذُوْنَ ...

پسندیدہ تحریریں