نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

*حدود الله*


تِلكَ ۔۔۔ حُدُودُ ۔۔ اللهِ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ فلا ۔۔۔۔۔۔ تَقرَبُوهَا 
یہ ۔۔ حدیں ۔۔ الله تعالی ۔۔۔ پس نہ ۔۔ تم قریب جاؤ ان کے 
كَذٰلِكَ ۔۔۔۔۔۔۔   يُبيِّنُ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔   اللهُ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ آيَاتهِ ۔۔۔۔۔۔۔۔   للِنَّاسِ ۔۔۔۔۔۔۔۔ لَعلَّهُمْ ۔۔ يَتَّقُون 
اس طرح ۔۔ وہ بیان کرتا ہے ۔۔۔ الله تعالی ۔۔ اپنی آیات ۔۔ لوگوں کے لئے ۔۔ تاکہ وہ ۔۔ بچتے رہیں 

تِلْكَ حُدُودُ اللَّهِ فَلَا تَقْرَبُوهَا كَذَلِكَ يُبَيِّنُ اللَّهُ آيَاتِهِ لِلنَّاسِ لَعَلَّهُمْ يَتَّقُونَ

یہ الله تعالی کی باندھی ہوئی حدیں ہیں سو ان کے نزدیک نہ جاؤ اسی طرح الله تعالی اپنی آیات لوگوں کے لئے بیان فرماتا ھے ۔ تاکہ وہ بچتے رہیں ۔ 
تِلْکَ
یہ ۔۔۔۔ اس سے ان چھ سات احکام کی طرف اشارہ ہے جو پچھلے اسباق میں بیان ہو چکے ہیں 
حُدُودٌ 
حد کی جمع 
اس سے مراد الله تعالی کے مقرر کئے ہوئے ضابطے اور قاعدے ہیں ۔ جن کی پابندی پر بار بار قرآن مجید میں زور دیا گیا ہے ۔ 
روزے کی برکات اور اس کی فرضیت بیان کرنے کے بعد قرآن مجید نے اس سے متعلق ضمنی قوانین بتا دئیے ہیں ۔ اعتکاف کے لوازمات اور دوسرے ضابطے بھی واضح کر دئیے ۔ اب آیت کے اس آخری حصے میں یہ تنبیہ کی گئی ھے کہ 
تمام قوانین ، اصول ، حدیں اور بندشیں الله جل جلالہ نے وضع کی ہیں ۔ ان سے منہ موڑنا اور ان کی خلاف ورزی کرنا معمولی بات نہ ہو گی ۔ انہیں مقرر کرنے والا الله تعالی ھے ۔ جو حکمت اور علم والا ھے ۔ اس کی ھدایات اور احکام برحق ہیں ۔ مصلحت پر مبنی ہیں ۔ انسانوں کی فلاح اور کامیابی کے ضامن ہیں ۔ ان کی پیروی اور تعمیل سے دنیا و آخرت سنورے گی ۔ 
ان کی روگردانی اور سرتابی تباھی اور بربادی کا پیش خیمہ ہو گی ۔ اس لئے کسی انسان کو ان حدود سے باہر نہیں جانا چاہئیے ۔الله سبحانہ تعالی کی باندھی ہوئی حدوں کے اندر رہنا چاہئیے ۔ 
جس طرح الله تعالی نے روزے کے احکام ، اس کی حدیں ، اوقات ، اعتکاف اور اس سےمتعلق دوسرے اُمور تفصیل سے بیان کر دئیے ۔ اسی طرح وہ باقی احکام انسان کی فلاح اور بہتری کے لئے تفصیل سے بیان فرماتا ھے ۔ ان احکام پر مضبوطی سے کاربند ہونے سے انسان میں تقوٰی ، پرھیزگاری ، جذبہ اطاعت و فرمانبرداری ، اخلاص و ایثار ، پاکدامنی اور پاکبازی ، نیک عملی و نیکو کاری پیدا ہوگی ۔
انسان اپنی کم فہمی کی بنا پر اپنی مصلحت اور بہبود کے لئے خود کوئی راہ قائم نہیں کر سکتا ۔ اسے ایک بزرگ و برتر ہستی ۔ عالم کُل اور حاکم مطلق کی ھدایات کی ضرورت ہوتی ھے ۔ وہ الله جل جلالہ ھے ۔ اس نے نہایت شفقت سے کام لے کر ہمیں کامیابی و کامرانی کی راہ بتا دی ۔ ہمیں چاہئیے کہ بلا تامّل اس صراطِ مستقیم پر چل پڑیں ۔ اور مقصودِ اصلی پا لیں ۔
درس قرآن ۔۔۔ مرتبہ درس قرآن بورڈ 

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

تعوُّذ۔ ۔۔۔۔۔ اَعُوذُ بِالله مِنَ الشَّیطٰنِ الَّرجِیمِ

     اَعُوْذُ ۔                بِاللهِ  ۔ ُ     مِنَ ۔ الشَّیْطٰنِ ۔ الرَّجِیْمِ      میں پناہ مانگتا / مانگتی ہوں ۔  الله تعالٰی کی ۔ سے ۔ شیطان ۔ مردود       اَعُوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّیطٰنِ الَّجِیْمِ  میں الله تعالٰی کی پناہ مانگتا / مانگتی ہوں شیطان مردود سے اللہ تعالٰی کی مخلوقات میں سے ایک مخلوق وہ بھی ہے جسےشیطان کہتے ہیں ۔ وہ آگ سے پیدا کیا گیا ہے ۔ جب فرشتوں اور آدم علیہ السلام کا مقابلہ ہوا ۔ اور حضرت آدم علیہ السلام اس امتحان میں کامیاب ہو گئے ۔ تو الله تعالٰی نے فرشتوں کو حکم دیاکہ وہ سب کے سب آدم علیہ السلام کے آگے جھک جائیں ۔ چنانچہ اُن سب نے انہیں سجدہ کیا۔ مگر شیطان نے سجدہ کرنے سے انکار کر دیا ۔ اس لئے کہ اسکے اندر تکبّر کی بیماری تھی۔ جب اس سے جواب طلبی کی گئی تو اس نے کہا مجھے آگ سے پیدا کیا گیا ہے اور آدم کو مٹی سے اس لئے میں اس سے بہتر ہوں ۔ آگ مٹی کے آگے کیسے جھک سکتی ہے ؟ شیطان کو اسی تکبّر کی بنا پر ہمیشہ کے لئے مردود قرار دے دیا گیا اور قیامت ت...

سورۃ بقرہ تعارف ۔۔۔۔۔۔

🌼🌺. سورۃ البقرہ  🌺🌼 اس سورت کا نام سورۃ بقرہ ہے ۔ اور اسی نام سے حدیث مبارکہ میں اور آثار صحابہ میں اس کا ذکر موجود ہے ۔ بقرہ کے معنی گائے کے ہیں ۔ کیونکہ اس سورۃ میں گائے کا ایک واقعہ بھی  بیان کیا گیا ہے اس لئے اس کو سورۃ بقرہ کہتے ہیں ۔ سورۃ بقرہ قرآن مجید کی سب سے بڑی سورۃ ہے ۔ آیات کی تعداد 286 ہے ۔ اور کلمات  6221  ہیں ۔اور حروف  25500 ہیں  یہ سورۃ مبارکہ مدنی ہے ۔ یعنی ہجرتِ مدینہ طیبہ کے بعد نازل ہوئی ۔ مدینہ طیبہ میں نازل ہونی شروع ہوئی ۔ اور مختلف زمانوں میں مختلف آیات نازل ہوئیں ۔ یہاں تک کہ " ربا " یعنی سود کے متعلق جو آیات ہیں ۔ وہ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کی آخری عمر میں فتح مکہ کے بعد نازل ہوئیں ۔ اور اس کی ایک آیت  " وَ اتَّقُوْا یَوْماً تُرجَعُونَ فِیہِ اِلَی اللهِ "آیہ  281  تو قران مجید کی بالکل آخری آیت ہے جو 10 ہجری میں 10  ذی الحجہ کو منٰی کے مقام پر نازل ہوئی ۔ ۔ جبکہ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم حجۃ الوداع کے فرائض ادا کرنے میں مشغول تھے ۔ ۔ اور اس کے اسی نوّے دن بعد آپ صلی الله علیہ وسلم کا وصال ہوا ۔ اور وحی ا...

*بنی اسرائیل کی فضیلت*

يَا۔۔۔۔۔۔  بَنِي إِسْرَائِيلَ ۔۔۔۔۔۔        اذْكُرُوا    ۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔    نِعْمَتِيَ ۔۔۔۔۔۔۔۔  ۔ الَّتِي    اے  ۔ اولاد اسرائیل ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تم یاد کرو ۔۔۔۔۔۔۔ میری نعمتوں کو ۔۔۔۔ وہ جو  أَنْعَمْتُ    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ عَلَيْكُمْ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔   ۔ وَأَنِّي ۔۔۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔ فَضَّلْتُكُمْ        میں نے انعام کیں ۔ تم پر ۔ اور بے شک میں نے ۔۔۔۔۔۔۔فضیلت دی تم کو   عَلَى     ۔    الْعَالَمِينَ۔  4️⃣7️⃣ پر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔  تمام جہان  يَا بَنِي إِسْرَائِيلَ اذْكُرُوا نِعْمَتِيَ الَّتِي أَنْعَمْتُ عَلَيْكُمْ وَأَنِّي فَضَّلْتُكُمْ عَلَى الْعَالَمِينَ.   4️⃣7️⃣ اے بنی اسرائیل میرے وہ احسان یاد کرو  جو میں نے تم پر کئے اور یہ کہ میں نے تمہیں تمام عالم پر بڑائی دی ۔  فَضَّلْتُکُم۔ ( تمہیں بڑائی دی ) ۔ یہ لفظ فضل سے نکلا ہے ۔ جس کے معنی ہیں بڑائی ۔ تمام عالم پر فضیلت دینے کا مطلب یہ ہے کہ بنی اسرائیل تمام فِرقوں سے افضل رہے اور کوئی ان کا ہم پلہ نہ تھا...