قربانی کے حکم کی وضاحت

حکم قربانی کی وضاحت 

ذَلِكَ ۔۔۔  لِمَن ۔۔۔ لَّمْ يَكُنْ ۔۔۔ أَهْلُهُ ۔۔۔ حَاضِرِي 
یہ ۔۔۔ اس کے لئے ۔۔ نہیں ہے ۔۔۔ گھر والے اس کے ۔۔۔ پاس 
الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ ۔۔۔ وَاتَّقُوا ۔۔۔ اللَّهَ ۔۔۔ وَاعْلَمُوا
مسجد حرام ۔۔ اور ڈرتے رہو ۔۔۔ الله تعالی ۔۔۔ اور جان لو 
 أَنَّ ۔۔۔ اللَّهَ ۔۔۔ شَدِيدُ ۔۔۔ الْعِقَابِ
بے شک ۔۔۔ الله تعالی ۔۔۔ سخت ۔۔۔ عذاب 

ذَلِكَ لِمَن لَّمْ يَكُنْ أَهْلُهُ حَاضِرِي الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ وَاتَّقُوا اللَّهَ وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ شَدِيدُ الْعِقَابِ

یہ حکم اس کے لئے ہے جس کے گھر والے مسجد حرام کے پاس نہ رہتے ہوں ۔ اور الله جل شانہ سے ڈرتے رہو اور جان لو کہ بے شک الله تعالی کا عذاب سخت ہے ۔

ذالك۔ ( یہ) ۔ اسم اشارہ ہے ۔ اور یہ اشارہ پہلی آیت کے مسئلہ کی طرف ہے ۔ یعنی تمتع ( حج اور عمرہ ملا کر ادا کرنا )  آیت کامقصد یہ ہے کہ حج اور عمرہ کو ملا کر ادا کر لینے کا فائدہ اٹھانے کی اجازت صرف باہر والوں کو ہے ۔ مکہ میں رہنے والوں کو نہیں ۔ 
حاضرى المسجد الحرام (مسجد حرام کے پاس ) ۔ مراد ہے کہ مکہ اور اس کے گرد و نواح میں رہنے والے تمام باشندے  یعنی میقات کی حد کے اندر رہنے والے سب اس میں شامل ہیں ۔ 
میقات ۔۔۔ اس مقام کو کہتے ہیں جہاں سے حرم کی حدود شروع ہو جاتی  ہے ۔ اور جہاں پہنچ کر حج اور عمرہ کی نیت کر لینا اور احرام باندھ لینا واجب ہو جاتا ہے ۔ مختلف اطراف سے خانہ کعبہ میں حج کے لئے آنے والوں کے لئے میقات الگ الگ ہے ۔ 
واتقوا الله ( الله سے ڈرتے رہو) ۔ یعنی ان تمام احکام کی بجا آوری اور تعمیل میں الله سبحانہ وتعالی کا خوف اور الله کی موجودگی کا تصور سامنے رکھو ۔ کہ تمام نیکیوں کی بنیاد تقوٰی ہے ۔ ایک بار پھر غور کیجئے کہ ہر حکم کے بعد تقوٰی کا ہی مطالبہ ہو رہا ہے ۔ 
شديد العقاب (سخت عذاب دینے والا ) ۔  علماء کا قول ہے کہ یہاں عذاب کے ساتھ  شدید کا لفظ خاص طور پر اس لئے لایا گیا ہے کہ جس طرح بیت الله جیسے مقدس مقام میں انسان نیکی کرے ۔ تو اس کا ثواب زیادہ ملتا ہے ۔ اسی طرح اگر یہاں پہنچ کر کسی گناہ کا مرتکب ہو تو اسے اس فدرمقدس مقام کے لحاظ سے بھی سخت سزا ملے گی ۔ 
پچھلے سبق میں جو رعایت بیان کی گئی تھی ۔ یہ اس کی شرط بیان کی گئی ہے ۔ رعایت یہ تھی  کہ اگر لوگ حج اور عمرہ ملا کر کرنا چاہیں تو وہ ایسا کر سکتے ہیں ۔ البتہ انہیں  اپنی استطاعت کے مطابق قربانی دینی ہو گی ۔ حج اور عمرہ ملا کر کرنے کی اجازت ان کے لئے ہے جو مکہ معظمہ اور اور اس کے آس پاس کی بستیوں کے رہنے والے نہ ہوں ۔ 
اس حکم کے ساتھ ایک مرتبہ پھر واضح کر دیا گیا ۔ کہ اصل چیز تو تقوٰی ہے ۔ہر حکم اور عبادت کو پورا کرتے وقت الله جل جلالہ کا خوف اور اس کی خوشنودی پیشِ نظر رہنی چاہئیے ۔ کیونکہ تمام احکام کا مقصود نفس کی پاکیزگی اور اخلاق کی تکمیل ہے ۔ الله تعالی کے یہ اعلٰی ترین احکامات ہیں ۔ جن پر اسلامی زندگی کی بنیاد کھڑی ہے ۔ اگر کسی نے انہیں بدلنے کی کوشش کی یا ان کا انکار کیا ۔ تو الله جل جلالہ اسے سخت سزا دے گا ۔ 

کوئی تبصرے نہیں:

حالیہ اشاعتیں

مقوقس شاہ مصر کے نام نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کا خط

سیرت النبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم..قسط 202 2.. "مقوقس" _ شاہ ِ مصر کے نام خط.. نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک گرامی ...

پسندیدہ تحریریں