انفاق فی سبیل الله

انفاق فی سبیل الله


وَأَنفِقُوا ۔۔۔ فِي ۔۔ سَبِيلِ ۔۔۔۔۔  اللَّهِ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔  وَلَا تُلْقُوا 

اور خرچ کرو ۔۔ میں ۔۔ راہ ۔۔ الله تعالی ۔۔۔ اور نہ تم ڈالو 

بِأَيْدِيكُمْ ۔۔۔۔ إِلَى ۔۔۔۔ التَّهْلُكَةِ ۔۔۔۔۔۔۔ وَأَحْسِنُوا 

اپنے ہاتھوں سے ۔۔۔ طرف ۔۔۔ ہلاکت ۔۔۔ اور نیکی کرو 

  إِنَّ ۔۔۔۔۔۔۔  اللَّهَ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔   يُحِبُّ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔  الْمُحْسِنِينَ    1️⃣9️⃣5️⃣

بے شک ۔۔ الله تعالی ۔۔ وہ پسند کرتا ہے ۔۔۔ نیکی کرنے والے 


وَأَنفِقُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَلَا تُلْقُوا بِأَيْدِيكُمْ إِلَى التَّهْلُكَةِ وَأَحْسِنُوا 

إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ    1️⃣9️⃣5️⃣


اور الله کی راہ میں خرچ کرو اور( اپنی جان ) اپنے ہاتھوں سے ہلاکت میں نہ ڈالو اور نیکی کرو  بیشک الله تعالی نیکی کرنے والوں کو دوست رکھتا ھے 


وَلَا تُلْقُوا بِاَيْدِيْكُمْ اِلَى التّهْلُكَةِ )اپنے ہاتھوں سے اپنی جانوں کو ہلاکت میں نہ ڈالو ) پہلی آیات میں قتال و جہاد کا حکم تھا اور اس جملے سے پہلے الله تعالی کی راہ میں مال و دولت خرچ کرنے کا حکم موجود ہے ۔ 

گویا ارشاد ربّانی یہ ھے کہ جب ملک و ملت اور دین و اسلام کے لئے جہاد کی ضرورت ہو اور مالی قربانی مطلوب ہو ۔ اس وقت بخل سے کام نہ لو ۔ الله جل شانہ کی راہ میں دولت صرف کرنے سے ہاتھ نہ روکو ۔ اگر ایسا کرو گے تو گویا خود اپنے پاؤں پرکلہاڑی مارو گے ۔ اپنے آپ کو خود ہلاک کرو گے ۔ اس طرح صرف ملک و ملت کو نقصان نہیں پہنچے گا بلکہ قوم کی شکست تمہاری شکست ہوگی ۔ اور دین کا نقصان تمہارا زوال ہوگا ۔ 

بعض لوگ اس جملہ کا بالکل غلط مطلب نکالتے ہیں ۔ کہ جان بوجھ کر خطرہ میں نہ کودو اور جان جوکھوں میں نہ ڈالو ۔ یہاں اس جملہ سے ہرگز ہرگز یہ منشاء نہیں ہے ۔ بات صحیح ہے لیکن یہاں اس کا نہ ذکر ہے نہ موقع ہے ۔

پہلی آیات میں جہاد اور قتال کا حکم دے کر مسلمانوں پر یہ فرض کیا گیا کہ الله جل جلالہ کی راہ میں جانیں قربان کر دیں ۔ اسکے دین کو بلند کرنے کے لئے دین کے دشمنوں سے لڑیں اور اگر مشرک و کافر ان کے کام میں مزاحم ہوں تو ان سے جنگ کریں ۔ اور ظلم کو روکنے کے لئے تلوار اٹھائیں ۔ اس آیت میں الله تعالی کی راہ میں اپنے مال کو خرچ کرنے کا حکم ہے ۔ 

دشمنوں کو کچلنے اور فتنہ و فساد کو دبانے کے لئے اول جانوں کی ضرورت ہوتی ھے ۔ تاکہ الله کے سپاہی جانوں کو ہتھیلی پر رکھ کر جوشِ اسلام سے معمور ، موت و ہلاکت سے بے پرواہ ہو کر میدانِ جنگ میں کود پڑیں ۔ اور الله کا نام بلند کرنے کے واحد مقصد کے لئے جان لڑا دیں ۔ اس مقصد کے لئے دوسرے درجہ پر مال و دولت کی ضرورت ہوتی ہے ۔ تاکہ ہتھیار اور جنگ کے آلات خریدے جاسکیں ۔ سپاہیوں کے پسماندگان کی کفالت کی جا سکے ۔ شہید ہونے والوں کے یتیم بچوں اور بیواؤں کی ضروریات زندگی پوری کی جا سکیں ۔ فوج کے لئے خورد و نوش کی اشیاء فراہم کی جاسکیں ۔ اور محصور ہو جانے کی صورت میں سامان خوراک وغیرہ کا ذخیرہ کیا جاسکے ۔ 

اَحْسَنُوا ۔( نیکی کرو )  احسان کے معنی حسن سلوک اور نیکی کرنے کے ہیں ۔ مراد یہ ہے کہ تم جو کچھ بھی کرو وہ حسنِ نیت اور اخلاص سے کرو ۔ کوئی کام محض بیگار اتارنے اور قرض چکانے کے طور پر نہ کرو ۔ نیز یہ کہ قتال و جہاد کے اندر بھی حسن سلوک میں کوئی چیز مانع نہیں  ہو سکتی ۔ 

نبی آخر الزماں صلی الله علیہ وسلم نے حسنِ سلوک کی یہاں تک تلقین فرمائی کہ جانور ذبح کرنے لگو تو ایسے کرو کہ اس کو کم سے کم تکلیف ہو ۔ 

درس قرآن ۔۔۔ مرتبہ درس قرآن بورڈ 


کوئی تبصرے نہیں:

حالیہ اشاعتیں

مقوقس شاہ مصر کے نام نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کا خط

سیرت النبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم..قسط 202 2.. "مقوقس" _ شاہ ِ مصر کے نام خط.. نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک گرامی ...

پسندیدہ تحریریں