نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

*اعتکاف کے احکام*


وَلَا تُبَاشِرُوْھُنَّ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔     وَاَنْتُمْ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔    عَاکِفُوْنَ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔  فِی الْمَسَاجِدِ۔ ط
اور نہ تم عورتوں سے مباشرت کرو ۔۔۔ اور ہو تم ۔۔۔ اعتکاف کرنے والے ۔۔۔ مسجدوں میں

وَلَا تُبَاشِرُوْھُنَّ وَ اَنْتُمْ عَاکِفُوْنَ فِی الْمسَاجِدِ 

اور عورتوں سے نہ ملو جب تم اعتکاف میں ہو مسجدوں میں 

تُبَاشِرُوْھُنّ 
عورتوں سے نہ ملو 
یہاں لفظ مباشرت وسیع معنوں میں استعمال ہوا ھے ۔ یعنی صحبت کے علاوہ بوس و کنار بھی نہ کرو ۔ 
عَاکِفُوْنَ 
اعتکاف کرنا 
لفظ اعتکاف سے ھے ۔ جس کے لغوی معنی ہیں خود کو کسی شئے سے روک کر رکھنا ۔ یا اسے اپنے آپ پر لازم کر لینا ۔ اصطلاح میں اس سے مراد ھے ۔ مسجد میں بیٹھ کر اپنے آپ کو عبادت کے لئے وقف کر لینا ۔
روزوں کے سلسلے میں ایک اور حکم یہ دیا کہ جب تم مسجد میں اعتکاف کر رہے ہو تو عورتوں کے پاس مت جاؤ ۔ 
اعتکاف کے بارے میں چند ضروری احکام درج ذیل ہیں ۔ 
۱۔ اعتکاف کرنے والے پر لازم ھے کہ وہ دوران اعتکاف ہر وقت مسجد میں رھے ۔ وہیں کھائے پیئے اور سوئے جاگے ۔ صرف بدنی اور شرعی ضرورتوں کے لئے ہی مسجد سے باہر نکل سکتا ھے ۔ 
۲۔۔ اعتکاف کے لئے مدت کم از کم ایک دن ھے ۔ اور زیادہ سے زیادہ کی کوئی حد نہیں ۔ 
۳۔۔ فی المساجد سے ظاہر ہوتا ہے کہ اعتکاف ہمیشہ مسجد ہی میں ہونا چاہئیے ۔
البتہ عورتوں کا اعتکاف مسجد کی بجائے گھر کے کسی گوشہ میں ہو سکتا ھے ۔ 
۴۔ اعتکاف کے دوران گفتگو جائز ھے ۔ بشرطیکہ مسجد کے احترام اور اعتکاف کے آداب کے خلاف نہ ہو ۔ 
نبی آخر الزماں صلی الله علیہ وسلم کی عادت  مبارک تھی آپ ماہِ رمضان کے آخری عشرہ میں پورے دس دن کے لئے مسجد میں اعتکاف فرماتے ۔اور دنیاوی معاملات سے اپنا تعلق بالکل توڑ لیتے ۔ 
اسی لئے اعتکاف سنت کفایہ ھے ۔ یعنی ایسی سنت کہ محلّہ کا ایک آدمی کرلے ۔ تو دوسروں کی ذمہ داری ختم ہو جاتی ھے ۔ لیکن اگر ایک بھی نہ کرے تو تمام لوگ گنہگار ہوں گے ۔ 
اعتکاف کے بہت سے فوائد ہیں ۔ روحانی قوت حاصل کرنےاور ایمانی اعتبار سے تازہ دم ہونے کے لئے اس سے بہتر طریقہ اور کوئی نہیں ۔ کیونکہ اعتکاف کے دوران انسان اپنا وقت مسلسل اطاعت اور عبادت میں گزارتا ھے ۔ اسے تنہائی اور یکسوئی میسر آتی ھے ۔ 
ہمیں چاہئیے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی اس سنت پر پورا پورا عمل کریں ۔ ایمان کی روشنی حاصل کریں ۔ رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی خوشنودی کے مستحق ہوں ۔ اور کم از کم چند دن کے لئے کامل طور پر پاکیزگی حاصل کریں ۔ دنیاوی تعلقات اور معاملات سے کچھ مدت کے لئے رشتہ توڑ لیں ۔ اور معبودِ حقیقی کی طرف متوجہ ہو جائیں ۔
درس قرآن ۔۔۔ مرتبہ درس قرآن بورڈ 

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

تعوُّذ۔ ۔۔۔۔۔ اَعُوذُ بِالله مِنَ الشَّیطٰنِ الَّرجِیمِ

     اَعُوْذُ ۔                بِاللهِ  ۔ ُ     مِنَ ۔ الشَّیْطٰنِ ۔ الرَّجِیْمِ      میں پناہ مانگتا / مانگتی ہوں ۔  الله تعالٰی کی ۔ سے ۔ شیطان ۔ مردود       اَعُوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّیطٰنِ الَّجِیْمِ  میں الله تعالٰی کی پناہ مانگتا / مانگتی ہوں شیطان مردود سے اللہ تعالٰی کی مخلوقات میں سے ایک مخلوق وہ بھی ہے جسےشیطان کہتے ہیں ۔ وہ آگ سے پیدا کیا گیا ہے ۔ جب فرشتوں اور آدم علیہ السلام کا مقابلہ ہوا ۔ اور حضرت آدم علیہ السلام اس امتحان میں کامیاب ہو گئے ۔ تو الله تعالٰی نے فرشتوں کو حکم دیاکہ وہ سب کے سب آدم علیہ السلام کے آگے جھک جائیں ۔ چنانچہ اُن سب نے انہیں سجدہ کیا۔ مگر شیطان نے سجدہ کرنے سے انکار کر دیا ۔ اس لئے کہ اسکے اندر تکبّر کی بیماری تھی۔ جب اس سے جواب طلبی کی گئی تو اس نے کہا مجھے آگ سے پیدا کیا گیا ہے اور آدم کو مٹی سے اس لئے میں اس سے بہتر ہوں ۔ آگ مٹی کے آگے کیسے جھک سکتی ہے ؟ شیطان کو اسی تکبّر کی بنا پر ہمیشہ کے لئے مردود قرار دے دیا گیا اور قیامت ت...

سورۃ بقرہ تعارف ۔۔۔۔۔۔

🌼🌺. سورۃ البقرہ  🌺🌼 اس سورت کا نام سورۃ بقرہ ہے ۔ اور اسی نام سے حدیث مبارکہ میں اور آثار صحابہ میں اس کا ذکر موجود ہے ۔ بقرہ کے معنی گائے کے ہیں ۔ کیونکہ اس سورۃ میں گائے کا ایک واقعہ بھی  بیان کیا گیا ہے اس لئے اس کو سورۃ بقرہ کہتے ہیں ۔ سورۃ بقرہ قرآن مجید کی سب سے بڑی سورۃ ہے ۔ آیات کی تعداد 286 ہے ۔ اور کلمات  6221  ہیں ۔اور حروف  25500 ہیں  یہ سورۃ مبارکہ مدنی ہے ۔ یعنی ہجرتِ مدینہ طیبہ کے بعد نازل ہوئی ۔ مدینہ طیبہ میں نازل ہونی شروع ہوئی ۔ اور مختلف زمانوں میں مختلف آیات نازل ہوئیں ۔ یہاں تک کہ " ربا " یعنی سود کے متعلق جو آیات ہیں ۔ وہ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کی آخری عمر میں فتح مکہ کے بعد نازل ہوئیں ۔ اور اس کی ایک آیت  " وَ اتَّقُوْا یَوْماً تُرجَعُونَ فِیہِ اِلَی اللهِ "آیہ  281  تو قران مجید کی بالکل آخری آیت ہے جو 10 ہجری میں 10  ذی الحجہ کو منٰی کے مقام پر نازل ہوئی ۔ ۔ جبکہ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم حجۃ الوداع کے فرائض ادا کرنے میں مشغول تھے ۔ ۔ اور اس کے اسی نوّے دن بعد آپ صلی الله علیہ وسلم کا وصال ہوا ۔ اور وحی ا...

*بنی اسرائیل کی فضیلت*

يَا۔۔۔۔۔۔  بَنِي إِسْرَائِيلَ ۔۔۔۔۔۔        اذْكُرُوا    ۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔    نِعْمَتِيَ ۔۔۔۔۔۔۔۔  ۔ الَّتِي    اے  ۔ اولاد اسرائیل ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تم یاد کرو ۔۔۔۔۔۔۔ میری نعمتوں کو ۔۔۔۔ وہ جو  أَنْعَمْتُ    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ عَلَيْكُمْ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔   ۔ وَأَنِّي ۔۔۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔ فَضَّلْتُكُمْ        میں نے انعام کیں ۔ تم پر ۔ اور بے شک میں نے ۔۔۔۔۔۔۔فضیلت دی تم کو   عَلَى     ۔    الْعَالَمِينَ۔  4️⃣7️⃣ پر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔  تمام جہان  يَا بَنِي إِسْرَائِيلَ اذْكُرُوا نِعْمَتِيَ الَّتِي أَنْعَمْتُ عَلَيْكُمْ وَأَنِّي فَضَّلْتُكُمْ عَلَى الْعَالَمِينَ.   4️⃣7️⃣ اے بنی اسرائیل میرے وہ احسان یاد کرو  جو میں نے تم پر کئے اور یہ کہ میں نے تمہیں تمام عالم پر بڑائی دی ۔  فَضَّلْتُکُم۔ ( تمہیں بڑائی دی ) ۔ یہ لفظ فضل سے نکلا ہے ۔ جس کے معنی ہیں بڑائی ۔ تمام عالم پر فضیلت دینے کا مطلب یہ ہے کہ بنی اسرائیل تمام فِرقوں سے افضل رہے اور کوئی ان کا ہم پلہ نہ تھا...