نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

*خانہ کعبہ کا احترام*

وَلَا تُقَاتِلُوهُمْ ۔۔ عِندَ ۔۔ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ ۔۔۔ حَتَّى ۔۔۔يُقَاتِلُوكُمْ
اور نہ ان سے لڑو ۔۔۔ پاس ۔۔ مسجد حرام ۔۔۔ یہاں تک کہ ۔۔۔وہ لڑیں تم سے
 فِيهِ ۔۔۔ فَإِن ۔۔ قَاتَلُوكُمْ ۔۔۔۔ فَاقْتُلُوهُمْ ۔
 اس  جگہ ۔۔۔ پس اگر ۔۔۔ وہ لڑیں تم سے ۔۔ پس تم ان سے لڑو 
كَذَلِكَ ۔۔۔ جَزَاءُ ۔۔۔ الْكَافِرِينَ۔ 1️⃣9️⃣1️⃣
یہی ۔۔۔ بدلہ ۔۔ کافر 

فَإِنِ ۔۔۔انتَهَوْا ۔۔۔ فَإِنَّ ۔۔۔اللَّهَ ۔۔۔ غَفُورٌ ۔۔۔۔ رَّحِيمٌ 1️⃣9️⃣2️⃣
پھر اگر ۔۔ وہ باز آجائیں ۔۔ پس بے شک ۔۔۔ الله تعالی ۔۔ بخشنے والا ۔۔ مہربان  

وَلَا تُقَاتِلُوهُمْ عِندَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ حَتَّى يُقَاتِلُوكُمْ فِيهِ فَإِن قَاتَلُوكُمْ فَاقْتُلُوهُمْ
كَذَلِكَ جَزَاءُ الْكَافِرِينَ. 1️⃣9️⃣1️⃣

اور ان سے مسجد حرام کے پاس نہ لڑو جب تک کہ وہ تم سے اس جگہ نہ لڑیں  ۔ پھر اگر وہ تم سے لڑیں تو انہیں مارو۔ کافروں کی سزا یہی ہے  

فَإِنِ انتَهَوْا فَإِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ 1️⃣9️⃣2️⃣

 پھر اگر وہ باز نہ آجائیں تو بے شک الله تعالی بخشنے والا نہایت مہربان ہے ۔

عِنْدَ الْمَسْجِدِ الْحَرَام  ۔ ( مسجد حرام کے پاس ) ۔ 
خانہ کعبہ کے چاروں طرف کئی میل کا علاقہ اصطلاح میں حرم کہلاتا ہے ۔ اس کے احترام میں یہ بھی شامل ہے کہ یہاں جنگ نہ لڑی جائے ۔ اور کشت و خون نہ کیا جائے ۔ حتی کہ جانور کا شکار بھی نہ کیا جائے گا ۔ 
آیت کے ابتدائی حصہ میں  بیان ہوچکا ہے کہ دین سے روکنا ۔ فساد پھیلانا ۔ ایذا پہنچانا ۔ بد امنی ۔ غارت گری اور زبردستی دین سے ہٹانا فتنہ میں شامل ہیں ۔ اور فتنہ ہر حال میں دبانا چاہئیے ۔ خواہ قتل ہی کیوں نہ کرنا پڑے ۔ فتنہ کو دبانے کے لئے اگر ابتدا میں جنگ نہ کی جائے تو یہ پھیلتا پھیلتا پوری قوم اور ملک کو لپیٹ میں لے لے گا ۔ پھر وسیع پیمانے پر جھگڑے ، کشمکش اور لُوٹ مار بدامنی اور قتل و غارت گری شروع ہو جائے گی ۔ 
اس آیت میں یہ بتایا گیا ہے کہ اگر دشمنان اسلام اپنی شرارتوں سے باز نہ آئیں اور حرم شریف میں ہی جنگ شروع کر دیں گے ۔ تو پھر تم بھی ان سے اس جگہ جنگ کرسکتے ہو ۔ عام حالات میں یہ حکم ہے کہ خانہ کعبہ کے نزدیک جنگ اور خونریزی نہ ہو ۔ کیونکہ یہ گھر احترام اور امن کی جگہ ہے لیکن فتنہ کو فرو کرنا اس قدر ضروری ہوا ۔ 
کہ وہ لڑائی کی لپیٹ میں آسکتی ہے ۔ امن کے دشمنوں کی سزا یہی ہے کہ انہیں ان کے وطنوں سے جلاوطن کیا جائے یا قتل کیا جائے ۔ ہاں البتہ اگر وہ فتنہ اور فساد سے باز آجائیں ۔ بدکاری اور بدعملی سے توبہ کر لیں اور اسلام کی پناہ میں آجائیں تو پھر تم ان پر تلوار نہ اٹھاؤ ۔ بلکہ انہیں اپنا بھائی سمجھو ۔ کیونکہ الله تعالی توبہ کرنے والوں کے پچھلے گناہ بخش دیتا ہے 
اس آیت سے تین باتیں ثابت ہوتی ہیں ۔ 
مسجد حرام ایک امن کی جگہ ہے ۔ یہاں قتل و خونریزی اور جنگ نہیں کرنا چاہئیے ۔
اگر یہاں حملہ ہو تو جوابی جنگ لڑی جا سکتی ہے ۔ 
قتال اور جہاد اجتماعی فریضہ ہے ۔ چنانچہ بار بار اور ہر جگہ جمع کے صیغہ میں ہی حکم دیا گیا ہے 
درس قرآن ۔۔۔ مرتبہ درس قرآن بورڈ 

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

تعوُّذ۔ ۔۔۔۔۔ اَعُوذُ بِالله مِنَ الشَّیطٰنِ الَّرجِیمِ

     اَعُوْذُ ۔                بِاللهِ  ۔ ُ     مِنَ ۔ الشَّیْطٰنِ ۔ الرَّجِیْمِ      میں پناہ مانگتا / مانگتی ہوں ۔  الله تعالٰی کی ۔ سے ۔ شیطان ۔ مردود       اَعُوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّیطٰنِ الَّجِیْمِ  میں الله تعالٰی کی پناہ مانگتا / مانگتی ہوں شیطان مردود سے اللہ تعالٰی کی مخلوقات میں سے ایک مخلوق وہ بھی ہے جسےشیطان کہتے ہیں ۔ وہ آگ سے پیدا کیا گیا ہے ۔ جب فرشتوں اور آدم علیہ السلام کا مقابلہ ہوا ۔ اور حضرت آدم علیہ السلام اس امتحان میں کامیاب ہو گئے ۔ تو الله تعالٰی نے فرشتوں کو حکم دیاکہ وہ سب کے سب آدم علیہ السلام کے آگے جھک جائیں ۔ چنانچہ اُن سب نے انہیں سجدہ کیا۔ مگر شیطان نے سجدہ کرنے سے انکار کر دیا ۔ اس لئے کہ اسکے اندر تکبّر کی بیماری تھی۔ جب اس سے جواب طلبی کی گئی تو اس نے کہا مجھے آگ سے پیدا کیا گیا ہے اور آدم کو مٹی سے اس لئے میں اس سے بہتر ہوں ۔ آگ مٹی کے آگے کیسے جھک سکتی ہے ؟ شیطان کو اسی تکبّر کی بنا پر ہمیشہ کے لئے مردود قرار دے دیا گیا اور قیامت ت...

سورۃ بقرہ تعارف ۔۔۔۔۔۔

🌼🌺. سورۃ البقرہ  🌺🌼 اس سورت کا نام سورۃ بقرہ ہے ۔ اور اسی نام سے حدیث مبارکہ میں اور آثار صحابہ میں اس کا ذکر موجود ہے ۔ بقرہ کے معنی گائے کے ہیں ۔ کیونکہ اس سورۃ میں گائے کا ایک واقعہ بھی  بیان کیا گیا ہے اس لئے اس کو سورۃ بقرہ کہتے ہیں ۔ سورۃ بقرہ قرآن مجید کی سب سے بڑی سورۃ ہے ۔ آیات کی تعداد 286 ہے ۔ اور کلمات  6221  ہیں ۔اور حروف  25500 ہیں  یہ سورۃ مبارکہ مدنی ہے ۔ یعنی ہجرتِ مدینہ طیبہ کے بعد نازل ہوئی ۔ مدینہ طیبہ میں نازل ہونی شروع ہوئی ۔ اور مختلف زمانوں میں مختلف آیات نازل ہوئیں ۔ یہاں تک کہ " ربا " یعنی سود کے متعلق جو آیات ہیں ۔ وہ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کی آخری عمر میں فتح مکہ کے بعد نازل ہوئیں ۔ اور اس کی ایک آیت  " وَ اتَّقُوْا یَوْماً تُرجَعُونَ فِیہِ اِلَی اللهِ "آیہ  281  تو قران مجید کی بالکل آخری آیت ہے جو 10 ہجری میں 10  ذی الحجہ کو منٰی کے مقام پر نازل ہوئی ۔ ۔ جبکہ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم حجۃ الوداع کے فرائض ادا کرنے میں مشغول تھے ۔ ۔ اور اس کے اسی نوّے دن بعد آپ صلی الله علیہ وسلم کا وصال ہوا ۔ اور وحی ا...

*بنی اسرائیل کی فضیلت*

يَا۔۔۔۔۔۔  بَنِي إِسْرَائِيلَ ۔۔۔۔۔۔        اذْكُرُوا    ۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔    نِعْمَتِيَ ۔۔۔۔۔۔۔۔  ۔ الَّتِي    اے  ۔ اولاد اسرائیل ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تم یاد کرو ۔۔۔۔۔۔۔ میری نعمتوں کو ۔۔۔۔ وہ جو  أَنْعَمْتُ    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ عَلَيْكُمْ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔   ۔ وَأَنِّي ۔۔۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔ فَضَّلْتُكُمْ        میں نے انعام کیں ۔ تم پر ۔ اور بے شک میں نے ۔۔۔۔۔۔۔فضیلت دی تم کو   عَلَى     ۔    الْعَالَمِينَ۔  4️⃣7️⃣ پر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔  تمام جہان  يَا بَنِي إِسْرَائِيلَ اذْكُرُوا نِعْمَتِيَ الَّتِي أَنْعَمْتُ عَلَيْكُمْ وَأَنِّي فَضَّلْتُكُمْ عَلَى الْعَالَمِينَ.   4️⃣7️⃣ اے بنی اسرائیل میرے وہ احسان یاد کرو  جو میں نے تم پر کئے اور یہ کہ میں نے تمہیں تمام عالم پر بڑائی دی ۔  فَضَّلْتُکُم۔ ( تمہیں بڑائی دی ) ۔ یہ لفظ فضل سے نکلا ہے ۔ جس کے معنی ہیں بڑائی ۔ تمام عالم پر فضیلت دینے کا مطلب یہ ہے کہ بنی اسرائیل تمام فِرقوں سے افضل رہے اور کوئی ان کا ہم پلہ نہ تھا...