نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

حرمت والے مہینے

الشَّهْرُ ۔۔۔۔۔  الْحَرَامُ ۔۔۔۔۔۔۔   بِالشَّهْرِ ۔۔ الْحَرَامِ ۔۔۔۔۔۔   وَالْحُرُمَاتُ 

مہینہ ۔۔ حرمت والا ۔۔ بدلہ مہینے کا ۔۔ حرمت والا ۔۔ اور حرمات 

قِصَاصٌ ۔۔۔۔  فَمَنِ ۔۔۔۔۔۔۔۔   اعْتَدَى۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔   عَلَيْكُمْ ۔۔۔  فَاعْتَدُوا 

بدلہ ۔۔ پس جو شخص ۔۔ زیادتی کی اس نے ۔۔ تم پر ۔۔ پس تم زیادتی کرو

عَلَيْهِ ۔۔۔۔۔۔۔   بِمِثْلِ ۔۔۔۔۔۔۔   مَا اعْتَدَى ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔    عَلَيْكُمْ

 اس پر ۔۔ اس جیسی ۔۔ جو اس نے زیادتی کی ۔۔ تم پر


الشَّهْرُ الْحَرَامُ بِالشَّهْرِ الْحَرَامِ وَالْحُرُمَاتُ قِصَاصٌ فَمَنِ اعْتَدَى عَلَيْكُمْ فَاعْتَدُوا عَلَيْهِ بِمِثْلِ مَا اعْتَدَى عَلَيْكُمْ


حرمت والا مہینہ حرمت والے مہینے کا بدلہ ھے اور ادب رکھنے میں بدلہ ھے پھر جس نے تم پر زیادتی کی تم اس پر زیادتی کرو جیسی اس نے تم پر زیادتی کی ۔


اَلشَّھْرُ الْحَرَام

حرمت والا مہینہ 

جاہلیت کے زمانے میں عرب کے مختلف قبیلے آپس میں ہمیشہ جنگ کرتے رہا کرتے تھے ۔ لیکن یہ بات انہوں نے ٹہرا لی تھی کہ سال میں چار مہینے جنگ بند رہا کرے گی ۔ اور یہ زمانہ امن اور صلح کے ساتھ گزارا جائے گا ۔ ان کے نزدیک ان چار مہینوں کی پاکی اور بزرگی بہت مانی ہوئی تھی ۔ وہ چار مہینے یہ تھے ۔ 

محرم ۔۔۔ قمری سال کا پہلا مہینہ 

رجب ۔۔۔ قمری سال کا ساتواں مہینہ 

ذی قعدہ ۔۔۔ قمری سال کا گیارہواں مہینہ 

ذالحجہ ۔۔۔ قمری سال کا بارھواں مہینہ 

اس آیۃ کا شانِ نزول اور تاریخی پس منظر یوں بیان کیا جاتا ھے ۔ کہ رسول الله صلی الله علیه وسلم چند صحابیوں کو ساتھ لے کر عمرہ کی غرض سے ذیقعدہ سن۷ھجری میں مدینہ سے مکہ کی جانب روانہ ہوئے ۔ لیکن وہاں کے مشرک آپ سے اور آپ کے ساتھیوں سے جنگ پر آمادہ ہو گئے ۔ بلکہ تیر اندازی اور سنگ باری شروع کر دی ۔ انہوں نے اس حرمت والے اور مقدس مہینے کی بھی پرواہ نہ کی ۔ 

یہ آیت اسی واقعہ کی طرف اشارہ کرتی ھے ۔ الله تعالی فرماتا ھے کہ کسی مہینے کی حرمت اور عزت اسی وقت تک برقرار رہ سکتی ھے جبکہ دوسرا فریق بھی اس کا عزت اور احترام کرے ۔ اور اگر یہ نہیں تو پھر کسی حرمت والے مہینے کی بنیاد ہی نہیں ۔ اگر دوسرا فریق احترام والے مہینے میں بھی جنگ سے بازنہیں آتا تو تم بھی ان کے مقابلے میں جنگ شروع کر دو ۔ اگر انہوں نے اس بات کا لحاظ نہیں کیا کہ یہ مہینہ حرمت والا ھے یا یہ جگہ حرمت والی ھے یا تم مسلمانوں نے احرام باندھ رکھا ھے تو پھر تم بھی تیار ھو جاؤ اور ہتھیار اٹھا لو ۔ 

اس کے بعد یہ بتایا کہ اگر انہوں نے تمہاری حرمتوں کی پرواہ نہ کرتے ہوئے تم پر زیادتی کی ھے تو تم بھی ان کو جواب دو ۔ 

یہاں لفظ اعتداء ( ان پر زیادتی کرو ) اس لئے آیا ھے کہ عربی زبان میں یہ محاورہ ھے کہ جس فعل کی سزا دینی ھے اس کی سزا کے لئے بھی وہی لفظ بولا جاتا ھے ۔ مطلب یہ کہ انہیں جواب میں سزا دو اور قتل کرو ۔ یہ مراد ہرگز نہیں کہ تم بھی زیادتی کرو ۔

درس قرآن ۔۔۔ مرتبہ درس قرآن بورڈ

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

تعوُّذ۔ ۔۔۔۔۔ اَعُوذُ بِالله مِنَ الشَّیطٰنِ الَّرجِیمِ

     اَعُوْذُ ۔                بِاللهِ  ۔ ُ     مِنَ ۔ الشَّیْطٰنِ ۔ الرَّجِیْمِ      میں پناہ مانگتا / مانگتی ہوں ۔  الله تعالٰی کی ۔ سے ۔ شیطان ۔ مردود       اَعُوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّیطٰنِ الَّجِیْمِ  میں الله تعالٰی کی پناہ مانگتا / مانگتی ہوں شیطان مردود سے اللہ تعالٰی کی مخلوقات میں سے ایک مخلوق وہ بھی ہے جسےشیطان کہتے ہیں ۔ وہ آگ سے پیدا کیا گیا ہے ۔ جب فرشتوں اور آدم علیہ السلام کا مقابلہ ہوا ۔ اور حضرت آدم علیہ السلام اس امتحان میں کامیاب ہو گئے ۔ تو الله تعالٰی نے فرشتوں کو حکم دیاکہ وہ سب کے سب آدم علیہ السلام کے آگے جھک جائیں ۔ چنانچہ اُن سب نے انہیں سجدہ کیا۔ مگر شیطان نے سجدہ کرنے سے انکار کر دیا ۔ اس لئے کہ اسکے اندر تکبّر کی بیماری تھی۔ جب اس سے جواب طلبی کی گئی تو اس نے کہا مجھے آگ سے پیدا کیا گیا ہے اور آدم کو مٹی سے اس لئے میں اس سے بہتر ہوں ۔ آگ مٹی کے آگے کیسے جھک سکتی ہے ؟ شیطان کو اسی تکبّر کی بنا پر ہمیشہ کے لئے مردود قرار دے دیا گیا اور قیامت ت...

سورۃ بقرہ تعارف ۔۔۔۔۔۔

🌼🌺. سورۃ البقرہ  🌺🌼 اس سورت کا نام سورۃ بقرہ ہے ۔ اور اسی نام سے حدیث مبارکہ میں اور آثار صحابہ میں اس کا ذکر موجود ہے ۔ بقرہ کے معنی گائے کے ہیں ۔ کیونکہ اس سورۃ میں گائے کا ایک واقعہ بھی  بیان کیا گیا ہے اس لئے اس کو سورۃ بقرہ کہتے ہیں ۔ سورۃ بقرہ قرآن مجید کی سب سے بڑی سورۃ ہے ۔ آیات کی تعداد 286 ہے ۔ اور کلمات  6221  ہیں ۔اور حروف  25500 ہیں  یہ سورۃ مبارکہ مدنی ہے ۔ یعنی ہجرتِ مدینہ طیبہ کے بعد نازل ہوئی ۔ مدینہ طیبہ میں نازل ہونی شروع ہوئی ۔ اور مختلف زمانوں میں مختلف آیات نازل ہوئیں ۔ یہاں تک کہ " ربا " یعنی سود کے متعلق جو آیات ہیں ۔ وہ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کی آخری عمر میں فتح مکہ کے بعد نازل ہوئیں ۔ اور اس کی ایک آیت  " وَ اتَّقُوْا یَوْماً تُرجَعُونَ فِیہِ اِلَی اللهِ "آیہ  281  تو قران مجید کی بالکل آخری آیت ہے جو 10 ہجری میں 10  ذی الحجہ کو منٰی کے مقام پر نازل ہوئی ۔ ۔ جبکہ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم حجۃ الوداع کے فرائض ادا کرنے میں مشغول تھے ۔ ۔ اور اس کے اسی نوّے دن بعد آپ صلی الله علیہ وسلم کا وصال ہوا ۔ اور وحی ا...

*بنی اسرائیل کی فضیلت*

يَا۔۔۔۔۔۔  بَنِي إِسْرَائِيلَ ۔۔۔۔۔۔        اذْكُرُوا    ۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔    نِعْمَتِيَ ۔۔۔۔۔۔۔۔  ۔ الَّتِي    اے  ۔ اولاد اسرائیل ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تم یاد کرو ۔۔۔۔۔۔۔ میری نعمتوں کو ۔۔۔۔ وہ جو  أَنْعَمْتُ    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ عَلَيْكُمْ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔   ۔ وَأَنِّي ۔۔۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔ فَضَّلْتُكُمْ        میں نے انعام کیں ۔ تم پر ۔ اور بے شک میں نے ۔۔۔۔۔۔۔فضیلت دی تم کو   عَلَى     ۔    الْعَالَمِينَ۔  4️⃣7️⃣ پر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔  تمام جہان  يَا بَنِي إِسْرَائِيلَ اذْكُرُوا نِعْمَتِيَ الَّتِي أَنْعَمْتُ عَلَيْكُمْ وَأَنِّي فَضَّلْتُكُمْ عَلَى الْعَالَمِينَ.   4️⃣7️⃣ اے بنی اسرائیل میرے وہ احسان یاد کرو  جو میں نے تم پر کئے اور یہ کہ میں نے تمہیں تمام عالم پر بڑائی دی ۔  فَضَّلْتُکُم۔ ( تمہیں بڑائی دی ) ۔ یہ لفظ فضل سے نکلا ہے ۔ جس کے معنی ہیں بڑائی ۔ تمام عالم پر فضیلت دینے کا مطلب یہ ہے کہ بنی اسرائیل تمام فِرقوں سے افضل رہے اور کوئی ان کا ہم پلہ نہ تھا...