نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

*رشوت*

وَ تُدْلُوا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔   بِها ۔۔۔إِلَي ۔۔۔الْحُکَّامِ ۔۔ لِتَأْکُلُوا ۔۔۔۔۔۔۔۔ فَريقاً ۔۔۔۔۔  مِنْ۔۔۔ أَمْوالِ
اور (نہ) پہنچاؤ۔۔اس کو ۔۔ تک ۔۔حاکم۔۔ تاکہ تم کھاؤ۔۔کوئی حصہ ۔۔ سے ۔۔ مال
 ۔۔النَّاسِ ۔۔۔بِالْإِثْمِ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔    وَ أَنْتُمْ تَعْلَمُونَ
 ۔۔ لوگ ۔۔ گناہ کے ساتھ ۔۔ اور تم جانتے ہو

تُدْلُوا بِها إِلَي الْحُکَّامِ لِتَأْکُلُوا فَريقاً مِنْ أَمْوالِ النَّاسِ بِالْإِثْمِ وَ أَنْتُمْ تَعْلَمُونَ
اور انہیں حاکموں تک نہ پہنچاؤ کہ لوگوں کے مال میں سے کوئی حصہ کھا جاؤ ناحق اور تم جانتے ہو ۔

تُدْلُوْا 
تم پہنچاؤ
لفظ۔ اولاء۔ سے نکلا ہے ۔ جس کے معنی ہیں کنویں میں ڈول ڈالنا ۔ کسی چیز کو کہیں پہنچانا ۔ یا اسے وسیلہ بنانا بھی معنی مراد لئے جاتے ہیں ۔ مطلب یہ ہوا کہ حاکموں کو اپنا طرفدار بنانے یا ان تک رسائی حاصل کرنے کے کا مال کو فدیہ نہ بناؤ ۔ اور رشوت یا مالی تحائف دے کر حاکموں پر اثر نہ ڈالو ۔ 
فَرِیْقاً 
کوئی حصہ ۔
اس لفظ کے معنی کسی گروہ یا فریق بھی ہوتے ہیں ۔لیکن یہاں یہ حصہ یا جزو کے معنی میں استعمال ہوا ہے ۔ 
بِالاِثْمِ
ناحق ۔ 
ہر قسم کی برائیاں اثم کے مفہوم میں شامل ہیں ۔ 
معاشرے میں عدل و انصاف اور لوگوں کے حقوق کی حفاظت کی خاطر قرآن مجید نے یہاں دو باتوں پر زور دیا ھے ۔ 
ایک یہ کہ نذرانے ، ڈالیاں ، دعوتیں اور رشوت کے دوسرے تمام ایسے ذرائع جن سے حاکموں پر اثر ڈالنا اور ان سے رسوخ پیدا کرنا مقصود ہو ناجائز ہیں ۔ کیونکہ اس طرح حاکم جانب دار ہو سکتے ہیں ۔ انصاف کی ترازو ٹیڑھی ہو جاتی ھے۔ عدل اور حق پرستی کا وجود ختم ہو جاتا ھے ۔ ظلم اور حق تلفی عام ہو جاتی ھے ۔ 
جھوٹے دعوے ، جعلی کاغذات ، جھوٹی گواہیاں ، جھوٹے حلف نامے اور حق بات سے کترانا عام ہو جاتا ھے ۔ اس طرح بد عنوانیاں پھیلتی ہیں اور قتل و خون زیادہ ہو جاتے ہیں ۔ ان سب سے بچنے کے لئے یہ قانون بنا دیا گیا ۔ کہ حاکموں کو غیر جانبدار ، عدل پرست اور حق کا طرفدار رکھنے کے لئے ضروری ھے کہ کوئی فرد اپنے مال سے حاکم کو ورغلانے کی کوشش نہ کرے۔ 
دوسری اہم بات جو اس سلسلے میں قرآن مجید نے بتائی ۔ وہ یہ کہ ہر معاملہ اور لین دین میں خود انسان کا ضمیر اسے نیکی کی طرف متوجہ کرتا ھے ۔ اور برائی پر ملامت کرتا ھے ۔ ظاہر ہے کہ دنیا کی بہتر سے بہتر عدالت اور عادل سے عادل حاکم کے فیصلے بہرحال مقدمہ کی صورتحال اور گواہوں کی شھادت کے مطابق ہی ہوں گے ۔ اور ان میں غلطی اور لغزش ممکن ھے ۔ 
لہٰذا کسی حاکم اور قاضی کے فیصلے کے باوجود اصل مجرم ان کی نگاہ میں جرم سے اور گنہگار اپنے گناہ کی سزا سے بچ سکتا ھے ۔ لیکن انسان کا ضمیر اسے دھوکا نہیں دے سکتا ۔ بشرطیکہ اس نے ضمیر کی آواز کو دبا دبا کر مار ہی نہ دیا ہو ۔ 
ایک حدیث مبارکہ کا مفہوم ھے کہ 
آپ صلی الله علیہ وسلم نے ایک مرتبہ فرمایا ۔ میرے پاس مقدمہ آتا ھے مدعی ثابت کر دیتا ھے حالانکہ حق دوسری جانب ھوتا ھے ۔ میں اس بیان کے مطابق فیصلہ کر دیتا ہوں ۔ لیکن وہ سمجھ لے کہ ایک مسلمان کا مال ناجائز طریق سے لینا آگ کو لینا ھے ۔ 
درس قرآن ۔۔۔ مرتبہ درس قرآن 

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

تعوُّذ۔ ۔۔۔۔۔ اَعُوذُ بِالله مِنَ الشَّیطٰنِ الَّرجِیمِ

     اَعُوْذُ ۔                بِاللهِ  ۔ ُ     مِنَ ۔ الشَّیْطٰنِ ۔ الرَّجِیْمِ      میں پناہ مانگتا / مانگتی ہوں ۔  الله تعالٰی کی ۔ سے ۔ شیطان ۔ مردود       اَعُوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّیطٰنِ الَّجِیْمِ  میں الله تعالٰی کی پناہ مانگتا / مانگتی ہوں شیطان مردود سے اللہ تعالٰی کی مخلوقات میں سے ایک مخلوق وہ بھی ہے جسےشیطان کہتے ہیں ۔ وہ آگ سے پیدا کیا گیا ہے ۔ جب فرشتوں اور آدم علیہ السلام کا مقابلہ ہوا ۔ اور حضرت آدم علیہ السلام اس امتحان میں کامیاب ہو گئے ۔ تو الله تعالٰی نے فرشتوں کو حکم دیاکہ وہ سب کے سب آدم علیہ السلام کے آگے جھک جائیں ۔ چنانچہ اُن سب نے انہیں سجدہ کیا۔ مگر شیطان نے سجدہ کرنے سے انکار کر دیا ۔ اس لئے کہ اسکے اندر تکبّر کی بیماری تھی۔ جب اس سے جواب طلبی کی گئی تو اس نے کہا مجھے آگ سے پیدا کیا گیا ہے اور آدم کو مٹی سے اس لئے میں اس سے بہتر ہوں ۔ آگ مٹی کے آگے کیسے جھک سکتی ہے ؟ شیطان کو اسی تکبّر کی بنا پر ہمیشہ کے لئے مردود قرار دے دیا گیا اور قیامت ت...

سورۃ بقرہ تعارف ۔۔۔۔۔۔

🌼🌺. سورۃ البقرہ  🌺🌼 اس سورت کا نام سورۃ بقرہ ہے ۔ اور اسی نام سے حدیث مبارکہ میں اور آثار صحابہ میں اس کا ذکر موجود ہے ۔ بقرہ کے معنی گائے کے ہیں ۔ کیونکہ اس سورۃ میں گائے کا ایک واقعہ بھی  بیان کیا گیا ہے اس لئے اس کو سورۃ بقرہ کہتے ہیں ۔ سورۃ بقرہ قرآن مجید کی سب سے بڑی سورۃ ہے ۔ آیات کی تعداد 286 ہے ۔ اور کلمات  6221  ہیں ۔اور حروف  25500 ہیں  یہ سورۃ مبارکہ مدنی ہے ۔ یعنی ہجرتِ مدینہ طیبہ کے بعد نازل ہوئی ۔ مدینہ طیبہ میں نازل ہونی شروع ہوئی ۔ اور مختلف زمانوں میں مختلف آیات نازل ہوئیں ۔ یہاں تک کہ " ربا " یعنی سود کے متعلق جو آیات ہیں ۔ وہ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کی آخری عمر میں فتح مکہ کے بعد نازل ہوئیں ۔ اور اس کی ایک آیت  " وَ اتَّقُوْا یَوْماً تُرجَعُونَ فِیہِ اِلَی اللهِ "آیہ  281  تو قران مجید کی بالکل آخری آیت ہے جو 10 ہجری میں 10  ذی الحجہ کو منٰی کے مقام پر نازل ہوئی ۔ ۔ جبکہ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم حجۃ الوداع کے فرائض ادا کرنے میں مشغول تھے ۔ ۔ اور اس کے اسی نوّے دن بعد آپ صلی الله علیہ وسلم کا وصال ہوا ۔ اور وحی ا...

*بنی اسرائیل کی فضیلت*

يَا۔۔۔۔۔۔  بَنِي إِسْرَائِيلَ ۔۔۔۔۔۔        اذْكُرُوا    ۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔    نِعْمَتِيَ ۔۔۔۔۔۔۔۔  ۔ الَّتِي    اے  ۔ اولاد اسرائیل ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تم یاد کرو ۔۔۔۔۔۔۔ میری نعمتوں کو ۔۔۔۔ وہ جو  أَنْعَمْتُ    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ عَلَيْكُمْ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔   ۔ وَأَنِّي ۔۔۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔ فَضَّلْتُكُمْ        میں نے انعام کیں ۔ تم پر ۔ اور بے شک میں نے ۔۔۔۔۔۔۔فضیلت دی تم کو   عَلَى     ۔    الْعَالَمِينَ۔  4️⃣7️⃣ پر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔  تمام جہان  يَا بَنِي إِسْرَائِيلَ اذْكُرُوا نِعْمَتِيَ الَّتِي أَنْعَمْتُ عَلَيْكُمْ وَأَنِّي فَضَّلْتُكُمْ عَلَى الْعَالَمِينَ.   4️⃣7️⃣ اے بنی اسرائیل میرے وہ احسان یاد کرو  جو میں نے تم پر کئے اور یہ کہ میں نے تمہیں تمام عالم پر بڑائی دی ۔  فَضَّلْتُکُم۔ ( تمہیں بڑائی دی ) ۔ یہ لفظ فضل سے نکلا ہے ۔ جس کے معنی ہیں بڑائی ۔ تمام عالم پر فضیلت دینے کا مطلب یہ ہے کہ بنی اسرائیل تمام فِرقوں سے افضل رہے اور کوئی ان کا ہم پلہ نہ تھا...