*قتال کی حدِ آخر*


وَقَاتِلُوهُمْ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔   حَتَّى ۔۔ لَا تَكُونَ ۔۔ فِتْنَةٌ ۔۔۔۔۔۔۔ وَيَكُونَ ۔۔الدِّينُ 
اور ان سے لڑو ۔۔ یہاں تک ۔۔ نہ رہے ۔۔ فتنہ ۔۔ اور ہو ۔۔ دین
لِلَّهِ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔   فَإِنِ ۔۔۔۔۔  انتَهَوْا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔  فَلَا ۔۔۔۔۔۔  عُدْوَانَ 
الله کے لئے ۔۔ پس اگر ۔۔ وہ باز آجائیں ۔۔پس نہیں ۔۔ زیادتی 
  إِلَّا عَلَى ۔۔الظَّالِمِينَ  1️⃣9️⃣3️⃣
مگر ۔۔ پر ۔۔ ظالم

وَقَاتِلُوهُمْ حَتَّى لَا تَكُونَ فِتْنَةٌ وَيَكُونَ الدِّينُ لِلَّهِ فَإِنِ انتَهَوْا فَلَا عُدْوَانَ 
إِلَّا عَلَى الظَّالِمِينَ  1️⃣9️⃣3️⃣

اور ان سے یہاں تک لڑو کہ فتنہ باقی نہ رہے ۔ اور الله تعالی ہی کا دین ہو جائے پھر اگر وہ باز آجائیں تو ظالموں کے سوا کسی پر زیادتی نہیں ۔
قٰتِلُوْھُمْ
ان سے لڑو
اس سے تمام کافر مراد ہو سکتے ہیں ۔ لیکن علماء نے صرف مکہ کے مشرکین ہی مراد لئے ہیں ۔ چونکہ یہاں روئے سخن انہی کی طرف معلوم ہوتا ھے ۔ 
الدّین
دین 
یہ لفظ عربی میں جزا و سزا یعنی بدلے کے معنوں میں استعمال ہوتا ھے ۔ قرآن مجید میں یہ متعدد معنوں میں آیا ھے ۔ مثلا بدلہ ۔ طریق ۔ فکر وعمل ۔ مذہب ۔ الله تعالی کی عبادت اور فرمانبرداری وغیرہ ۔
اس آیت میں یہ حکم عام کر دیا گیا کہ تم فتنہ پرداز کافروں اور اسلام کے دشمنوں سے مسلسل جنگ کرتے رہو ۔ حتی کہ فتنہ و فساد ختم ہو جائے اور الله کا قانون غالب ہو جائے ۔ کسی شخص میں الله جل جلالہ کے قانون کی مخالفت ، دشمنی اور خلاف ورزی کی طاقت نہ رھے اور اگر کوئی شخص اس کی توہین کرے تو اسے فورا سزا مل جائے ۔ 
اسلام اس چیز کا خواہشمند ھے کہ الله سبحانہ تعالی کا قانون عام ہو ۔ تمام دوسرے مذاہب کے ماننے والے اطمینان سے اپنی اپنی جگہ زندگی بسر کر سکیں ۔ عبادت گاہیں اور مذہبی مقامات بدکار لوگوں کی دست برداری سے محفوظ رہیں ۔ اور اسلام کی راہ میں کوئی رکاوٹ پیدا نہ ہو ۔ صرف یہی ایک صورت ہے جس سے دنیا میں امن قائم رہ سکتا ھے ۔ ورنہ فتنہ ہمیشہ سر اٹھاتا رھے گا ۔ اور لوگ کبھی چین کی زندگی بسر نہ کر سکیں گے ۔
اس کے لئے اسلام کے پاس تین راہیں کُھلی ہیں ۔
۱۔ لوگوں کو اسلام قبول کرنے کی دعوت دے ۔ اگر وہ مان لیں ۔۔۔ اور الله جل شانہ ، اس کے رسول صلی الله علیہ وسلم اور یومِ آخر پر ایمان لے آئیں ۔ تو الله تعالی ان کے گناہ بخش دے گا ۔ اور وہ اسلامی معاشرہ میں مسلمانوں کے برابر حقوق پا لیں گے ۔ 
۲۔ اگر لوگ اسلام قبول کرنے کے لئے تیار نہ ہوں ۔ البتہ اس کی مخالفت سے باز آنے کا اقرار کر لیں ۔ تو وہ شوق سے اسلامی سلطنت میں رہیں ۔ اس صورت میں ان کی حفاظت مسلمانوں کے ذمہ ہو گی ۔ 
۳۔ اگر ان دونوں باتوں پر راضی نہ ہوں اور وہ الله جل جلالہ کے قانون کی خلاف ورزی کرتے رہیں ۔ یعنی خود غرضی میں دیوانے ہو جائیں ۔ تو پھر ان کا فیصلہ تلوار سے کر دینا چاہئیے ۔ ان کی سزا قتل کے سوا کوئی اور نہیں ۔ فتنہ پرداز اور امن دشمن انسانوں کو کبھی معاف نہیں کیا جا سکتا ۔
درس قرآن ۔۔۔ مرتبہ درس قرآن بورڈ 

کوئی تبصرے نہیں:

حالیہ اشاعتیں

مقوقس شاہ مصر کے نام نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کا خط

سیرت النبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم..قسط 202 2.. "مقوقس" _ شاہ ِ مصر کے نام خط.. نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک گرامی ...

پسندیدہ تحریریں