نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

حج اور عمرہ کی قربانی

حج اور عمرہ کی قربانی 


فَإِذَا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔  أَمِنتُمْ ۔۔۔۔۔۔۔۔ فَمَن۔۔۔  تَمَتَّعَ ۔۔۔ بِالْعُمْرَةِ ۔۔۔ إِلَى ۔۔۔ الْحَجِّ 

پس جب ۔۔ تم امن میں ہو ۔۔۔ پس جو ۔۔ فائدہ اٹھائے ۔۔۔ تک ۔۔۔ حج 

فَمَا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اسْتَيْسَرَ۔۔۔۔  مِنَ ۔۔۔ الْهَدْيِ ۔۔۔ فَمَن ۔۔۔ لَّمْ يَجِدْ 

پس جو ۔۔۔ میسر ہو ۔۔۔ سے ۔۔۔  قربانی ۔۔۔ پس جو ۔۔۔ نہ پائے 

فَصِيَامُ ۔۔۔۔۔۔ ثَلَاثَةِ ۔۔۔ أَيَّامٍ ۔۔۔فِي الْحَجِّ ۔۔۔ وَسَبْعَةٍ 

پس روزے ۔۔۔ تین ۔۔ دن ۔۔۔ حج میں ۔۔۔ اور سات 

إِذَا ۔۔۔ رَجَعْتُمْ ۔۔۔۔۔۔۔۔ تِلْكَ ۔۔۔۔  عَشَرَةٌ ۔۔۔ كَامِلَةٌ

جب ۔۔ تم واپس لوٹو ۔۔۔ یہ ۔۔۔ دس ۔۔۔ پورے 


فَإِذَا أَمِنتُمْ فَمَن تَمَتَّعَ بِالْعُمْرَةِ إِلَى الْحَجِّ فَمَا اسْتَيْسَرَ مِنَ الْهَدْيِ فَمَن لَّمْ يَجِدْ فَصِيَامُ ثَلَاثَةِ أَيَّامٍ فِي الْحَجِّ وَسَبْعَةٍ إِذَا رَجَعْتُمْ تِلْكَ عَشَرَةٌ كَامِلَةٌ 


پس جب تمہاری خاطر جمع ہو تو جو کوئی فائدہ اٹھائے عمرے کو حج کے ساتھ ملا کر تو جو کچھ قربانی میسر ہو ۔ پھر جسے قربانی نہ ملے وہ روزے رکھے تین دن حج کے دنوں میں اور سات روزے جب تم لوٹو ۔ یہ دس پورے ہوئے ۔ 

أَمِنْتُمْ ۔ تم امن میں ہو ۔ یعنی خطرے اور مرض کی حالت سے نکل کر تم امن امان میں آجاؤ ۔ 

تَمَتّعَ ۔ ( فائدہ اٹھائے ) لفظی معنی فائدہ اٹھانے کے ہیں ۔ فقہ کی اصطلاح میں اس سے مراد حج اور عمرہ کو ملا کر ادا کرنا ہے ۔ یعنی حج کے زمانہ میں ایک احرام باندھ کر عمرہ ادا کیا جائے ۔ پھر دوسرے احرام سے حج ادا کیا جائے ۔ جاہلیت کے زمانے میں عربوں نے یہ غلط عقیدہ گھڑ لیا تھا کہ حج کے موسم میں عمرہ کرنا گناہ ہے ۔۔۔۔ 

اَذِا رَجِعْتُم ۔ ( جب تم لوٹو)  اس سے مراد یہ ہے کہ حج کے اعمال سے فارغ ہو کر واپس آؤ ۔ خواہ حج کرنے والا ابھی 

مکہ میں ہی ہو ۔ اور اپنے وطن واپس نہ گیا ہو ۔ البتہ بعض علماء نے اس سے صرف یہ مراد لیا ہے کہ جب مکہ سے گھر واپس پہنچ جاؤ ۔ 

اس آیت میں اس حاجی کا حکم بیان کیا گیا ہے ۔ جو موسمِ حج میں عمرہ اور حج دونوں ادا کرے ۔ اس کو حج قران یا تمتع کہتے ہیں ۔ ایسے حاجی پر قربانی واجب ہے ۔ جو ایک بکرا ہے ۔ یا اونٹ یا گائے کا ساتواں حصہ ہے ۔ یہ قربانی اس پر واجب نہیں جو فقط حج ادا کرے اور اس کے ساتھ عمرہ  نہ کرے ۔ 

جو حج قران یا تمتع کریں لیکن انہیں قربانی میسر نہ ہو افلاس کی وجہ سے یا کسی اور قوی عذر کی وجہ سے قربانی نہ دے سکیں ۔ تو ان کے لئے ضروری ہے کہ وہ دس روزے رکھیں ۔ تین حج کے دنوں میں ۔۔ جو یوم عرفہ یعنی نویں ذالحج پر ختم ہوتے ہیں ۔ اور سات واپس وطن پہنچ کر  

روزوں کی شکل میں یہ کفارہ دینا اس لئے ضروری قرار دیا گیا کہ آدمی جب الله تعالی کا حکم پورا نہ کرسکے تو کہیں اس کا نفس اسے بغاوت یا نافرمانی کی طرف نہ لے جائے ۔ اس لئے اس کے بدلے روزے رکھے تاکہ اس کا نفس پاکیزہ اور اس کی نیت نیک رہے ۔ 


درس قرآن ۔۔۔ مرتبہ درس قرآن بورڈ

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

تعوُّذ۔ ۔۔۔۔۔ اَعُوذُ بِالله مِنَ الشَّیطٰنِ الَّرجِیمِ

     اَعُوْذُ ۔                بِاللهِ  ۔ ُ     مِنَ ۔ الشَّیْطٰنِ ۔ الرَّجِیْمِ      میں پناہ مانگتا / مانگتی ہوں ۔  الله تعالٰی کی ۔ سے ۔ شیطان ۔ مردود       اَعُوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّیطٰنِ الَّجِیْمِ  میں الله تعالٰی کی پناہ مانگتا / مانگتی ہوں شیطان مردود سے اللہ تعالٰی کی مخلوقات میں سے ایک مخلوق وہ بھی ہے جسےشیطان کہتے ہیں ۔ وہ آگ سے پیدا کیا گیا ہے ۔ جب فرشتوں اور آدم علیہ السلام کا مقابلہ ہوا ۔ اور حضرت آدم علیہ السلام اس امتحان میں کامیاب ہو گئے ۔ تو الله تعالٰی نے فرشتوں کو حکم دیاکہ وہ سب کے سب آدم علیہ السلام کے آگے جھک جائیں ۔ چنانچہ اُن سب نے انہیں سجدہ کیا۔ مگر شیطان نے سجدہ کرنے سے انکار کر دیا ۔ اس لئے کہ اسکے اندر تکبّر کی بیماری تھی۔ جب اس سے جواب طلبی کی گئی تو اس نے کہا مجھے آگ سے پیدا کیا گیا ہے اور آدم کو مٹی سے اس لئے میں اس سے بہتر ہوں ۔ آگ مٹی کے آگے کیسے جھک سکتی ہے ؟ شیطان کو اسی تکبّر کی بنا پر ہمیشہ کے لئے مردود قرار دے دیا گیا اور قیامت ت...

سورۃ بقرہ تعارف ۔۔۔۔۔۔

🌼🌺. سورۃ البقرہ  🌺🌼 اس سورت کا نام سورۃ بقرہ ہے ۔ اور اسی نام سے حدیث مبارکہ میں اور آثار صحابہ میں اس کا ذکر موجود ہے ۔ بقرہ کے معنی گائے کے ہیں ۔ کیونکہ اس سورۃ میں گائے کا ایک واقعہ بھی  بیان کیا گیا ہے اس لئے اس کو سورۃ بقرہ کہتے ہیں ۔ سورۃ بقرہ قرآن مجید کی سب سے بڑی سورۃ ہے ۔ آیات کی تعداد 286 ہے ۔ اور کلمات  6221  ہیں ۔اور حروف  25500 ہیں  یہ سورۃ مبارکہ مدنی ہے ۔ یعنی ہجرتِ مدینہ طیبہ کے بعد نازل ہوئی ۔ مدینہ طیبہ میں نازل ہونی شروع ہوئی ۔ اور مختلف زمانوں میں مختلف آیات نازل ہوئیں ۔ یہاں تک کہ " ربا " یعنی سود کے متعلق جو آیات ہیں ۔ وہ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کی آخری عمر میں فتح مکہ کے بعد نازل ہوئیں ۔ اور اس کی ایک آیت  " وَ اتَّقُوْا یَوْماً تُرجَعُونَ فِیہِ اِلَی اللهِ "آیہ  281  تو قران مجید کی بالکل آخری آیت ہے جو 10 ہجری میں 10  ذی الحجہ کو منٰی کے مقام پر نازل ہوئی ۔ ۔ جبکہ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم حجۃ الوداع کے فرائض ادا کرنے میں مشغول تھے ۔ ۔ اور اس کے اسی نوّے دن بعد آپ صلی الله علیہ وسلم کا وصال ہوا ۔ اور وحی ا...

*بنی اسرائیل کی فضیلت*

يَا۔۔۔۔۔۔  بَنِي إِسْرَائِيلَ ۔۔۔۔۔۔        اذْكُرُوا    ۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔    نِعْمَتِيَ ۔۔۔۔۔۔۔۔  ۔ الَّتِي    اے  ۔ اولاد اسرائیل ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تم یاد کرو ۔۔۔۔۔۔۔ میری نعمتوں کو ۔۔۔۔ وہ جو  أَنْعَمْتُ    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ عَلَيْكُمْ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔   ۔ وَأَنِّي ۔۔۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔ فَضَّلْتُكُمْ        میں نے انعام کیں ۔ تم پر ۔ اور بے شک میں نے ۔۔۔۔۔۔۔فضیلت دی تم کو   عَلَى     ۔    الْعَالَمِينَ۔  4️⃣7️⃣ پر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔  تمام جہان  يَا بَنِي إِسْرَائِيلَ اذْكُرُوا نِعْمَتِيَ الَّتِي أَنْعَمْتُ عَلَيْكُمْ وَأَنِّي فَضَّلْتُكُمْ عَلَى الْعَالَمِينَ.   4️⃣7️⃣ اے بنی اسرائیل میرے وہ احسان یاد کرو  جو میں نے تم پر کئے اور یہ کہ میں نے تمہیں تمام عالم پر بڑائی دی ۔  فَضَّلْتُکُم۔ ( تمہیں بڑائی دی ) ۔ یہ لفظ فضل سے نکلا ہے ۔ جس کے معنی ہیں بڑائی ۔ تمام عالم پر فضیلت دینے کا مطلب یہ ہے کہ بنی اسرائیل تمام فِرقوں سے افضل رہے اور کوئی ان کا ہم پلہ نہ تھا...