نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

زمانہ حج اور اخلاقی حدود


الْحَجُّ ۔۔۔  أَشْهُرٌ۔۔۔  مَّعْلُومَاتٌ ۔۔۔  فَمَن ۔۔۔ فَرَضَ ۔۔۔فِيهِنَّ 
حج ۔۔ مہینے ۔۔ معلوم ۔۔۔ پھر جو ۔۔۔ لازم کیا اس نے ۔۔ ان میں 
الْحَجَّ ۔۔۔  فَلَا رَفَثَ ۔۔۔  وَلَا فُسُوقَ ۔۔۔ وَلَا جِدَالَ ۔۔۔۔ فِي الْحَجِّ
حج ۔۔۔ تو نہیں بے حجاب ہونا عورت سے ۔۔۔ نہ گناہ کرنا ۔۔۔ اور نہ جھگڑا کرنا ۔۔۔ حج میں 

الْحَجُّ أَشْهُرٌ مَّعْلُومَاتٌ فَمَن فَرَضَ فِيهِنَّ الْحَجَّ فَلَا رَفَثَ وَلَا فُسُوقَ وَلَا جِدَالَ فِي الْحَجِّ

حج کے چند مہینے معلوم ہیں ۔ پس جس نے ان میں حج لازم کر لیا تو عورت سے بے حجاب نہ ہو اور نہ حج کے زمانہ میں گناہ اور جھگڑا کرے ۔ 
اَشْهُرُ ۔( مہینے) ۔ حج کے لئے شوال ۔ ذی قعدہ  اور ماہ ذالحج کے دس دن مقرر ہیں ۔ حج کے اصل ارکان ذی الحجہ کے دوسرے ہفتہ میں ادا ہوتے ہیں ۔ لیکن احرام دو ماہ پہلے شوال ہی کے مہینے سے باندھنا شروع ہو جاتا ہے ۔
 احرام اس پوشاک کا نام ہے ۔ جو حرم ( میقات ) کی حدود میں داخل ہوتے ہی ہر حاجی پر واجب ہو جاتی ہے ۔ 
یہ پوشاک کیا ہے ؟ بغیر سلی دو چادریں ۔ 
حضرت اما م ابو حنیفہ رحمہ الله کا قول ہے حاجی جب چاہے احرام باندہ سکتا ہے ۔  لیکن ماہِ شوال سے پہلے اس کا احرام باندھنا ناپسندیدہ ہے ۔ ان کے نزدیک شوال سے  پہلے بھی احرام باندھ لینا اس لئے جائز ہے کہ احرام حج کا رُکن نہیں ۔ بلکہ صرف حج کے لئے شرط ہے ۔ 
فَرَضَ فيهنّ الْحج ( ان میں حج لازم کر لیا ) ۔ یعنی حج کے موسم میں حج کرنے کی نیت کرلی اور حج اپنے اوپر واجب کر لیا ۔ اس کے لئے لازم کرنے کی عملی نشانی احرام باندھ لینا 
رَفَث ۔( عورت سے بے حجاب ہونا ) ۔ یہاں مراد ہے بیوی سے خلوت کے ساتھ مضصوص باتوں کا کرنا ۔ 
فُسُوق ۔( گناہ) ۔ اس سے مراد ہر قسم کے چھوٹے بڑے گناہ ہیں ۔ 
جِدَال  (جھگڑا کرنا ) ۔ مار پیٹ ، ہاتھا پائی ، حجت ، تکرار ، گالی گلوچ اور نا شائستہ الفاظ سے خطاب کرنا ۔ 
اس آیت میں حج کے چند ضروری احکام بیان کئے گئے ہیں ۔ 
حج کے مہینے  مقرر کر دئیے گئے ہیں ۔ اور اس کے دوران خاص طور پر تین باتوں سے باز رہنے کی تلقین کی گئی ہے ۔ 
1- بیوی  کے ساتھ اختلاط اور بے حجابی بالکل ممنوع ہے ۔ حتٰی کہ شہوانی خیالات زبان پر لانے کی بھی اجازت نہیں ۔ جس طرح روزہ میں کئی جائز امور سے پرھیز کا حکم ہے ۔ اسی طرح حج کے زمانہ میں بھی پوری طہارت اور پاکیزگی برقرار رکھنے کا حکم ہے ۔ 
2- تمام قسم کے چھوٹے اور بڑے گناہوں سے بچا جائے ۔  ظاہر ہے کہ احرام کی حالت میں جب کئی جائز کام بھی ناجائز ہو جاتے ہیں تو دوسرے گناہوں سے تو بچنے کی سختی سے تلقین لازمی تھی ۔ 
3- ہر قسم کے جھگڑے سے پرھیز کرنا چاہئیے ۔  حج کے موقع پر دنیا  کے تمام حصوں سے لوگ آتے ہیں ۔  ہر عمر ، ہر قماش اور ہر مزاج کے لوگ ہوتے ہیں ۔ ایسے موقعوں پر کسی قسم کی بدکاری اور جھگڑوں کی طرف رغبت ہو سکتی ہے ۔ اس لئے الله تعالی نے ان تمام باتوں سے پہلے ہی منع کر دیا ۔ تاکہ مسلمانوں میں پاکدامنی اور قوت برداشت پیدا ہو ۔ 
درس قرآن ۔۔ مرتبہ درس قرآن بورڈ 

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

تعوُّذ۔ ۔۔۔۔۔ اَعُوذُ بِالله مِنَ الشَّیطٰنِ الَّرجِیمِ

     اَعُوْذُ ۔                بِاللهِ  ۔ ُ     مِنَ ۔ الشَّیْطٰنِ ۔ الرَّجِیْمِ      میں پناہ مانگتا / مانگتی ہوں ۔  الله تعالٰی کی ۔ سے ۔ شیطان ۔ مردود       اَعُوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّیطٰنِ الَّجِیْمِ  میں الله تعالٰی کی پناہ مانگتا / مانگتی ہوں شیطان مردود سے اللہ تعالٰی کی مخلوقات میں سے ایک مخلوق وہ بھی ہے جسےشیطان کہتے ہیں ۔ وہ آگ سے پیدا کیا گیا ہے ۔ جب فرشتوں اور آدم علیہ السلام کا مقابلہ ہوا ۔ اور حضرت آدم علیہ السلام اس امتحان میں کامیاب ہو گئے ۔ تو الله تعالٰی نے فرشتوں کو حکم دیاکہ وہ سب کے سب آدم علیہ السلام کے آگے جھک جائیں ۔ چنانچہ اُن سب نے انہیں سجدہ کیا۔ مگر شیطان نے سجدہ کرنے سے انکار کر دیا ۔ اس لئے کہ اسکے اندر تکبّر کی بیماری تھی۔ جب اس سے جواب طلبی کی گئی تو اس نے کہا مجھے آگ سے پیدا کیا گیا ہے اور آدم کو مٹی سے اس لئے میں اس سے بہتر ہوں ۔ آگ مٹی کے آگے کیسے جھک سکتی ہے ؟ شیطان کو اسی تکبّر کی بنا پر ہمیشہ کے لئے مردود قرار دے دیا گیا اور قیامت ت...

سورۃ بقرہ تعارف ۔۔۔۔۔۔

🌼🌺. سورۃ البقرہ  🌺🌼 اس سورت کا نام سورۃ بقرہ ہے ۔ اور اسی نام سے حدیث مبارکہ میں اور آثار صحابہ میں اس کا ذکر موجود ہے ۔ بقرہ کے معنی گائے کے ہیں ۔ کیونکہ اس سورۃ میں گائے کا ایک واقعہ بھی  بیان کیا گیا ہے اس لئے اس کو سورۃ بقرہ کہتے ہیں ۔ سورۃ بقرہ قرآن مجید کی سب سے بڑی سورۃ ہے ۔ آیات کی تعداد 286 ہے ۔ اور کلمات  6221  ہیں ۔اور حروف  25500 ہیں  یہ سورۃ مبارکہ مدنی ہے ۔ یعنی ہجرتِ مدینہ طیبہ کے بعد نازل ہوئی ۔ مدینہ طیبہ میں نازل ہونی شروع ہوئی ۔ اور مختلف زمانوں میں مختلف آیات نازل ہوئیں ۔ یہاں تک کہ " ربا " یعنی سود کے متعلق جو آیات ہیں ۔ وہ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کی آخری عمر میں فتح مکہ کے بعد نازل ہوئیں ۔ اور اس کی ایک آیت  " وَ اتَّقُوْا یَوْماً تُرجَعُونَ فِیہِ اِلَی اللهِ "آیہ  281  تو قران مجید کی بالکل آخری آیت ہے جو 10 ہجری میں 10  ذی الحجہ کو منٰی کے مقام پر نازل ہوئی ۔ ۔ جبکہ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم حجۃ الوداع کے فرائض ادا کرنے میں مشغول تھے ۔ ۔ اور اس کے اسی نوّے دن بعد آپ صلی الله علیہ وسلم کا وصال ہوا ۔ اور وحی ا...

*بنی اسرائیل کی فضیلت*

يَا۔۔۔۔۔۔  بَنِي إِسْرَائِيلَ ۔۔۔۔۔۔        اذْكُرُوا    ۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔    نِعْمَتِيَ ۔۔۔۔۔۔۔۔  ۔ الَّتِي    اے  ۔ اولاد اسرائیل ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تم یاد کرو ۔۔۔۔۔۔۔ میری نعمتوں کو ۔۔۔۔ وہ جو  أَنْعَمْتُ    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ عَلَيْكُمْ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔   ۔ وَأَنِّي ۔۔۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔ فَضَّلْتُكُمْ        میں نے انعام کیں ۔ تم پر ۔ اور بے شک میں نے ۔۔۔۔۔۔۔فضیلت دی تم کو   عَلَى     ۔    الْعَالَمِينَ۔  4️⃣7️⃣ پر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔  تمام جہان  يَا بَنِي إِسْرَائِيلَ اذْكُرُوا نِعْمَتِيَ الَّتِي أَنْعَمْتُ عَلَيْكُمْ وَأَنِّي فَضَّلْتُكُمْ عَلَى الْعَالَمِينَ.   4️⃣7️⃣ اے بنی اسرائیل میرے وہ احسان یاد کرو  جو میں نے تم پر کئے اور یہ کہ میں نے تمہیں تمام عالم پر بڑائی دی ۔  فَضَّلْتُکُم۔ ( تمہیں بڑائی دی ) ۔ یہ لفظ فضل سے نکلا ہے ۔ جس کے معنی ہیں بڑائی ۔ تمام عالم پر فضیلت دینے کا مطلب یہ ہے کہ بنی اسرائیل تمام فِرقوں سے افضل رہے اور کوئی ان کا ہم پلہ نہ تھا...