*ناحق مال*

وَلَا ۔۔۔ تَاْکُلُوآ ۔۔۔۔۔۔۔۔   اَمْوَالَکُمْ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔    بَیْنَکُمْ ۔۔۔ بِالْبَاطِلِ 
اور نہ ۔۔ تم کھاؤ ۔۔ ایک دوسرے کا مال ۔۔۔ آپس میں ۔۔۔ ناحق

وَلَا تَاْکُلُوْا ٓاَمْوَالَکُمْ بَیْنَ کُمْ۔ بِالْبَاطِلِ 
اور آپس میں ایک دوسرے کا مال ناحق نہ کھاؤ ۔ 

لا تَاْکُلوا 
نہ کھاؤ 
یہ لفظ اکل" سے نکلا ھے ۔ جس کے معنی کھانا ھے ۔ محاورہ کے اعتبار سے صرف کھانا ہی مراد نہیں ۔ بلکہ کسی طرح بھی ناجائز طور پر مال حاصل کر کے استعمال کرنا مراد ھے ۔ 
اَمْوالَکُمْ 
ایک دوسرے کا مال 
تمام مسلمانوں کو خطاب کیا گیا ھے ۔ اور یہاں اس کے معنی اپنا مال نہیں بلکہ ایک دوسرے کا مال ہوں گے ۔ 
بَیْنَکُمْ 
آپس میں 
عُلماء نے اس لفظ کا دائرہ بہت وسیع بیان کیا ہے ۔ صرف مسلمانوں کے مال تک ہی یہ حکم محدود نہیں بلکہ مراد تمام انسانوں کا مال ھے ۔ خواہ مسلم ہو یا کافر ۔ کسی کا مال بھی دغا ۔ فریب ۔ظلم اور ناحق لینا جائز نہیں ۔ 
بِالْبَاطِلِ 
ناحق
مراد ہر ناجائز طریقہ ھے ۔ اس کی بے شمار صورتیں ہوسکتی ہیں ۔ جائز طریقہ ایک ہی ہوتا ھے ۔ اس کے سوا جو صورت بھی اختیار کی جائے وہ ناجائز اور باطل تصوّر ہو گی ۔ 
روزوں کی فرضیّت سے یہ مقصود تھا کہ اُمّت کے افراد کے نفس پاکیزہ ہوں ۔ الله سبحانہ تعالی کی رضامندی حاصل کرنے کے لئے پہلے وہ اپنے اندر حلال چیزوں کو چھوڑنے کی عادت پیدا کریں ۔ تاکہ آئندہ ناجائز طریق سے حاصل کیا ہوا مال ان کے لئے چھوڑنا آسان ہو جائے ۔ اور اس سے مکمل پرھیز کر سکیں ۔ 
مل جل کر رہنے سے تبادلہ اشیاء کی ضرورت کی پڑتی ھے ۔ اس لئے فرمادیا کہ باہمی لین دین میں کسی کا مال ظلم کرکے کھانے کی کوشش ہرگز نہ ہونی چاہئیے ۔ لوٹ مارکرنا ۔قمار بازی میں الجھنا ، دھوکے فریب چالبازی اور دیگر باطل طریق سے مال حاصل کرنا ایک دم ترک کر دینا چاہئیے 
اسی طرح گانے بجانے کی اجرت ۔ شراب کا کاروبار مثلا بنانا ، خرید و فروخت وغیرہ رشوت لینا ، جھوٹی گواہی دینا ، امانت میں خیانت کرنا ، کمزور و بے بس کا ناحق مال کھانا باطل طریقے ہیں جو چھوڑنے چاہئیے ۔
قرآن مجید نے اس کا فیصلہ زیادہ تر لوگوں کے ضمیر پر چھوڑ دیا ہے کہ ہر شخص اپنی ذمہ داری خود محسوس کرے ۔ اپنا چال چلن اور برتاؤ درست کرے۔ اعمال کے حساب کا ڈر اپنے اندر رکھے ۔ ہر معاملہ دیانت اور امانت کے ساتھ کرے۔ تاکہ حکومت کو صرف خاص خاص حالتوں میں مداخلت کرنے کی ضرورت ہو ۔ 
اس آیت کا نچوڑ یہ ہے کہ نیکی صرف یہ نہیں کہ تم رمضان کے دنوں میں پاک اور جائز چیزوں کو ترک کر دو۔ بلکہ اصل نیکی یہ ھے کہ تم ہمیشہ کے لئے ناجائز مال حاصل کرنا اور کھانا چھوڑ دو ۔ کبھی دھوکے ، فریب ، خیانت ، ظلم ، زیادتی ، بے انصافی سے کسی کا مال حاصل نہ کرو ۔ 
رشوت اور ناجائز تحفے وصول کرنا حرام ھے ۔ جس طرح روزوں سے مسلمانوں کے نفس پاکیزہ ہوں گے ۔ اس طرح اس حکم کی پیروی سے انکے عمل پاک ہو جائیں گے ۔ 
اس کا مبارک اثر اخلاق ، معاشرت، سیاست ، عدالت غرض زندگی کے ہر شعبے پر پڑے گا ۔
درس قرآن ۔۔۔ مرتبہ درس قرآن بورڈ 

کوئی تبصرے نہیں:

حالیہ اشاعتیں

مقوقس شاہ مصر کے نام نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کا خط

سیرت النبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم..قسط 202 2.. "مقوقس" _ شاہ ِ مصر کے نام خط.. نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک گرامی ...

پسندیدہ تحریریں