الله متقیوں کے ساتھ ہے



وَاتَّقُوا ۔۔۔۔۔ اللَّهَ ۔۔۔۔۔۔۔۔وَاعْلَمُوا

اور ڈرتے رہو۔۔۔ الله تعالی سے ۔۔۔ اور جان لو ۔

أَنَّ ۔۔۔ اللَّهَ ۔۔۔ مَعَ ۔۔۔۔۔۔۔الْمُتَّقِينَ۔ 1️⃣9️⃣4️⃣

۔ بےشک۔۔۔  الله ۔۔ ساتھ ۔۔ متقیوں کے 


وَاتَّقُوا اللَّهَ وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ مَعَ الْمُتَّقِينَ  1️⃣9️⃣4️⃣


اور الله تعالی سے ڈرتے رہو اور جان لو کہ الله پرھیزگاروں کے ساتھ ھے ۔ 


اِتَّقُواااللهَ 

( الله سے ڈرتے رہو ) ۔ پرھیزگاری (تقوٰی) اختیار کرنے کا یہ حکم قرآن مجید میں بار بار آیا ھے ۔ کہہر کام کرتے وقت اس سے خوف کھاؤ ۔ پرھیزگاری اختیار کرو ۔ تقوٰی کی زندگی بسر کرو ۔ بری باتوں سے پرھیز کرو ۔ بدی اور شطینیت سے نفرت کرو ۔ 

یہ تمام احکام صرف ایک جملے کے ماتحت آتے ہیں ۔ اور وہ ھے اِتِّقُواالله  ۔

مسلمان کی زندگی کے ہر شعبے میں تقوٰی کا عنصر بہت اہم ھے ۔ جب تک مسلمان کے قول وفعل اور عمل میں یہ چیز نمایاں نہ ہو ۔ اس کا اسلام مکمل نہیں ہو سکتا ۔ تقوٰی اسے اعتدال سکھاتا ھے ۔ نیکو کاری کی طرف رغبت دلاتا ھے ۔ اور بدکاری سے دُور کرتا ھے ۔ 

اس وقت تک سورۃ بقرہ کی صرف (۱۹۴) آیات گذری ہیں ۔ اور یہاں تک تقوٰی کا ذکر مختلف شکلوں میں (۱۴) بار آچکا ھے ۔ 

خصوصاً ۔۔۔۔ حُکم عبادت کے بعد ۔۔۔ بنی اسرائیل کے تذکرہ کے بعد ۔۔۔۔ اخلاقی اصولوں کے ذکر کے بعد ۔۔۔ حکم قصاص کے بعد ۔۔۔ وصیت کے حکم کے بعد ۔۔۔ روزے کے حکم کے بعد ہر جگہ تقوٰی ہی کو مقصود ومطلوب بیان کیا گیا ھے ۔ 

قرآن مجید خواہ حلال و حرام کا ذکر کر رہا ہو ۔ نکاح و طلاق کے مسائل پر بحث کر رہا ہو ۔ یتیم و مسکین کے مال و دولت کے قوانین بتا رہا ہو ۔ وصیت اور ورثہ کی تقسیم پر گفتگو کر رہا ہو ۔ باہمی معاشرت اور میل جول کے اصول واضح کر رہا ہو یا جہاد وقتال کے امور پر روشنی ڈال رہا ہو ۔ ہر جگہ تقوٰی کا سبق اس کے ساتھ ضرور دے گا ۔ اور اس کی اہمیت ضرور جتائے گا ۔ آخر کیوں؟ 

انسان خواہشات کا پُتلا ، جذبات کا غلام اور احساسات کا خادم ہوتا ھے ۔ وہ ہر کام کرتے وقت اس کے زیر اثر ہوتا ھے ۔ وہ اعتدال اور انصاف پر قائم رہنے کی بجائے بے انصافی پر اُتر آتا ھے ۔ اعتدال کو چھوڑنا اسے ظلم ، حق تلفی ، بے انصافی اور زیادتی کی طرف لے جاتا ھے ۔ یہ تمام چیزیں ایک مسلمان کی شان سے بہت نیچی ہیں ۔ لہذا ضروری ھے کہ وہ خواہ زندگی کے کسی میدان میں سرگرمِ عمل ہو ۔ اعتدال کو ہاتھ سے نہ چھوڑے ۔ 

اعتدال پر قائم رھنے کے لئے اسے یہ سبق سکھایا جاتا ھے کہ وہ ہر لمحہ الله تعالی کی ہستی ، اس کے احکام اور اس کے حضور حاضری کو پیشِ نظر رکھے ۔ وہ سمجھے کہ دنیاوی مال ومتاع اور عزت وشہرت سب عارضی ھے ۔ 

اصل چیز الله سبحانہ و تعالی کے ہاں کامیابی ھے ۔ اس لئے انصاف پسندی سے اگر عارضی نقصان ہوتا بھی ہو تو اسے برداشت کر لینا چاہئیے ۔ کیونکہ الله تعالی کی مدد صرف متقیوں کو ہی  ملتی ھے اور ظاہر ھے جسے الله جل شانہ کی حمایت نصیب ہو جائے اس سے زیادہ سعادت مند اور خوش قسمت اور کامیاب انسان اور کون ہو سکتا ھے ۔ 

درس قرآن ۔۔۔ مرتبہ درس قرآن بورڈ 


کوئی تبصرے نہیں:

حالیہ اشاعتیں

مقوقس شاہ مصر کے نام نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کا خط

سیرت النبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم..قسط 202 2.. "مقوقس" _ شاہ ِ مصر کے نام خط.. نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک گرامی ...

پسندیدہ تحریریں