نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

*الله تعالی کی راہ میں جنگ*

 وَ قاتِلُوا ۔۔۔في ۔۔ سَبيلِ ۔۔۔اللَّهِ ۔۔۔الَّذينَ 
اور لڑو ۔۔۔ میں ۔۔۔   راہ  ۔۔۔۔ الله تعالی ۔۔ وہ لوگ
يُقاتِلُونَکُمْ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔   وَ لا تَعْتَدُوا ۔۔۔۔۔۔۔۔إِنَّ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔اللَّهَ 
وہ لڑتے ہیں تم سے ۔۔ اور نہ تم زیادتی کرو ۔۔بے شک ۔۔  الله تعالی
لا يُحِبُّ ۔۔۔۔۔۔۔۔الْمُعْتَدينَ۔ 1️⃣9️⃣0️⃣
 نہیں وہ پسند کرتا ۔۔ زیادتی کرنے والے 

وَ قاتِلُوا في سَبيلِ اللَّهِ الَّذينَ يُقاتِلُونَکُمْ وَ لا تَعْتَدُوا
إِنَّ اللَّهَ لا يُحِبُّ الْمُعْتَدينَ۔ 1️⃣9️⃣0️⃣

اور الله کی راہ میں لڑو ان لوگوں سے جو تم سے لڑتے ہیں ۔ اور زیادتی نہ کرو بے شک الله تعالی زیادتی کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا ۔

وَقَاتِلُوا
اور لڑو 
لفظ قتال سے ھے ۔ جس کےمعنی ہیں جنگ کرنا ۔ یہ حکم مسلمانوں کو اس حالت میں مل رہا ھے جب کہ ان پر ان کے دشمن اور مخالفین اسلام ظلم ڈھا چکے ہیں۔ یہ ظلم چند دن کے لئے نہیں بلکہ تیرہ برس تک مکہ میں قیام کے دوران ہوتا رہا ۔ کافروں کی زیادتی اور بے رحمی کے جواب میں صبر کرتے ہوئے مسلمان جب وطن اور گھر بار چھوڑ کر کر بے وطن ہوئے ۔ مدینہ میں جا بسے ۔ تو اسقدر لمبے اور سخت امتحان کے بعد دشمنوں سے مدافعت کے لئے جنگ کی اجازت ہوئی ۔ وہ بھی ظالموں کے بار بار چھیڑ چھاڑ اور حملے کرنے کے بعد ۔ 
فِیْ سَبِیْلِ اللهِ
الله کی راہ میں 
یعنی ذاتی غرض کے لئے نہیں ۔ بلکہ صرف الله جل شانہ کا بول بالا کرنے کے ، شرک مٹانے اور دین حق کی حمایت اور الله تعالی کی رضا حاصل کرنے کے لئے ۔ 
اَلَّذِیْنَ یُقَاتِلُونَکُمْ
جو لوگ تم سے لڑتے ہیں 
یعنی وہ جنہوں نے تم پر ہتھیار اٹھائے ۔ ان الفاظ سے دو باتیں ظاہر ہوتی ہیں ۔ 
۱۔ یہ کہ جنگ میں پہل کرنے والے مسلمان نہ تھے ۔ اور نہ انہیں ہونا چاہئیے تھا ۔ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کی تمام جنگیں حفاظت اور مدافعت کے لئے تھیں ۔ 
۲۔ یہ کہ جنگ صرف ان لوگوں کے خلاف کی جائے جو عملی طور پر لڑائی میں حصہ لے رہے ہوں ۔ اس حکم کی رو سے تمام بوڑھے ۔ بچے ۔ عورتیں ۔ بیمار اور غیر جانبدار لوگ مستثنی ہو جاتے ہیں ۔ اسلام میں ان سے جنگ کرنا جائز نہیں ھے ۔ البتہ اَلّذِیْنَ یُقَاتِلُوْنَکُمْ 
میں وہ تمام دشمن شامل ہیں جو اسلام اور مسلمانوں کے خلاف جنگ کی تیاریوں میں مصروف ہوں ۔ اور کسی صورت میں لڑنے والوں کی مدد کر رہے ہوں ۔ 
لَا تَعْتَدُوْا
زیادتی نہ کرو 
یہ لفظ اعتداء سے نکلا ھے ۔ جس کے معنی ہیں حق سے بڑھنا اور حد سے آگے نکل جانا ۔ 
اسکی کئی صورتیں ہو سکتی ہیں ۔ 
۱۔ حد سے مراد شریعت کی حد بھی ہو سکتی ھے ۔ مثلا یہ کہ انتقام اور غصہ کے جوش میں دشمن قوم کے ایسے لوگوں کو بھی قتل کر دینا جو لڑائی میں شامل نہ ہوں ۔ ان کے کھیتوں ۔ باغوں اور پھلدار درختوں کو آگ لگا دینا ۔ان کے بے زبان جانوروں کو مار دینا ۔ 
۲۔ حد سے مراد معاھدہ کی حد بھی ہو سکتی ھے ۔ مثلا یہ کہ دوسری قوموں کی تقلید کرکے خود بھی معاھدوں کی پرواہ نہ کرنا اور حد شکنی کی ابتداء کرکے ہلّہ بول دینا ۔ 
۳۔ زیادتی کی ایک شکل یہ بھی ہو سکتی ھے کہ فی سبیل الله کے علاوہ کسی اور مقصد اور غرض کے لئے جنگ کی جائے ۔ 

درس قرآن ۔۔۔ مرتبہ درس قرآن بورڈ 

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

تعوُّذ۔ ۔۔۔۔۔ اَعُوذُ بِالله مِنَ الشَّیطٰنِ الَّرجِیمِ

     اَعُوْذُ ۔                بِاللهِ  ۔ ُ     مِنَ ۔ الشَّیْطٰنِ ۔ الرَّجِیْمِ      میں پناہ مانگتا / مانگتی ہوں ۔  الله تعالٰی کی ۔ سے ۔ شیطان ۔ مردود       اَعُوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّیطٰنِ الَّجِیْمِ  میں الله تعالٰی کی پناہ مانگتا / مانگتی ہوں شیطان مردود سے اللہ تعالٰی کی مخلوقات میں سے ایک مخلوق وہ بھی ہے جسےشیطان کہتے ہیں ۔ وہ آگ سے پیدا کیا گیا ہے ۔ جب فرشتوں اور آدم علیہ السلام کا مقابلہ ہوا ۔ اور حضرت آدم علیہ السلام اس امتحان میں کامیاب ہو گئے ۔ تو الله تعالٰی نے فرشتوں کو حکم دیاکہ وہ سب کے سب آدم علیہ السلام کے آگے جھک جائیں ۔ چنانچہ اُن سب نے انہیں سجدہ کیا۔ مگر شیطان نے سجدہ کرنے سے انکار کر دیا ۔ اس لئے کہ اسکے اندر تکبّر کی بیماری تھی۔ جب اس سے جواب طلبی کی گئی تو اس نے کہا مجھے آگ سے پیدا کیا گیا ہے اور آدم کو مٹی سے اس لئے میں اس سے بہتر ہوں ۔ آگ مٹی کے آگے کیسے جھک سکتی ہے ؟ شیطان کو اسی تکبّر کی بنا پر ہمیشہ کے لئے مردود قرار دے دیا گیا اور قیامت ت...

سورۃ بقرہ تعارف ۔۔۔۔۔۔

🌼🌺. سورۃ البقرہ  🌺🌼 اس سورت کا نام سورۃ بقرہ ہے ۔ اور اسی نام سے حدیث مبارکہ میں اور آثار صحابہ میں اس کا ذکر موجود ہے ۔ بقرہ کے معنی گائے کے ہیں ۔ کیونکہ اس سورۃ میں گائے کا ایک واقعہ بھی  بیان کیا گیا ہے اس لئے اس کو سورۃ بقرہ کہتے ہیں ۔ سورۃ بقرہ قرآن مجید کی سب سے بڑی سورۃ ہے ۔ آیات کی تعداد 286 ہے ۔ اور کلمات  6221  ہیں ۔اور حروف  25500 ہیں  یہ سورۃ مبارکہ مدنی ہے ۔ یعنی ہجرتِ مدینہ طیبہ کے بعد نازل ہوئی ۔ مدینہ طیبہ میں نازل ہونی شروع ہوئی ۔ اور مختلف زمانوں میں مختلف آیات نازل ہوئیں ۔ یہاں تک کہ " ربا " یعنی سود کے متعلق جو آیات ہیں ۔ وہ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کی آخری عمر میں فتح مکہ کے بعد نازل ہوئیں ۔ اور اس کی ایک آیت  " وَ اتَّقُوْا یَوْماً تُرجَعُونَ فِیہِ اِلَی اللهِ "آیہ  281  تو قران مجید کی بالکل آخری آیت ہے جو 10 ہجری میں 10  ذی الحجہ کو منٰی کے مقام پر نازل ہوئی ۔ ۔ جبکہ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم حجۃ الوداع کے فرائض ادا کرنے میں مشغول تھے ۔ ۔ اور اس کے اسی نوّے دن بعد آپ صلی الله علیہ وسلم کا وصال ہوا ۔ اور وحی ا...

*بنی اسرائیل کی فضیلت*

يَا۔۔۔۔۔۔  بَنِي إِسْرَائِيلَ ۔۔۔۔۔۔        اذْكُرُوا    ۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔    نِعْمَتِيَ ۔۔۔۔۔۔۔۔  ۔ الَّتِي    اے  ۔ اولاد اسرائیل ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تم یاد کرو ۔۔۔۔۔۔۔ میری نعمتوں کو ۔۔۔۔ وہ جو  أَنْعَمْتُ    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ عَلَيْكُمْ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔   ۔ وَأَنِّي ۔۔۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔ فَضَّلْتُكُمْ        میں نے انعام کیں ۔ تم پر ۔ اور بے شک میں نے ۔۔۔۔۔۔۔فضیلت دی تم کو   عَلَى     ۔    الْعَالَمِينَ۔  4️⃣7️⃣ پر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔  تمام جہان  يَا بَنِي إِسْرَائِيلَ اذْكُرُوا نِعْمَتِيَ الَّتِي أَنْعَمْتُ عَلَيْكُمْ وَأَنِّي فَضَّلْتُكُمْ عَلَى الْعَالَمِينَ.   4️⃣7️⃣ اے بنی اسرائیل میرے وہ احسان یاد کرو  جو میں نے تم پر کئے اور یہ کہ میں نے تمہیں تمام عالم پر بڑائی دی ۔  فَضَّلْتُکُم۔ ( تمہیں بڑائی دی ) ۔ یہ لفظ فضل سے نکلا ہے ۔ جس کے معنی ہیں بڑائی ۔ تمام عالم پر فضیلت دینے کا مطلب یہ ہے کہ بنی اسرائیل تمام فِرقوں سے افضل رہے اور کوئی ان کا ہم پلہ نہ تھا...