نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

*میاں بیوی کا تعلق


اُحِلَّ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔  لَکُمْ ۔۔۔۔۔۔   لَیْلَةَ ۔۔ الصّیَامِ ۔۔۔۔۔۔ الرَّفَثُ ۔۔۔۔۔۔  اِلٰی ۔۔ نِسَآئِکُمْ 
حلال کیا گیا ۔۔ تمہارے لئے ۔۔ رات ۔۔ روزہ ۔۔ بے حجاب ہونا۔۔ طرف ۔۔ تمہاری بیویاں
ھُنَّ ۔۔ لِبَاسٌ ۔۔۔ لَّکُمْ ۔۔۔۔۔۔۔۔  وَ اَنْتُمْ ۔۔ لِبَاسٌ ۔۔۔ لّھُنَّ     ط
 وہ ۔۔ لباس ۔۔ تمہارے لئے ۔۔ اور تم ۔۔ لباس ۔۔ ان کے لئے 

اُحِلَّ لَکُمّ لَیْلَةَ الصّیَامِ الرَّفَثُ اِلٰی نِسائِکُمْ ھُنَّ لِبَاسٌ لَّ کُمْ وَاَنْتُمْ لِبَاسٌ لَّھُنَّ ط

تمہارے لئے جائز ہوا روزے کی رات میں بے حجاب ہونا اپنی بیویوں سے وہ تمہارا لباس ہیں اور تم ان کا لباس ہو ۔ 

اَلرَّفَثُ 
بے حجاب ہونا 
رفث کے لفظی معنٰی ہیں ایسا کلام جو جنسی جذبے اور نفسانی خواہشات کو اُکسائے ۔ یہاں مراد خود خواہشات کو پورا کرنا ھے ۔ 
شریعت اسلامی کے احکام آہستہ آہستہ نازل ہوئے ۔ اہل کتاب ( یہود )کی طرح مسلمان بھی روزوں کے ایّام میں رات کے وقت سونے کے بعد بیویوں سے صحبت سے باز رہتے تھے ۔ اس آیت کے ذریعے اس میں نرمی کی گئی ۔ اور رات کے وقت مباشرت کی اجازت دے دی گئی 
اس سے ظاہر ہے کہ اسلام جذبات و خواہشات کو سرے سے مٹانا نہیں چاہتا ۔ بلکہ تمام کام الله جل جلالہ کے حکم اور اس کی مرضی کے مطابق ڈھالنا چاہتا ھے ۔ جب الله تعالی چاہے تو کوئی کام کرو اور جب وہ منع فرمائے تو اس سے رُک جاؤ ۔ چونکہ ہمار مصلحت اور بہتری وہی سمجھتا ھے ۔ ہمیں اپنے نفع و نقصان کا کچھ پتا نہیں ۔
روزوں کے علاوہ میاں بیوی پر دن رات کوئی پابندی نہیں ۔ لیکن روزے کے دوران دن کے وقتمنع کر دیا گیا ۔ اگر کوئی اس حکم کی خلاف ورزی کرے تو اس کی سزا یہ ھے کہ مسلسل ساٹھ روزے رکھے ۔ یا ایک غلام آزاد کرے یا ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلائے ۔
لِبَاسٌ ۔ میاں بیوی کو ایک دوسرے کا لباس فرما کر اس قریبی رشتہ کو ظاہر کیا ھے جو انہیں الله جل جلالہ کی اجازت سے ایک دوسرے سے حاصل ھے ۔ یہ لباس کی تشبیه کئی صورتوں میں موجود ھے ۔ 
مثلا ان کے آپس کے قریبی تعلقات ، ایک دوسرے کی محتاجی ، جسمانی اعتبار سے انتہائی قُرب ، ایک دوسرے کے لئے زیب و زینت اور اطمینان و آسائش کا موجب ہونا ۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ ایک دوسرے کے انتہائی رازدار ہونے کے باوجود پردہ پوشی کرنا 
غور کیجئے کہ لفظ لباس سے کتنی باتیں سمجھا دی ہیں ۔ میاں بیوی دونوں پر لازم ہے کہ وہ واقعی ایک دوسرے کا لباس یعنی رازدار ۔ امین ۔ پردہ پوش ۔ سکون قلب کا سامان اور رحمت کا موجب ثابت ہوں ۔
درس قرآن ۔۔۔ مرتبہ درس قرآن بورڈ 

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

تعوُّذ۔ ۔۔۔۔۔ اَعُوذُ بِالله مِنَ الشَّیطٰنِ الَّرجِیمِ

     اَعُوْذُ ۔                بِاللهِ  ۔ ُ     مِنَ ۔ الشَّیْطٰنِ ۔ الرَّجِیْمِ      میں پناہ مانگتا / مانگتی ہوں ۔  الله تعالٰی کی ۔ سے ۔ شیطان ۔ مردود       اَعُوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّیطٰنِ الَّجِیْمِ  میں الله تعالٰی کی پناہ مانگتا / مانگتی ہوں شیطان مردود سے اللہ تعالٰی کی مخلوقات میں سے ایک مخلوق وہ بھی ہے جسےشیطان کہتے ہیں ۔ وہ آگ سے پیدا کیا گیا ہے ۔ جب فرشتوں اور آدم علیہ السلام کا مقابلہ ہوا ۔ اور حضرت آدم علیہ السلام اس امتحان میں کامیاب ہو گئے ۔ تو الله تعالٰی نے فرشتوں کو حکم دیاکہ وہ سب کے سب آدم علیہ السلام کے آگے جھک جائیں ۔ چنانچہ اُن سب نے انہیں سجدہ کیا۔ مگر شیطان نے سجدہ کرنے سے انکار کر دیا ۔ اس لئے کہ اسکے اندر تکبّر کی بیماری تھی۔ جب اس سے جواب طلبی کی گئی تو اس نے کہا مجھے آگ سے پیدا کیا گیا ہے اور آدم کو مٹی سے اس لئے میں اس سے بہتر ہوں ۔ آگ مٹی کے آگے کیسے جھک سکتی ہے ؟ شیطان کو اسی تکبّر کی بنا پر ہمیشہ کے لئے مردود قرار دے دیا گیا اور قیامت ت...

سورۃ بقرہ تعارف ۔۔۔۔۔۔

🌼🌺. سورۃ البقرہ  🌺🌼 اس سورت کا نام سورۃ بقرہ ہے ۔ اور اسی نام سے حدیث مبارکہ میں اور آثار صحابہ میں اس کا ذکر موجود ہے ۔ بقرہ کے معنی گائے کے ہیں ۔ کیونکہ اس سورۃ میں گائے کا ایک واقعہ بھی  بیان کیا گیا ہے اس لئے اس کو سورۃ بقرہ کہتے ہیں ۔ سورۃ بقرہ قرآن مجید کی سب سے بڑی سورۃ ہے ۔ آیات کی تعداد 286 ہے ۔ اور کلمات  6221  ہیں ۔اور حروف  25500 ہیں  یہ سورۃ مبارکہ مدنی ہے ۔ یعنی ہجرتِ مدینہ طیبہ کے بعد نازل ہوئی ۔ مدینہ طیبہ میں نازل ہونی شروع ہوئی ۔ اور مختلف زمانوں میں مختلف آیات نازل ہوئیں ۔ یہاں تک کہ " ربا " یعنی سود کے متعلق جو آیات ہیں ۔ وہ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کی آخری عمر میں فتح مکہ کے بعد نازل ہوئیں ۔ اور اس کی ایک آیت  " وَ اتَّقُوْا یَوْماً تُرجَعُونَ فِیہِ اِلَی اللهِ "آیہ  281  تو قران مجید کی بالکل آخری آیت ہے جو 10 ہجری میں 10  ذی الحجہ کو منٰی کے مقام پر نازل ہوئی ۔ ۔ جبکہ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم حجۃ الوداع کے فرائض ادا کرنے میں مشغول تھے ۔ ۔ اور اس کے اسی نوّے دن بعد آپ صلی الله علیہ وسلم کا وصال ہوا ۔ اور وحی ا...

*بنی اسرائیل کی فضیلت*

يَا۔۔۔۔۔۔  بَنِي إِسْرَائِيلَ ۔۔۔۔۔۔        اذْكُرُوا    ۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔    نِعْمَتِيَ ۔۔۔۔۔۔۔۔  ۔ الَّتِي    اے  ۔ اولاد اسرائیل ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تم یاد کرو ۔۔۔۔۔۔۔ میری نعمتوں کو ۔۔۔۔ وہ جو  أَنْعَمْتُ    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ عَلَيْكُمْ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔   ۔ وَأَنِّي ۔۔۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔ فَضَّلْتُكُمْ        میں نے انعام کیں ۔ تم پر ۔ اور بے شک میں نے ۔۔۔۔۔۔۔فضیلت دی تم کو   عَلَى     ۔    الْعَالَمِينَ۔  4️⃣7️⃣ پر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔  تمام جہان  يَا بَنِي إِسْرَائِيلَ اذْكُرُوا نِعْمَتِيَ الَّتِي أَنْعَمْتُ عَلَيْكُمْ وَأَنِّي فَضَّلْتُكُمْ عَلَى الْعَالَمِينَ.   4️⃣7️⃣ اے بنی اسرائیل میرے وہ احسان یاد کرو  جو میں نے تم پر کئے اور یہ کہ میں نے تمہیں تمام عالم پر بڑائی دی ۔  فَضَّلْتُکُم۔ ( تمہیں بڑائی دی ) ۔ یہ لفظ فضل سے نکلا ہے ۔ جس کے معنی ہیں بڑائی ۔ تمام عالم پر فضیلت دینے کا مطلب یہ ہے کہ بنی اسرائیل تمام فِرقوں سے افضل رہے اور کوئی ان کا ہم پلہ نہ تھا...