*جنگ اور جلا وطنی*


وَاقْتُلُوهُمْ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔   حَيْثُ ۔۔۔۔۔۔  ثَقِفْتُمُوهُمْ 
اور تم مار ڈالو ان کو ۔۔جہاں ۔۔ تم پاؤ ان کو ۔۔
وَأَخْرِجُوهُم ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔   مِّنْ حَيْثُ ۔۔۔۔۔۔  أَخْرَجُوكُمْ 
 اور تم نکال دو ان کو ۔۔ جہاں سے ۔۔ نکالا انہوں نے تم کو 

وَاقْتُلُوهُمْ حَيْثُ ثَقِفْتُمُوهُمْ وَأَخْرِجُوهُم مِّنْ حَيْثُ أَخْرَجُوكُمْ

اور انہیں جس جگہ پاؤ مار ڈالو اور جہاں سے انہوں نے تمہیں نکالا تم انہیں نکال دو۔
اُقْتُلُوْھُمْ
انہیں مار ڈالو 
سے مراد وہی لوگ ہیں جو لڑائی کے لئے نکلے ہوں ۔ ۔ یہ حکم حالتِ جنگ کا ھے ہر وقت کا نہیں ۔ 
حَیْثُ ثَقِفْتُمُوْھُمْ
جس جگہ انہیں پاؤ ۔
یعنی ان جنگ کرنے والوں اور قتل کرنے والوں کو جہاں کہیں پاؤ قتل کر دو۔ جب جنگ ہو رہی ہو تو ہاتھ نہ روکو ۔ 
مِنْ حَیْثُ اَخْرَجُوْکُمْ
جہاں سے انہوں نے تمہیں نکالا ۔
یعنی مکہ سے کفار و مشرکین نے تمہیں نکالا تھا 
اس آیت میں قتال اور جہاد کا حکم دیا گیا ھے ۔ اسلام کے دشمن ہمیشہ اس کوشش میں رہتے ھیں کہ مسلمان ابھرنے نہ پائیں ۔ انہیں صفحۂ ہستی سے مٹا دیا جائے ۔ اس لئے ایسے مخالفوں کا وجود اسلام کے لئے ہر وقت خطرے کا باعث ھے ۔ لہذا جہاں کہیں مسلمان ان پر غلبہ حاصل کریں ۔ وہ پُر امن شہری بن کر رہنا پسند نہ کریں اور شرارتوں سے باز نہ آئیں تو انہیں قتل کر دیں ۔ 
بیت الله کو حضرت ابراھیم علیہ السلام نے الله تعالی کے حکم سے اس لئے تعمیر کیا تھا کہ تمام روئے زمین کے لوگ وہاں آکر خالص طور پر الله تعالی کی عبادت کریں ۔ اس کے اصل وارث مسلمان تھے ۔ اس لئے کہ مسلمان ہی اقوامِ عالم میں دینِ ابراھیمی کے نام لیوا تھے ۔ اور الله تعالی کی شریعت اور دین حق کے پابند تھے ۔ ۔ مسلمانوں نے اسے نئے سرے سے دین اسلام کا مرکز بنانا چاہا لیکن کافروں اور مشرکوں نے اس کی مخالفت کی ۔ ۔ ان کے راستے میں روڑے اٹکائے ۔ انہیں کلمۂ حق کہنے سے روکا ۔ اور ان پر ظلم اور سختیاں کیں ۔ حتی کہ مسلمانوں کو مکہ ہی سے نکال دیا ۔
مظلوم مسلمان اپنے آبائی وطن اور مرکز کو چھوڑ کر مدینہ چلے آئے ۔ وہاں بھی کافروں نے انہیں چین سے بیٹھنے نہ دیا ۔ ۔ مختلف قسم کی سازشیں کیں ۔ برابر چھیڑ چھاڑ اور مخالفت جاری رکھی ۔ مسلمانوں کو حج کرنے سے روکا ۔ دعوت اسلامی میں ایک بڑی رکاوٹ بن گئے ۔ ۔ مدینہ پر حملے شروع کر دئیے ۔ 
ان حالات میں مسلمانوں کو حکم دیا گیا کہ ایسے کافر دشمنوں کو جہاں پاؤ قتل کر دو ۔ اور اپنا آبائی وطن اور روحانی مرکز واپس لینے کے لئے انہیں وہاں سے نکال دو ۔ کیونکہ ان کی ایذا رسانیاں حد سے گزر چکی ہیں ۔
ایک مسلمان کی ہستی انسانیت کا صحیح نمونہ ھے ۔ وہ دین فطرت اسلام پر عمل پیرا ھے ۔ وہ اپنے قول و فعل سے اخلاقِ حسنہ کا علمبردار ھے ۔ ۔ کامل انسانیت کا نمونہ ہونے کی حیثیت میں اسے پوری آزادی سے زندہ رھنے کا حق ملنا چاہئیے ۔ اسلام نہ کسی کی آزادی چھینتا ھے نہ اپنی آزادی قربان کر سکتا ھے ۔ نہ کسی ایسے دستور ، طریق کار اور نظام کو برداشت کر سکتا ھے جو امن سوز ۔۔ باطل پرست ۔۔ خدا دشمن اور شرافت و انسانیت کے لئے باعثِ ننگ ھو ۔
درس قرآن ۔۔۔ مرتبہ درس قرآن بورڈ 

کوئی تبصرے نہیں:

حالیہ اشاعتیں

مقوقس شاہ مصر کے نام نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کا خط

سیرت النبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم..قسط 202 2.. "مقوقس" _ شاہ ِ مصر کے نام خط.. نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک گرامی ...

پسندیدہ تحریریں