مؤمنوں کا مذاق نہ اڑاؤ

مؤمنوں کا مذاق نہ اڑاؤ


زُيِّنَ ۔۔۔۔۔۔۔  لِلَّذِينَ ۔۔۔۔۔۔۔كَفَرُوا ۔۔۔ الْحَيَاةُ ۔۔۔الدُّنْيَا 

زینت دی گئی ۔۔۔ لوگوں کے لئے ۔۔ کفر کیا ۔۔ زندگی ۔۔۔ دنیا 

وَيَسْخَرُونَ ۔۔۔  مِنَ ۔۔۔۔۔ الَّذِينَ ۔۔۔۔۔ آمَنُوا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔  وَالَّذِينَ 

اور وہ مذاق کرتے ہیں ۔۔ سے ۔۔ وہ لوگ ۔۔ ایمان لائے ۔۔ اور وہ لوگ 

اتَّقَوْا ۔۔۔ فَوْقَهُمْ ۔۔۔ يَوْمَ ۔۔۔ الْقِيَامَةِ ۔۔ وَاللَّهُ 

پرھیزگار ۔۔۔ ان پر ۔۔۔ دن ۔۔ قیامت ۔۔۔ اور الله 

يَرْزُقُ ۔۔۔۔۔۔۔۔  مَن ۔۔۔۔۔۔ يَشَاءُ ۔۔۔۔ بِغَيْرِ ۔۔۔ حِسَابٍ۔ 2️⃣1️⃣2️⃣

روزی دیتا ہے ۔۔۔ جسے ۔۔ وہ چاہتا ہے ۔۔۔ بغیر ۔۔۔ حساب 


زُيِّنَ لِلَّذِينَ كَفَرُوا الْحَيَاةُ الدُّنْيَا وَيَسْخَرُونَ مِنَ الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ اتَّقَوْا فَوْقَهُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَاللَّهُ يَرْزُقُ مَن يَشَاءُ بِغَيْرِ حِسَابٍ 2️⃣1️⃣2️⃣


کافروں کو دنیا کی زندگی پر فریفتہ کیا ہے اور ایمان والوں پر ہنستے ہیں  اور جو پرھیزگار ہیں وہ قیامت کے دن ان کافروں سے بالاتر ہوں گے ۔ اور الله جسے چاہے بے شمار روزی دیتا ہے ۔


اس آیت کا شانِ نزول یہ ہے کہ مشرکوں کے رئیس مسلمانوں پر ہنستے تھے ۔ انہیں ذلیل سمجھتے تھے ۔ حضرت بلال ، عمار ، صہیب رضی الله عنھم کا مذاق اڑاتے اور کہتے ( نعوذبالله ) ان نادانوں نے آخرت کے خیال پر دنیا کی تکلیفوں اور مصیبتوں کو اپنے سر لے لیا ۔ اور محمد  (صلی الله علیہ وسلم ) کو دیکھو کہ ان فقیروں ، محتاجوں اور بے بس لوگوں کی امداد سے طاقتور عرب رئیسوں اور سرداروں پر غالب آنا چاہتے ہیں ۔ اور دنیا بھر کی اصلاح ان غریبوں کی مدد سے کرنے کی توقع رکھتے ہیں ۔ 

ان لوگوں کے اس تمسخر اور ہنسی کی بنا پر یہ آیت نازل ہوئی ۔ 

انہیں بتایا گیا کہ ان کا اس طرح سوچنا جہالت اور نادانی ہے ۔ انہیں معلوم نہیں کہ یہی غریب اور تنگدست قیامت کے دن ان رئیسوں سے اعلی اور برتر ہوں گے ۔ الله جسے چاہے بے شمار روزی عطا فرمائے ۔  چنانچہ ایک دن آیا کہ انہیں غریبوں کو جن پر کافر ہنستے تھے بنو قریظہ اور بنو نضیر کی دولت ملی ۔ اور اس زمانے کی ایران اور روم جیسی بڑی بڑی سلطنتوں پر الله تعالی نے انہیں بادشاہی دی ۔ دنیا کی دولت ، حکومت اور قیادت الله تعالی نے ان لوگوں کے سپرد کر دی ۔ 

اکثر دیکھنے میں آیا ہے کہ مالدار اور رئیس لوگ جو الله تعالی کے منکر ہوں  وہ اپنی دولت کے بل بوتے پر اکڑتے ہیں ۔ اور وہ سمجھتے ہیں کہ وہ دنیا کی ہر چیز اپنی دولت سے خرید لیں گے ۔ اور دنیا کی ساری طاقت اپنی دولت کی مدد اے فتح کر لیں گے ۔اسی غرور اور تکبر کی بنا پر یہ لوگ غریب ، ایماندار اور حق پرست لوگوں کا مذاق اڑاتے ہیں ۔ ان کے نزدیک دولت ہی شرافت اور ریاست کی نشانی ہوتی ہے ۔ ان کی نگاہ میں اخلاق کی برتری کردار کی پاکیزگی کچھ بھی نہیں ۔ 

لیکن انہیں یہ معلوم نہیں کہ دولت ایک چلتی پھرتی چھاؤں ہے ۔ یہ ایک ڈھلتا سایہ ہے ۔ کبھی یہاں اور کبھی وہاں ۔ اسے ایک جگہ ٹہراؤ میسر نہیں ۔ ایسی چیز جس پر کوئی اختیار اور قابو نہ ہو اور جو عارضی اور نا پائیدار ہو اس قدر اکڑنا لاحاصل اور فضول ہے ۔ 

اصل چیز نیکی اور پرھیزگاری ہے ۔  یہی سب سے بڑی دولت ہے ۔  اسی کے بدلے قیامت میں بہترین اجر ملے گا ۔ اور تمام دولت مند اورمنکر لوگ اس دن مغلوب ہوں گے ۔ وہ ذلت اور رسوائی میں ڈوبے ہوں گے ۔ اور اپنے کئے پر پچھتاتے ہوں گے ۔ کیا اچھا ہو کہ یہ لوگ آج سمجھ لیں کہ الله سبحانہ وتعالی ہی سب کو روزی دیتا ہے ۔ وہ ان سے چھین کر ایمانداروں کو دے سکتا ہے ۔انہیں غریب اور مسکین لوگوں کا مذاق نہیں اڑانا چاہئیے ۔ خود اپنی آخرت سنوارنے کی طرف متوجہ ہونا چاہئیے ۔ 

الله تعالی ہم سب کو ھدایت دے کہ ہم بُرا کلمہ منہ سے نہ نکالیں ۔ آمین 

درس قرآن ۔۔۔ مرتبہ درس قرآن بورڈ

فساد پردازی

فساد پردازی

 

وَإِذَا ۔۔۔۔۔۔۔۔   تَوَلَّى ۔۔۔ سَعَى ۔۔۔۔۔۔۔۔  فِي ۔۔۔ الْأَرْضِ

اور جب ۔۔۔ وہ لوٹے ۔۔۔ دوڑتا پھرے ۔۔ میں ۔۔ زمین 

 لِيُفْسِدَ ۔۔۔ فِيهَا ۔۔۔۔۔۔۔ وَيُهْلِكَ ۔۔۔۔۔۔۔۔  الْحَرْثَ ۔۔۔۔۔۔۔   وَالنَّسْلَ 

تاکہ وہ فساد کرے ۔۔۔ اس میں ۔۔ اور وہ تباہ کرے ۔۔ کھیتیاں ۔۔ اورنسل 

وَاللَّهُ ۔۔۔۔۔۔۔۔    لَا يُحِبُّ ۔۔۔ الْفَسَادَ۔ 2️⃣0️⃣5️⃣

اور الله ۔۔ نہیں وہ پسند کرتا ۔۔۔ فساد 


وَإِذَا تَوَلَّى سَعَى فِي الْأَرْضِ لِيُفْسِدَ فِيهَا وَيُهْلِكَ الْحَرْثَ وَالنَّسْلَ وَاللَّهُ لَا يُحِبُّ الْفَسَادَ.  2️⃣0️⃣5️⃣


اور جب تیرے پاس سے لوٹے تو ملک میں دوڑتا پھرے  تاکہ اس میں فساد کرے اور کھیتیاں اور جانیں تباہ کرے اور الله فساد ناپسند کرتا ہے ۔ 


تولّی (لوٹے ) ۔ اس کے دو معنی ہیں لوٹنا یا حاکم بننا ۔ یعنی جب رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی مجلس سے اٹھ کر چل دے ۔ اور دوسرے معنوں کی رو سے حاکم بن جائے ۔ بعض مفسروں نے یہاں یہی معنٰی کئے ہیں ۔ یعنی وہ ملک کا حاکم ہو جاتا ہے یا کسی جگہ اسے اقتدار مل جاتا ہے ۔ 

سعٰی (دوڑتا پھرے ) اس لفظ کے معنی ہیں سرگرم ہوجانا ۔ دوڑ دھوپ کرنا ۔ کوشش میں لگ جانا ۔ یہاں مراد فساد مچانے اور خرابی برپا کرنے میں سرگرم ہوجانے سے ہے ۔

فِی الارضِ ( ملک میں )  ارض (زمین )  کا لفظ لانے سے عام طور پر یہ ظاہر کرنا مقصود ہوتا ہے کہ منافقین بڑے وسیع پیمانے پر اپنی سرگرمیاں کرتے ہیں ۔ وہ دور دور تک خرابیاں برپا کرتے ہیں ۔ البتہ ارض کے الف لام  سے کسی خاص جگہ کی طرف اشارہ بھی ہو سکتا ہے ۔ جیسے شہر مدینہ جو آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کے زمانے میں منافقین نے مرکز بنا رکھا تھا ۔ 

اَلْحَرث ( کھیتیاں ) ۔ یعنی فساد برپا کرنے والوں نے کھیتوں کو برباد کیا اور انہیں آگ لگا دی ۔ اس سے بعض مفسرین نے عورتیں بھی مراد لی ہیں  اور بعض لوگوں نے دین کو نقصان پہنچانا بھی اس کے مفہوم میں شامل کیا ہے ۔ 

اَلنّسل ( جانیں ) ۔ نسل کو تباہ کرنے میں نسل انسانی اور نفس حیوانی دونوں شامل ہیں ۔ بعض مفسرین نے یہاں اس سے مراد نسل انسانی ہی لی ہے مجموعی طور پر قتل و غارت اس لفظ کے مفہوم میں شامل ہے ۔ 

پچھلی آیت میں بتایا گیا تھا کہ وہ ظاہر میں وہ اسلام کی ہمدردی کے دعوے کرتا ہے لیکن اندر سے اسلام کا دشمن ہے ۔ پھر یہ کہ الله کی قسمیں کھا کھا کر اپنے سچا ہونے کا یقین دلانے کی کوشش کرتا ہے ۔ بات بات پر الله کو گواہ ٹہراتا ہے ۔ لیکن دراصل وہ جھگڑالو قسم کا آدمی ہے ۔ ہر حق بات سے الجھتا ہے ۔ سچ کا دشمن ہے ۔ الله اور اس کے رسول صلی الله علیہ وسلم کو نقصان پہنچاتا ہے ۔ 

اس آیت میں ایسے لوگوں کی مزید نشانیاں بتائی گئی ہیں ۔ یعنی یہ کہ ملک میں فتنہ و فساد کی آگ کو بھڑکاتے ہیں ۔ ہنگامہ آرائی کرتے ہیں ۔ متحد قوم کو گروہوں میں بانٹ ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ تاکہ لوگ انکی طرف متوجہ ہوں ۔خلاف فطرت فعل کے مرتکب ہوتے ہیں ۔جس سے نسل انسانی لازمی طور پر تباہ ہو جاتی ہے ۔ 


قسمیں کھانے والے جھگڑالو

قسمیں کھانے والے جھگڑالو

 

وَمِنَ ۔۔۔۔۔۔۔ النَّاسِ ۔۔۔ مَن ۔۔۔۔۔۔۔۔ يُعْجِبُكَ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔ قَوْلُهُ 

اور سے ۔۔۔ لوگ ۔۔۔ سے ۔۔۔ وہ جو پسند آئی آپ کو ۔۔۔ بات اس کی 

فِي ۔۔ الْحَيَاةِ ۔۔۔۔ الدُّنْيَا ۔۔۔ وَيُشْهِدُ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔   اللَّهَ ۔۔۔ عَلَى 

میں ۔۔۔ زندگی ۔۔ دنیا ۔۔۔ اور وہ گواہ بناتا ہے ۔۔۔ الله تعالی ۔۔ پر 

مَا ۔۔ فِي ۔۔۔ قَلْبِهِ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔    وَهُوَ ۔۔۔ أَلَدُّ ۔۔۔ الْخِصَامِ  2️⃣0️⃣4️⃣

جو ۔۔۔ میں ۔۔ اس کا دل ۔۔۔ اور وہ ۔۔۔ سخت ۔۔۔ جھگڑالو 


وَمِنَ النَّاسِ مَن يُعْجِبُكَ قَوْلُهُ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَيُشْهِدُ اللَّهَ عَلَى مَا فِي قَلْبِهِ وَهُوَ أَلَدُّ الْخِصَامِ.   2️⃣0️⃣4️⃣


اور بعض آدمی وہ ہے کہ تجھے اس کی بات پسند آتی ہے  دنیا کی زندگانی کے کاموں میں اور وہ اپنے دل کی بات پر الله تعالی کو گواہ بناتا ہے اور وہ سخت جھگڑالو ہے ۔ 


و من الناس ۔(اور بعض آدمی ) ضروری نہیں کہ " بعض " سے صرف ایک ہی آدمی مراد ہو ۔ ایک بھی ہو سکتا ہے اور اسی فطرت کے بہت سے آدمی بھی مراد ہو سکتے ہیں ۔ 

قوله ۔ (اس کی بات )۔ یعنی اس کا یہ دعوٰی کہ وہ اسلام پر قربان ہونے کو تیار ہے ۔ اسے اسلام سے بہت محبت ہے ۔ 

فى الحيٰوة الدنيا ۔ (دنیا کی زندگانی کے کاموں میں )۔ یہاں " فی " سے یہ ظاہر کرنا مقصود ہے ۔ کہ اسے اپنی چرب زبانی دنیا حاصل کرنی ہوتی ہے آخرت نہیں ۔ اور وہ دنیاوی امور کے متعلق ایسی باتیں بناتا ہے گویا اس سے بڑھ کر کوئی عقل مند اور دانا نہیں ۔ 

يشهد الله (الله کو گواہ کرتا ہی ) یعنی الله کی قسمیں کھا کھا کر یقین دلانے کی کوشش کرتا ہے ۔۔۔ قسم کھانے سے مراد یہی ہوتی ہے کہ میں اس کو اپنے اس بیان پر گواہ ٹھراتا ہوں جس کی میں قسم کھا رہا ہوں ۔ 

اس سے قبل حج کا بیان گزر چکا ہے ۔ اور یہ بھی بتایا گیا کہ کچھ بدبخت انسان صرف دنیا کے پیچھے لگے ہوئے ہیں ۔ وہ آخرت کے اچھے نتائج سے یکسر محروم ہیں ۔ لیکن نیک بندے دنیا اور آخرت دونوں کی بھلائی کے طالب رہتے ہیں ۔ اور دوزخ کے عذاب سے پناہ مانگتے ہیں ۔ 

اس آیت سے بدبخت اور منافقین کا ذکر شروع ہوتا ہے ۔ انکی زبان شیریں معلوم ہوتی ہے بظاہر باتیں بڑی عقل کی کرتے ہیں۔ لیکن دل سے سخت جھگڑالو اور فتنہ پرورہوتے ہیں ۔ 

اس آیت کا شانِ نزول یہ بیان کیا جاتا ہے کہ قبیلہ ثقیف کا ایک شخص اخنس بن شریق تھا وہ ظاہری طور پر اسلام کا بڑا ہمدرد اور غمخوار معلوم ہوتا تھا ۔ اپنی زبان سے اسلام سے اپنی محبت کا بہت دعوٰی کیا کرتا تھا ۔ رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی مجلس میں آتا تو بڑے لمبے چوڑے دعوے کرتا ۔ بات بات پر قسمیں کھاتا لیکن جب مجلس سے اٹھ کر چلا جاتا تو طرح طرح کی شرارتوں میں لگ جاتا اور اسلام کو نقصان پہنچانے کی ترکیبیں سوچتا ۔ 

بظاہر معلوم ہوتا ہے کہ یہ آیت اسی شخص کے لئے اتری  لیکن یہ ہر اس شخص پر صادق آتی ہے جو اس فطرت کا آدمی ہو ۔ اس قسم کے منافق کی مزید نشانیاں اگلی آیتوں میں بیان کی جائیں گی ۔ یہاں منافق کی یہ خصوصیت بیانکی گئی ہے کہ وہ زبان سے بڑے بڑے دعوے باندھتا ہے لفظی طور پر اپنے مؤمن ہونے کا یقین دلاتا ہے لیکن دراصل وہ بڑا جھگڑالو ہے ۔ اسلام اور اس کے ماننے والوں سے دشمنی رکھتا ہے ۔ اور نقصان پہنچانے کی کوشش کرتا ہے ۔ 

درس قرآن ۔۔۔ مرتبہ درس قرآن بورڈ 

نیکی کی اصل تقوٰی ہے

نيكى كى اصل تقوٰى هے 


فَمَن ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔    تَعَجَّلَ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔   فِي ۔۔۔  يَوْمَيْنِ ۔۔۔  فَلَا ۔۔۔ إِثْمَ 

پس جو کوئی ۔۔ جلدی کی اس نے ۔۔ میں ۔۔ دو دن ۔۔ پس نہیں ۔۔۔ گناہ 

عَلَيْهِ ۔۔۔۔۔۔۔۔      وَمَن ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔    تَأَخَّرَ ۔۔۔۔۔۔۔۔   فَلَا ۔۔۔ إِثْمَ ۔۔۔ عَلَيْهِ

اس پر ۔۔۔ اور جو کوئی ۔۔ دیر کی اس نے ۔۔۔ پس نہیں ۔۔ گناہ ۔۔ اس پر 

 لِمَنِ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔    اتَّقَى ۔۔۔ وَاتَّقُوا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔    اللَّهَ ۔۔۔۔۔۔۔  وَاعْلَمُوا 

اس کے لئے ۔۔۔ ڈرتا ہے ۔۔ اور تم ڈرتے رہو ۔۔ الله تعالی ۔۔ اور جان لو 

 أَنَّكُمْ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔   إِلَيْهِ ۔۔۔ تُحْشَرُونَ 2️⃣0️⃣3️⃣

بے شک تم ۔۔ اس کی طرف ۔۔۔ تم جمع ہو گے 


فَمَن تَعَجَّلَ فِي يَوْمَيْنِ فَلَا إِثْمَ عَلَيْهِ وَمَن تَأَخَّرَ فَلَا إِثْمَ عَلَيْهِ لِمَنِ اتَّقَى وَاتَّقُوا اللَّهَ 

وَاعْلَمُوا أَنَّكُمْ إِلَيْهِ تُحْشَرُونَ۔ 2️⃣0️⃣3️⃣


پھر جو کوئی دو ہی دن میں جلدی چلا گیا تو اس پر کوئی گناہ نہیں  اور جو کوئی رہ گیا تو اس پر کچھ گناہ نہیں جو کہ ڈرتا ہے  اور الله تعالی سے ڈرتے رہو اور جان لو بے شک تم اسی کے پاس جمع ہو گے ۔ 


جیسا کہ پچھلے سبق میں بیان کیا گیا ہے عبادت کے خاص تین دن ہیں جنہیں ایام تشریق کہتے ہیں ۔ یعنی ۱۰/۱۱/۱۲ذوالحجہ ۔ لیکن اگر کوئی شخص بارھویں تاریخ کے بعد بھی وہاں ٹہرتا ہے اور ذکرِ الٰہی کرتا ہے تو اس پر کوئی گناہ نہیں ۔ اور اگر کوئی شخص صرف دو ہی دن وہاں ٹہرنے کے بعد مکہ کو روانہ ہو جائے تو اس پر بھی کوئی گناہ نہیں ۔ 

اس آیت سے یہ بتانا مقصود ہے کہ اصل چیز تقوٰی ہے  (الله کا ڈر اور خوف ) یعنی ان چیزوں سے پرھیز کرنا ۔ جن سے الله تعالی نے منع کیا ہے ۔ اس کی حرام کی ہوئی چیزوں کے پاس بھی نہ پھٹکنا ۔ اس کی اطاعت میں کوئی عذر اور بہانہ نہ تلاش کرنا ۔ اس کی خوشنودی کو مقصد بنائے رکھنا ۔ اس کے احکام پر عمل کرنا اور دوسروں کو ترغیب دینا ۔ یوم حشر کو سامنے رکھنا ۔ موت کے بعد زندگی پر ایمان رکھنا اور اس کے لئے سامان کرنا ۔ 

شرعی احکام کی تعمیل میں کچھ بے قاعدگی کچھ مجبوریوں کی بنا پر ہو سکتی ہے ۔ لیکن یہ مجبوریاں صرف اسی شخص کی مانی جائیں گی ۔ جو نیک نیتی ، پاکدامنی اور پرھیزگاری کا پابند ہے ۔ کسی بغاوت اور سرکشی سے الله کے احکام کے خلاف عمل نہیں کرتا ہے ۔ ظاہر ہے کہ ایسا شخص الله تعالی کے حکموں کے ماننے میں ہرگز ہرگز بہانہ یا عذر تلاش نہیں کرے گا ۔ اصل چیز جس کا انسان میں پیدا کرنا درکار ہے وہ تقوٰی ہے ۔ اس کے ہوتے ہوئے اگر لاچاری یا مجبوری کی بنا پر کچھ کوتاہی ہو جائے تو معاف کی جاسکتی ہے ۔ 

قرآن مجید تقریبا ہر حکم کے ساتھ تقوٰی الٰہی کی تلقین کرتا ہے ۔ اس لئے کہ انسانی زندگی میں اس کی بہت اہمیت ہے ۔ الله تعالی کے احکام سے مقصود انسانی زندگی میں طہارت ، پاکیزگی اور عمدگی پیدا کرنا ہے ۔ لیکن اگر ان خصوصیتوں کے ہوتے کوئی شخص احکام بجا لانے سے کچھ مجبور ہو تو اس پر کوئی گناہ نہیں 

یہاں حج کا بیان ختم ہوتا ہے ۔۔۔۔ 

درس قرآن ۔۔۔ مرتبہ درس قرآن بورڈ 

حج کے ایام

حج کے ایّام 


وَاذْكُرُوا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔   اللَّهَ ۔۔۔ فِي ۔۔۔۔۔۔۔ أَيَّامٍ ۔۔۔ مَّعْدُودَاتٍ

اور یاد کرو ۔۔۔ الله تعالی ۔۔۔ میں ۔۔۔ دن ۔۔۔ گنے ہوئے 


وَاذْكُرُوا اللَّهَ فِي أَيَّامٍ مَّعْدُودَاتٍ

اور گنتی کے چند( مقررہ ) دنوں میں الله تعالی کو یاد کرو ۔ 


ايّاما معدودات (گنتی کے چند دن )  ایام کا واحد یوم ہے ۔ اور معدودات عدد سے ہے ۔ ان دنوں سے مراد ذی الحج کی  دسویں ، گیارھویں اور بارھویں تاریخیں ہیں ۔ انہیں اصطلاح میں " ایّام تشریق بھی کہتے ہیں ۔ تشریق کے معنی قربانی سکھانے کے ہیں ۔ ان دنوں میں جانوروں کی قربانی کی جاتی ہے ۔ 

تمام حاجی نو ذوالحجہ کو ظہر سے مغرب  کے وقت تک عرفات میں جمع رہتے ہیں ۔ وہاں سے سورج غروب ہونے تک واپسی شروع ہو جاتی ہے ۔ رات مزدلفہ میں قیام کرتے ہیں ۔ اگلے دن یعنی ۱۰ذ والحجہ کو منٰی میں پہنچ جاتے ہیں ۔ منٰی مکہ معظمہ سے شمال مغرب میں چار میل کے فاصلے پر ہے ۔ کسی زمانے میں یہ ایک میدان تھا ۔ اب یہاں پر بہت سی پختہ اور عالیشان عمارتیں بن گئی ہیں ۔ ہر طرف خیمے لگے ہوتے ہیں ۔ اور خوب رونق ہوتی ہے ۔ 

حاجی ذوالحجہ کی بارھویں تاریخ کی شام تک یہاں رہتے ہیں ۔ اور حج کے سلسلے میں کئی واجبات اور سنتیں یہاں بجا لاتے ہیں ۔ مثلا قربانی کرتے ہیں ۔ شیطانوں کو کنکریاں مارتے  ہیں سر منڈواتے ہیں اور حالت احرام سے باہر آجاتے ہیں 

اس آیت میں یہ حکم دیا گیا ہے کہ ان دنوں میں یہاں الله کو خوب یاد کیا کرو ۔ اس کی یاد اور عبادت میں مشغول رہو ۔ ان دنوں میں الله کی یاد کی ایک خاص صورت یہ ہے کہ ہر حاجی دسویں تاریخ کو بڑے پتھر ( جمرہ عقبیٰی پر سات کنکریاں مارے ۔ اور ہر کنکری کے ساتھ الله اکبر کہتا جائے ۔ کنکریاں مارنے کا وقت صبح صادق سے شروع ہوتا ہے ۔ اسی طرح گیارہ اور بارہ تاریخ کو یکے بعد دیگرے تینوں پتھروں پر سات سات کنکریاں مارے ۔ لیکن ان پر کنکریاں سورج ڈھلنے کے بعد مارنی ہوں گی ۔ اس کے بعد مکہ جانے کی اجازت ہے ۔ 

آپ نے دیکھا جب سے حج اور اس کے احکام کا بیان شروع ہوا ہے ذکر الہی کی تاکید  قرآن مجید نے بار بار کی ہے ۔ یوں بھی دل کے سکون اور  روح کی پاکیزگی کا بہترین ذریعہ ذکر الٰہی ہے ۔ اور حج کے ساتھ تو اس کی خاص مناسبت ہے ۔ دنیا کے تمام گوشوں سے مختلف نسل اور مختلف مزاجوں  کے لوگ یہاں ایک جگہ جمع ہوتے ہیں ۔ سفر کی مشکلیں ، پردیس کی تکلیفیں، وطن کی یاد ، اہل و عیال سے علیحدگی تمام ایسی باتیں ہیں ۔ جن سے ہر انسان کا پریشان ہو جانا لازمی ہے ۔ ایسے اجتماعوں میں ایک دوسرے سے الجھ جانا ، سخت کلامی اور کشمکش کا واقع ہو جانا معمولی بات ہے ۔ لیکن حج میں ایسی باتوں کا امکان نہیں ۔ 

الله تعالی نے فرمایا کہ حاجی ان مشقتوں کو بھول کر صرف ایک چیز کی طرف دھیان دیں اور وہ ہے ذکر الٰہی ۔ اس کی اطاعت کریں ۔ اسی کے احکام سننے سنانے میں مصروف رہیں ۔ اسی کی حمد و ثنا میں مگن رہیں ۔ کثرتِ تکبیر میں باقی سب کچھ بھول جائیں ۔ 

درس قرآن ۔۔۔ مرتبہ درس قرآن بورڈ 

محاسبہ اعمال

محاسبہ اعمال 


أُولَئِكَ ۔۔۔۔۔۔۔۔   لَهُمْ ۔۔۔ نَصِيبٌ ۔۔۔۔۔۔۔۔  مِّمَّا ۔۔۔ كَسَبُوا 

وہی لوگ ۔۔۔ ان کے لئے ۔۔۔ حصہ ۔۔ اس سے جو ۔۔ کمایا انہوں نے 

وَاللَّهُ ۔۔۔ سَرِيعُ ۔۔۔ الْحِسَابِ۔  2️⃣0️⃣2️⃣

اور الله تعالی ۔۔۔ جلد ۔۔۔ حساب 

أُولَئِكَ لَهُمْ نَصِيبٌ مِّمَّا كَسَبُوا وَاللَّهُ سَرِيعُ الْحِسَابِ.  2️⃣0️⃣2️⃣


انہی لوگوں کے لئے ان کی کمائی سے حصہ ہے اور الله جلد حساب لینے والا ہے ۔ 


قرآن مجید نے پچھلی دو آیتوں میں دو قسم کے لوگوں کا ذکر کیا ہے ۔ ایک وہ جو صرف دنیا کی زندگی میں ہی ہر قسم کی کامیابی چاہتے ہیں ۔ اپنے ہر عمل اور ہر عبادت سے ان کا مقصود صرف دنیا کمانا ہوتا ہے ۔ وہ نہ قیامت پر یقین رکھتے ہیں اور نہ دوسری زندگی کے نتائج پر ۔ اس لئے اپنی محنت اور کوشش کا پھل وہ اسی دنیا میں مانگتے ہیں ۔ ایسے لوگوں کو آخرت میں کوئی اجر نہیں ملے گا ۔ 

دوسرے وہ لوگ جو الله تعالی ، یوم قیامت اور دوسری زندگی سب پر ایمان رکھتے ہیں اپنی نیکیوں کے بدلے صرف دنیاوی جاہ و جلال ہی نہیں مانگتے بلکہ ایسے کام کرتے ہیں کہ ان کی دنیا اور عاقبت دونوں درست ہو جائیں ۔ دنیا کے علاوہ انہیں اُخروی زندگی میں بھی آرام ملے گا ۔ گویا وہ دونوں زندگیوں کو اپنی اپنی جگہ پر رکھتے ہیں ۔ آخرت بیچ کر دنیا نہیں کماتے اور نہ دنیا ترک کرکے آخرت کی تلاش کرتے ہیں ۔ بلکہ دنیا اور آخرت دونوں میں کامیابی چاہتے ہیں ۔ وہ دوزخ کی آگ سے بچنے کے آرزومند ہیں ۔ اور اس سے بچنے کے لئے ایسے کاموں میں نہیں الجھتے جو انہیں دوزخ میں ڈلوا دیں ۔ 

ان دوسری قسم کے لوگوں کا انجام آج کی آیت میں بیان کیا گیا ہے ۔ یعنی یہ کہ ان لوگوں کو ان کے نیک اعمال کے عوض آخرت میں نیک اجر ملے گا ۔ ان کی خواہش کے مطابق انہیں دوزخ سے دور رکھا جائے گا ۔ ان کی بھول چوک معاف کر دی جائے گی ۔ جنت میں رہنے کو جگہ دی جائے گی ۔ اور وہ دیکھ لیں گے کہ دنیا کی زندگی کے بعد ایک آخرت کی زندگی بھی ہے ۔ دنیا کا مال و متاع اس زندگی کے لطائف کے مقابلہ میں کچھ بھی نہیں ۔ دنیا کی آسائشیں ، عزت اور مرتبے سب عارضی اور ناپائیدار تھے ۔ اس کے مقابلہ میں جنت کی نعمتیں ابدی اور سکون بخش ہیں ۔ یہاں کا آرام اور چین ہمیشہ رہنے والا ہے ۔ 

سريع الحساب کہہ کر الله تعالی نے ان لوگوں کو تنبیہہ کی ہے جو آخرت پر ایمان نہیں رکھتے اور صرف دنیا مانگتے ہیں ۔ انہیں بتا دیا کہ الله تعالی بہت جلد حساب لینے والا ہے ۔ قیامت کچھ دور نہیں ۔ اس دن یہ لوگ دیکھ لیں گے کہ آخرت کو بھول کر دنیا میں ہی اپنے اعمال کا اجر مانگ کر وہ کتنے خسارے میں رہے ۔ 

دوسری طرف اس جملے سے الله تعالی نے ان لوگوں کو تسکین دی ہے جو آخرت پر ایمان رکھتے ہیں ۔ اور دنیا و آخرت دونوں کی کامیابی چاہتے ہیں ۔ انہیں بتا دیا کہ تمہیں بہت جلد تمہارے نیک کاموں کا پورا پورا اجر ملے گا ۔اس لئے تم اپنی اس روش پر مزید پختہ ہو جاؤ ۔

 الله سبحانہ و تعالی نے دنیا کو مقدم بیان کیا ہے اور آخرت کی دعا کا ذکر بعد میں کیا ہے ۔ یعنی اسلام دنیا کا مخالف نہیں ۔ بلکہ چاہتا ہے کہ دنیا کے کام آخرت کے تصور سے کئے جائیں ۔ 

درس قرآن ۔۔۔ مرتبہ درس قرآن بورڈ 

دنیا اور آخرت کے طالب

دنیا اور آخرت کے طالب


وَمِنْهُم ۔۔۔۔۔۔۔۔۔   مَّن ۔۔۔۔۔۔۔يَقُولُ ۔۔۔۔۔۔۔۔رَبَّنَا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ آتِنَا ۔۔۔۔۔  فِي 

اور ان میں سے ۔۔۔ وہ شخص ۔۔۔ وہ کہتا ہے ۔۔۔ اے ہمارے ۔۔۔ دے ہمیں ۔۔ میں 

الدُّنْيَا ۔۔۔ حَسَنَةً ۔۔۔ وَفِي ۔۔۔ الْآخِرَةِ ۔۔۔ حَسَنَةً 

دنیا ۔۔۔ خوبی ۔۔۔ اور میں ۔۔ آخرت ۔۔۔ خوبی 

وَقِنَا ۔۔۔عَذَابَ ۔۔۔النَّارِ  2️⃣0️⃣1️⃣

اور ہمیں بچا ۔۔ عذاب ۔۔۔ آگ 


وَمِنْهُم مَّن يَقُولُ رَبَّنَا آتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً وَفِي الْآخِرَةِ حَسَنَةً وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ. 2️⃣0️⃣1️⃣


اور کوئی ان میں سے کہتا ہے اے ہمارے رب ہمیں دنیا میں خوبی دے اور آخرت میں خوبی ( دے)  اور ہمیں دوزخ کے عذاب سے بچا ۔ 

پچھلی آیت میں ان لوگوں کا ذکر تھا جو صرف دنیا کے طلبگار ہیں ۔ وہ اگرچہ الله تعالی کا انکار تو نہیں کرتے  لیکن آخرت کو بالکل نہیں مانتے ۔ ان کی دعائیں ۔ التجائیں ۔ تمنائیں اسی مادی دنیا کی ترقیوں تک محدود رہتی ہیں ۔ اور ان کی عبادت کا مقصد بھی صرف دنیا کے فوائد کا حصول ہوتا ہے ۔  الله تعالی نے ان کی سزا یہ بتائی کہ آخرت میں انہیں کسی قسم کا ثواب اور حصہ نہیں ملے گا ۔ کیونکہ وہ جو کچھ چاہتے ہیں اور جس کے لئے کوشش کرتے ہیں وہ انہیں دنیا میں مل جائے گا ۔ اب جبکہ انہوں نے اس دنیا میں اپنا مطلب پا لیا تو آخرت میں ان کے حصے کچھ نہیں آئے گا ۔ 

موجودہ سبق میں ان صحیح خیال اور درست کردار مؤمنوں کا ذکر ہے جو آخرت پر یقین رکھتے ہیں ۔ جن کے نزدیک قیامت اور مکافات عمل ضرور پیش آئیں گے ۔ اس لئے ان کی نظر محض دنیا پر نہیں بلکہ آخرت پر بھی ہوتی ہے ۔ اس لئے وہ آخرت سے منہ موڑ کر صرف دنیا نہیں چاہتے ۔ اور ایسے کام نہیں کرتے جن سے انہیں دنیا کا فائدہ تو مل جائے لیکن آخرت کا ثواب جاتا رہے ۔ وہ اپنے معاملات ، برتاؤ اور معاشرت میں حسنِ انجام کو ملحوظ رکھتے ہیں ۔ 

حسنۃ ۔ سے یہ ظاہر ہے کہ مؤمن خیر و خوبی کا طالب ہے ۔ دنیا کی بھی اور آخرت کی بھی ۔ دنیا میں وہ نیک عمل کرنے کی توفیق مانگتا ہے ۔ اپنی دعاؤں اور عبادتوں سے وہ نیک عملی اور نیکو کاری کی استعداد اور طاقت طلب کرتا ہے ۔ اور آخرت میں اس نیک عملی اور نیکو کاری کا نیک پھل مانگتا ہے ۔ اور دنیا اور آخرت دونوں کو ساتھ ساتھ لے کر چلتا ہے ۔

دنیا میں اعلٰی اخلاق اور عمدہ معاملات کرتا ہے ۔ اور آخرت کے لئے توشہ بناتا ہے ۔ اور الله تعالی سے دعا مانگتا ہے کہ مجھے دوزخ کی آگ سے بچا ۔ مجھے جنت میں جگہ دے اور کامیابی نصیب کر ۔ بہترین انسان کی زندگی کا معیار یہی ہے  کہ وہ اپنی زندگی اور زندگی کے معاملات میں دنیا اور آخرت دونوں کو پیشِ نظر رکھے اور جہنم کے عذاب سے ڈرتا رہے ۔ 

یہ بات یاد رہے کہ اسلام نے دنیا اور آخرت کا مقابلہ تو بتلایا ہے ۔ لیکن دین کا دنیا سے مقابلہ نہیں کیا ۔ مبارک ہیں وہ انسان جو دنیا میں ایسی زندگی بسر کریں کہ ساتھ ہی ان 

کی آخرت بھی سنور جائے ۔ 

درس قرآن ۔۔۔ مرتبہ درس قرآن بورڈ 

دنیا کے طلبگار

دنیا کے طلبگار


فَمِنَ ۔۔۔ النَّاسِ ۔۔۔ مَن ۔۔۔۔۔۔۔۔ يَقُولُ ۔۔۔۔۔۔۔۔ رَبَّنَا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔  آتِنَا 

پھر جو ۔۔۔ لوگ ۔۔ سے ۔۔۔ وہ کہتا ہے ۔۔۔ ہمارے رب ۔۔۔ ہمیں دے 

فِي ۔۔۔ الدُّنْيَا ۔۔۔ وَمَا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ لَهُ 

میں ۔۔۔ دنیا ۔۔۔ اور نہیں ۔۔۔ اس کے لئے 

فِي ۔۔۔ الْآخِرَةِ ۔۔۔ مِنْ ۔۔۔ خَلَاقٍ 2️⃣0️⃣0️⃣

 میں ۔۔۔ آخرت ۔۔۔ سے ۔۔۔ حصہ 


فَمِنَ النَّاسِ مَن يَقُولُ رَبَّنَا آتِنَا فِي الدُّنْيَا وَمَا لَهُ فِي الْآخِرَةِ مِنْ خَلَاقٍ. 2️⃣0️⃣0️⃣


پھر لوگوں میں سے جو کہتا ہے اے ہمارے رب ہمیں دنیا میں دے اور اس کے لئے آخرت میں کچھ حصہ نہیں ۔ 


دنیا میں بعض انسان ایسے بھی پائے جاتے ہیں جن پر دنیا کی ہوس اس قدر غالب ہے کہ وہ اسے ہی اپنا انتہائی مقصد سمجھ بیٹھے ہیں ۔ ان کے نزدیک سب سے بڑی کامیابی اور فتح یہی ہے کہ زیادہ سے زیادہ مادی فائدے حاصل کریں ۔ مال و زر کے ڈھیر لگائیں ۔ دولت وثروت اکٹھی کر لیں ۔ اس کی جستجو میں وہ اندھے ہوئے جاتے ہیں ۔ دنیا کہ یہ طلبگار حرص و لالچ کے چکر میں پھنس کر اپنی عاقبت اور حسنِ انجام کو بھی اس دوڑ دھوپ میں قربان کر دیتے ہیں ۔ 

اس مرض میں وہ لوگ مبتلا ہوتے ہیں جو اخلاق میں پست ۔ معاملات میں کھوٹے ۔ برتاؤ میں خود غرض ۔ آخرت کے انکاری اور عارضی فائدوں کے دیوانے ہوں ۔ ان کی نگاہ ہمیشہ قریبی نفع پر ہی رہتی ہے ۔ یہ لوگ دیر پا نتائج کو نظر انداز کر دیتے ہیں ۔ ہر کام میں وہ اسی چیز کے متمنی رہتے ہیں ۔ جس کا جلدی سے انہیں پھل مل جائے ۔ صبر اور تحمل کی ان میں طاقت نہیں ہوتی غرض اس دوڑ دھوپ اور کوشش میں وہ اس قدر مگن ہو جاتے ہیں کہ اگر عبادت کریں اور الله تعالی سے دعا بھی مانگیں یا کوئی نیک کام بھی کریں تو اس میں بھی ان کا مقصد صرف دنیاوی فائدے حاصل کرنا ہوتا ہے ۔ 

وہ الله تعالی کو محض اس لئے پکارتے ہیں کہ وہ ان کے پاس روپے پیسے کے ڈھیر لگا دے ۔ ان کی مادی ضروریات پوری کر دے ۔ جہاد میں صرف اس لئے حصہ لیتے ہیں کہ مال غنیمت ہاتھ آ جائے ۔ حج صرف اس لئے کرتے ہیں کہ تجارتی فائدے سمیٹ لیں ۔ نماز اور زکوۃ اس لئے ادا کرتے ہیں کہ لوگوں کا اعتماد جیت لیں ۔اور اس سے ناجائز فائدہ اٹھائیں ۔ ان لوگوں کے نزدیک جنت اور آخرت کی نعمتیں کوئی چیز نہیں ۔ وہ قیامت کو ایک بے کار عقیدہ سمجھتے ہیں۔ مرنے کے بعد کی یقینی زندگی ان کے خیال میں ایک انہونی سی بات ہے ۔ زندگی کے اعمال کا بدلہ وہ نہیں مانتے ۔ ان کے نزدیک زندگی بس دنیا کی ہی ہے اور کامیابی صرف دنیاوی ہی ہے ۔ 

یہ لوگ کھلی گمراہی میں مبتلا ہیں ۔ منافقانہ اور کافرانہ روش اختیار کئے ہوئے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ دنیا ہماری مسلسل زندگی کا ایک مختصر سا حصہ ہے ۔ باقی اور ہمیشہ رہنے والی زندگی ہمیں موت کے بعد ہی نصیب ہو گی ۔ وہ ہمارے ان اعمال کا پھل ہو گی جو ہم اس دنیا میں کریں گے ۔ آخرت کی زندگی ابدی ، قائم و دائم اور ختم نہ ہونے والی زندگی ہے ۔ اس کا آرام اور کامیابی اصل کامیابی ہے ۔ چاہئیے تو یہ کہ اپنی زندگی کو اس طرح استوار کریں  کہ یہ ہماری آنے والی زندگی کے لئے کامیابی کا زینہ بنے ۔

درس قرآن ۔۔۔ مرتبہ درس قرآن بورڈ 


مناسک حج کے بعد

مناسک حج کے بعد


فَإِذَا ۔۔۔۔۔۔۔  قَضَيْتُم ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔مَّنَاسِكَكُمْ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ فَاذْكُرُوا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔  اللَّهَ 

پس جب ۔۔۔ تم پورا کر چکو ۔۔۔ حج کے کام اپنے ۔۔۔ پس تم یاد کرو ۔۔ الله تعالی 

كَذِكْرِكُمْ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔  آبَاءَكُمْ ۔۔۔۔۔۔۔۔ أَوْ ۔۔۔۔۔۔۔۔ أَشَدَّ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ذِكْرًا

جیسے تم یاد کرتے تھے ۔۔۔ اپنے باپ دادا کو ۔۔۔ یا ۔۔۔ اس سے بھی زیادہ ۔۔۔ یاد کرنا 


فَإِذَا قَضَيْتُم مَّنَاسِكَكُمْ فَاذْكُرُوا اللَّهَ كَذِكْرِكُمْ آبَاءَكُمْ أَوْ أَشَدَّ ذِكْرًا


پھر جب اپنے حج کے کام کو پورا کرچکو تو الله تعالی کو یاد کرو  جیسے تم یاد کرتے تھے اپنے باپ دادا کو بلکہ اس سے بھی زیادہ یاد کرو 


قَضَيْتُمْ (پورے کر چکو ) ۔ یہ لفظ قضا سے نکلا ہے ۔ جس کے معنی ہیں بجا لانا یا کر چکنا ۔ خصوصاً عبادت ادا کر لینا ۔ 

مَنَاسِكَنَا (اپنے حج کے کام ) ۔ مناسک سے مراد وہ مراسم اور عبادت ہیں جن کا تعلق حج سے ہے ۔ انہیں مناسک کے علاوہ شعائر بھی کہا جاتا ہے ۔ یہ اصطلاح حج کی عبادتوں کے لئے مخصوص ہے ۔

جاہلیت کے زمانے میں دستور تھا کہ حج سے فارغ ہو کر حاجی منٰی کے میدان میں تین دن تک (١٠/١١/١٢ذوالحجه) جمع رہتے ۔ اور یہاں اپنے قبیلے اور باپ دادا کے کارناموں کا ذکر کرتے ۔ ان کی فضیلتیں اور بڑائیاں بیان کرتے ۔ 

ایک دوسرے سے بڑھ چڑھ کر فخریہ انداز میں خاندانی عظمت کا اظہار کرتے ۔ باپ دادا کی بزرگی بیان کرنے سے کیا فائدہ ۔ 

انسان کو برتری اور بزرگی دینے والا الله تعالی ہی ہے ۔ سب کا پیدا کرنے والا۔ پرورش کرنے والا ۔ عقل ، سمجھ ، دانائی اور حکمت عطا کرنے والا وہی ہے ۔ اس لئے ہر قسم کی تعریف اور ثنا اسی کے لئے  مخصوص ہونی چاہئیے ۔ اس کے سوا کسی دوسرے کی بزرگی اور بڑائی کے گیت گانا اور انہیں معبود کا درجہ دینا شرک کے برابر  ہے ۔ 

آپ دیکھتے ہیں کہ جب سے حج  کا ذکر شروع ہوا ہے ۔ مساوات ، پرھیزگاری ، عاجزی اور تزکیہ نفس پر برابر زور دیا جا رہا ہے ۔ بار بار الله تعالی کے ذکر ، عبادت اور توبہ و استغفار کی تلقین کی جا رہی ہے ۔ حرم کی حدود میں داخل ہوتے ہی سب کو ایک ہی قسم کا لباس پہننے کا حکم ہے ۔ پھر بعض ان جائز کاموں سے بھی پرھیز کرنے کا حکم ہے جو اس راہ میں حائل ہو سکتے تھے ۔ بہت سی دل پسند اور مرغوب طبع باتوں سے باز رہنے کو کہا گیا ہے ۔ 

قدم قدم پر لبیک یعنی " اے الله میں حاضر ہوں " کہنے کا حکم ہے ۔ مسلسل ذکرِ الٰہی کی ھدایت  کی گئی ہے ۔ عبادت کی یہ خصوصیت صرف اسلام میں ہی پائی جاتی ہے ۔ 

ہمیں چاہئیے کہ الله تعالی کے ان احکام کو غور سے سنیں ۔ ان پر عمل کریں ۔ زندگی کی اصلاح کریں حرام اور ناجائز چیزوں سے پرہیز کریں ۔ اس کا ذکر بلند کریں ۔ لوگوں کو راہ حق کی دعوت دیں ۔ اپنے اندر تقوٰی پیدا کریں ۔ اور دنیا کی اور دنیا کی قوموں کے لئے اچھے اخلاق اور بہتر اعمال کا زندہ نمونہ بن کر مثال قائم کر دیں ۔ 

درس قرآن ۔۔۔ مرتبہ درس قرآن بورڈ 

مساوات کا حکم

*مساوات کا حکم *


ثُمَّ۔۔۔ أَفِيضُوا ۔۔۔ مِنْ ۔۔۔حَيْثُ ۔۔۔أَفَاضَ ۔۔۔ النَّاسُ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔   وَاسْتَغْفِرُوا 

پھر ۔۔۔ پھرو ۔۔۔ سے ۔۔ جہاں ۔۔ پھریں ۔۔۔ لوگ ۔۔ اور تم مغفرت طلب کرو 

   اللَّهَ ۔۔۔إِنَّ ۔۔۔ اللَّهَ ۔۔۔ غَفُورٌ ۔۔۔۔ رَّحِيمٌ۔ 1️⃣9️⃣9️⃣

الله ۔۔ بےشک ۔۔ الله تعالی ۔۔۔ بخشنے والا۔۔ مہربان 


ثُمَّ أَفِيضُوا مِنْ حَيْثُ أَفَاضَ النَّاسُ وَاسْتَغْفِرُوا اللَّهَ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ.  1️⃣9️⃣9️⃣


پھر طواف کے لئے پھرو جہاں سے لوگ پھریں اور الله تعالی سے مغفرت چاہو بے شک الله تعالی بخشنے والا مہربان ہے ۔ 


اسلام سے پہلے جاہلیت کے زمانہ میں قریش بیت الله کے مجاور تھے ۔ اور اس بنا پر وہ اپنے آپ کو حمس کہتے تھے ۔ حج کے دنوں میں عام لوگ عرفات کے میدان میں جاکر قیام کرتے ۔ لیکن قریش مزدلفہ ہی تک رہتے ۔ کیونکہ مزدلفہ حرم کی حدود میں ہے ۔ اور عرفات اس سے باہر ۔ وہ خیال کرتے تھے کہ حرم کی حدود سے باہر جانا ان کی بزرگی اور عزت کے خلاف ہے ۔ اور وہاں جا کر ان کا عوام سے ملنا مذہبی فضیلت کے منافی ہے ۔ 

قرآن مجید نے اس غلط خیال کی تردید کی ۔ یہاں الله تعالی نے ان دو بڑی غلطیوں کو درو کیا جن میں دنیا ہمیشہ سے مبتلا رہی ۔ اور آج بھی بہت سے لوگ اتنی ترقی کے بعد بھی ان میں مبتلا ہیں ۔ 


اوّل یہ کہ قومی امتیاز اور نسلی برتری کوئی چیز نہیں ۔ الله سبحانہ و تعالی کی نظر میں سب یکساں اور برابر ہیں ۔ اس کے ہاں اگر کسی چیز کی قدر ہے تو وہ تقوٰی اور پرھیزگاری ہے ۔ اس لئے مساوات کا ہونا ضروری ہے ۔ اور یہ اسی وقت ممکن ہے جب تمام قومی اور نسلی امتیازات مٹا دئیے جائیں ۔ اور ہر رنگ و نسل کے انسانوں کو ایک جیسا سمجھا جائے ۔ 

دوسرے یہ کہ قوموں کی تباہی اور بربادی اس وقت شروع ہوجاتی ہے ۔ جب تعلیم یافتہ اونچے طبقے کے لوگ اور عوام میں تعلق باقی نہ رہے ۔ وہ ایک دوسرے سے ملنا چھوڑ دیں ۔ حالانکہ پڑھے لکھے لوگوں کو اپنی امداد کے لئے قوت وتوانائی کی ضرورت ہوتی ہے ۔ لیکن جب وہ عام لوگوں سے اپنا تعلق توڑ لیں گے ۔ ان سے میل جول بند کر دیں گے تو رفتہ رفتہ وہ خود تباہ ہو جائیں گے ۔ 

اس کے ساتھ یہ بات بھی نہ بھولنی چاہئیے کہ عوام کو ہر وقت راہنمائی اور اصلاح کرنے والوں کی ضرورت رہتی ہے ۔جب انہیں سیدھی راہ بتانے والا کوئی نہ ملے گا تو وہ گمراہی کی طرف بڑھتے جائیں گے ۔ حتی کہ ان میں اور حیوانوں میں کوئی فرق نہ رہے گا ۔ 

اس آیت میں الله تعالی نے فرمایا کہ سب ایک ہی جگہ قیام کریں گے ۔ اور ایک ہی جگہ سے ان کی واپسی ہو گی ۔ گویا کسی میں کوئی امتیاز اور فرق نہیں کیا جائے گا ۔ اس کے ساتھ ہی الله تعالی نے فرمایا ۔ کہ اپنے گناہوں کی معافی مانگو ۔ توبہ استغفار کرو الله تعالی سے بخشش چاہو آئندہ غلط حرکات سے باز رہنے کا وعدہ کرو ۔ الله تعالی تمہارے گناہ بخش دے گا ۔ تمہاری خطائیں معاف فرمائے گا ۔ وہ بہت بخشش والا رحمت والا ہے ۔ 

درس قرآن مرتبہ۔۔۔ درس قرآن بورڈ 

ذکر و عبادت

ذکر و عبادت 


وَاذْكُرُوهُ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔    كَمَا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔    هَدَاكُمْ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔    وَإِن 

اور اسے یاد کرو ۔۔ جس طرح ۔۔۔ سکھایا اس نے تم کو ۔۔۔ اور بے شک

كُنتُم ۔۔۔ مِّن ۔۔۔ قَبْلِهِ ۔۔۔۔  لَمِنَ ۔۔۔ الضَّالِّينَ  1️⃣9️⃣8️⃣

 تھے تم ۔۔ اس سے پہلے ۔۔۔ سے ۔۔ ناواقف 


وَاذْكُرُوهُ كَمَا هَدَاكُمْ وَإِن كُنتُم مِّن قَبْلِهِ لَمِنَ الضَّالِّينَ   1️⃣9️⃣8️⃣

اور اسے ( اس طرح ) یاد کرو جس طرح اس نے تمہیں سکھایا اور بے شک اس سے پہلے تم نا وا قف تھے ۔


اَلضّالين (ناواقف)  یہ ضال کی جمع ہے ۔ اس کے عام معنی گمراہ کے ہیں ، لیکن یہ لفظ غافل اور نا واقف کے معنوں میں بھی استعمال ہوتا ہے ۔ یہاں " ضالّ " سے مراد الله تعالی کے احکام سے نا واقفیت ہے ۔ 

ذکر کے معنی یاد کرنے کے ہیں ۔ ذاکر یاد کرنے والے کو کہتے ہیں۔ یہاں ذکر سے مراد عبادت الہی ہے ۔ 

اس آیت میں بتایا گیا ہے کہ الله تعالی کی عبادت اور یاد ان طریقوں سے کرو جو تمہیں الله تعالی کے رسول صلی الله علیہ وسلم نے بتائے ہیں ۔ ان طریقوں کو چھوڑ کر اپنی طرف سے عبادت کے طریقے گھڑ لینا اور نئی صورتیں قائم کر لینا سخت گناہ ہے ۔ 

دنیا اور دنیا والوں کو گمراہ کرنے کے لئے شیطان کا سب سے بڑا حملہ یہی رہا ہے کہ انہیں حقیقی راہ سے ہٹا کر من گھڑت طریقوں میں الجھا دیتا ہے ۔ جاہلیت کے زمانے میں بھی لوگ بے شمار رسموں اور غلط عقیدوں میں مبتلا تھے  ۔وہ یہ سمجھتے تھے کہ ان کے اپنے بنائے ہوئے مخصوص طریقے الله تعالی کے قُرب کا باعث ہو سکتے ہیں ۔ لیکن قرآن مجید کی اس آیت نے پوری طرح ان گمراہیوں اور غلط فہمیوں کی تردید کر دی ۔

قرآن مجید میں لفظ " الضالّین  استعمال کرکے یہ بھی واضح کردیا ۔ کہ جب تک انسان الله تعالی کی دی ہوئی روشنی سے کام نہ لے ۔ اس کی بھیجی ہوئی وحی کو مشعلِ راہ نہ بنائے ۔ اور اس کی نازل کی ہوئی تعلیم کو بنیادِ عمل نہ ٹھرائے وہ نا واقف اور بھٹکتا ہی رہے گا ۔ وہ اپنی طرف سے کتنا ہی زور لگا کر کوئی راستہ تلاش کرے اور کیسے ہی پرستش کے طور  طریقے ایجاد کرلے  ، پوجا کی صورتیں سوچ لے لیکن یہ سب باتیں گمراہی کی طرف لے جائیں گی ۔ اصل طریقہ وہی ہے جو الله تعالی بتاتا ہے ۔ 

اس لئے اپنی اور اپنے جیسے انسانوں کی خود ساختہ ہر تدبیر ناقص ہو گی ۔ اور اس پر چلنا گمراہی کا سبب ہو گا ۔ 

منزلِ مقصود پر پہنچنے کے لئے صحیح ترین راہنما قرآن مجید ہے ۔ اس میں بیان کی ہوئی باتیں  اس ہستی کی بتائی ہوئی ہیں ۔ جو دانا و بینا ، حاضر و ناظر ، حلیم و حکیم اور خالق و مالک ہے ۔ وہ ہماری ضروریات کو اچھی طرح جانتا ہے ۔ اس لئے   اپنے وسیع علم سے کام لے کر ایسی راہ بتاتا ہے جو آسان اور سیدھی ہو ۔ 

ہمیں چاہئیے کہ صرف اسی راہ کو معتبر مانیں ۔ اور انسانوں کے گھڑے ہوئے تمام خود ساختہ طریقوں کو چھوڑ دیں ۔ 


دنیاوی فائدے

دنیاوی فائدے


لَيْسَ ۔۔۔ عَلَيْكُمْ ۔۔۔ جُنَاحٌ ۔۔۔ أَن ۔۔۔ تَبْتَغُوا ۔۔۔ فَضْلًا ۔۔۔۔۔۔۔۔  مِّن ۔۔۔۔۔۔ رَّبِّكُمْ

نہیں ۔۔۔ تم پر ۔۔۔ گناہ ۔۔۔  کہ ۔۔۔ تم تلاش کرو ۔۔۔ فضل ۔۔ سے ۔۔۔ تمہارا رب 


لَيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ أَن تَبْتَغُوا فَضْلًا مِّن رَّبِّكُمْ


تم پر کچھ گناہ نہیں کہ اپنے رب کا فضل تلاش کرو 


فَضْلاً (فضل ) فضل کے لفظی معنی زیادہ کے ہیں ۔ یہاں فضل سے مراد مال و دولت اور تجارت کے منافع ہیں۔ ان معنوں میں یہ لفظ متعدد جگہ قرآن مجید میں استعمال ہوا ہے ۔

ایک صحابی حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ زمانۂ جہالت میں عکاظ ، مجنہ  اور ذو المجاز بڑی بھاری منڈیاں تھیں ۔ حج کے دنوں میں یہاں خوب تجارت ہوا کرتی تھی ۔اسلام قبول کر لینے کے بعد لوگوں نے اسے مناسب خیال نہ کیا ۔ کہ حج کے دنوں میں تجارت کی جائے ۔ ان کا یہ خیال تھا کہ جو تاجر مالِ تجارت لے کر منٰی اور مکہ کے بازاروں کے لئے جاتے ہیں۔ یا جو اونٹ والے اپنے اونٹ بیچنے کے لئے مزدلفہ ، عرفات و منٰی لے جاتے ہیں ۔ ان کا حج نہیں ہوتا ۔ کیونکہ  جہاں  تجارت آگئی وہاں عبادت کہاں باقی رہی ۔ 

الله تعالی نے اس غلط فہمی کو دور کرنے کے لئے یہ آیت نازل فرمائی ۔ اور قیامت تک کے لئے یہ بات واضح کردی کہ اسلام مال و زر اور دنیا کے خلاف نہیں ۔ بلکہ ان کاموں کے خلاف ہے جو انسان کو دنیا و عقبٰی کے خیال سے غافل کر دیں ۔ 

اسلام جس طرح آخرت کی فلاح و کامیابی کا ضامن ہے ۔ اسی طرح لوگوں کی دنیاوی فلاح و بہبود کا بھی خواہش مند ہے ۔ اور یہ خصوصیت اس کی ہر عبادت میں موجود ہے ۔ حتی کہ وضو ، نماز ، نماز باجماعت ، روزہ ، زکوة اور حج وغیرہ کے ارکان انسان کی روحانی قوت کو بڑھانے کے ساتھ ساتھ اس کے دنیاوی ، مادی ، جسمانی ، معاشی اور سیاسی فہم و بہبود کو بڑھاتے ہیں ۔ 

حج کے سلسلہ میں دور دراز سےآنے والے مسلمان خشکی اور بحری سفر اختیار کرتے ہیں ۔ دنیا کے مختلف حصوں سے ملّتِ اسلامیہ کے لوگ جمع ہوتے ہیں ۔ اس موقع پر بے شمار تجارتی اور معاشی فائدے حاصل ہو سکتے ہیں ۔ان باتوں کے پیش نظر قرآن مجید نے یہ اجازت دے دی کہ حج کرنے والے اصلی مقصد حج کو قرار دیں ۔ اور اس کے ساتھ اگر تجارت بھی کرلیں تو کوئی گناہ کی بات نہیں ، البتہ یہ ضروری ہے کہ تجارت غرض ہی نہ بن جائے ، اصل مقصد حج ہی رہے ۔ 

مِنْ رّبّكُمْ  کا جملہ فرما کر یہ بھی بتا دیا کہ جو رزق یا فائدے تمہیں حاصل ہوتے ہیں ۔ یہ تمہاری اپنی ذاتی کوشش یا محنت کا نتیجہ نہیں ۔ یہ صرف الله تعالی کا فضل ہے ۔ وہ اپنی رحمت سے تمہیں دیتا ہے ۔ اس لئے تجارت اور کاروبار کرتے وقت بھی اس بات کی طرف نظر رکھو کہ جو منافع تمہیں ملے گا وہ الله تعالی کی طرف سے ہے ۔ 

ہر وہ کام جو انسان الله تعالی کے احکام کے مطابق انجام دیتا ہے اور اس کے کسی حکم کی خلاف ورزی نہیں کرتا اسلام ایسے کام کو داخل عبادت قرار دیتا ہے اور دین کے منافی نہیں کہتا ۔ اسلام  جس چیز سے روکتا ہے وہ ذخیرہ اندوزی ، قیمتیں بڑھانا ، حرام کی تجارت کرنا  اور ناجائز کاروبار ہیں ۔ 

درس قرآن ۔۔۔ مرتبہ درس قرآن بورڈ 

حج کا زاد راہ

حج کا زادِ راہ *


وَمَا ۔۔۔۔۔  تَفْعَلُوا۔۔۔  مِنْ ۔۔۔۔۔۔خَيْرٍ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ يَعْلَمْهُ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔  اللَّهُ 

اور جو ۔۔۔ تم کرتے ہو ۔۔۔ سے ۔۔۔ نیکی ۔۔ وہ جانتا ہے اس کو ۔۔ الله تعالی 

وَتَزَوَّدُوا ۔۔۔۔۔    فَإِنَّ ۔۔۔۔۔۔۔۔ خَيْرَ ۔۔۔ الزَّادِ ۔۔۔  التَّقْوَى 

اور زاد راہ لے لیا کرو ۔۔۔ پس بے شک ۔۔ بہتر ۔۔۔ زاد راہ ۔۔ تقوی 

    وَاتَّقُونِ ۔۔۔ يَا أُولِي الْأَلْبَابِ.  1️⃣9️⃣7️⃣

اور مجھ سے ڈرتے رہو ۔۔۔ اے عقل والو 


وَمَا تَفْعَلُوا مِنْ خَيْرٍ يَعْلَمْهُ اللَّهُ وَتَزَوَّدُوا فَإِنَّ خَيْرَ الزَّادِ التَّقْوَى 

وَاتَّقُونِ يَا أُولِي الْأَلْبَابِ۔  1️⃣9️⃣7️⃣


اور جو کچھ تم نیکی کرتے ہو الله تعالی اسے جانتا ہے۔ اور زاد راہ لے لیا کرو کہ بے شک بہتر زاد راہ تقوی ہے اور اے عقلمندو! مجھ سے ڈرتے رہو 


جاہلیت کے زمانہ میں عربوں کے ہاں یہ رواج تھا کہ حج کو جاتے وقت سفر کی ضروریات ساتھ نہ لیتے تھے ۔ بالکل خالی ہاتھ چل پڑتے  اور راستے میں لوگوں سے بھیک مانگتے ۔ ان کے نزدیک یہ بات بزرگی کی نشانی تھی ۔ بعض لوگ تو یہاں تک کرتے کہ حج کے لئے روانہ ہوتے وقت اپنا تمام سرمایہ بالکل لُٹا جاتے ۔ یہ معمول ان لوگوں نے خوامخواہ اپنے دل سے گھڑ رکھا رھا ۔ حالانکہ یہ کسی طرح عبادت کا حصہ نہ تھا ۔ یہ چیز الله تعالی کے نزدیک ہرگز مقبول نہیں ہے ۔ کیونکہ اس طرح دوسروں پر بوجھ پڑتا ہے ۔ 

الله سبحانہ و تعالی نے فرمایا  کہ روانہ ہوتے وقت ضرورت کے مطابق روپیہ پیسہ ساتھ لے لیا کرو ۔ اور اپنا بوجھ کسی دوسرے پر نہ ڈالا کرو ۔ الله تعالی نیتوں اور ارادوں کو جانتا ہے ۔ ظاہری نمائش اور بناوٹی پاکیزگی کو بالکل پسند نہیں فرماتا ۔ اس لئے اگرتم راستے کے لئے خرچ لے لو تو اس میں گناہ کی کوئی بات نہیں ۔ اور نیکی کے منافی نہیں ۔ 

اس میں کوئی شک نہیں کہ اصل چیز تقوٰی ہے ۔ یعنی برائی سے فطری طور پر پرھیز کرنا اور نیکی کی طرف فطری طور پر رغبت کرنا ۔ اس لئے الله جل شانہ سے ہی ڈرتے رہنا چاہئیے ۔ 

تقوٰی سے مراد یہ ہے کہ الله تعالی کا ہر حکم پورے خلوص ، دیانتداری اور اطاعت سے بجا لانا چاہئیے ۔ ہر کام صرف اسی کی خوشنودی کے لئے کرنا چاہئیے ۔ دکھ ، تکلیف ، پریشانی ، مصیبت اور آفت میں صرف اسی کو اپنا سہارا سمجھنا چاہئیے ۔ نجات کے لئے صرف اسی کو پکارنا چاہئیے ۔ سُکھ ، آرام اور چین میں صرف اسی کا شکر ادا کرنا چاہئیے ۔ 

ہر کام کا آغاز اسی کا نام لے کر اور ہر کام کا انجام اسی کے نام سے کرنا چاہئیے ۔  زندگی کے ہر میدان میں اسی کی مدد تلاش کرنی چاہئیے ۔ سارے معاملات طے کرنے میں صرف جائز طریقے اختیار کرنے چاہئیے ۔ اور منع کی ہوئی باتوں سے بچنا چاہئیے ۔ خوفِ خدا ہر وقت پیشِ نظر رکھناچاہئیے ۔ 

یہی تقوٰی ہے ۔ جس کے متعلق قرآن مجید میں بار بار حکم آتا ہے ۔ کہ اس کی اہمیت انسان کی زندگی میں بہت زیادہ ہے ۔ اسے بھول جانے سے انسان کی زندگی میں نا اُمیدی ، پریشانی اور ناکامی بھر جاتی ہے ۔ لہٰذا تقوٰی میں کمال حاصل کرنے کے لئے ہمہ وقت کوشش کرنی چاہئیے ۔ 

حج تقوٰی پیدا کرنے کا اعلٰی ذریعہ ہے ۔ 

درس قرآن ۔۔۔ مرتبہ درس قرآن بورڈ 


بنی اسرائیل سے عبرت

بنی اسرائیل سے عبرت


سَلْ ۔۔۔ بَنِي إِسْرَائِيلَ ۔۔۔ كَمْ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔آتَيْنَاهُم ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔مِّنْ 

پوچھو۔۔ بنی اسرائیل ۔۔۔ کس قدر ۔۔۔ ہم نے دی ان کو ۔۔۔ سے 

آيَةٍ ۔۔۔ بَيِّنَةٍ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔وَمَن ۔۔۔۔۔۔۔يُبَدِّلْ ۔۔۔۔۔۔۔۔نِعْمَةَ ۔۔۔اللَّهِ 

نشانیاں ۔۔۔ واضح ۔۔۔ اور جو شخص ۔۔۔ بدل ڈالے ۔۔۔ نعمت ۔۔۔ الله 

مِن ۔۔۔ بَعْدِ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔مَا جَاءَتْهُ ۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔  فَإِنَّ ۔۔۔ اللَّهَ ۔۔۔ شَدِيدُ ۔۔ الْعِقَابِ۔ 2️⃣1️⃣1️⃣

سے ۔۔۔ بعد ۔۔ جو آچکی اس کے پاس ۔۔۔ پس بے شک ۔۔۔ الله ۔۔ سخت ۔۔ عذاب 


سَلْ بَنِي إِسْرَائِيلَ كَمْ آتَيْنَاهُم مِّنْ آيَةٍ بَيِّنَةٍ وَمَن يُبَدِّلْ نِعْمَةَ اللَّهِ مِن بَعْدِ مَا جَاءَتْهُ فَإِنَّ اللَّهَ شَدِيدُ الْعِقَاب.  2️⃣1️⃣1️⃣


بنی اسرائیل سے پوچھو ہم نے انہیں کس قدر کھلی ہوئی نشانیاں عنایت کیں  اور جو کوئی الله کی نعمت بدل ڈالے بعد اس کے کہ وہ نعمت اسے پہنچ چکی ہو تو الله کا عذاب سخت ہے ۔ 


اس سے پہلے بیان ہوچکا ہے کہ کبھی بھی الله تعالی یا اس کے فرشتے کھلم کھلا انسانوں کے پاس نہیں آئے ۔  بلکہ الله تعالی نے ہمیشہ انسانوں کی ھدایت کے لئے ان میں سے ہی نبی اور رسول بھیجے ہیں ۔ 

یہاں اس آیت میں اس حقیقت کو بنی اسرائیل کی تاریخ سے واضح کیا جا رہا ہے ۔ یعنی یہ کہ ہم نے بنی اسرائیل کو بہت سی ایسی نشانیاں عطا کیں جن سے الله تعالی کی ہستی ، الله کے رسولوں کی صداقت اور ان کی تعلیم کی سچائی ظاہر ہوتی تھی ۔ لیکن انہوں نے ان تمام نشانیوں کو پسِ پشت ڈال دیا ۔ الله تعالی نے ان پر اپنے انعام کئے ۔ لیکن انہوں نے ناشکرے پن کا ثبوت دیا ۔ الله تعالی نے بنی اسرائیل پر جو احسانات  کئے ان میں سے چند مختصر طور پر ہم بیان کرتے ہیں ۔

1۔۔۔. انہیں فرعون کے ظلم سے نجات دلائی ۔ فرعون بنی اسرائیل کے بچوں کو قتل کرا دیتا تھا ۔ اور لڑکیوں کو زندہ رکھتا تھا ۔ اُن سے سخت مشقت کے کام لیتا تھا ۔ ہر طرح سے ذلیل و خوار کرتا تھا ۔ الله تعالی نے انہیں اس کے ظلم سے بچایا ۔ 

2. ۔۔۔۔ ان میں حضرت موسٰی علیہ السلام جیسا جلیل القدر پیغمبر بھیجا ۔ جس نے انہیں فرعون کی غلامی اور قبطیوں کی حکومت اور رعب سے نکالا ۔ 

3.     ان کے دشمن فرعون کو ان کے سامنے سمندر میں غرق کر دیا ۔

4 ۔۔۔ سینا کے بے آب و گیا علاقوں میں ان پر بادل کا سایہ کیا ۔ من و سلوٰی اتارا ۔ پانی کے چشمے نکال دئیے ۔

5. ۔۔۔ ان کی ھدایت کے لئے حضرت موسٰی کو تورات عطا فرمائی ۔ 

6. ۔۔۔ انہیں ملک فلسطین میں آباد کیا ۔ 

7. ۔۔۔۔ ان کی نسل میں نبیوں کا ایک سلسلہ بڑی دیر تک قائم رکھا ۔ 

لیکن ان لوگوں نے ان تمام احسانات کے باوجود بھی نفسانی خواہشات کی پیروی کی ۔ الله تعالی کی بھیجی ہوئی کتاب سے منہ موڑا ۔ اس کے احکام سے روگردانی کی ۔ من مانی کاروائیوں میں مگن رہے ۔ اس نافرمانی کی سزا کے طور پر الله تعالی نے ان پر مختلف قسم کے عذاب بھیجے ۔ تاکہ وہ راہِ راست کی طرف آئیں ۔ لیکن پھر بھی ان کے علماء نے الله تعالی کے احکام کے الفاظ و معانی بدل دئیے ۔ اور جان بوجھ کر کتاب میں ردوبدل کیا ۔ عوام نے اندھا دھند ان کی پیروی کی ۔ اگر اب بھی یہ لوگ اپنی بات پر اڑے رہیں گے اور الله تعالی کے سچے اور آخری کلام "قرآن مجید کو نہیں مانیں گے تو وہ یاد رکھیں کہ الله تعالی سخت سزا دینے والا ہے ۔ اور ان کا حشر بھی ویسا ہی ہوگا جیسا پہلی اقوام کا ہوا ہے ۔ 

درس قرآن ۔۔۔ مرتبہ درس قرآن بورڈ 

غیر معقول مطالبہ

غیر معقول مطالبہ


هَلْ ۔۔۔ يَنظُرُونَ ۔۔۔۔۔۔۔ إِلَّا ۔۔۔۔۔۔۔۔ أَن ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ يَأْتِيَهُمُ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔  اللَّهُ 

کیا ۔۔۔ وہ دیکھتے ہیں ۔۔۔ مگر ۔۔۔ یہ کہ ۔۔۔ آئے ان کے پاس ۔۔ الله تعالی 

فِي ۔۔ ظُلَلٍ ۔۔۔ مِّنَ ۔۔۔ الْغَمَامِ ۔۔۔۔۔۔۔۔وَالْمَلَائِكَةُ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وَقُضِيَ ۔۔۔ الْأَمْرُ 

میں ۔۔۔ سائے ۔۔۔  سے ۔۔ بادل ۔۔ اور فرشتے ۔۔۔ اور فیصلہ کیا جائے ۔۔۔کام 

وَإِلَى ۔۔۔ اللَّهِ ۔۔۔ تُرْجَعُ ۔۔۔ الْأُمُورُ 2️⃣1️⃣0️⃣

اور طرف ۔۔ الله ۔۔ لوٹتے ہیں ۔ کام 


هَلْ يَنظُرُونَ إِلَّا أَن يَأْتِيَهُمُ اللَّهُ فِي ظُلَلٍ مِّنَ الْغَمَامِ وَالْمَلَائِكَةُ وَقُضِيَ الْأَمْرُ وَإِلَى اللَّهِ تُرْجَعُ الْأُمُورُ. 2️⃣1️⃣0️⃣


کیا وہ یہی راہ دیکھتے ہیں کہ الله تعالی ابر کے سائبانوں میں آئے اور فرشتے (آئیں) اور قصہ طے ہوجائے اور الله تعالی کی طرف ہی تمام کام لوٹیں گے ۔


الله تعالی نے انسان کو مختلف قوتیں بخشیں ۔ جس میں عقل اور فہم کی قوت بھی شامل ہے ۔ تاکہ انسان سچ اور جھوٹ ، نیک اور بد ، انصاف اور ظلم میں تمیز کر سکے ۔ ان قوتوں کے علاوہ الله تعالی نے انسان کی ھدایت کے لئے علماء بھیجے ۔ اور ان کی صداقت کو ثابت کرنے کے لئے مختلف نشانیاں بھی بھیجیں ۔تاکہ انسان ان نشانیوں کو دیکھ کر پیغمبروں پر ایمان لائے ۔ ان کی تعلیمات پر غور کرے ۔اور الله جل شانہ تک پہنچنے کا راستہ اختیار کرے ۔ 

الله تعالی کی نشانیوں میں اول تو وہ نشانیاں ہیں جو گویا خود منہ سے بولتی ہیں ۔

مثلاً کائنات کی تخلیق ، اس کا انتظام ، اس کا ارتقاء ، پھر انسان کی ضروریات اور اس کی تسکین کا سامان یہ سب چیزیں بتاتی ہیں کہ کہ ان کا بنانے والا ضرور کوئی ہے ۔ جو قادرِمطلق ہے ۔ حکیم و دانا ہے ۔ حاضر و ناظر ہے ۔ رحیم و شفیق ہے ۔ 

دوسری وہ نشانیاں ہیں جو ہمیں رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے ذریعے سے پہنچی ہیں ۔ مثلا آپ کی ذات ایک کامل نمونہ ، آپ کا بے داغ کردار ، آپ کا حسنِ اخلاق اور آپ کے معجزات وغیرہ 

ان دونوں قسم کی نشانیوں کو دیکھنے کے بعد انسان کی عقل اس بات کا تقاضہ کرتی ہے کہ الله تعالی پر ایمان لایا جائے ۔ جو تمام جہانوں کا خالق ہے ۔ اور سب کی تربیت کرنے والا ہے ۔ اگر کوئی آدمی یا گروہ اس سے منہ موڑتا ہے تو وہ گویا اس بات کا انتظار کر رہا ہے کہ الله تعالی خود فرشتوں کے لشکر کے ساتھ ان کے سامنے آئے اور بتائے کہ یہ میرا حکم ہے ۔ اسے مانو ۔۔۔ اس قسم کا انتظار ایسے لوگوں کی بربادی اور تباہی پر جاکر ختم ہوگا ۔اس لئے کہ نہ ایسا کبھی ہوا ہے اور نہ کبھی ہو گا ۔ 

الله تعالی نے عقل اور بصیرت دی اور اس کے بعد اپنی نشانیاں بھیج دیں ۔ اب ان پر یقین کرنا انسان پر فرض ہوگیا ۔ اگر کوئی شخص نہ ان نشانیوں پر غور کرے اور نہ عقل و فہم سے کام لے ۔ تو وہ یقینا ھلاک ہو گا ۔ کیونکہ اس کے ایمان نہ لانے کی کوئی وجہ باقی نہ رہی ۔ پھر ان سب کو الله تعالی کے حضور جمع ہونا ہے ۔  کیونکہ سب کاموں کا مدار اسی الله جل جلالہ پر ہے ۔ اور وہی ان کا فیصلہ فرمائے گا ۔ 

درس قرآن ۔۔۔ مرتبہ درس قرآن بورڈ 

دانستہ غلطی نہ کرو

*دانستہ غلطی نہ کرو* 


فَإِن ۔۔۔۔۔۔۔   زَلَلْتُم ۔۔۔۔۔۔۔مِّن ۔۔۔ بَعْدِ ۔۔۔ مَا ۔۔۔ جَاءَتْكُمُ 

پس اگر ۔۔۔ تم پھسلنے لگو ۔۔۔ سے ۔۔ بعد ۔۔ آچکا تمہارے پاس 

الْبَيِّنَاتُ ۔۔۔ فَاعْلَمُوا۔۔۔۔  أَنَّ ۔۔۔ اللَّهَ ۔۔۔ عَزِيزٌ ۔۔۔ حَكِيمٌ۔ 2️⃣0️⃣9️⃣

واضح احکام ۔۔ پس جان لو ۔۔ بے شک ۔۔ الله تعالی ۔۔ غالب ۔۔ حکمت والا 


فَإِن زَلَلْتُم مِّن بَعْدِ مَا جَاءَتْكُمُ الْبَيِّنَاتُ فَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ عَزِيزٌ حَكِيمٌ.  2️⃣0️⃣9️⃣


پھر اگرتم پھسلنے لگو اس کے بعد کہ تمہیں پہنچ چکے صاف حکم تو جان رکھو کہ بے شک الله تعالی زبردست حکمت والا ہے ۔ 


البينات  ( صاف حکم )  اس سے مراد ایسے کھلے ہوئے احکام ہیں جن میں کسی قسم کی پیچیدگی اور شبہ نہیں ۔ مثلا ایک الله پر ایمان لانے کا حکم ۔ رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے برحق ہونے کا عقیدہ ۔ نماز کا حکم  اس قسم کے تمام احکام یہود اور دوسری جماعتوں تک پہنچ چکے تھے ۔ 

زللتم ( پھسلنے لگو ) ۔ یہ لفظ زلّة  سے ہے ۔ جسکے لفظی معنی ہیں بہک جانا ۔ ڈگمگانا اور پھسل جانا ۔ یہ بے اختیاری بھی ہوتا ہے ۔ اس لئے اس سے معلوم ہوگیا کہ بھول کر بہک جانا بھی گناہ کا باعث ہو سکتا ہے ۔ اس لئے اس سے توبہ کرنی چاہئیے ۔ 

عزيز ( زبردست ) ۔ یعنی ایسی ہستی جو جب اور جو کچھ چاہے سزا دے سکتی ہے ۔ اس کا ترجمہ غالب بھی کیا جا سکتا ہے ۔ 

حكيم ( حکمت والا ) ۔ یہاں آیت کی رعایت سے یہ معنی ہوں گے کہ ایسی ہستی جو ہمیشہ مناسب وقت پر ہی سزا دیتی ہے ۔ اور اسسزا دینے میں بہت بڑی مصلحت پوشیدہ ہوتی ہے ۔ اس لئے کہ وہ حکمت والا ہے ۔ 

انسان کی یہ بہت  بڑی خوش قسمتی ہے کہ الله تعالی نے کمال رحمت اور شفقت سے کام لے کر اس کی ھدایت کے لئے انبیاء  کا سلسلہ قائم کیا ۔ اسے سیدھی راہ دکھانے اورکامیابیوں سے ہمکنار کرنے کے لئے ۔الله تعالی وقتا فوقتا مختلف قوموں میں اپنے برگزیدہ پیغمبر بھیجتا رہا ۔ یہ رسول بھولے ہوئے انسانوں کو راہ حق دکھاتے رہے ۔ اور بہکے ہوؤں کو بھنور سے نکالتے رہے ۔ انکے اخلاق سنوارتے رہے اور گندگیوں سے پاک کرتے رہے ۔ لیکن تاریخِ عالم بتاتی ہے کہ بدقسمت لوگوں نے ان سے روگردانی کی ۔ کبھی انہیں جلا وطن کیا کبھی قتل کیا ۔ ان سے اس طرح کا سلوک کرکے انہوں نے خود اپنے لئے گڑھا کھودا ۔ 

آخر میں الله تعالی نے نبی آخر الزماں صلی الله علیہ وسلم کو بھیجا ۔ حضور صلی الله علیہ وسلم نے آسمانی تعلیمات کو اہل جہاں پر واضح کیا ۔ اپنے اسوہ حسنہ سے  ان تعلیمات پر عمل کر کے دکھایا ۔ اپنی صحبت اور ہم نشینی سے نیک اور برگزیدہ لوگوں کی جماعت پیدا کرکے دکھا دیا کہ الله تعالی کے واضح احکام یہ ہیں ۔ اور ان پر عمل کرکے یہ کامیابیاں حاصل کی جا سکتی ہیں ۔ 

انسان کی یہ کس قدر بدقسمتی ہے کہ اس قدر بلند مرتبہ حاصل کرنے کے باوجود اس سے منہ موڑتا ہے ۔ اس کے خلاف عمل کرتا ہے ۔ اس کا دشمن ہو جاتا ہے ۔ ایسے بدکرداروں کو یقینا سخت سزا ملے گی ۔ کیونکہ اب ان کے لئے کوئی عذر اور کوئی بہانہ باقی نہیں رہا ہے ۔ الله تعالی کی حجت قائم ہو چکی ہے ۔ اب کوئی نہیں کہہ سکتا کہ ہم تک دینِ حق نہیں پہنچا تھا ۔ 

درس قرآن ۔۔۔ مرتبہ درس قرآن بورڈ 

اسلام میں پورے پورے داخل ہو جاؤ ۔۔۔ آیہ ۲۰۸

*اسلام میں پورے پورے داخل ہو جاؤ* 


يَا أَيُّهَا ۔۔ الَّذِينَ ۔۔۔ آمَنُوا ۔۔۔۔۔۔۔۔ ادْخُلُوا ۔۔۔ فِي ۔۔ السِّلْمِ 

اے ۔۔ وہ جو ۔۔۔ آیمان لائے ۔۔۔ داخل ہو جاؤ ۔۔ میں ۔۔ اسلام 

كَافَّةً ۔۔۔  وَلَا تَتَّبِعُوا ۔۔۔۔۔۔۔۔   خُطُوَاتِ ۔۔۔ الشَّيْطَانِ

مکمل ۔۔۔ اور نہ پیروی کرو ۔۔ قدموں ۔۔۔ شیطان 

 إِنَّهُ ۔۔۔ لَكُمْ ۔۔۔ عَدُوٌّ ۔۔۔  مُّبِينٌ  2️⃣0️⃣8️⃣

بے شک وہ ۔۔ تمہارے لئے ۔۔۔ دشمن ۔۔۔ ظاہرہ 


يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا ادْخُلُوا فِي السِّلْمِ كَافَّةً وَلَا تَتَّبِعُوا خُطُوَاتِ الشَّيْطَانِ إِنَّهُ لَكُمْ عَدُوٌّ مُّبِينٌ  2️⃣0️⃣8️⃣


اے ایمان والو اسلام میں پورے داخل ہو جاؤ اور شیطان کے قدموں کی پیروی نہ کرو بے شک وہ تمہارا کھلا دشمن ہے ۔ 


السلم (اسلام ) ۔ سلام کے لفظی معنی صلح اور امن کے ہیں ۔ اور یہ لفظ جنگ کے مقابل آتا ہے ۔ یہاں مفسروں نے السلم سے مراد اسلام لیا ہے ۔ لغت کے ماہروں نے بھی اس لفظ کے یہ معنی تسلیم کئے ہیں ۔

كافه ( پورے ) ۔ اس لفظ کا مادہ کفف ہے ۔ جس کے معنٰی روکنا ہیں ۔ 

کافّہ سے مراد ہے کہ پورے پورے اسلام میں داخل ہو جاؤ اور ہر طرح سے اسلام کی اطاعت کرو ۔ 

خطوات (قدم )  خطوہ اس کا واحد ہے ۔ مراد ہے نقشِ قدم ۔ یعنی اطاعت و فرمانبرداری ۔ 

اس آیت کا شانِ نزول یہ ہے کہ چند یہودی اسلام لائے ۔ لیکن انہوں نے اسلامی شریعت کے ساتھ ساتھ یہودی مذہب کی تعمیل بھی جاری رکھی ۔ مثلا ہفتے کے دن کو مقدس سمجھنا ۔ اونٹ کے گوشت اور دودھ کو حرام سمجھنا ۔ اور توراۃ کی تلاوت وغیرہ ۔ 

پھر اسی طرح بعض لوگ اپنی طرف سے ہی کوئی عقیدہ گھڑ لیتے یا کوئی عمل مقدس سمجھ لیتے اور اسلامی شریعت کے ساتھ ساتھ خود ساختہ باتوں کو بھی دین میں شامل کر لیتے ۔ الله تعالی نے اسلام کے احکام کے ساتھ دوسرے احکام کی تعمیل کرنے سے روکنے کے لئے یہ آیت نازل فرمائی ۔ اور فرمایا کہ پورے کے پورے مسلمان ہو جاؤ ۔ یعنی نہ تو اپنی طرف سے غلط عقائد گھڑو ۔ نہ سنی سنائی باتوں پر عمل کرو ۔ نہ دوسری تعلیمات کی تعمیل کرو ۔نہ یہ کہ جو بات اچھی نہ لگے یا جو مشکل معلوم ہوئی یا پسند نہ آئی اسے نہ مانا ۔ 

اسلام صرف چند عقیدوں کا نام نہیں ۔ یا صرف چند عبادتوں کا مجموعہ نہیں ۔ بلکہ پوری زندگی کے لئے مکمل اعلٰی اور عمدہ ترین ضابطہ ہے ۔ زندگی کے ہر شعبہ میں راہنمائی کرتا ہے ۔انسانی فطرت کے تمام تقاضے پورے کرتا ہے ۔ اس کی کمزوریوں کو مدنظر رکھتے ہوئے احکام میں رعایت کرتا ہے ۔ منزلِ مقصود تک پہنچانے کے لئے صحیح راہنمائی کرتا ہے ۔ دین و دنیا کی اعلٰی ترین کامیابی حاصل کرنے کے لئے ھدایت کرتا ہے ۔ 

لہٰذا اسلام کو پورے کا پورا ماننا ۔ اخلاق ، معاشرت ، معیشت ، سیاست غرض زندگی کے ہر شعبے میں اسلام کے قوانین پر چلنا ضروری ہے ۔ 

جو لوگ ایسا نہیں کرتے وہ گویا شیطان کے نقشِ قدم پر چلتے ہیں ۔ حالانکہ وہ ان کا کھلا دشمن ہے ۔ اس سے خیر کی امید رکھنا حد درجہ حماقت اور نادانی ہے ۔ اسلام اور کفر یکجا نہیں ہو سکتے ۔ لہٰذا یا تو پورے طور پر رحمان کے بندے بن جاؤ ورنہ شیطان کے نقشِ قدم پر چلنا پڑے گا ۔ جس میں گھاٹا ہی گھاٹا ہے ۔ 

درس قرآن مرتبہ درس قرآن بورڈ 

الله کی رضا چاہنے والا

سورة بقره –آيه-٢٠٧
الله کی رضا چاہنے والا

وَمِنَ ۔۔۔ النَّاسِ ۔۔۔مَن ۔۔۔يَشْرِي۔۔۔ نَفْسَهُ ۔۔۔ابْتِغَاءَ
اور سے ۔۔۔ لوگ ۔۔ جو ۔۔ بیچتا ہے ۔۔۔ اپنا نفس ۔۔۔ تلاش 
 مَرْضَاتِ ۔۔۔ اللَّهِ ۔۔۔وَاللَّهُ ۔۔۔ رَءُوفٌ ۔۔۔ بِالْعِبَادِ
مرضی ۔۔۔ الله ۔۔ اور الله تعالی ۔۔۔ مہربان ۔۔ بندوں پر 

وَمِنَ النَّاسِ مَن يَشْرِي نَفْسَهُ ابْتِغَاءَ مَرْضَاتِ اللَّهِ وَاللَّهُ رَءُوفٌ بِالْعِبَادِ
اور لوگوں میں سے ایک شخص وہ ہے جو اپنی جان کو بیچتا ہے الله جل شانہ کی رضا جوئی میں اور الله تعالی بندوں پر مہربان ہے ۔

اس آیت میں ان سچے مؤمنوں کا ذکر ہے جو اپنی جان تک اس مقصد کے لئے قربان کردیتے ہیں کہ الله تعالی ان سے راضی ہو جائے ۔ 
انسان اگر حقیقت پر غور کرے تو اسے معلوم ہو گا کہ وہ جن ذاتی جھگڑوں میں پڑا ہے ۔ وہ سب ہیچ ہیں ۔ تنگ نظر لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ جس قدر مال و متاع زمین و جائیداد ان کے قبضے میں ہے سب ان کے اپنے ہیں ۔ جس قدر وہ اور زیادہ حاصل کریں گے وہ بھی ان کا اپنا ہوجائے گا ۔ ان کا خیال ہے کہ دنیاوی عزت اور شان و شوکت ہی انسان کا مقصد ہے ۔ انہیں ہر طریقے سے حاصل کر لینا سب سے بڑی کامیابی ہے ۔ لیکن وہ یہ نہیں دیکھتے کہ اوّل نہ تو وہ خود اپنے اوپر اختیار رکھتے ہیں نہ اپنے مال و جائیداد پر ۔ جو کچھ ان کے پاس ہے یا جو کچھ وہ مزید حاصل کرتے ہیں وہ سب کچھ کیا دھرا یہیں کا یہیں پڑا رہ جائے گا ۔ 
کیا یہ ممکن نہیں ان کے بازو ٹوٹ جائیں ۔ قوتیں شل ہو جائیں اور دل و دماغ فیل ہو جائیں ۔ پھر یہ مار دھاڑ ۔ لوٹ کھسوٹ اور فتنہ و فساد کیوں ؟ 
کیا اس زندگی کے لئے جس کا کوئی بھروسہ نہیں ؟ 
کیا اس شان و شوکت کے لئے جس کی کوئی بنیاد نہیں ؟ 
ایک مؤمن ان باتوں سے آگاہ ہے ۔ وہ سمجھتا ہے کہ اس کی کوئی چیز اس کی اپنی نہیں بلکہ اس ربّ کی ہے جس نے اسے زندگی دی ۔اس کی پرورش کی ۔ اور اسے دنیا کی نعمتوں سے فائدہ اٹھانے کا موقع دیا ۔ لہذا ہر چیز الله تعالی کی ہے ۔ اور ہر چیز کے استعمال کا مقصد الله تعالی کی خوشنودی ہے ۔ اگر اس کی دی ہوئی چیزوں کو اس کے راستے میں اسی کی رضا حاصل کرنے کے لئے خرچ کیا جائے تو ہمارا کیا جاتا ہے ۔ اگر کم ہو جائے گا تو وہ اور دے دے گا ۔ اگر اپنی اکیلی جان جس پر ہمیں کچھ بھی اختیار نہیں اس کی رضا جوئی کے لئے دے دی جائے تو ہمارا کیا کم ہو جائے گا ۔ اس کی دی ہوئی جان جسے ایک دن فنا ہونا ہی تھا ۔ اسی کے لئے دے دی ۔ تو اس سے بڑھ کر اس کا مصرف اور کیا ہوسکتا ہے ۔ 

            جان دی ۔  دی ہوئی  اسی کی تھی 
            حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا 
وہ اپنے بندوں پر بڑا ہی مہربان ہے ۔ انسان اس کی عنایات ۔ نوازشوں اور لطف و کرم کا اندازہ نہیں کر سکتا ۔ اس کی نعمتوں کا شمار نہیں کر سکتا ۔
کاش ! انسان کبھی اس حقیقت پر غور کرلیا کرے تاکہ اس کے اندر  شکر گزاری اور قدر دانی پیدا ہو ۔ 

جھوٹا وقار

*جھوٹا وقار*


وَإِذَا ۔۔۔۔۔۔۔   قِيلَ ۔۔۔۔۔۔۔۔ لَهُ ۔۔۔۔۔۔۔۔ اتَّقِ ۔۔۔ اللَّهَ ۔۔۔ أَخَذَتْهُ 

اور جب ۔۔۔ کہا جاتا ہے ۔۔ اس سے ۔۔ تو ڈر ۔۔۔ الله تعالی ۔۔ پکڑ لیتی ہے اس کو 

الْعِزَّةُ ۔۔۔ بِالْإِثْمِ ۔۔۔ فَحَسْبُهُ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔  جَهَنَّمُ 

عزت ۔۔۔ گناہ پر ۔۔۔ پس کافی ہے اس کو ۔۔ جہنم 

وَلَبِئْسَ ۔۔۔۔ الْمِهَادُ۔ 2️⃣0️⃣6️⃣

اور البتہ برا ۔۔۔ ٹھکانہ 


وَإِذَا قِيلَ لَهُ اتَّقِ اللَّهَ أَخَذَتْهُ الْعِزَّةُ بِالْإِثْمِ فَحَسْبُهُ جَهَنَّمُ وَلَبِئْسَ الْمِهَادُ.  2️⃣0️⃣6️⃣


اور جب اس سے کہا جائے کہ الله سے ڈر تو غرور اسے گناہ پر آمادہ کرے سو اس کے لئے دوزخ کافی ہے  اور بے شک وہ برا ٹھکانہ ہے 


اس آیت میں منافقوں کی ایک اور نشانی بیان کی گئی ہے ۔ یعنی لوگوں پر ظلم کرنے ، جھوٹے دعوے باندھنے ، فتنہ و فساد مچانے کے ساتھ ساتھ وہ اپنے غرور میں آکر الله تعالی سے بھی سرکشی اور بغاوت کرتے ہیں ۔ جب لوگ انہیں سمجھاتے ہیں کہ ہنگامہ آرائی اور شرارت کی راہ سے ہٹ کر سیدھی راہ پر آؤ ۔ الله تعالی سے ڈرو ۔ امن اور چین کی زندگی بسر کرو تو وہ اپنی جھوٹی شان اور خود ساختہ عزت کو برقرار رکھنے کے لئے سرکشی اور گناہ میں اور زیادہ سرگرم ہو جاتے ہیں ۔ 

لوگوں کے یہ کہنے پر کہ الله تعالی سے ڈرو ان کے غرور پر زبردست چوٹ پڑتی ہے ۔ جھوٹی آرزوؤں اور جھوٹی شان کا بنایا ہوا ان کا محل دھڑام سے نیچے آگرتا ہے ۔ جس سے ان کا پول کُھل جاتا ہے ۔ اور وہ کہیں کے نہیں رہتے ۔ لہذا اپنے جھوٹے وقار کو قائم رکھنے کے لئے وہ الله جل جلالہ کی نافرمانیاں کرنے  کی پرواہ نہیں کرتے ۔ لوگوں پر ظلم کرتے ہیں ۔ ہر جائز و ناجائز حربہ استعمال کرکے راست باز لوگوں کی رائے کو دبانے کی کوشش کرتے ہیں ۔ ایسے لوگوں کے لئے الله تعالی نے جہنم بنا رکھا ہے ۔جہاں انہیں جھونک دیا جائے گا ۔ یہ ہمیشہ اس میں جلتے رہیں گے ۔ اور اپنے غرور کا مزہ چکھیں گے ۔ 

شریعتِ اسلام کے مقاصد تو یہ ہیں کہ دنیا میں عدل و انصاف اور امن و چین عام ہوجائے ۔ ہر شخص کو الله تعالی کی بنائی ہوئی چیزوں سے فائدہ اٹھانے کی آزادی ہو ۔ الله تعالی کی اتاری ہوئی تعلیم اور بتائی ہوئی ھدایت پر چلنے کی سہولتیں حاصل ہوں اور ہر شخص کو اپنا حق پانے کے لئے آسانی ہو ۔ 

ان تمام مقاصد کو حاصل کرنے  میں مؤمن اسلام کی مدد کرتا ہے ۔ کافر اس راستے میں روڑے اٹکاتا ہے ۔ اور منافق ایسا مارِ آستین ہے کہ اسلام سے حد درجہ دشمنی رکھتا ہے ۔ اور اپنے ظاہری دعووں اور جھوٹے بیانوں سے اسلام کی محبت کا دم بھرتا ہے ۔ لیکن اپنی دلی دشمنی ظاہر نہیں ہونے دیتا ۔ اس لئے یہ سخت سزا میں مبتلا ہو گا ۔ 

شریعتِ اسلام کے مقاصد کے حصول میں سب سے بڑی رکاوٹ یہی منافق ڈالتا ہے ۔ دل کی بات کو ظاہر نہیں کرتا ۔ فتنہ و فساد میں سرگرم رہتا ہے ۔ کھیتوں اور جانوروں کو تباہ کرتا ہے ۔ 

واقعی جھوٹا وقار اور خود ساختہ عزت کا تصور نصیحت اور عبرت کی راہ میں ایک بڑی رکاوٹ ہوتا ہے ۔ 

درس قرآن ۔۔۔ مرتبہ درس قرآن بورڈ 

عرفات اور مشعر الحرام

عرفات اور مشعرِ حرام 

فَإِذَا ۔۔۔ أَفَضْتُم ۔۔۔ مِّنْ ۔۔۔ عَرَفَاتٍ ۔۔۔ فَاذْكُرُوا 
پس جب ۔۔۔ تم لوٹو ۔۔ سے ۔۔ عرفات ۔۔۔ پس تم ذکر کرو 
 اللَّهَ ۔۔۔ عِندَ ۔۔۔ الْمَشْعَرِ الْحَرَامِ
الله تعالی ۔۔۔ پاس ۔۔۔ مشعر حرام 

فَإِذَا أَفَضْتُم مِّنْ عَرَفَاتٍ فَاذْكُرُوا اللَّهَ عِندَ الْمَشْعَرِ الْحَرَامِ

پھر جب تم طواف کے لئے عرفات سے لوٹو تو مشعر الحرام کے نزدیک الله تعالی کو یاد کرو ۔ 

اَفَضْتُم ( تم لوٹو) ۔ یہ لفظ افاضہ سے نکلا ہے جس کے معنی ہیں انبوہ در انبوہ چلنا یا واپس ہونا ۔ اصطلاح میں اس سے مراد عرفات سے مزدلفہ کو واپسی ہے ۔ 
عَرَفَاتٍ ( عرفات ) ۔ مکہ معظمہ سے جو سڑک مشرق کی طرف طائف کو جاتی ہے اس پر مکہ سے بارہ میل کے فاصلے پر کئی میل کے رقبے کا لمبا چوڑا میدان ہے ۔ اس کا نام عرفات ہے ۔ اس میدان میں ایک پہاڑی بھی واقع ہے اس کا نام بھی عرفات ہے ۔ جس کی بلندی سطح زمین سے ۲۰۰  گز ہے ۔ پورا سال یہ میدان بالکل سنسان پڑا رہتا ہے ۔ ۹ ذی الحجہ کو حاجیوں کی آمد سے اس میں بہت رونق ہوتی ہے ۔ 
حاجی  ۸ ذالحجہ کی دوپہر تک منٰی میں آجاتے ہیں ۔ اور اگلے روز ۹ ذالحجہ کو سورج نکلتے ساتھ ہی عرفات کو روانہ ہو جاتے ہیں ۔ اور دوپہر کو عرفات کے میدان میں پہنچ جاتے ہیں ۔ دوپہر سے عصر کے وقت تک حاجیوں کو وہیں رہنا پڑتا ہے ۔ اس قیام کو اصطلاح میں "وقوف "کہا جاتا ہے ۔اس میدان میں حاضری حج کا سب سے اہم کام ہے ۔ 
عرفات کے میدان میں قیام کا یہ سارا وقت توبہ و استغفار اور الله تعالی کی یاد میں گزارنا چاہئیے ۔ ۔ جب سورج غروب ہونے کے قریب ہو مزدلفہ ( مشعر حرام ) کے لئے کوچ ہونا چاہئیے ۔ 
عرفات کے دن ظہر اور عصر کی نماز ملا کر عرفات کی مسجد نمرہ میں ادا کی جاتی ہے ۔ اور مغرب اور عشاء کی نمازیں مزدلفہ واپس پہنچ کر عشاء کے وقت ادا کی جاتی ہیں ۔ 
اَلْمَشعَرِ الْحرام ( مشعر حرام ) ۔ مشعر کے لفظی معنی نشانی یا علامت کے ہیں ۔ اور احرام کا لفظ اس کی بزرگی کو ظاہر کرتا ہے ۔ یہ اس خاص مقام  کا نام ہے جو مزدلفہ کی دو پہاڑیوں کے درمیان ہے ۔ ویسے سارے مزدلفہ کو بھی مشعر الحرام ہی کہتے ہیں ۔ 
مزدلفہ مکہ سے تقریبا چھ میل کے فاصلہ پر ہے ۔ منٰی سے عرفات جانے کا ایک تو سیدھا راستہ ہے اور حاجی ۹ /کو عرفات اسی راستے سے جاتے ہیں ۔ لیکن عرفات سے واپسی کے لئے دوسرے راستے سے آنے کا حکم ہے ۔ اسی راستے میں مزدلفہ پڑتا ہے ۔ حاجیوں کے قافلے یہیں رات گزارتے ہیں ۔اور پہاڑی کے اوپر مسجد میں سارا وقت نماز ، عبادت اور توبہ استغفار میں بسر کرتے ہیں ۔ 
حج کے تمام اعمال میں سے فرض تین ہیں ۔ 
1) احرام باندھنا 
2) ذوالحج کی ۹ تاریخ کو عرفات میں حاضر ہونا ۔ جسے وقوف عرفات کہتے ہیں ۔ 
3) طواف 
 ان تینوں میں اہم ترین وقوف عرفات ہے ۔ 
اس آیت میں یہ بتایا گیا ہے کہ جب تم عرفات سے واپس لوٹو تو مزدلفہ میں قیام کر کے الله تعالی کو یاد کرو ۔
توبہ و استغفار کرو ۔ اور الله تعالی کی عبادت میں مصروف رہو ۔ 

حالیہ اشاعتیں

مقوقس شاہ مصر کے نام نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کا خط

سیرت النبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم..قسط 202 2.. "مقوقس" _ شاہ ِ مصر کے نام خط.. نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک گرامی ...

پسندیدہ تحریریں