حج کے ایام

حج کے ایّام 


وَاذْكُرُوا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔   اللَّهَ ۔۔۔ فِي ۔۔۔۔۔۔۔ أَيَّامٍ ۔۔۔ مَّعْدُودَاتٍ

اور یاد کرو ۔۔۔ الله تعالی ۔۔۔ میں ۔۔۔ دن ۔۔۔ گنے ہوئے 


وَاذْكُرُوا اللَّهَ فِي أَيَّامٍ مَّعْدُودَاتٍ

اور گنتی کے چند( مقررہ ) دنوں میں الله تعالی کو یاد کرو ۔ 


ايّاما معدودات (گنتی کے چند دن )  ایام کا واحد یوم ہے ۔ اور معدودات عدد سے ہے ۔ ان دنوں سے مراد ذی الحج کی  دسویں ، گیارھویں اور بارھویں تاریخیں ہیں ۔ انہیں اصطلاح میں " ایّام تشریق بھی کہتے ہیں ۔ تشریق کے معنی قربانی سکھانے کے ہیں ۔ ان دنوں میں جانوروں کی قربانی کی جاتی ہے ۔ 

تمام حاجی نو ذوالحجہ کو ظہر سے مغرب  کے وقت تک عرفات میں جمع رہتے ہیں ۔ وہاں سے سورج غروب ہونے تک واپسی شروع ہو جاتی ہے ۔ رات مزدلفہ میں قیام کرتے ہیں ۔ اگلے دن یعنی ۱۰ذ والحجہ کو منٰی میں پہنچ جاتے ہیں ۔ منٰی مکہ معظمہ سے شمال مغرب میں چار میل کے فاصلے پر ہے ۔ کسی زمانے میں یہ ایک میدان تھا ۔ اب یہاں پر بہت سی پختہ اور عالیشان عمارتیں بن گئی ہیں ۔ ہر طرف خیمے لگے ہوتے ہیں ۔ اور خوب رونق ہوتی ہے ۔ 

حاجی ذوالحجہ کی بارھویں تاریخ کی شام تک یہاں رہتے ہیں ۔ اور حج کے سلسلے میں کئی واجبات اور سنتیں یہاں بجا لاتے ہیں ۔ مثلا قربانی کرتے ہیں ۔ شیطانوں کو کنکریاں مارتے  ہیں سر منڈواتے ہیں اور حالت احرام سے باہر آجاتے ہیں 

اس آیت میں یہ حکم دیا گیا ہے کہ ان دنوں میں یہاں الله کو خوب یاد کیا کرو ۔ اس کی یاد اور عبادت میں مشغول رہو ۔ ان دنوں میں الله کی یاد کی ایک خاص صورت یہ ہے کہ ہر حاجی دسویں تاریخ کو بڑے پتھر ( جمرہ عقبیٰی پر سات کنکریاں مارے ۔ اور ہر کنکری کے ساتھ الله اکبر کہتا جائے ۔ کنکریاں مارنے کا وقت صبح صادق سے شروع ہوتا ہے ۔ اسی طرح گیارہ اور بارہ تاریخ کو یکے بعد دیگرے تینوں پتھروں پر سات سات کنکریاں مارے ۔ لیکن ان پر کنکریاں سورج ڈھلنے کے بعد مارنی ہوں گی ۔ اس کے بعد مکہ جانے کی اجازت ہے ۔ 

آپ نے دیکھا جب سے حج اور اس کے احکام کا بیان شروع ہوا ہے ذکر الہی کی تاکید  قرآن مجید نے بار بار کی ہے ۔ یوں بھی دل کے سکون اور  روح کی پاکیزگی کا بہترین ذریعہ ذکر الٰہی ہے ۔ اور حج کے ساتھ تو اس کی خاص مناسبت ہے ۔ دنیا کے تمام گوشوں سے مختلف نسل اور مختلف مزاجوں  کے لوگ یہاں ایک جگہ جمع ہوتے ہیں ۔ سفر کی مشکلیں ، پردیس کی تکلیفیں، وطن کی یاد ، اہل و عیال سے علیحدگی تمام ایسی باتیں ہیں ۔ جن سے ہر انسان کا پریشان ہو جانا لازمی ہے ۔ ایسے اجتماعوں میں ایک دوسرے سے الجھ جانا ، سخت کلامی اور کشمکش کا واقع ہو جانا معمولی بات ہے ۔ لیکن حج میں ایسی باتوں کا امکان نہیں ۔ 

الله تعالی نے فرمایا کہ حاجی ان مشقتوں کو بھول کر صرف ایک چیز کی طرف دھیان دیں اور وہ ہے ذکر الٰہی ۔ اس کی اطاعت کریں ۔ اسی کے احکام سننے سنانے میں مصروف رہیں ۔ اسی کی حمد و ثنا میں مگن رہیں ۔ کثرتِ تکبیر میں باقی سب کچھ بھول جائیں ۔ 

درس قرآن ۔۔۔ مرتبہ درس قرآن بورڈ 

کوئی تبصرے نہیں:

حالیہ اشاعتیں

مقوقس شاہ مصر کے نام نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کا خط

سیرت النبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم..قسط 202 2.. "مقوقس" _ شاہ ِ مصر کے نام خط.. نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک گرامی ...

پسندیدہ تحریریں