نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

حج کا زاد راہ

حج کا زادِ راہ *


وَمَا ۔۔۔۔۔  تَفْعَلُوا۔۔۔  مِنْ ۔۔۔۔۔۔خَيْرٍ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ يَعْلَمْهُ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔  اللَّهُ 

اور جو ۔۔۔ تم کرتے ہو ۔۔۔ سے ۔۔۔ نیکی ۔۔ وہ جانتا ہے اس کو ۔۔ الله تعالی 

وَتَزَوَّدُوا ۔۔۔۔۔    فَإِنَّ ۔۔۔۔۔۔۔۔ خَيْرَ ۔۔۔ الزَّادِ ۔۔۔  التَّقْوَى 

اور زاد راہ لے لیا کرو ۔۔۔ پس بے شک ۔۔ بہتر ۔۔۔ زاد راہ ۔۔ تقوی 

    وَاتَّقُونِ ۔۔۔ يَا أُولِي الْأَلْبَابِ.  1️⃣9️⃣7️⃣

اور مجھ سے ڈرتے رہو ۔۔۔ اے عقل والو 


وَمَا تَفْعَلُوا مِنْ خَيْرٍ يَعْلَمْهُ اللَّهُ وَتَزَوَّدُوا فَإِنَّ خَيْرَ الزَّادِ التَّقْوَى 

وَاتَّقُونِ يَا أُولِي الْأَلْبَابِ۔  1️⃣9️⃣7️⃣


اور جو کچھ تم نیکی کرتے ہو الله تعالی اسے جانتا ہے۔ اور زاد راہ لے لیا کرو کہ بے شک بہتر زاد راہ تقوی ہے اور اے عقلمندو! مجھ سے ڈرتے رہو 


جاہلیت کے زمانہ میں عربوں کے ہاں یہ رواج تھا کہ حج کو جاتے وقت سفر کی ضروریات ساتھ نہ لیتے تھے ۔ بالکل خالی ہاتھ چل پڑتے  اور راستے میں لوگوں سے بھیک مانگتے ۔ ان کے نزدیک یہ بات بزرگی کی نشانی تھی ۔ بعض لوگ تو یہاں تک کرتے کہ حج کے لئے روانہ ہوتے وقت اپنا تمام سرمایہ بالکل لُٹا جاتے ۔ یہ معمول ان لوگوں نے خوامخواہ اپنے دل سے گھڑ رکھا رھا ۔ حالانکہ یہ کسی طرح عبادت کا حصہ نہ تھا ۔ یہ چیز الله تعالی کے نزدیک ہرگز مقبول نہیں ہے ۔ کیونکہ اس طرح دوسروں پر بوجھ پڑتا ہے ۔ 

الله سبحانہ و تعالی نے فرمایا  کہ روانہ ہوتے وقت ضرورت کے مطابق روپیہ پیسہ ساتھ لے لیا کرو ۔ اور اپنا بوجھ کسی دوسرے پر نہ ڈالا کرو ۔ الله تعالی نیتوں اور ارادوں کو جانتا ہے ۔ ظاہری نمائش اور بناوٹی پاکیزگی کو بالکل پسند نہیں فرماتا ۔ اس لئے اگرتم راستے کے لئے خرچ لے لو تو اس میں گناہ کی کوئی بات نہیں ۔ اور نیکی کے منافی نہیں ۔ 

اس میں کوئی شک نہیں کہ اصل چیز تقوٰی ہے ۔ یعنی برائی سے فطری طور پر پرھیز کرنا اور نیکی کی طرف فطری طور پر رغبت کرنا ۔ اس لئے الله جل شانہ سے ہی ڈرتے رہنا چاہئیے ۔ 

تقوٰی سے مراد یہ ہے کہ الله تعالی کا ہر حکم پورے خلوص ، دیانتداری اور اطاعت سے بجا لانا چاہئیے ۔ ہر کام صرف اسی کی خوشنودی کے لئے کرنا چاہئیے ۔ دکھ ، تکلیف ، پریشانی ، مصیبت اور آفت میں صرف اسی کو اپنا سہارا سمجھنا چاہئیے ۔ نجات کے لئے صرف اسی کو پکارنا چاہئیے ۔ سُکھ ، آرام اور چین میں صرف اسی کا شکر ادا کرنا چاہئیے ۔ 

ہر کام کا آغاز اسی کا نام لے کر اور ہر کام کا انجام اسی کے نام سے کرنا چاہئیے ۔  زندگی کے ہر میدان میں اسی کی مدد تلاش کرنی چاہئیے ۔ سارے معاملات طے کرنے میں صرف جائز طریقے اختیار کرنے چاہئیے ۔ اور منع کی ہوئی باتوں سے بچنا چاہئیے ۔ خوفِ خدا ہر وقت پیشِ نظر رکھناچاہئیے ۔ 

یہی تقوٰی ہے ۔ جس کے متعلق قرآن مجید میں بار بار حکم آتا ہے ۔ کہ اس کی اہمیت انسان کی زندگی میں بہت زیادہ ہے ۔ اسے بھول جانے سے انسان کی زندگی میں نا اُمیدی ، پریشانی اور ناکامی بھر جاتی ہے ۔ لہٰذا تقوٰی میں کمال حاصل کرنے کے لئے ہمہ وقت کوشش کرنی چاہئیے ۔ 

حج تقوٰی پیدا کرنے کا اعلٰی ذریعہ ہے ۔ 

درس قرآن ۔۔۔ مرتبہ درس قرآن بورڈ 


تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

تعوُّذ۔ ۔۔۔۔۔ اَعُوذُ بِالله مِنَ الشَّیطٰنِ الَّرجِیمِ

     اَعُوْذُ ۔                بِاللهِ  ۔ ُ     مِنَ ۔ الشَّیْطٰنِ ۔ الرَّجِیْمِ      میں پناہ مانگتا / مانگتی ہوں ۔  الله تعالٰی کی ۔ سے ۔ شیطان ۔ مردود       اَعُوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّیطٰنِ الَّجِیْمِ  میں الله تعالٰی کی پناہ مانگتا / مانگتی ہوں شیطان مردود سے اللہ تعالٰی کی مخلوقات میں سے ایک مخلوق وہ بھی ہے جسےشیطان کہتے ہیں ۔ وہ آگ سے پیدا کیا گیا ہے ۔ جب فرشتوں اور آدم علیہ السلام کا مقابلہ ہوا ۔ اور حضرت آدم علیہ السلام اس امتحان میں کامیاب ہو گئے ۔ تو الله تعالٰی نے فرشتوں کو حکم دیاکہ وہ سب کے سب آدم علیہ السلام کے آگے جھک جائیں ۔ چنانچہ اُن سب نے انہیں سجدہ کیا۔ مگر شیطان نے سجدہ کرنے سے انکار کر دیا ۔ اس لئے کہ اسکے اندر تکبّر کی بیماری تھی۔ جب اس سے جواب طلبی کی گئی تو اس نے کہا مجھے آگ سے پیدا کیا گیا ہے اور آدم کو مٹی سے اس لئے میں اس سے بہتر ہوں ۔ آگ مٹی کے آگے کیسے جھک سکتی ہے ؟ شیطان کو اسی تکبّر کی بنا پر ہمیشہ کے لئے مردود قرار دے دیا گیا اور قیامت ت...

سورۃ بقرہ تعارف ۔۔۔۔۔۔

🌼🌺. سورۃ البقرہ  🌺🌼 اس سورت کا نام سورۃ بقرہ ہے ۔ اور اسی نام سے حدیث مبارکہ میں اور آثار صحابہ میں اس کا ذکر موجود ہے ۔ بقرہ کے معنی گائے کے ہیں ۔ کیونکہ اس سورۃ میں گائے کا ایک واقعہ بھی  بیان کیا گیا ہے اس لئے اس کو سورۃ بقرہ کہتے ہیں ۔ سورۃ بقرہ قرآن مجید کی سب سے بڑی سورۃ ہے ۔ آیات کی تعداد 286 ہے ۔ اور کلمات  6221  ہیں ۔اور حروف  25500 ہیں  یہ سورۃ مبارکہ مدنی ہے ۔ یعنی ہجرتِ مدینہ طیبہ کے بعد نازل ہوئی ۔ مدینہ طیبہ میں نازل ہونی شروع ہوئی ۔ اور مختلف زمانوں میں مختلف آیات نازل ہوئیں ۔ یہاں تک کہ " ربا " یعنی سود کے متعلق جو آیات ہیں ۔ وہ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کی آخری عمر میں فتح مکہ کے بعد نازل ہوئیں ۔ اور اس کی ایک آیت  " وَ اتَّقُوْا یَوْماً تُرجَعُونَ فِیہِ اِلَی اللهِ "آیہ  281  تو قران مجید کی بالکل آخری آیت ہے جو 10 ہجری میں 10  ذی الحجہ کو منٰی کے مقام پر نازل ہوئی ۔ ۔ جبکہ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم حجۃ الوداع کے فرائض ادا کرنے میں مشغول تھے ۔ ۔ اور اس کے اسی نوّے دن بعد آپ صلی الله علیہ وسلم کا وصال ہوا ۔ اور وحی ا...

*بنی اسرائیل کی فضیلت*

يَا۔۔۔۔۔۔  بَنِي إِسْرَائِيلَ ۔۔۔۔۔۔        اذْكُرُوا    ۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔    نِعْمَتِيَ ۔۔۔۔۔۔۔۔  ۔ الَّتِي    اے  ۔ اولاد اسرائیل ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تم یاد کرو ۔۔۔۔۔۔۔ میری نعمتوں کو ۔۔۔۔ وہ جو  أَنْعَمْتُ    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ عَلَيْكُمْ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔   ۔ وَأَنِّي ۔۔۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔ فَضَّلْتُكُمْ        میں نے انعام کیں ۔ تم پر ۔ اور بے شک میں نے ۔۔۔۔۔۔۔فضیلت دی تم کو   عَلَى     ۔    الْعَالَمِينَ۔  4️⃣7️⃣ پر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔  تمام جہان  يَا بَنِي إِسْرَائِيلَ اذْكُرُوا نِعْمَتِيَ الَّتِي أَنْعَمْتُ عَلَيْكُمْ وَأَنِّي فَضَّلْتُكُمْ عَلَى الْعَالَمِينَ.   4️⃣7️⃣ اے بنی اسرائیل میرے وہ احسان یاد کرو  جو میں نے تم پر کئے اور یہ کہ میں نے تمہیں تمام عالم پر بڑائی دی ۔  فَضَّلْتُکُم۔ ( تمہیں بڑائی دی ) ۔ یہ لفظ فضل سے نکلا ہے ۔ جس کے معنی ہیں بڑائی ۔ تمام عالم پر فضیلت دینے کا مطلب یہ ہے کہ بنی اسرائیل تمام فِرقوں سے افضل رہے اور کوئی ان کا ہم پلہ نہ تھا...