نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

عرفات اور مشعر الحرام

عرفات اور مشعرِ حرام 

فَإِذَا ۔۔۔ أَفَضْتُم ۔۔۔ مِّنْ ۔۔۔ عَرَفَاتٍ ۔۔۔ فَاذْكُرُوا 
پس جب ۔۔۔ تم لوٹو ۔۔ سے ۔۔ عرفات ۔۔۔ پس تم ذکر کرو 
 اللَّهَ ۔۔۔ عِندَ ۔۔۔ الْمَشْعَرِ الْحَرَامِ
الله تعالی ۔۔۔ پاس ۔۔۔ مشعر حرام 

فَإِذَا أَفَضْتُم مِّنْ عَرَفَاتٍ فَاذْكُرُوا اللَّهَ عِندَ الْمَشْعَرِ الْحَرَامِ

پھر جب تم طواف کے لئے عرفات سے لوٹو تو مشعر الحرام کے نزدیک الله تعالی کو یاد کرو ۔ 

اَفَضْتُم ( تم لوٹو) ۔ یہ لفظ افاضہ سے نکلا ہے جس کے معنی ہیں انبوہ در انبوہ چلنا یا واپس ہونا ۔ اصطلاح میں اس سے مراد عرفات سے مزدلفہ کو واپسی ہے ۔ 
عَرَفَاتٍ ( عرفات ) ۔ مکہ معظمہ سے جو سڑک مشرق کی طرف طائف کو جاتی ہے اس پر مکہ سے بارہ میل کے فاصلے پر کئی میل کے رقبے کا لمبا چوڑا میدان ہے ۔ اس کا نام عرفات ہے ۔ اس میدان میں ایک پہاڑی بھی واقع ہے اس کا نام بھی عرفات ہے ۔ جس کی بلندی سطح زمین سے ۲۰۰  گز ہے ۔ پورا سال یہ میدان بالکل سنسان پڑا رہتا ہے ۔ ۹ ذی الحجہ کو حاجیوں کی آمد سے اس میں بہت رونق ہوتی ہے ۔ 
حاجی  ۸ ذالحجہ کی دوپہر تک منٰی میں آجاتے ہیں ۔ اور اگلے روز ۹ ذالحجہ کو سورج نکلتے ساتھ ہی عرفات کو روانہ ہو جاتے ہیں ۔ اور دوپہر کو عرفات کے میدان میں پہنچ جاتے ہیں ۔ دوپہر سے عصر کے وقت تک حاجیوں کو وہیں رہنا پڑتا ہے ۔ اس قیام کو اصطلاح میں "وقوف "کہا جاتا ہے ۔اس میدان میں حاضری حج کا سب سے اہم کام ہے ۔ 
عرفات کے میدان میں قیام کا یہ سارا وقت توبہ و استغفار اور الله تعالی کی یاد میں گزارنا چاہئیے ۔ ۔ جب سورج غروب ہونے کے قریب ہو مزدلفہ ( مشعر حرام ) کے لئے کوچ ہونا چاہئیے ۔ 
عرفات کے دن ظہر اور عصر کی نماز ملا کر عرفات کی مسجد نمرہ میں ادا کی جاتی ہے ۔ اور مغرب اور عشاء کی نمازیں مزدلفہ واپس پہنچ کر عشاء کے وقت ادا کی جاتی ہیں ۔ 
اَلْمَشعَرِ الْحرام ( مشعر حرام ) ۔ مشعر کے لفظی معنی نشانی یا علامت کے ہیں ۔ اور احرام کا لفظ اس کی بزرگی کو ظاہر کرتا ہے ۔ یہ اس خاص مقام  کا نام ہے جو مزدلفہ کی دو پہاڑیوں کے درمیان ہے ۔ ویسے سارے مزدلفہ کو بھی مشعر الحرام ہی کہتے ہیں ۔ 
مزدلفہ مکہ سے تقریبا چھ میل کے فاصلہ پر ہے ۔ منٰی سے عرفات جانے کا ایک تو سیدھا راستہ ہے اور حاجی ۹ /کو عرفات اسی راستے سے جاتے ہیں ۔ لیکن عرفات سے واپسی کے لئے دوسرے راستے سے آنے کا حکم ہے ۔ اسی راستے میں مزدلفہ پڑتا ہے ۔ حاجیوں کے قافلے یہیں رات گزارتے ہیں ۔اور پہاڑی کے اوپر مسجد میں سارا وقت نماز ، عبادت اور توبہ استغفار میں بسر کرتے ہیں ۔ 
حج کے تمام اعمال میں سے فرض تین ہیں ۔ 
1) احرام باندھنا 
2) ذوالحج کی ۹ تاریخ کو عرفات میں حاضر ہونا ۔ جسے وقوف عرفات کہتے ہیں ۔ 
3) طواف 
 ان تینوں میں اہم ترین وقوف عرفات ہے ۔ 
اس آیت میں یہ بتایا گیا ہے کہ جب تم عرفات سے واپس لوٹو تو مزدلفہ میں قیام کر کے الله تعالی کو یاد کرو ۔
توبہ و استغفار کرو ۔ اور الله تعالی کی عبادت میں مصروف رہو ۔ 

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

تعوُّذ۔ ۔۔۔۔۔ اَعُوذُ بِالله مِنَ الشَّیطٰنِ الَّرجِیمِ

     اَعُوْذُ ۔                بِاللهِ  ۔ ُ     مِنَ ۔ الشَّیْطٰنِ ۔ الرَّجِیْمِ      میں پناہ مانگتا / مانگتی ہوں ۔  الله تعالٰی کی ۔ سے ۔ شیطان ۔ مردود       اَعُوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّیطٰنِ الَّجِیْمِ  میں الله تعالٰی کی پناہ مانگتا / مانگتی ہوں شیطان مردود سے اللہ تعالٰی کی مخلوقات میں سے ایک مخلوق وہ بھی ہے جسےشیطان کہتے ہیں ۔ وہ آگ سے پیدا کیا گیا ہے ۔ جب فرشتوں اور آدم علیہ السلام کا مقابلہ ہوا ۔ اور حضرت آدم علیہ السلام اس امتحان میں کامیاب ہو گئے ۔ تو الله تعالٰی نے فرشتوں کو حکم دیاکہ وہ سب کے سب آدم علیہ السلام کے آگے جھک جائیں ۔ چنانچہ اُن سب نے انہیں سجدہ کیا۔ مگر شیطان نے سجدہ کرنے سے انکار کر دیا ۔ اس لئے کہ اسکے اندر تکبّر کی بیماری تھی۔ جب اس سے جواب طلبی کی گئی تو اس نے کہا مجھے آگ سے پیدا کیا گیا ہے اور آدم کو مٹی سے اس لئے میں اس سے بہتر ہوں ۔ آگ مٹی کے آگے کیسے جھک سکتی ہے ؟ شیطان کو اسی تکبّر کی بنا پر ہمیشہ کے لئے مردود قرار دے دیا گیا اور قیامت ت...

سورۃ بقرہ تعارف ۔۔۔۔۔۔

🌼🌺. سورۃ البقرہ  🌺🌼 اس سورت کا نام سورۃ بقرہ ہے ۔ اور اسی نام سے حدیث مبارکہ میں اور آثار صحابہ میں اس کا ذکر موجود ہے ۔ بقرہ کے معنی گائے کے ہیں ۔ کیونکہ اس سورۃ میں گائے کا ایک واقعہ بھی  بیان کیا گیا ہے اس لئے اس کو سورۃ بقرہ کہتے ہیں ۔ سورۃ بقرہ قرآن مجید کی سب سے بڑی سورۃ ہے ۔ آیات کی تعداد 286 ہے ۔ اور کلمات  6221  ہیں ۔اور حروف  25500 ہیں  یہ سورۃ مبارکہ مدنی ہے ۔ یعنی ہجرتِ مدینہ طیبہ کے بعد نازل ہوئی ۔ مدینہ طیبہ میں نازل ہونی شروع ہوئی ۔ اور مختلف زمانوں میں مختلف آیات نازل ہوئیں ۔ یہاں تک کہ " ربا " یعنی سود کے متعلق جو آیات ہیں ۔ وہ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کی آخری عمر میں فتح مکہ کے بعد نازل ہوئیں ۔ اور اس کی ایک آیت  " وَ اتَّقُوْا یَوْماً تُرجَعُونَ فِیہِ اِلَی اللهِ "آیہ  281  تو قران مجید کی بالکل آخری آیت ہے جو 10 ہجری میں 10  ذی الحجہ کو منٰی کے مقام پر نازل ہوئی ۔ ۔ جبکہ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم حجۃ الوداع کے فرائض ادا کرنے میں مشغول تھے ۔ ۔ اور اس کے اسی نوّے دن بعد آپ صلی الله علیہ وسلم کا وصال ہوا ۔ اور وحی ا...

*بنی اسرائیل کی فضیلت*

يَا۔۔۔۔۔۔  بَنِي إِسْرَائِيلَ ۔۔۔۔۔۔        اذْكُرُوا    ۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔    نِعْمَتِيَ ۔۔۔۔۔۔۔۔  ۔ الَّتِي    اے  ۔ اولاد اسرائیل ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تم یاد کرو ۔۔۔۔۔۔۔ میری نعمتوں کو ۔۔۔۔ وہ جو  أَنْعَمْتُ    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ عَلَيْكُمْ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔   ۔ وَأَنِّي ۔۔۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔ فَضَّلْتُكُمْ        میں نے انعام کیں ۔ تم پر ۔ اور بے شک میں نے ۔۔۔۔۔۔۔فضیلت دی تم کو   عَلَى     ۔    الْعَالَمِينَ۔  4️⃣7️⃣ پر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔  تمام جہان  يَا بَنِي إِسْرَائِيلَ اذْكُرُوا نِعْمَتِيَ الَّتِي أَنْعَمْتُ عَلَيْكُمْ وَأَنِّي فَضَّلْتُكُمْ عَلَى الْعَالَمِينَ.   4️⃣7️⃣ اے بنی اسرائیل میرے وہ احسان یاد کرو  جو میں نے تم پر کئے اور یہ کہ میں نے تمہیں تمام عالم پر بڑائی دی ۔  فَضَّلْتُکُم۔ ( تمہیں بڑائی دی ) ۔ یہ لفظ فضل سے نکلا ہے ۔ جس کے معنی ہیں بڑائی ۔ تمام عالم پر فضیلت دینے کا مطلب یہ ہے کہ بنی اسرائیل تمام فِرقوں سے افضل رہے اور کوئی ان کا ہم پلہ نہ تھا...