نیکی کی اصل تقوٰی ہے

نيكى كى اصل تقوٰى هے 


فَمَن ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔    تَعَجَّلَ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔   فِي ۔۔۔  يَوْمَيْنِ ۔۔۔  فَلَا ۔۔۔ إِثْمَ 

پس جو کوئی ۔۔ جلدی کی اس نے ۔۔ میں ۔۔ دو دن ۔۔ پس نہیں ۔۔۔ گناہ 

عَلَيْهِ ۔۔۔۔۔۔۔۔      وَمَن ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔    تَأَخَّرَ ۔۔۔۔۔۔۔۔   فَلَا ۔۔۔ إِثْمَ ۔۔۔ عَلَيْهِ

اس پر ۔۔۔ اور جو کوئی ۔۔ دیر کی اس نے ۔۔۔ پس نہیں ۔۔ گناہ ۔۔ اس پر 

 لِمَنِ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔    اتَّقَى ۔۔۔ وَاتَّقُوا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔    اللَّهَ ۔۔۔۔۔۔۔  وَاعْلَمُوا 

اس کے لئے ۔۔۔ ڈرتا ہے ۔۔ اور تم ڈرتے رہو ۔۔ الله تعالی ۔۔ اور جان لو 

 أَنَّكُمْ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔   إِلَيْهِ ۔۔۔ تُحْشَرُونَ 2️⃣0️⃣3️⃣

بے شک تم ۔۔ اس کی طرف ۔۔۔ تم جمع ہو گے 


فَمَن تَعَجَّلَ فِي يَوْمَيْنِ فَلَا إِثْمَ عَلَيْهِ وَمَن تَأَخَّرَ فَلَا إِثْمَ عَلَيْهِ لِمَنِ اتَّقَى وَاتَّقُوا اللَّهَ 

وَاعْلَمُوا أَنَّكُمْ إِلَيْهِ تُحْشَرُونَ۔ 2️⃣0️⃣3️⃣


پھر جو کوئی دو ہی دن میں جلدی چلا گیا تو اس پر کوئی گناہ نہیں  اور جو کوئی رہ گیا تو اس پر کچھ گناہ نہیں جو کہ ڈرتا ہے  اور الله تعالی سے ڈرتے رہو اور جان لو بے شک تم اسی کے پاس جمع ہو گے ۔ 


جیسا کہ پچھلے سبق میں بیان کیا گیا ہے عبادت کے خاص تین دن ہیں جنہیں ایام تشریق کہتے ہیں ۔ یعنی ۱۰/۱۱/۱۲ذوالحجہ ۔ لیکن اگر کوئی شخص بارھویں تاریخ کے بعد بھی وہاں ٹہرتا ہے اور ذکرِ الٰہی کرتا ہے تو اس پر کوئی گناہ نہیں ۔ اور اگر کوئی شخص صرف دو ہی دن وہاں ٹہرنے کے بعد مکہ کو روانہ ہو جائے تو اس پر بھی کوئی گناہ نہیں ۔ 

اس آیت سے یہ بتانا مقصود ہے کہ اصل چیز تقوٰی ہے  (الله کا ڈر اور خوف ) یعنی ان چیزوں سے پرھیز کرنا ۔ جن سے الله تعالی نے منع کیا ہے ۔ اس کی حرام کی ہوئی چیزوں کے پاس بھی نہ پھٹکنا ۔ اس کی اطاعت میں کوئی عذر اور بہانہ نہ تلاش کرنا ۔ اس کی خوشنودی کو مقصد بنائے رکھنا ۔ اس کے احکام پر عمل کرنا اور دوسروں کو ترغیب دینا ۔ یوم حشر کو سامنے رکھنا ۔ موت کے بعد زندگی پر ایمان رکھنا اور اس کے لئے سامان کرنا ۔ 

شرعی احکام کی تعمیل میں کچھ بے قاعدگی کچھ مجبوریوں کی بنا پر ہو سکتی ہے ۔ لیکن یہ مجبوریاں صرف اسی شخص کی مانی جائیں گی ۔ جو نیک نیتی ، پاکدامنی اور پرھیزگاری کا پابند ہے ۔ کسی بغاوت اور سرکشی سے الله کے احکام کے خلاف عمل نہیں کرتا ہے ۔ ظاہر ہے کہ ایسا شخص الله تعالی کے حکموں کے ماننے میں ہرگز ہرگز بہانہ یا عذر تلاش نہیں کرے گا ۔ اصل چیز جس کا انسان میں پیدا کرنا درکار ہے وہ تقوٰی ہے ۔ اس کے ہوتے ہوئے اگر لاچاری یا مجبوری کی بنا پر کچھ کوتاہی ہو جائے تو معاف کی جاسکتی ہے ۔ 

قرآن مجید تقریبا ہر حکم کے ساتھ تقوٰی الٰہی کی تلقین کرتا ہے ۔ اس لئے کہ انسانی زندگی میں اس کی بہت اہمیت ہے ۔ الله تعالی کے احکام سے مقصود انسانی زندگی میں طہارت ، پاکیزگی اور عمدگی پیدا کرنا ہے ۔ لیکن اگر ان خصوصیتوں کے ہوتے کوئی شخص احکام بجا لانے سے کچھ مجبور ہو تو اس پر کوئی گناہ نہیں 

یہاں حج کا بیان ختم ہوتا ہے ۔۔۔۔ 

درس قرآن ۔۔۔ مرتبہ درس قرآن بورڈ 

کوئی تبصرے نہیں:

حالیہ اشاعتیں

مقوقس شاہ مصر کے نام نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کا خط

سیرت النبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم..قسط 202 2.. "مقوقس" _ شاہ ِ مصر کے نام خط.. نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک گرامی ...

پسندیدہ تحریریں