نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

محاسبہ اعمال

محاسبہ اعمال 


أُولَئِكَ ۔۔۔۔۔۔۔۔   لَهُمْ ۔۔۔ نَصِيبٌ ۔۔۔۔۔۔۔۔  مِّمَّا ۔۔۔ كَسَبُوا 

وہی لوگ ۔۔۔ ان کے لئے ۔۔۔ حصہ ۔۔ اس سے جو ۔۔ کمایا انہوں نے 

وَاللَّهُ ۔۔۔ سَرِيعُ ۔۔۔ الْحِسَابِ۔  2️⃣0️⃣2️⃣

اور الله تعالی ۔۔۔ جلد ۔۔۔ حساب 

أُولَئِكَ لَهُمْ نَصِيبٌ مِّمَّا كَسَبُوا وَاللَّهُ سَرِيعُ الْحِسَابِ.  2️⃣0️⃣2️⃣


انہی لوگوں کے لئے ان کی کمائی سے حصہ ہے اور الله جلد حساب لینے والا ہے ۔ 


قرآن مجید نے پچھلی دو آیتوں میں دو قسم کے لوگوں کا ذکر کیا ہے ۔ ایک وہ جو صرف دنیا کی زندگی میں ہی ہر قسم کی کامیابی چاہتے ہیں ۔ اپنے ہر عمل اور ہر عبادت سے ان کا مقصود صرف دنیا کمانا ہوتا ہے ۔ وہ نہ قیامت پر یقین رکھتے ہیں اور نہ دوسری زندگی کے نتائج پر ۔ اس لئے اپنی محنت اور کوشش کا پھل وہ اسی دنیا میں مانگتے ہیں ۔ ایسے لوگوں کو آخرت میں کوئی اجر نہیں ملے گا ۔ 

دوسرے وہ لوگ جو الله تعالی ، یوم قیامت اور دوسری زندگی سب پر ایمان رکھتے ہیں اپنی نیکیوں کے بدلے صرف دنیاوی جاہ و جلال ہی نہیں مانگتے بلکہ ایسے کام کرتے ہیں کہ ان کی دنیا اور عاقبت دونوں درست ہو جائیں ۔ دنیا کے علاوہ انہیں اُخروی زندگی میں بھی آرام ملے گا ۔ گویا وہ دونوں زندگیوں کو اپنی اپنی جگہ پر رکھتے ہیں ۔ آخرت بیچ کر دنیا نہیں کماتے اور نہ دنیا ترک کرکے آخرت کی تلاش کرتے ہیں ۔ بلکہ دنیا اور آخرت دونوں میں کامیابی چاہتے ہیں ۔ وہ دوزخ کی آگ سے بچنے کے آرزومند ہیں ۔ اور اس سے بچنے کے لئے ایسے کاموں میں نہیں الجھتے جو انہیں دوزخ میں ڈلوا دیں ۔ 

ان دوسری قسم کے لوگوں کا انجام آج کی آیت میں بیان کیا گیا ہے ۔ یعنی یہ کہ ان لوگوں کو ان کے نیک اعمال کے عوض آخرت میں نیک اجر ملے گا ۔ ان کی خواہش کے مطابق انہیں دوزخ سے دور رکھا جائے گا ۔ ان کی بھول چوک معاف کر دی جائے گی ۔ جنت میں رہنے کو جگہ دی جائے گی ۔ اور وہ دیکھ لیں گے کہ دنیا کی زندگی کے بعد ایک آخرت کی زندگی بھی ہے ۔ دنیا کا مال و متاع اس زندگی کے لطائف کے مقابلہ میں کچھ بھی نہیں ۔ دنیا کی آسائشیں ، عزت اور مرتبے سب عارضی اور ناپائیدار تھے ۔ اس کے مقابلہ میں جنت کی نعمتیں ابدی اور سکون بخش ہیں ۔ یہاں کا آرام اور چین ہمیشہ رہنے والا ہے ۔ 

سريع الحساب کہہ کر الله تعالی نے ان لوگوں کو تنبیہہ کی ہے جو آخرت پر ایمان نہیں رکھتے اور صرف دنیا مانگتے ہیں ۔ انہیں بتا دیا کہ الله تعالی بہت جلد حساب لینے والا ہے ۔ قیامت کچھ دور نہیں ۔ اس دن یہ لوگ دیکھ لیں گے کہ آخرت کو بھول کر دنیا میں ہی اپنے اعمال کا اجر مانگ کر وہ کتنے خسارے میں رہے ۔ 

دوسری طرف اس جملے سے الله تعالی نے ان لوگوں کو تسکین دی ہے جو آخرت پر ایمان رکھتے ہیں ۔ اور دنیا و آخرت دونوں کی کامیابی چاہتے ہیں ۔ انہیں بتا دیا کہ تمہیں بہت جلد تمہارے نیک کاموں کا پورا پورا اجر ملے گا ۔اس لئے تم اپنی اس روش پر مزید پختہ ہو جاؤ ۔

 الله سبحانہ و تعالی نے دنیا کو مقدم بیان کیا ہے اور آخرت کی دعا کا ذکر بعد میں کیا ہے ۔ یعنی اسلام دنیا کا مخالف نہیں ۔ بلکہ چاہتا ہے کہ دنیا کے کام آخرت کے تصور سے کئے جائیں ۔ 

درس قرآن ۔۔۔ مرتبہ درس قرآن بورڈ 

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

تعوُّذ۔ ۔۔۔۔۔ اَعُوذُ بِالله مِنَ الشَّیطٰنِ الَّرجِیمِ

     اَعُوْذُ ۔                بِاللهِ  ۔ ُ     مِنَ ۔ الشَّیْطٰنِ ۔ الرَّجِیْمِ      میں پناہ مانگتا / مانگتی ہوں ۔  الله تعالٰی کی ۔ سے ۔ شیطان ۔ مردود       اَعُوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّیطٰنِ الَّجِیْمِ  میں الله تعالٰی کی پناہ مانگتا / مانگتی ہوں شیطان مردود سے اللہ تعالٰی کی مخلوقات میں سے ایک مخلوق وہ بھی ہے جسےشیطان کہتے ہیں ۔ وہ آگ سے پیدا کیا گیا ہے ۔ جب فرشتوں اور آدم علیہ السلام کا مقابلہ ہوا ۔ اور حضرت آدم علیہ السلام اس امتحان میں کامیاب ہو گئے ۔ تو الله تعالٰی نے فرشتوں کو حکم دیاکہ وہ سب کے سب آدم علیہ السلام کے آگے جھک جائیں ۔ چنانچہ اُن سب نے انہیں سجدہ کیا۔ مگر شیطان نے سجدہ کرنے سے انکار کر دیا ۔ اس لئے کہ اسکے اندر تکبّر کی بیماری تھی۔ جب اس سے جواب طلبی کی گئی تو اس نے کہا مجھے آگ سے پیدا کیا گیا ہے اور آدم کو مٹی سے اس لئے میں اس سے بہتر ہوں ۔ آگ مٹی کے آگے کیسے جھک سکتی ہے ؟ شیطان کو اسی تکبّر کی بنا پر ہمیشہ کے لئے مردود قرار دے دیا گیا اور قیامت ت...

سورۃ بقرہ تعارف ۔۔۔۔۔۔

🌼🌺. سورۃ البقرہ  🌺🌼 اس سورت کا نام سورۃ بقرہ ہے ۔ اور اسی نام سے حدیث مبارکہ میں اور آثار صحابہ میں اس کا ذکر موجود ہے ۔ بقرہ کے معنی گائے کے ہیں ۔ کیونکہ اس سورۃ میں گائے کا ایک واقعہ بھی  بیان کیا گیا ہے اس لئے اس کو سورۃ بقرہ کہتے ہیں ۔ سورۃ بقرہ قرآن مجید کی سب سے بڑی سورۃ ہے ۔ آیات کی تعداد 286 ہے ۔ اور کلمات  6221  ہیں ۔اور حروف  25500 ہیں  یہ سورۃ مبارکہ مدنی ہے ۔ یعنی ہجرتِ مدینہ طیبہ کے بعد نازل ہوئی ۔ مدینہ طیبہ میں نازل ہونی شروع ہوئی ۔ اور مختلف زمانوں میں مختلف آیات نازل ہوئیں ۔ یہاں تک کہ " ربا " یعنی سود کے متعلق جو آیات ہیں ۔ وہ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کی آخری عمر میں فتح مکہ کے بعد نازل ہوئیں ۔ اور اس کی ایک آیت  " وَ اتَّقُوْا یَوْماً تُرجَعُونَ فِیہِ اِلَی اللهِ "آیہ  281  تو قران مجید کی بالکل آخری آیت ہے جو 10 ہجری میں 10  ذی الحجہ کو منٰی کے مقام پر نازل ہوئی ۔ ۔ جبکہ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم حجۃ الوداع کے فرائض ادا کرنے میں مشغول تھے ۔ ۔ اور اس کے اسی نوّے دن بعد آپ صلی الله علیہ وسلم کا وصال ہوا ۔ اور وحی ا...

*بنی اسرائیل کی فضیلت*

يَا۔۔۔۔۔۔  بَنِي إِسْرَائِيلَ ۔۔۔۔۔۔        اذْكُرُوا    ۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔    نِعْمَتِيَ ۔۔۔۔۔۔۔۔  ۔ الَّتِي    اے  ۔ اولاد اسرائیل ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تم یاد کرو ۔۔۔۔۔۔۔ میری نعمتوں کو ۔۔۔۔ وہ جو  أَنْعَمْتُ    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ عَلَيْكُمْ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔   ۔ وَأَنِّي ۔۔۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔ فَضَّلْتُكُمْ        میں نے انعام کیں ۔ تم پر ۔ اور بے شک میں نے ۔۔۔۔۔۔۔فضیلت دی تم کو   عَلَى     ۔    الْعَالَمِينَ۔  4️⃣7️⃣ پر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔  تمام جہان  يَا بَنِي إِسْرَائِيلَ اذْكُرُوا نِعْمَتِيَ الَّتِي أَنْعَمْتُ عَلَيْكُمْ وَأَنِّي فَضَّلْتُكُمْ عَلَى الْعَالَمِينَ.   4️⃣7️⃣ اے بنی اسرائیل میرے وہ احسان یاد کرو  جو میں نے تم پر کئے اور یہ کہ میں نے تمہیں تمام عالم پر بڑائی دی ۔  فَضَّلْتُکُم۔ ( تمہیں بڑائی دی ) ۔ یہ لفظ فضل سے نکلا ہے ۔ جس کے معنی ہیں بڑائی ۔ تمام عالم پر فضیلت دینے کا مطلب یہ ہے کہ بنی اسرائیل تمام فِرقوں سے افضل رہے اور کوئی ان کا ہم پلہ نہ تھا...