مساوات کا حکم

*مساوات کا حکم *


ثُمَّ۔۔۔ أَفِيضُوا ۔۔۔ مِنْ ۔۔۔حَيْثُ ۔۔۔أَفَاضَ ۔۔۔ النَّاسُ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔   وَاسْتَغْفِرُوا 

پھر ۔۔۔ پھرو ۔۔۔ سے ۔۔ جہاں ۔۔ پھریں ۔۔۔ لوگ ۔۔ اور تم مغفرت طلب کرو 

   اللَّهَ ۔۔۔إِنَّ ۔۔۔ اللَّهَ ۔۔۔ غَفُورٌ ۔۔۔۔ رَّحِيمٌ۔ 1️⃣9️⃣9️⃣

الله ۔۔ بےشک ۔۔ الله تعالی ۔۔۔ بخشنے والا۔۔ مہربان 


ثُمَّ أَفِيضُوا مِنْ حَيْثُ أَفَاضَ النَّاسُ وَاسْتَغْفِرُوا اللَّهَ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ.  1️⃣9️⃣9️⃣


پھر طواف کے لئے پھرو جہاں سے لوگ پھریں اور الله تعالی سے مغفرت چاہو بے شک الله تعالی بخشنے والا مہربان ہے ۔ 


اسلام سے پہلے جاہلیت کے زمانہ میں قریش بیت الله کے مجاور تھے ۔ اور اس بنا پر وہ اپنے آپ کو حمس کہتے تھے ۔ حج کے دنوں میں عام لوگ عرفات کے میدان میں جاکر قیام کرتے ۔ لیکن قریش مزدلفہ ہی تک رہتے ۔ کیونکہ مزدلفہ حرم کی حدود میں ہے ۔ اور عرفات اس سے باہر ۔ وہ خیال کرتے تھے کہ حرم کی حدود سے باہر جانا ان کی بزرگی اور عزت کے خلاف ہے ۔ اور وہاں جا کر ان کا عوام سے ملنا مذہبی فضیلت کے منافی ہے ۔ 

قرآن مجید نے اس غلط خیال کی تردید کی ۔ یہاں الله تعالی نے ان دو بڑی غلطیوں کو درو کیا جن میں دنیا ہمیشہ سے مبتلا رہی ۔ اور آج بھی بہت سے لوگ اتنی ترقی کے بعد بھی ان میں مبتلا ہیں ۔ 


اوّل یہ کہ قومی امتیاز اور نسلی برتری کوئی چیز نہیں ۔ الله سبحانہ و تعالی کی نظر میں سب یکساں اور برابر ہیں ۔ اس کے ہاں اگر کسی چیز کی قدر ہے تو وہ تقوٰی اور پرھیزگاری ہے ۔ اس لئے مساوات کا ہونا ضروری ہے ۔ اور یہ اسی وقت ممکن ہے جب تمام قومی اور نسلی امتیازات مٹا دئیے جائیں ۔ اور ہر رنگ و نسل کے انسانوں کو ایک جیسا سمجھا جائے ۔ 

دوسرے یہ کہ قوموں کی تباہی اور بربادی اس وقت شروع ہوجاتی ہے ۔ جب تعلیم یافتہ اونچے طبقے کے لوگ اور عوام میں تعلق باقی نہ رہے ۔ وہ ایک دوسرے سے ملنا چھوڑ دیں ۔ حالانکہ پڑھے لکھے لوگوں کو اپنی امداد کے لئے قوت وتوانائی کی ضرورت ہوتی ہے ۔ لیکن جب وہ عام لوگوں سے اپنا تعلق توڑ لیں گے ۔ ان سے میل جول بند کر دیں گے تو رفتہ رفتہ وہ خود تباہ ہو جائیں گے ۔ 

اس کے ساتھ یہ بات بھی نہ بھولنی چاہئیے کہ عوام کو ہر وقت راہنمائی اور اصلاح کرنے والوں کی ضرورت رہتی ہے ۔جب انہیں سیدھی راہ بتانے والا کوئی نہ ملے گا تو وہ گمراہی کی طرف بڑھتے جائیں گے ۔ حتی کہ ان میں اور حیوانوں میں کوئی فرق نہ رہے گا ۔ 

اس آیت میں الله تعالی نے فرمایا کہ سب ایک ہی جگہ قیام کریں گے ۔ اور ایک ہی جگہ سے ان کی واپسی ہو گی ۔ گویا کسی میں کوئی امتیاز اور فرق نہیں کیا جائے گا ۔ اس کے ساتھ ہی الله تعالی نے فرمایا ۔ کہ اپنے گناہوں کی معافی مانگو ۔ توبہ استغفار کرو الله تعالی سے بخشش چاہو آئندہ غلط حرکات سے باز رہنے کا وعدہ کرو ۔ الله تعالی تمہارے گناہ بخش دے گا ۔ تمہاری خطائیں معاف فرمائے گا ۔ وہ بہت بخشش والا رحمت والا ہے ۔ 

درس قرآن مرتبہ۔۔۔ درس قرآن بورڈ 

کوئی تبصرے نہیں:

حالیہ اشاعتیں

مقوقس شاہ مصر کے نام نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کا خط

سیرت النبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم..قسط 202 2.. "مقوقس" _ شاہ ِ مصر کے نام خط.. نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک گرامی ...

پسندیدہ تحریریں