نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

دنیا کے طلبگار

دنیا کے طلبگار


فَمِنَ ۔۔۔ النَّاسِ ۔۔۔ مَن ۔۔۔۔۔۔۔۔ يَقُولُ ۔۔۔۔۔۔۔۔ رَبَّنَا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔  آتِنَا 

پھر جو ۔۔۔ لوگ ۔۔ سے ۔۔۔ وہ کہتا ہے ۔۔۔ ہمارے رب ۔۔۔ ہمیں دے 

فِي ۔۔۔ الدُّنْيَا ۔۔۔ وَمَا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ لَهُ 

میں ۔۔۔ دنیا ۔۔۔ اور نہیں ۔۔۔ اس کے لئے 

فِي ۔۔۔ الْآخِرَةِ ۔۔۔ مِنْ ۔۔۔ خَلَاقٍ 2️⃣0️⃣0️⃣

 میں ۔۔۔ آخرت ۔۔۔ سے ۔۔۔ حصہ 


فَمِنَ النَّاسِ مَن يَقُولُ رَبَّنَا آتِنَا فِي الدُّنْيَا وَمَا لَهُ فِي الْآخِرَةِ مِنْ خَلَاقٍ. 2️⃣0️⃣0️⃣


پھر لوگوں میں سے جو کہتا ہے اے ہمارے رب ہمیں دنیا میں دے اور اس کے لئے آخرت میں کچھ حصہ نہیں ۔ 


دنیا میں بعض انسان ایسے بھی پائے جاتے ہیں جن پر دنیا کی ہوس اس قدر غالب ہے کہ وہ اسے ہی اپنا انتہائی مقصد سمجھ بیٹھے ہیں ۔ ان کے نزدیک سب سے بڑی کامیابی اور فتح یہی ہے کہ زیادہ سے زیادہ مادی فائدے حاصل کریں ۔ مال و زر کے ڈھیر لگائیں ۔ دولت وثروت اکٹھی کر لیں ۔ اس کی جستجو میں وہ اندھے ہوئے جاتے ہیں ۔ دنیا کہ یہ طلبگار حرص و لالچ کے چکر میں پھنس کر اپنی عاقبت اور حسنِ انجام کو بھی اس دوڑ دھوپ میں قربان کر دیتے ہیں ۔ 

اس مرض میں وہ لوگ مبتلا ہوتے ہیں جو اخلاق میں پست ۔ معاملات میں کھوٹے ۔ برتاؤ میں خود غرض ۔ آخرت کے انکاری اور عارضی فائدوں کے دیوانے ہوں ۔ ان کی نگاہ ہمیشہ قریبی نفع پر ہی رہتی ہے ۔ یہ لوگ دیر پا نتائج کو نظر انداز کر دیتے ہیں ۔ ہر کام میں وہ اسی چیز کے متمنی رہتے ہیں ۔ جس کا جلدی سے انہیں پھل مل جائے ۔ صبر اور تحمل کی ان میں طاقت نہیں ہوتی غرض اس دوڑ دھوپ اور کوشش میں وہ اس قدر مگن ہو جاتے ہیں کہ اگر عبادت کریں اور الله تعالی سے دعا بھی مانگیں یا کوئی نیک کام بھی کریں تو اس میں بھی ان کا مقصد صرف دنیاوی فائدے حاصل کرنا ہوتا ہے ۔ 

وہ الله تعالی کو محض اس لئے پکارتے ہیں کہ وہ ان کے پاس روپے پیسے کے ڈھیر لگا دے ۔ ان کی مادی ضروریات پوری کر دے ۔ جہاد میں صرف اس لئے حصہ لیتے ہیں کہ مال غنیمت ہاتھ آ جائے ۔ حج صرف اس لئے کرتے ہیں کہ تجارتی فائدے سمیٹ لیں ۔ نماز اور زکوۃ اس لئے ادا کرتے ہیں کہ لوگوں کا اعتماد جیت لیں ۔اور اس سے ناجائز فائدہ اٹھائیں ۔ ان لوگوں کے نزدیک جنت اور آخرت کی نعمتیں کوئی چیز نہیں ۔ وہ قیامت کو ایک بے کار عقیدہ سمجھتے ہیں۔ مرنے کے بعد کی یقینی زندگی ان کے خیال میں ایک انہونی سی بات ہے ۔ زندگی کے اعمال کا بدلہ وہ نہیں مانتے ۔ ان کے نزدیک زندگی بس دنیا کی ہی ہے اور کامیابی صرف دنیاوی ہی ہے ۔ 

یہ لوگ کھلی گمراہی میں مبتلا ہیں ۔ منافقانہ اور کافرانہ روش اختیار کئے ہوئے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ دنیا ہماری مسلسل زندگی کا ایک مختصر سا حصہ ہے ۔ باقی اور ہمیشہ رہنے والی زندگی ہمیں موت کے بعد ہی نصیب ہو گی ۔ وہ ہمارے ان اعمال کا پھل ہو گی جو ہم اس دنیا میں کریں گے ۔ آخرت کی زندگی ابدی ، قائم و دائم اور ختم نہ ہونے والی زندگی ہے ۔ اس کا آرام اور کامیابی اصل کامیابی ہے ۔ چاہئیے تو یہ کہ اپنی زندگی کو اس طرح استوار کریں  کہ یہ ہماری آنے والی زندگی کے لئے کامیابی کا زینہ بنے ۔

درس قرآن ۔۔۔ مرتبہ درس قرآن بورڈ 


تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

تعوُّذ۔ ۔۔۔۔۔ اَعُوذُ بِالله مِنَ الشَّیطٰنِ الَّرجِیمِ

     اَعُوْذُ ۔                بِاللهِ  ۔ ُ     مِنَ ۔ الشَّیْطٰنِ ۔ الرَّجِیْمِ      میں پناہ مانگتا / مانگتی ہوں ۔  الله تعالٰی کی ۔ سے ۔ شیطان ۔ مردود       اَعُوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّیطٰنِ الَّجِیْمِ  میں الله تعالٰی کی پناہ مانگتا / مانگتی ہوں شیطان مردود سے اللہ تعالٰی کی مخلوقات میں سے ایک مخلوق وہ بھی ہے جسےشیطان کہتے ہیں ۔ وہ آگ سے پیدا کیا گیا ہے ۔ جب فرشتوں اور آدم علیہ السلام کا مقابلہ ہوا ۔ اور حضرت آدم علیہ السلام اس امتحان میں کامیاب ہو گئے ۔ تو الله تعالٰی نے فرشتوں کو حکم دیاکہ وہ سب کے سب آدم علیہ السلام کے آگے جھک جائیں ۔ چنانچہ اُن سب نے انہیں سجدہ کیا۔ مگر شیطان نے سجدہ کرنے سے انکار کر دیا ۔ اس لئے کہ اسکے اندر تکبّر کی بیماری تھی۔ جب اس سے جواب طلبی کی گئی تو اس نے کہا مجھے آگ سے پیدا کیا گیا ہے اور آدم کو مٹی سے اس لئے میں اس سے بہتر ہوں ۔ آگ مٹی کے آگے کیسے جھک سکتی ہے ؟ شیطان کو اسی تکبّر کی بنا پر ہمیشہ کے لئے مردود قرار دے دیا گیا اور قیامت ت...

سورۃ بقرہ تعارف ۔۔۔۔۔۔

🌼🌺. سورۃ البقرہ  🌺🌼 اس سورت کا نام سورۃ بقرہ ہے ۔ اور اسی نام سے حدیث مبارکہ میں اور آثار صحابہ میں اس کا ذکر موجود ہے ۔ بقرہ کے معنی گائے کے ہیں ۔ کیونکہ اس سورۃ میں گائے کا ایک واقعہ بھی  بیان کیا گیا ہے اس لئے اس کو سورۃ بقرہ کہتے ہیں ۔ سورۃ بقرہ قرآن مجید کی سب سے بڑی سورۃ ہے ۔ آیات کی تعداد 286 ہے ۔ اور کلمات  6221  ہیں ۔اور حروف  25500 ہیں  یہ سورۃ مبارکہ مدنی ہے ۔ یعنی ہجرتِ مدینہ طیبہ کے بعد نازل ہوئی ۔ مدینہ طیبہ میں نازل ہونی شروع ہوئی ۔ اور مختلف زمانوں میں مختلف آیات نازل ہوئیں ۔ یہاں تک کہ " ربا " یعنی سود کے متعلق جو آیات ہیں ۔ وہ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کی آخری عمر میں فتح مکہ کے بعد نازل ہوئیں ۔ اور اس کی ایک آیت  " وَ اتَّقُوْا یَوْماً تُرجَعُونَ فِیہِ اِلَی اللهِ "آیہ  281  تو قران مجید کی بالکل آخری آیت ہے جو 10 ہجری میں 10  ذی الحجہ کو منٰی کے مقام پر نازل ہوئی ۔ ۔ جبکہ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم حجۃ الوداع کے فرائض ادا کرنے میں مشغول تھے ۔ ۔ اور اس کے اسی نوّے دن بعد آپ صلی الله علیہ وسلم کا وصال ہوا ۔ اور وحی ا...

*بنی اسرائیل کی فضیلت*

يَا۔۔۔۔۔۔  بَنِي إِسْرَائِيلَ ۔۔۔۔۔۔        اذْكُرُوا    ۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔    نِعْمَتِيَ ۔۔۔۔۔۔۔۔  ۔ الَّتِي    اے  ۔ اولاد اسرائیل ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تم یاد کرو ۔۔۔۔۔۔۔ میری نعمتوں کو ۔۔۔۔ وہ جو  أَنْعَمْتُ    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ عَلَيْكُمْ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔   ۔ وَأَنِّي ۔۔۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔ فَضَّلْتُكُمْ        میں نے انعام کیں ۔ تم پر ۔ اور بے شک میں نے ۔۔۔۔۔۔۔فضیلت دی تم کو   عَلَى     ۔    الْعَالَمِينَ۔  4️⃣7️⃣ پر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔  تمام جہان  يَا بَنِي إِسْرَائِيلَ اذْكُرُوا نِعْمَتِيَ الَّتِي أَنْعَمْتُ عَلَيْكُمْ وَأَنِّي فَضَّلْتُكُمْ عَلَى الْعَالَمِينَ.   4️⃣7️⃣ اے بنی اسرائیل میرے وہ احسان یاد کرو  جو میں نے تم پر کئے اور یہ کہ میں نے تمہیں تمام عالم پر بڑائی دی ۔  فَضَّلْتُکُم۔ ( تمہیں بڑائی دی ) ۔ یہ لفظ فضل سے نکلا ہے ۔ جس کے معنی ہیں بڑائی ۔ تمام عالم پر فضیلت دینے کا مطلب یہ ہے کہ بنی اسرائیل تمام فِرقوں سے افضل رہے اور کوئی ان کا ہم پلہ نہ تھا...