نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

دنیاوی فائدے

دنیاوی فائدے


لَيْسَ ۔۔۔ عَلَيْكُمْ ۔۔۔ جُنَاحٌ ۔۔۔ أَن ۔۔۔ تَبْتَغُوا ۔۔۔ فَضْلًا ۔۔۔۔۔۔۔۔  مِّن ۔۔۔۔۔۔ رَّبِّكُمْ

نہیں ۔۔۔ تم پر ۔۔۔ گناہ ۔۔۔  کہ ۔۔۔ تم تلاش کرو ۔۔۔ فضل ۔۔ سے ۔۔۔ تمہارا رب 


لَيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ أَن تَبْتَغُوا فَضْلًا مِّن رَّبِّكُمْ


تم پر کچھ گناہ نہیں کہ اپنے رب کا فضل تلاش کرو 


فَضْلاً (فضل ) فضل کے لفظی معنی زیادہ کے ہیں ۔ یہاں فضل سے مراد مال و دولت اور تجارت کے منافع ہیں۔ ان معنوں میں یہ لفظ متعدد جگہ قرآن مجید میں استعمال ہوا ہے ۔

ایک صحابی حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ زمانۂ جہالت میں عکاظ ، مجنہ  اور ذو المجاز بڑی بھاری منڈیاں تھیں ۔ حج کے دنوں میں یہاں خوب تجارت ہوا کرتی تھی ۔اسلام قبول کر لینے کے بعد لوگوں نے اسے مناسب خیال نہ کیا ۔ کہ حج کے دنوں میں تجارت کی جائے ۔ ان کا یہ خیال تھا کہ جو تاجر مالِ تجارت لے کر منٰی اور مکہ کے بازاروں کے لئے جاتے ہیں۔ یا جو اونٹ والے اپنے اونٹ بیچنے کے لئے مزدلفہ ، عرفات و منٰی لے جاتے ہیں ۔ ان کا حج نہیں ہوتا ۔ کیونکہ  جہاں  تجارت آگئی وہاں عبادت کہاں باقی رہی ۔ 

الله تعالی نے اس غلط فہمی کو دور کرنے کے لئے یہ آیت نازل فرمائی ۔ اور قیامت تک کے لئے یہ بات واضح کردی کہ اسلام مال و زر اور دنیا کے خلاف نہیں ۔ بلکہ ان کاموں کے خلاف ہے جو انسان کو دنیا و عقبٰی کے خیال سے غافل کر دیں ۔ 

اسلام جس طرح آخرت کی فلاح و کامیابی کا ضامن ہے ۔ اسی طرح لوگوں کی دنیاوی فلاح و بہبود کا بھی خواہش مند ہے ۔ اور یہ خصوصیت اس کی ہر عبادت میں موجود ہے ۔ حتی کہ وضو ، نماز ، نماز باجماعت ، روزہ ، زکوة اور حج وغیرہ کے ارکان انسان کی روحانی قوت کو بڑھانے کے ساتھ ساتھ اس کے دنیاوی ، مادی ، جسمانی ، معاشی اور سیاسی فہم و بہبود کو بڑھاتے ہیں ۔ 

حج کے سلسلہ میں دور دراز سےآنے والے مسلمان خشکی اور بحری سفر اختیار کرتے ہیں ۔ دنیا کے مختلف حصوں سے ملّتِ اسلامیہ کے لوگ جمع ہوتے ہیں ۔ اس موقع پر بے شمار تجارتی اور معاشی فائدے حاصل ہو سکتے ہیں ۔ان باتوں کے پیش نظر قرآن مجید نے یہ اجازت دے دی کہ حج کرنے والے اصلی مقصد حج کو قرار دیں ۔ اور اس کے ساتھ اگر تجارت بھی کرلیں تو کوئی گناہ کی بات نہیں ، البتہ یہ ضروری ہے کہ تجارت غرض ہی نہ بن جائے ، اصل مقصد حج ہی رہے ۔ 

مِنْ رّبّكُمْ  کا جملہ فرما کر یہ بھی بتا دیا کہ جو رزق یا فائدے تمہیں حاصل ہوتے ہیں ۔ یہ تمہاری اپنی ذاتی کوشش یا محنت کا نتیجہ نہیں ۔ یہ صرف الله تعالی کا فضل ہے ۔ وہ اپنی رحمت سے تمہیں دیتا ہے ۔ اس لئے تجارت اور کاروبار کرتے وقت بھی اس بات کی طرف نظر رکھو کہ جو منافع تمہیں ملے گا وہ الله تعالی کی طرف سے ہے ۔ 

ہر وہ کام جو انسان الله تعالی کے احکام کے مطابق انجام دیتا ہے اور اس کے کسی حکم کی خلاف ورزی نہیں کرتا اسلام ایسے کام کو داخل عبادت قرار دیتا ہے اور دین کے منافی نہیں کہتا ۔ اسلام  جس چیز سے روکتا ہے وہ ذخیرہ اندوزی ، قیمتیں بڑھانا ، حرام کی تجارت کرنا  اور ناجائز کاروبار ہیں ۔ 

درس قرآن ۔۔۔ مرتبہ درس قرآن بورڈ 

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

تعوُّذ۔ ۔۔۔۔۔ اَعُوذُ بِالله مِنَ الشَّیطٰنِ الَّرجِیمِ

     اَعُوْذُ ۔                بِاللهِ  ۔ ُ     مِنَ ۔ الشَّیْطٰنِ ۔ الرَّجِیْمِ      میں پناہ مانگتا / مانگتی ہوں ۔  الله تعالٰی کی ۔ سے ۔ شیطان ۔ مردود       اَعُوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّیطٰنِ الَّجِیْمِ  میں الله تعالٰی کی پناہ مانگتا / مانگتی ہوں شیطان مردود سے اللہ تعالٰی کی مخلوقات میں سے ایک مخلوق وہ بھی ہے جسےشیطان کہتے ہیں ۔ وہ آگ سے پیدا کیا گیا ہے ۔ جب فرشتوں اور آدم علیہ السلام کا مقابلہ ہوا ۔ اور حضرت آدم علیہ السلام اس امتحان میں کامیاب ہو گئے ۔ تو الله تعالٰی نے فرشتوں کو حکم دیاکہ وہ سب کے سب آدم علیہ السلام کے آگے جھک جائیں ۔ چنانچہ اُن سب نے انہیں سجدہ کیا۔ مگر شیطان نے سجدہ کرنے سے انکار کر دیا ۔ اس لئے کہ اسکے اندر تکبّر کی بیماری تھی۔ جب اس سے جواب طلبی کی گئی تو اس نے کہا مجھے آگ سے پیدا کیا گیا ہے اور آدم کو مٹی سے اس لئے میں اس سے بہتر ہوں ۔ آگ مٹی کے آگے کیسے جھک سکتی ہے ؟ شیطان کو اسی تکبّر کی بنا پر ہمیشہ کے لئے مردود قرار دے دیا گیا اور قیامت ت...

سورۃ بقرہ تعارف ۔۔۔۔۔۔

🌼🌺. سورۃ البقرہ  🌺🌼 اس سورت کا نام سورۃ بقرہ ہے ۔ اور اسی نام سے حدیث مبارکہ میں اور آثار صحابہ میں اس کا ذکر موجود ہے ۔ بقرہ کے معنی گائے کے ہیں ۔ کیونکہ اس سورۃ میں گائے کا ایک واقعہ بھی  بیان کیا گیا ہے اس لئے اس کو سورۃ بقرہ کہتے ہیں ۔ سورۃ بقرہ قرآن مجید کی سب سے بڑی سورۃ ہے ۔ آیات کی تعداد 286 ہے ۔ اور کلمات  6221  ہیں ۔اور حروف  25500 ہیں  یہ سورۃ مبارکہ مدنی ہے ۔ یعنی ہجرتِ مدینہ طیبہ کے بعد نازل ہوئی ۔ مدینہ طیبہ میں نازل ہونی شروع ہوئی ۔ اور مختلف زمانوں میں مختلف آیات نازل ہوئیں ۔ یہاں تک کہ " ربا " یعنی سود کے متعلق جو آیات ہیں ۔ وہ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کی آخری عمر میں فتح مکہ کے بعد نازل ہوئیں ۔ اور اس کی ایک آیت  " وَ اتَّقُوْا یَوْماً تُرجَعُونَ فِیہِ اِلَی اللهِ "آیہ  281  تو قران مجید کی بالکل آخری آیت ہے جو 10 ہجری میں 10  ذی الحجہ کو منٰی کے مقام پر نازل ہوئی ۔ ۔ جبکہ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم حجۃ الوداع کے فرائض ادا کرنے میں مشغول تھے ۔ ۔ اور اس کے اسی نوّے دن بعد آپ صلی الله علیہ وسلم کا وصال ہوا ۔ اور وحی ا...

*بنی اسرائیل کی فضیلت*

يَا۔۔۔۔۔۔  بَنِي إِسْرَائِيلَ ۔۔۔۔۔۔        اذْكُرُوا    ۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔    نِعْمَتِيَ ۔۔۔۔۔۔۔۔  ۔ الَّتِي    اے  ۔ اولاد اسرائیل ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تم یاد کرو ۔۔۔۔۔۔۔ میری نعمتوں کو ۔۔۔۔ وہ جو  أَنْعَمْتُ    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ عَلَيْكُمْ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔   ۔ وَأَنِّي ۔۔۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔ فَضَّلْتُكُمْ        میں نے انعام کیں ۔ تم پر ۔ اور بے شک میں نے ۔۔۔۔۔۔۔فضیلت دی تم کو   عَلَى     ۔    الْعَالَمِينَ۔  4️⃣7️⃣ پر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔  تمام جہان  يَا بَنِي إِسْرَائِيلَ اذْكُرُوا نِعْمَتِيَ الَّتِي أَنْعَمْتُ عَلَيْكُمْ وَأَنِّي فَضَّلْتُكُمْ عَلَى الْعَالَمِينَ.   4️⃣7️⃣ اے بنی اسرائیل میرے وہ احسان یاد کرو  جو میں نے تم پر کئے اور یہ کہ میں نے تمہیں تمام عالم پر بڑائی دی ۔  فَضَّلْتُکُم۔ ( تمہیں بڑائی دی ) ۔ یہ لفظ فضل سے نکلا ہے ۔ جس کے معنی ہیں بڑائی ۔ تمام عالم پر فضیلت دینے کا مطلب یہ ہے کہ بنی اسرائیل تمام فِرقوں سے افضل رہے اور کوئی ان کا ہم پلہ نہ تھا...