نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

ذکر و عبادت

ذکر و عبادت 


وَاذْكُرُوهُ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔    كَمَا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔    هَدَاكُمْ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔    وَإِن 

اور اسے یاد کرو ۔۔ جس طرح ۔۔۔ سکھایا اس نے تم کو ۔۔۔ اور بے شک

كُنتُم ۔۔۔ مِّن ۔۔۔ قَبْلِهِ ۔۔۔۔  لَمِنَ ۔۔۔ الضَّالِّينَ  1️⃣9️⃣8️⃣

 تھے تم ۔۔ اس سے پہلے ۔۔۔ سے ۔۔ ناواقف 


وَاذْكُرُوهُ كَمَا هَدَاكُمْ وَإِن كُنتُم مِّن قَبْلِهِ لَمِنَ الضَّالِّينَ   1️⃣9️⃣8️⃣

اور اسے ( اس طرح ) یاد کرو جس طرح اس نے تمہیں سکھایا اور بے شک اس سے پہلے تم نا وا قف تھے ۔


اَلضّالين (ناواقف)  یہ ضال کی جمع ہے ۔ اس کے عام معنی گمراہ کے ہیں ، لیکن یہ لفظ غافل اور نا واقف کے معنوں میں بھی استعمال ہوتا ہے ۔ یہاں " ضالّ " سے مراد الله تعالی کے احکام سے نا واقفیت ہے ۔ 

ذکر کے معنی یاد کرنے کے ہیں ۔ ذاکر یاد کرنے والے کو کہتے ہیں۔ یہاں ذکر سے مراد عبادت الہی ہے ۔ 

اس آیت میں بتایا گیا ہے کہ الله تعالی کی عبادت اور یاد ان طریقوں سے کرو جو تمہیں الله تعالی کے رسول صلی الله علیہ وسلم نے بتائے ہیں ۔ ان طریقوں کو چھوڑ کر اپنی طرف سے عبادت کے طریقے گھڑ لینا اور نئی صورتیں قائم کر لینا سخت گناہ ہے ۔ 

دنیا اور دنیا والوں کو گمراہ کرنے کے لئے شیطان کا سب سے بڑا حملہ یہی رہا ہے کہ انہیں حقیقی راہ سے ہٹا کر من گھڑت طریقوں میں الجھا دیتا ہے ۔ جاہلیت کے زمانے میں بھی لوگ بے شمار رسموں اور غلط عقیدوں میں مبتلا تھے  ۔وہ یہ سمجھتے تھے کہ ان کے اپنے بنائے ہوئے مخصوص طریقے الله تعالی کے قُرب کا باعث ہو سکتے ہیں ۔ لیکن قرآن مجید کی اس آیت نے پوری طرح ان گمراہیوں اور غلط فہمیوں کی تردید کر دی ۔

قرآن مجید میں لفظ " الضالّین  استعمال کرکے یہ بھی واضح کردیا ۔ کہ جب تک انسان الله تعالی کی دی ہوئی روشنی سے کام نہ لے ۔ اس کی بھیجی ہوئی وحی کو مشعلِ راہ نہ بنائے ۔ اور اس کی نازل کی ہوئی تعلیم کو بنیادِ عمل نہ ٹھرائے وہ نا واقف اور بھٹکتا ہی رہے گا ۔ وہ اپنی طرف سے کتنا ہی زور لگا کر کوئی راستہ تلاش کرے اور کیسے ہی پرستش کے طور  طریقے ایجاد کرلے  ، پوجا کی صورتیں سوچ لے لیکن یہ سب باتیں گمراہی کی طرف لے جائیں گی ۔ اصل طریقہ وہی ہے جو الله تعالی بتاتا ہے ۔ 

اس لئے اپنی اور اپنے جیسے انسانوں کی خود ساختہ ہر تدبیر ناقص ہو گی ۔ اور اس پر چلنا گمراہی کا سبب ہو گا ۔ 

منزلِ مقصود پر پہنچنے کے لئے صحیح ترین راہنما قرآن مجید ہے ۔ اس میں بیان کی ہوئی باتیں  اس ہستی کی بتائی ہوئی ہیں ۔ جو دانا و بینا ، حاضر و ناظر ، حلیم و حکیم اور خالق و مالک ہے ۔ وہ ہماری ضروریات کو اچھی طرح جانتا ہے ۔ اس لئے   اپنے وسیع علم سے کام لے کر ایسی راہ بتاتا ہے جو آسان اور سیدھی ہو ۔ 

ہمیں چاہئیے کہ صرف اسی راہ کو معتبر مانیں ۔ اور انسانوں کے گھڑے ہوئے تمام خود ساختہ طریقوں کو چھوڑ دیں ۔ 


تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

تعوُّذ۔ ۔۔۔۔۔ اَعُوذُ بِالله مِنَ الشَّیطٰنِ الَّرجِیمِ

     اَعُوْذُ ۔                بِاللهِ  ۔ ُ     مِنَ ۔ الشَّیْطٰنِ ۔ الرَّجِیْمِ      میں پناہ مانگتا / مانگتی ہوں ۔  الله تعالٰی کی ۔ سے ۔ شیطان ۔ مردود       اَعُوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّیطٰنِ الَّجِیْمِ  میں الله تعالٰی کی پناہ مانگتا / مانگتی ہوں شیطان مردود سے اللہ تعالٰی کی مخلوقات میں سے ایک مخلوق وہ بھی ہے جسےشیطان کہتے ہیں ۔ وہ آگ سے پیدا کیا گیا ہے ۔ جب فرشتوں اور آدم علیہ السلام کا مقابلہ ہوا ۔ اور حضرت آدم علیہ السلام اس امتحان میں کامیاب ہو گئے ۔ تو الله تعالٰی نے فرشتوں کو حکم دیاکہ وہ سب کے سب آدم علیہ السلام کے آگے جھک جائیں ۔ چنانچہ اُن سب نے انہیں سجدہ کیا۔ مگر شیطان نے سجدہ کرنے سے انکار کر دیا ۔ اس لئے کہ اسکے اندر تکبّر کی بیماری تھی۔ جب اس سے جواب طلبی کی گئی تو اس نے کہا مجھے آگ سے پیدا کیا گیا ہے اور آدم کو مٹی سے اس لئے میں اس سے بہتر ہوں ۔ آگ مٹی کے آگے کیسے جھک سکتی ہے ؟ شیطان کو اسی تکبّر کی بنا پر ہمیشہ کے لئے مردود قرار دے دیا گیا اور قیامت ت...

سورۃ بقرہ تعارف ۔۔۔۔۔۔

🌼🌺. سورۃ البقرہ  🌺🌼 اس سورت کا نام سورۃ بقرہ ہے ۔ اور اسی نام سے حدیث مبارکہ میں اور آثار صحابہ میں اس کا ذکر موجود ہے ۔ بقرہ کے معنی گائے کے ہیں ۔ کیونکہ اس سورۃ میں گائے کا ایک واقعہ بھی  بیان کیا گیا ہے اس لئے اس کو سورۃ بقرہ کہتے ہیں ۔ سورۃ بقرہ قرآن مجید کی سب سے بڑی سورۃ ہے ۔ آیات کی تعداد 286 ہے ۔ اور کلمات  6221  ہیں ۔اور حروف  25500 ہیں  یہ سورۃ مبارکہ مدنی ہے ۔ یعنی ہجرتِ مدینہ طیبہ کے بعد نازل ہوئی ۔ مدینہ طیبہ میں نازل ہونی شروع ہوئی ۔ اور مختلف زمانوں میں مختلف آیات نازل ہوئیں ۔ یہاں تک کہ " ربا " یعنی سود کے متعلق جو آیات ہیں ۔ وہ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کی آخری عمر میں فتح مکہ کے بعد نازل ہوئیں ۔ اور اس کی ایک آیت  " وَ اتَّقُوْا یَوْماً تُرجَعُونَ فِیہِ اِلَی اللهِ "آیہ  281  تو قران مجید کی بالکل آخری آیت ہے جو 10 ہجری میں 10  ذی الحجہ کو منٰی کے مقام پر نازل ہوئی ۔ ۔ جبکہ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم حجۃ الوداع کے فرائض ادا کرنے میں مشغول تھے ۔ ۔ اور اس کے اسی نوّے دن بعد آپ صلی الله علیہ وسلم کا وصال ہوا ۔ اور وحی ا...

*بنی اسرائیل کی فضیلت*

يَا۔۔۔۔۔۔  بَنِي إِسْرَائِيلَ ۔۔۔۔۔۔        اذْكُرُوا    ۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔    نِعْمَتِيَ ۔۔۔۔۔۔۔۔  ۔ الَّتِي    اے  ۔ اولاد اسرائیل ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تم یاد کرو ۔۔۔۔۔۔۔ میری نعمتوں کو ۔۔۔۔ وہ جو  أَنْعَمْتُ    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ عَلَيْكُمْ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔   ۔ وَأَنِّي ۔۔۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔ فَضَّلْتُكُمْ        میں نے انعام کیں ۔ تم پر ۔ اور بے شک میں نے ۔۔۔۔۔۔۔فضیلت دی تم کو   عَلَى     ۔    الْعَالَمِينَ۔  4️⃣7️⃣ پر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔  تمام جہان  يَا بَنِي إِسْرَائِيلَ اذْكُرُوا نِعْمَتِيَ الَّتِي أَنْعَمْتُ عَلَيْكُمْ وَأَنِّي فَضَّلْتُكُمْ عَلَى الْعَالَمِينَ.   4️⃣7️⃣ اے بنی اسرائیل میرے وہ احسان یاد کرو  جو میں نے تم پر کئے اور یہ کہ میں نے تمہیں تمام عالم پر بڑائی دی ۔  فَضَّلْتُکُم۔ ( تمہیں بڑائی دی ) ۔ یہ لفظ فضل سے نکلا ہے ۔ جس کے معنی ہیں بڑائی ۔ تمام عالم پر فضیلت دینے کا مطلب یہ ہے کہ بنی اسرائیل تمام فِرقوں سے افضل رہے اور کوئی ان کا ہم پلہ نہ تھا...