نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

جھوٹا وقار

*جھوٹا وقار*


وَإِذَا ۔۔۔۔۔۔۔   قِيلَ ۔۔۔۔۔۔۔۔ لَهُ ۔۔۔۔۔۔۔۔ اتَّقِ ۔۔۔ اللَّهَ ۔۔۔ أَخَذَتْهُ 

اور جب ۔۔۔ کہا جاتا ہے ۔۔ اس سے ۔۔ تو ڈر ۔۔۔ الله تعالی ۔۔ پکڑ لیتی ہے اس کو 

الْعِزَّةُ ۔۔۔ بِالْإِثْمِ ۔۔۔ فَحَسْبُهُ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔  جَهَنَّمُ 

عزت ۔۔۔ گناہ پر ۔۔۔ پس کافی ہے اس کو ۔۔ جہنم 

وَلَبِئْسَ ۔۔۔۔ الْمِهَادُ۔ 2️⃣0️⃣6️⃣

اور البتہ برا ۔۔۔ ٹھکانہ 


وَإِذَا قِيلَ لَهُ اتَّقِ اللَّهَ أَخَذَتْهُ الْعِزَّةُ بِالْإِثْمِ فَحَسْبُهُ جَهَنَّمُ وَلَبِئْسَ الْمِهَادُ.  2️⃣0️⃣6️⃣


اور جب اس سے کہا جائے کہ الله سے ڈر تو غرور اسے گناہ پر آمادہ کرے سو اس کے لئے دوزخ کافی ہے  اور بے شک وہ برا ٹھکانہ ہے 


اس آیت میں منافقوں کی ایک اور نشانی بیان کی گئی ہے ۔ یعنی لوگوں پر ظلم کرنے ، جھوٹے دعوے باندھنے ، فتنہ و فساد مچانے کے ساتھ ساتھ وہ اپنے غرور میں آکر الله تعالی سے بھی سرکشی اور بغاوت کرتے ہیں ۔ جب لوگ انہیں سمجھاتے ہیں کہ ہنگامہ آرائی اور شرارت کی راہ سے ہٹ کر سیدھی راہ پر آؤ ۔ الله تعالی سے ڈرو ۔ امن اور چین کی زندگی بسر کرو تو وہ اپنی جھوٹی شان اور خود ساختہ عزت کو برقرار رکھنے کے لئے سرکشی اور گناہ میں اور زیادہ سرگرم ہو جاتے ہیں ۔ 

لوگوں کے یہ کہنے پر کہ الله تعالی سے ڈرو ان کے غرور پر زبردست چوٹ پڑتی ہے ۔ جھوٹی آرزوؤں اور جھوٹی شان کا بنایا ہوا ان کا محل دھڑام سے نیچے آگرتا ہے ۔ جس سے ان کا پول کُھل جاتا ہے ۔ اور وہ کہیں کے نہیں رہتے ۔ لہذا اپنے جھوٹے وقار کو قائم رکھنے کے لئے وہ الله جل جلالہ کی نافرمانیاں کرنے  کی پرواہ نہیں کرتے ۔ لوگوں پر ظلم کرتے ہیں ۔ ہر جائز و ناجائز حربہ استعمال کرکے راست باز لوگوں کی رائے کو دبانے کی کوشش کرتے ہیں ۔ ایسے لوگوں کے لئے الله تعالی نے جہنم بنا رکھا ہے ۔جہاں انہیں جھونک دیا جائے گا ۔ یہ ہمیشہ اس میں جلتے رہیں گے ۔ اور اپنے غرور کا مزہ چکھیں گے ۔ 

شریعتِ اسلام کے مقاصد تو یہ ہیں کہ دنیا میں عدل و انصاف اور امن و چین عام ہوجائے ۔ ہر شخص کو الله تعالی کی بنائی ہوئی چیزوں سے فائدہ اٹھانے کی آزادی ہو ۔ الله تعالی کی اتاری ہوئی تعلیم اور بتائی ہوئی ھدایت پر چلنے کی سہولتیں حاصل ہوں اور ہر شخص کو اپنا حق پانے کے لئے آسانی ہو ۔ 

ان تمام مقاصد کو حاصل کرنے  میں مؤمن اسلام کی مدد کرتا ہے ۔ کافر اس راستے میں روڑے اٹکاتا ہے ۔ اور منافق ایسا مارِ آستین ہے کہ اسلام سے حد درجہ دشمنی رکھتا ہے ۔ اور اپنے ظاہری دعووں اور جھوٹے بیانوں سے اسلام کی محبت کا دم بھرتا ہے ۔ لیکن اپنی دلی دشمنی ظاہر نہیں ہونے دیتا ۔ اس لئے یہ سخت سزا میں مبتلا ہو گا ۔ 

شریعتِ اسلام کے مقاصد کے حصول میں سب سے بڑی رکاوٹ یہی منافق ڈالتا ہے ۔ دل کی بات کو ظاہر نہیں کرتا ۔ فتنہ و فساد میں سرگرم رہتا ہے ۔ کھیتوں اور جانوروں کو تباہ کرتا ہے ۔ 

واقعی جھوٹا وقار اور خود ساختہ عزت کا تصور نصیحت اور عبرت کی راہ میں ایک بڑی رکاوٹ ہوتا ہے ۔ 

درس قرآن ۔۔۔ مرتبہ درس قرآن بورڈ 

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

تعوُّذ۔ ۔۔۔۔۔ اَعُوذُ بِالله مِنَ الشَّیطٰنِ الَّرجِیمِ

     اَعُوْذُ ۔                بِاللهِ  ۔ ُ     مِنَ ۔ الشَّیْطٰنِ ۔ الرَّجِیْمِ      میں پناہ مانگتا / مانگتی ہوں ۔  الله تعالٰی کی ۔ سے ۔ شیطان ۔ مردود       اَعُوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّیطٰنِ الَّجِیْمِ  میں الله تعالٰی کی پناہ مانگتا / مانگتی ہوں شیطان مردود سے اللہ تعالٰی کی مخلوقات میں سے ایک مخلوق وہ بھی ہے جسےشیطان کہتے ہیں ۔ وہ آگ سے پیدا کیا گیا ہے ۔ جب فرشتوں اور آدم علیہ السلام کا مقابلہ ہوا ۔ اور حضرت آدم علیہ السلام اس امتحان میں کامیاب ہو گئے ۔ تو الله تعالٰی نے فرشتوں کو حکم دیاکہ وہ سب کے سب آدم علیہ السلام کے آگے جھک جائیں ۔ چنانچہ اُن سب نے انہیں سجدہ کیا۔ مگر شیطان نے سجدہ کرنے سے انکار کر دیا ۔ اس لئے کہ اسکے اندر تکبّر کی بیماری تھی۔ جب اس سے جواب طلبی کی گئی تو اس نے کہا مجھے آگ سے پیدا کیا گیا ہے اور آدم کو مٹی سے اس لئے میں اس سے بہتر ہوں ۔ آگ مٹی کے آگے کیسے جھک سکتی ہے ؟ شیطان کو اسی تکبّر کی بنا پر ہمیشہ کے لئے مردود قرار دے دیا گیا اور قیامت ت...

سورۃ بقرہ تعارف ۔۔۔۔۔۔

🌼🌺. سورۃ البقرہ  🌺🌼 اس سورت کا نام سورۃ بقرہ ہے ۔ اور اسی نام سے حدیث مبارکہ میں اور آثار صحابہ میں اس کا ذکر موجود ہے ۔ بقرہ کے معنی گائے کے ہیں ۔ کیونکہ اس سورۃ میں گائے کا ایک واقعہ بھی  بیان کیا گیا ہے اس لئے اس کو سورۃ بقرہ کہتے ہیں ۔ سورۃ بقرہ قرآن مجید کی سب سے بڑی سورۃ ہے ۔ آیات کی تعداد 286 ہے ۔ اور کلمات  6221  ہیں ۔اور حروف  25500 ہیں  یہ سورۃ مبارکہ مدنی ہے ۔ یعنی ہجرتِ مدینہ طیبہ کے بعد نازل ہوئی ۔ مدینہ طیبہ میں نازل ہونی شروع ہوئی ۔ اور مختلف زمانوں میں مختلف آیات نازل ہوئیں ۔ یہاں تک کہ " ربا " یعنی سود کے متعلق جو آیات ہیں ۔ وہ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کی آخری عمر میں فتح مکہ کے بعد نازل ہوئیں ۔ اور اس کی ایک آیت  " وَ اتَّقُوْا یَوْماً تُرجَعُونَ فِیہِ اِلَی اللهِ "آیہ  281  تو قران مجید کی بالکل آخری آیت ہے جو 10 ہجری میں 10  ذی الحجہ کو منٰی کے مقام پر نازل ہوئی ۔ ۔ جبکہ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم حجۃ الوداع کے فرائض ادا کرنے میں مشغول تھے ۔ ۔ اور اس کے اسی نوّے دن بعد آپ صلی الله علیہ وسلم کا وصال ہوا ۔ اور وحی ا...

*بنی اسرائیل کی فضیلت*

يَا۔۔۔۔۔۔  بَنِي إِسْرَائِيلَ ۔۔۔۔۔۔        اذْكُرُوا    ۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔    نِعْمَتِيَ ۔۔۔۔۔۔۔۔  ۔ الَّتِي    اے  ۔ اولاد اسرائیل ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تم یاد کرو ۔۔۔۔۔۔۔ میری نعمتوں کو ۔۔۔۔ وہ جو  أَنْعَمْتُ    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ عَلَيْكُمْ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔   ۔ وَأَنِّي ۔۔۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔ فَضَّلْتُكُمْ        میں نے انعام کیں ۔ تم پر ۔ اور بے شک میں نے ۔۔۔۔۔۔۔فضیلت دی تم کو   عَلَى     ۔    الْعَالَمِينَ۔  4️⃣7️⃣ پر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔  تمام جہان  يَا بَنِي إِسْرَائِيلَ اذْكُرُوا نِعْمَتِيَ الَّتِي أَنْعَمْتُ عَلَيْكُمْ وَأَنِّي فَضَّلْتُكُمْ عَلَى الْعَالَمِينَ.   4️⃣7️⃣ اے بنی اسرائیل میرے وہ احسان یاد کرو  جو میں نے تم پر کئے اور یہ کہ میں نے تمہیں تمام عالم پر بڑائی دی ۔  فَضَّلْتُکُم۔ ( تمہیں بڑائی دی ) ۔ یہ لفظ فضل سے نکلا ہے ۔ جس کے معنی ہیں بڑائی ۔ تمام عالم پر فضیلت دینے کا مطلب یہ ہے کہ بنی اسرائیل تمام فِرقوں سے افضل رہے اور کوئی ان کا ہم پلہ نہ تھا...