الله کی رضا چاہنے والا

سورة بقره –آيه-٢٠٧
الله کی رضا چاہنے والا

وَمِنَ ۔۔۔ النَّاسِ ۔۔۔مَن ۔۔۔يَشْرِي۔۔۔ نَفْسَهُ ۔۔۔ابْتِغَاءَ
اور سے ۔۔۔ لوگ ۔۔ جو ۔۔ بیچتا ہے ۔۔۔ اپنا نفس ۔۔۔ تلاش 
 مَرْضَاتِ ۔۔۔ اللَّهِ ۔۔۔وَاللَّهُ ۔۔۔ رَءُوفٌ ۔۔۔ بِالْعِبَادِ
مرضی ۔۔۔ الله ۔۔ اور الله تعالی ۔۔۔ مہربان ۔۔ بندوں پر 

وَمِنَ النَّاسِ مَن يَشْرِي نَفْسَهُ ابْتِغَاءَ مَرْضَاتِ اللَّهِ وَاللَّهُ رَءُوفٌ بِالْعِبَادِ
اور لوگوں میں سے ایک شخص وہ ہے جو اپنی جان کو بیچتا ہے الله جل شانہ کی رضا جوئی میں اور الله تعالی بندوں پر مہربان ہے ۔

اس آیت میں ان سچے مؤمنوں کا ذکر ہے جو اپنی جان تک اس مقصد کے لئے قربان کردیتے ہیں کہ الله تعالی ان سے راضی ہو جائے ۔ 
انسان اگر حقیقت پر غور کرے تو اسے معلوم ہو گا کہ وہ جن ذاتی جھگڑوں میں پڑا ہے ۔ وہ سب ہیچ ہیں ۔ تنگ نظر لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ جس قدر مال و متاع زمین و جائیداد ان کے قبضے میں ہے سب ان کے اپنے ہیں ۔ جس قدر وہ اور زیادہ حاصل کریں گے وہ بھی ان کا اپنا ہوجائے گا ۔ ان کا خیال ہے کہ دنیاوی عزت اور شان و شوکت ہی انسان کا مقصد ہے ۔ انہیں ہر طریقے سے حاصل کر لینا سب سے بڑی کامیابی ہے ۔ لیکن وہ یہ نہیں دیکھتے کہ اوّل نہ تو وہ خود اپنے اوپر اختیار رکھتے ہیں نہ اپنے مال و جائیداد پر ۔ جو کچھ ان کے پاس ہے یا جو کچھ وہ مزید حاصل کرتے ہیں وہ سب کچھ کیا دھرا یہیں کا یہیں پڑا رہ جائے گا ۔ 
کیا یہ ممکن نہیں ان کے بازو ٹوٹ جائیں ۔ قوتیں شل ہو جائیں اور دل و دماغ فیل ہو جائیں ۔ پھر یہ مار دھاڑ ۔ لوٹ کھسوٹ اور فتنہ و فساد کیوں ؟ 
کیا اس زندگی کے لئے جس کا کوئی بھروسہ نہیں ؟ 
کیا اس شان و شوکت کے لئے جس کی کوئی بنیاد نہیں ؟ 
ایک مؤمن ان باتوں سے آگاہ ہے ۔ وہ سمجھتا ہے کہ اس کی کوئی چیز اس کی اپنی نہیں بلکہ اس ربّ کی ہے جس نے اسے زندگی دی ۔اس کی پرورش کی ۔ اور اسے دنیا کی نعمتوں سے فائدہ اٹھانے کا موقع دیا ۔ لہذا ہر چیز الله تعالی کی ہے ۔ اور ہر چیز کے استعمال کا مقصد الله تعالی کی خوشنودی ہے ۔ اگر اس کی دی ہوئی چیزوں کو اس کے راستے میں اسی کی رضا حاصل کرنے کے لئے خرچ کیا جائے تو ہمارا کیا جاتا ہے ۔ اگر کم ہو جائے گا تو وہ اور دے دے گا ۔ اگر اپنی اکیلی جان جس پر ہمیں کچھ بھی اختیار نہیں اس کی رضا جوئی کے لئے دے دی جائے تو ہمارا کیا کم ہو جائے گا ۔ اس کی دی ہوئی جان جسے ایک دن فنا ہونا ہی تھا ۔ اسی کے لئے دے دی ۔ تو اس سے بڑھ کر اس کا مصرف اور کیا ہوسکتا ہے ۔ 

            جان دی ۔  دی ہوئی  اسی کی تھی 
            حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا 
وہ اپنے بندوں پر بڑا ہی مہربان ہے ۔ انسان اس کی عنایات ۔ نوازشوں اور لطف و کرم کا اندازہ نہیں کر سکتا ۔ اس کی نعمتوں کا شمار نہیں کر سکتا ۔
کاش ! انسان کبھی اس حقیقت پر غور کرلیا کرے تاکہ اس کے اندر  شکر گزاری اور قدر دانی پیدا ہو ۔ 

کوئی تبصرے نہیں:

حالیہ اشاعتیں

مقوقس شاہ مصر کے نام نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کا خط

سیرت النبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم..قسط 202 2.. "مقوقس" _ شاہ ِ مصر کے نام خط.. نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک گرامی ...

پسندیدہ تحریریں