مؤمنوں کا مذاق نہ اڑاؤ

مؤمنوں کا مذاق نہ اڑاؤ


زُيِّنَ ۔۔۔۔۔۔۔  لِلَّذِينَ ۔۔۔۔۔۔۔كَفَرُوا ۔۔۔ الْحَيَاةُ ۔۔۔الدُّنْيَا 

زینت دی گئی ۔۔۔ لوگوں کے لئے ۔۔ کفر کیا ۔۔ زندگی ۔۔۔ دنیا 

وَيَسْخَرُونَ ۔۔۔  مِنَ ۔۔۔۔۔ الَّذِينَ ۔۔۔۔۔ آمَنُوا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔  وَالَّذِينَ 

اور وہ مذاق کرتے ہیں ۔۔ سے ۔۔ وہ لوگ ۔۔ ایمان لائے ۔۔ اور وہ لوگ 

اتَّقَوْا ۔۔۔ فَوْقَهُمْ ۔۔۔ يَوْمَ ۔۔۔ الْقِيَامَةِ ۔۔ وَاللَّهُ 

پرھیزگار ۔۔۔ ان پر ۔۔۔ دن ۔۔ قیامت ۔۔۔ اور الله 

يَرْزُقُ ۔۔۔۔۔۔۔۔  مَن ۔۔۔۔۔۔ يَشَاءُ ۔۔۔۔ بِغَيْرِ ۔۔۔ حِسَابٍ۔ 2️⃣1️⃣2️⃣

روزی دیتا ہے ۔۔۔ جسے ۔۔ وہ چاہتا ہے ۔۔۔ بغیر ۔۔۔ حساب 


زُيِّنَ لِلَّذِينَ كَفَرُوا الْحَيَاةُ الدُّنْيَا وَيَسْخَرُونَ مِنَ الَّذِينَ آمَنُوا وَالَّذِينَ اتَّقَوْا فَوْقَهُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَاللَّهُ يَرْزُقُ مَن يَشَاءُ بِغَيْرِ حِسَابٍ 2️⃣1️⃣2️⃣


کافروں کو دنیا کی زندگی پر فریفتہ کیا ہے اور ایمان والوں پر ہنستے ہیں  اور جو پرھیزگار ہیں وہ قیامت کے دن ان کافروں سے بالاتر ہوں گے ۔ اور الله جسے چاہے بے شمار روزی دیتا ہے ۔


اس آیت کا شانِ نزول یہ ہے کہ مشرکوں کے رئیس مسلمانوں پر ہنستے تھے ۔ انہیں ذلیل سمجھتے تھے ۔ حضرت بلال ، عمار ، صہیب رضی الله عنھم کا مذاق اڑاتے اور کہتے ( نعوذبالله ) ان نادانوں نے آخرت کے خیال پر دنیا کی تکلیفوں اور مصیبتوں کو اپنے سر لے لیا ۔ اور محمد  (صلی الله علیہ وسلم ) کو دیکھو کہ ان فقیروں ، محتاجوں اور بے بس لوگوں کی امداد سے طاقتور عرب رئیسوں اور سرداروں پر غالب آنا چاہتے ہیں ۔ اور دنیا بھر کی اصلاح ان غریبوں کی مدد سے کرنے کی توقع رکھتے ہیں ۔ 

ان لوگوں کے اس تمسخر اور ہنسی کی بنا پر یہ آیت نازل ہوئی ۔ 

انہیں بتایا گیا کہ ان کا اس طرح سوچنا جہالت اور نادانی ہے ۔ انہیں معلوم نہیں کہ یہی غریب اور تنگدست قیامت کے دن ان رئیسوں سے اعلی اور برتر ہوں گے ۔ الله جسے چاہے بے شمار روزی عطا فرمائے ۔  چنانچہ ایک دن آیا کہ انہیں غریبوں کو جن پر کافر ہنستے تھے بنو قریظہ اور بنو نضیر کی دولت ملی ۔ اور اس زمانے کی ایران اور روم جیسی بڑی بڑی سلطنتوں پر الله تعالی نے انہیں بادشاہی دی ۔ دنیا کی دولت ، حکومت اور قیادت الله تعالی نے ان لوگوں کے سپرد کر دی ۔ 

اکثر دیکھنے میں آیا ہے کہ مالدار اور رئیس لوگ جو الله تعالی کے منکر ہوں  وہ اپنی دولت کے بل بوتے پر اکڑتے ہیں ۔ اور وہ سمجھتے ہیں کہ وہ دنیا کی ہر چیز اپنی دولت سے خرید لیں گے ۔ اور دنیا کی ساری طاقت اپنی دولت کی مدد اے فتح کر لیں گے ۔اسی غرور اور تکبر کی بنا پر یہ لوگ غریب ، ایماندار اور حق پرست لوگوں کا مذاق اڑاتے ہیں ۔ ان کے نزدیک دولت ہی شرافت اور ریاست کی نشانی ہوتی ہے ۔ ان کی نگاہ میں اخلاق کی برتری کردار کی پاکیزگی کچھ بھی نہیں ۔ 

لیکن انہیں یہ معلوم نہیں کہ دولت ایک چلتی پھرتی چھاؤں ہے ۔ یہ ایک ڈھلتا سایہ ہے ۔ کبھی یہاں اور کبھی وہاں ۔ اسے ایک جگہ ٹہراؤ میسر نہیں ۔ ایسی چیز جس پر کوئی اختیار اور قابو نہ ہو اور جو عارضی اور نا پائیدار ہو اس قدر اکڑنا لاحاصل اور فضول ہے ۔ 

اصل چیز نیکی اور پرھیزگاری ہے ۔  یہی سب سے بڑی دولت ہے ۔  اسی کے بدلے قیامت میں بہترین اجر ملے گا ۔ اور تمام دولت مند اورمنکر لوگ اس دن مغلوب ہوں گے ۔ وہ ذلت اور رسوائی میں ڈوبے ہوں گے ۔ اور اپنے کئے پر پچھتاتے ہوں گے ۔ کیا اچھا ہو کہ یہ لوگ آج سمجھ لیں کہ الله سبحانہ وتعالی ہی سب کو روزی دیتا ہے ۔ وہ ان سے چھین کر ایمانداروں کو دے سکتا ہے ۔انہیں غریب اور مسکین لوگوں کا مذاق نہیں اڑانا چاہئیے ۔ خود اپنی آخرت سنوارنے کی طرف متوجہ ہونا چاہئیے ۔ 

الله تعالی ہم سب کو ھدایت دے کہ ہم بُرا کلمہ منہ سے نہ نکالیں ۔ آمین 

درس قرآن ۔۔۔ مرتبہ درس قرآن بورڈ

کوئی تبصرے نہیں:

حالیہ اشاعتیں

مقوقس شاہ مصر کے نام نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کا خط

سیرت النبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم..قسط 202 2.. "مقوقس" _ شاہ ِ مصر کے نام خط.. نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک گرامی ...

پسندیدہ تحریریں