نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

قسمیں کھانے والے جھگڑالو

قسمیں کھانے والے جھگڑالو

 

وَمِنَ ۔۔۔۔۔۔۔ النَّاسِ ۔۔۔ مَن ۔۔۔۔۔۔۔۔ يُعْجِبُكَ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔ قَوْلُهُ 

اور سے ۔۔۔ لوگ ۔۔۔ سے ۔۔۔ وہ جو پسند آئی آپ کو ۔۔۔ بات اس کی 

فِي ۔۔ الْحَيَاةِ ۔۔۔۔ الدُّنْيَا ۔۔۔ وَيُشْهِدُ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔   اللَّهَ ۔۔۔ عَلَى 

میں ۔۔۔ زندگی ۔۔ دنیا ۔۔۔ اور وہ گواہ بناتا ہے ۔۔۔ الله تعالی ۔۔ پر 

مَا ۔۔ فِي ۔۔۔ قَلْبِهِ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔    وَهُوَ ۔۔۔ أَلَدُّ ۔۔۔ الْخِصَامِ  2️⃣0️⃣4️⃣

جو ۔۔۔ میں ۔۔ اس کا دل ۔۔۔ اور وہ ۔۔۔ سخت ۔۔۔ جھگڑالو 


وَمِنَ النَّاسِ مَن يُعْجِبُكَ قَوْلُهُ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَيُشْهِدُ اللَّهَ عَلَى مَا فِي قَلْبِهِ وَهُوَ أَلَدُّ الْخِصَامِ.   2️⃣0️⃣4️⃣


اور بعض آدمی وہ ہے کہ تجھے اس کی بات پسند آتی ہے  دنیا کی زندگانی کے کاموں میں اور وہ اپنے دل کی بات پر الله تعالی کو گواہ بناتا ہے اور وہ سخت جھگڑالو ہے ۔ 


و من الناس ۔(اور بعض آدمی ) ضروری نہیں کہ " بعض " سے صرف ایک ہی آدمی مراد ہو ۔ ایک بھی ہو سکتا ہے اور اسی فطرت کے بہت سے آدمی بھی مراد ہو سکتے ہیں ۔ 

قوله ۔ (اس کی بات )۔ یعنی اس کا یہ دعوٰی کہ وہ اسلام پر قربان ہونے کو تیار ہے ۔ اسے اسلام سے بہت محبت ہے ۔ 

فى الحيٰوة الدنيا ۔ (دنیا کی زندگانی کے کاموں میں )۔ یہاں " فی " سے یہ ظاہر کرنا مقصود ہے ۔ کہ اسے اپنی چرب زبانی دنیا حاصل کرنی ہوتی ہے آخرت نہیں ۔ اور وہ دنیاوی امور کے متعلق ایسی باتیں بناتا ہے گویا اس سے بڑھ کر کوئی عقل مند اور دانا نہیں ۔ 

يشهد الله (الله کو گواہ کرتا ہی ) یعنی الله کی قسمیں کھا کھا کر یقین دلانے کی کوشش کرتا ہے ۔۔۔ قسم کھانے سے مراد یہی ہوتی ہے کہ میں اس کو اپنے اس بیان پر گواہ ٹھراتا ہوں جس کی میں قسم کھا رہا ہوں ۔ 

اس سے قبل حج کا بیان گزر چکا ہے ۔ اور یہ بھی بتایا گیا کہ کچھ بدبخت انسان صرف دنیا کے پیچھے لگے ہوئے ہیں ۔ وہ آخرت کے اچھے نتائج سے یکسر محروم ہیں ۔ لیکن نیک بندے دنیا اور آخرت دونوں کی بھلائی کے طالب رہتے ہیں ۔ اور دوزخ کے عذاب سے پناہ مانگتے ہیں ۔ 

اس آیت سے بدبخت اور منافقین کا ذکر شروع ہوتا ہے ۔ انکی زبان شیریں معلوم ہوتی ہے بظاہر باتیں بڑی عقل کی کرتے ہیں۔ لیکن دل سے سخت جھگڑالو اور فتنہ پرورہوتے ہیں ۔ 

اس آیت کا شانِ نزول یہ بیان کیا جاتا ہے کہ قبیلہ ثقیف کا ایک شخص اخنس بن شریق تھا وہ ظاہری طور پر اسلام کا بڑا ہمدرد اور غمخوار معلوم ہوتا تھا ۔ اپنی زبان سے اسلام سے اپنی محبت کا بہت دعوٰی کیا کرتا تھا ۔ رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی مجلس میں آتا تو بڑے لمبے چوڑے دعوے کرتا ۔ بات بات پر قسمیں کھاتا لیکن جب مجلس سے اٹھ کر چلا جاتا تو طرح طرح کی شرارتوں میں لگ جاتا اور اسلام کو نقصان پہنچانے کی ترکیبیں سوچتا ۔ 

بظاہر معلوم ہوتا ہے کہ یہ آیت اسی شخص کے لئے اتری  لیکن یہ ہر اس شخص پر صادق آتی ہے جو اس فطرت کا آدمی ہو ۔ اس قسم کے منافق کی مزید نشانیاں اگلی آیتوں میں بیان کی جائیں گی ۔ یہاں منافق کی یہ خصوصیت بیانکی گئی ہے کہ وہ زبان سے بڑے بڑے دعوے باندھتا ہے لفظی طور پر اپنے مؤمن ہونے کا یقین دلاتا ہے لیکن دراصل وہ بڑا جھگڑالو ہے ۔ اسلام اور اس کے ماننے والوں سے دشمنی رکھتا ہے ۔ اور نقصان پہنچانے کی کوشش کرتا ہے ۔ 

درس قرآن ۔۔۔ مرتبہ درس قرآن بورڈ 

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

تعوُّذ۔ ۔۔۔۔۔ اَعُوذُ بِالله مِنَ الشَّیطٰنِ الَّرجِیمِ

     اَعُوْذُ ۔                بِاللهِ  ۔ ُ     مِنَ ۔ الشَّیْطٰنِ ۔ الرَّجِیْمِ      میں پناہ مانگتا / مانگتی ہوں ۔  الله تعالٰی کی ۔ سے ۔ شیطان ۔ مردود       اَعُوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّیطٰنِ الَّجِیْمِ  میں الله تعالٰی کی پناہ مانگتا / مانگتی ہوں شیطان مردود سے اللہ تعالٰی کی مخلوقات میں سے ایک مخلوق وہ بھی ہے جسےشیطان کہتے ہیں ۔ وہ آگ سے پیدا کیا گیا ہے ۔ جب فرشتوں اور آدم علیہ السلام کا مقابلہ ہوا ۔ اور حضرت آدم علیہ السلام اس امتحان میں کامیاب ہو گئے ۔ تو الله تعالٰی نے فرشتوں کو حکم دیاکہ وہ سب کے سب آدم علیہ السلام کے آگے جھک جائیں ۔ چنانچہ اُن سب نے انہیں سجدہ کیا۔ مگر شیطان نے سجدہ کرنے سے انکار کر دیا ۔ اس لئے کہ اسکے اندر تکبّر کی بیماری تھی۔ جب اس سے جواب طلبی کی گئی تو اس نے کہا مجھے آگ سے پیدا کیا گیا ہے اور آدم کو مٹی سے اس لئے میں اس سے بہتر ہوں ۔ آگ مٹی کے آگے کیسے جھک سکتی ہے ؟ شیطان کو اسی تکبّر کی بنا پر ہمیشہ کے لئے مردود قرار دے دیا گیا اور قیامت ت...

سورۃ بقرہ تعارف ۔۔۔۔۔۔

🌼🌺. سورۃ البقرہ  🌺🌼 اس سورت کا نام سورۃ بقرہ ہے ۔ اور اسی نام سے حدیث مبارکہ میں اور آثار صحابہ میں اس کا ذکر موجود ہے ۔ بقرہ کے معنی گائے کے ہیں ۔ کیونکہ اس سورۃ میں گائے کا ایک واقعہ بھی  بیان کیا گیا ہے اس لئے اس کو سورۃ بقرہ کہتے ہیں ۔ سورۃ بقرہ قرآن مجید کی سب سے بڑی سورۃ ہے ۔ آیات کی تعداد 286 ہے ۔ اور کلمات  6221  ہیں ۔اور حروف  25500 ہیں  یہ سورۃ مبارکہ مدنی ہے ۔ یعنی ہجرتِ مدینہ طیبہ کے بعد نازل ہوئی ۔ مدینہ طیبہ میں نازل ہونی شروع ہوئی ۔ اور مختلف زمانوں میں مختلف آیات نازل ہوئیں ۔ یہاں تک کہ " ربا " یعنی سود کے متعلق جو آیات ہیں ۔ وہ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کی آخری عمر میں فتح مکہ کے بعد نازل ہوئیں ۔ اور اس کی ایک آیت  " وَ اتَّقُوْا یَوْماً تُرجَعُونَ فِیہِ اِلَی اللهِ "آیہ  281  تو قران مجید کی بالکل آخری آیت ہے جو 10 ہجری میں 10  ذی الحجہ کو منٰی کے مقام پر نازل ہوئی ۔ ۔ جبکہ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم حجۃ الوداع کے فرائض ادا کرنے میں مشغول تھے ۔ ۔ اور اس کے اسی نوّے دن بعد آپ صلی الله علیہ وسلم کا وصال ہوا ۔ اور وحی ا...

*بنی اسرائیل کی فضیلت*

يَا۔۔۔۔۔۔  بَنِي إِسْرَائِيلَ ۔۔۔۔۔۔        اذْكُرُوا    ۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔    نِعْمَتِيَ ۔۔۔۔۔۔۔۔  ۔ الَّتِي    اے  ۔ اولاد اسرائیل ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تم یاد کرو ۔۔۔۔۔۔۔ میری نعمتوں کو ۔۔۔۔ وہ جو  أَنْعَمْتُ    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ عَلَيْكُمْ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔   ۔ وَأَنِّي ۔۔۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔ فَضَّلْتُكُمْ        میں نے انعام کیں ۔ تم پر ۔ اور بے شک میں نے ۔۔۔۔۔۔۔فضیلت دی تم کو   عَلَى     ۔    الْعَالَمِينَ۔  4️⃣7️⃣ پر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔  تمام جہان  يَا بَنِي إِسْرَائِيلَ اذْكُرُوا نِعْمَتِيَ الَّتِي أَنْعَمْتُ عَلَيْكُمْ وَأَنِّي فَضَّلْتُكُمْ عَلَى الْعَالَمِينَ.   4️⃣7️⃣ اے بنی اسرائیل میرے وہ احسان یاد کرو  جو میں نے تم پر کئے اور یہ کہ میں نے تمہیں تمام عالم پر بڑائی دی ۔  فَضَّلْتُکُم۔ ( تمہیں بڑائی دی ) ۔ یہ لفظ فضل سے نکلا ہے ۔ جس کے معنی ہیں بڑائی ۔ تمام عالم پر فضیلت دینے کا مطلب یہ ہے کہ بنی اسرائیل تمام فِرقوں سے افضل رہے اور کوئی ان کا ہم پلہ نہ تھا...