نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

فساد پردازی

فساد پردازی

 

وَإِذَا ۔۔۔۔۔۔۔۔   تَوَلَّى ۔۔۔ سَعَى ۔۔۔۔۔۔۔۔  فِي ۔۔۔ الْأَرْضِ

اور جب ۔۔۔ وہ لوٹے ۔۔۔ دوڑتا پھرے ۔۔ میں ۔۔ زمین 

 لِيُفْسِدَ ۔۔۔ فِيهَا ۔۔۔۔۔۔۔ وَيُهْلِكَ ۔۔۔۔۔۔۔۔  الْحَرْثَ ۔۔۔۔۔۔۔   وَالنَّسْلَ 

تاکہ وہ فساد کرے ۔۔۔ اس میں ۔۔ اور وہ تباہ کرے ۔۔ کھیتیاں ۔۔ اورنسل 

وَاللَّهُ ۔۔۔۔۔۔۔۔    لَا يُحِبُّ ۔۔۔ الْفَسَادَ۔ 2️⃣0️⃣5️⃣

اور الله ۔۔ نہیں وہ پسند کرتا ۔۔۔ فساد 


وَإِذَا تَوَلَّى سَعَى فِي الْأَرْضِ لِيُفْسِدَ فِيهَا وَيُهْلِكَ الْحَرْثَ وَالنَّسْلَ وَاللَّهُ لَا يُحِبُّ الْفَسَادَ.  2️⃣0️⃣5️⃣


اور جب تیرے پاس سے لوٹے تو ملک میں دوڑتا پھرے  تاکہ اس میں فساد کرے اور کھیتیاں اور جانیں تباہ کرے اور الله فساد ناپسند کرتا ہے ۔ 


تولّی (لوٹے ) ۔ اس کے دو معنی ہیں لوٹنا یا حاکم بننا ۔ یعنی جب رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی مجلس سے اٹھ کر چل دے ۔ اور دوسرے معنوں کی رو سے حاکم بن جائے ۔ بعض مفسروں نے یہاں یہی معنٰی کئے ہیں ۔ یعنی وہ ملک کا حاکم ہو جاتا ہے یا کسی جگہ اسے اقتدار مل جاتا ہے ۔ 

سعٰی (دوڑتا پھرے ) اس لفظ کے معنی ہیں سرگرم ہوجانا ۔ دوڑ دھوپ کرنا ۔ کوشش میں لگ جانا ۔ یہاں مراد فساد مچانے اور خرابی برپا کرنے میں سرگرم ہوجانے سے ہے ۔

فِی الارضِ ( ملک میں )  ارض (زمین )  کا لفظ لانے سے عام طور پر یہ ظاہر کرنا مقصود ہوتا ہے کہ منافقین بڑے وسیع پیمانے پر اپنی سرگرمیاں کرتے ہیں ۔ وہ دور دور تک خرابیاں برپا کرتے ہیں ۔ البتہ ارض کے الف لام  سے کسی خاص جگہ کی طرف اشارہ بھی ہو سکتا ہے ۔ جیسے شہر مدینہ جو آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کے زمانے میں منافقین نے مرکز بنا رکھا تھا ۔ 

اَلْحَرث ( کھیتیاں ) ۔ یعنی فساد برپا کرنے والوں نے کھیتوں کو برباد کیا اور انہیں آگ لگا دی ۔ اس سے بعض مفسرین نے عورتیں بھی مراد لی ہیں  اور بعض لوگوں نے دین کو نقصان پہنچانا بھی اس کے مفہوم میں شامل کیا ہے ۔ 

اَلنّسل ( جانیں ) ۔ نسل کو تباہ کرنے میں نسل انسانی اور نفس حیوانی دونوں شامل ہیں ۔ بعض مفسرین نے یہاں اس سے مراد نسل انسانی ہی لی ہے مجموعی طور پر قتل و غارت اس لفظ کے مفہوم میں شامل ہے ۔ 

پچھلی آیت میں بتایا گیا تھا کہ وہ ظاہر میں وہ اسلام کی ہمدردی کے دعوے کرتا ہے لیکن اندر سے اسلام کا دشمن ہے ۔ پھر یہ کہ الله کی قسمیں کھا کھا کر اپنے سچا ہونے کا یقین دلانے کی کوشش کرتا ہے ۔ بات بات پر الله کو گواہ ٹہراتا ہے ۔ لیکن دراصل وہ جھگڑالو قسم کا آدمی ہے ۔ ہر حق بات سے الجھتا ہے ۔ سچ کا دشمن ہے ۔ الله اور اس کے رسول صلی الله علیہ وسلم کو نقصان پہنچاتا ہے ۔ 

اس آیت میں ایسے لوگوں کی مزید نشانیاں بتائی گئی ہیں ۔ یعنی یہ کہ ملک میں فتنہ و فساد کی آگ کو بھڑکاتے ہیں ۔ ہنگامہ آرائی کرتے ہیں ۔ متحد قوم کو گروہوں میں بانٹ ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ تاکہ لوگ انکی طرف متوجہ ہوں ۔خلاف فطرت فعل کے مرتکب ہوتے ہیں ۔جس سے نسل انسانی لازمی طور پر تباہ ہو جاتی ہے ۔ 


تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

تعوُّذ۔ ۔۔۔۔۔ اَعُوذُ بِالله مِنَ الشَّیطٰنِ الَّرجِیمِ

     اَعُوْذُ ۔                بِاللهِ  ۔ ُ     مِنَ ۔ الشَّیْطٰنِ ۔ الرَّجِیْمِ      میں پناہ مانگتا / مانگتی ہوں ۔  الله تعالٰی کی ۔ سے ۔ شیطان ۔ مردود       اَعُوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّیطٰنِ الَّجِیْمِ  میں الله تعالٰی کی پناہ مانگتا / مانگتی ہوں شیطان مردود سے اللہ تعالٰی کی مخلوقات میں سے ایک مخلوق وہ بھی ہے جسےشیطان کہتے ہیں ۔ وہ آگ سے پیدا کیا گیا ہے ۔ جب فرشتوں اور آدم علیہ السلام کا مقابلہ ہوا ۔ اور حضرت آدم علیہ السلام اس امتحان میں کامیاب ہو گئے ۔ تو الله تعالٰی نے فرشتوں کو حکم دیاکہ وہ سب کے سب آدم علیہ السلام کے آگے جھک جائیں ۔ چنانچہ اُن سب نے انہیں سجدہ کیا۔ مگر شیطان نے سجدہ کرنے سے انکار کر دیا ۔ اس لئے کہ اسکے اندر تکبّر کی بیماری تھی۔ جب اس سے جواب طلبی کی گئی تو اس نے کہا مجھے آگ سے پیدا کیا گیا ہے اور آدم کو مٹی سے اس لئے میں اس سے بہتر ہوں ۔ آگ مٹی کے آگے کیسے جھک سکتی ہے ؟ شیطان کو اسی تکبّر کی بنا پر ہمیشہ کے لئے مردود قرار دے دیا گیا اور قیامت ت...

سورۃ بقرہ تعارف ۔۔۔۔۔۔

🌼🌺. سورۃ البقرہ  🌺🌼 اس سورت کا نام سورۃ بقرہ ہے ۔ اور اسی نام سے حدیث مبارکہ میں اور آثار صحابہ میں اس کا ذکر موجود ہے ۔ بقرہ کے معنی گائے کے ہیں ۔ کیونکہ اس سورۃ میں گائے کا ایک واقعہ بھی  بیان کیا گیا ہے اس لئے اس کو سورۃ بقرہ کہتے ہیں ۔ سورۃ بقرہ قرآن مجید کی سب سے بڑی سورۃ ہے ۔ آیات کی تعداد 286 ہے ۔ اور کلمات  6221  ہیں ۔اور حروف  25500 ہیں  یہ سورۃ مبارکہ مدنی ہے ۔ یعنی ہجرتِ مدینہ طیبہ کے بعد نازل ہوئی ۔ مدینہ طیبہ میں نازل ہونی شروع ہوئی ۔ اور مختلف زمانوں میں مختلف آیات نازل ہوئیں ۔ یہاں تک کہ " ربا " یعنی سود کے متعلق جو آیات ہیں ۔ وہ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کی آخری عمر میں فتح مکہ کے بعد نازل ہوئیں ۔ اور اس کی ایک آیت  " وَ اتَّقُوْا یَوْماً تُرجَعُونَ فِیہِ اِلَی اللهِ "آیہ  281  تو قران مجید کی بالکل آخری آیت ہے جو 10 ہجری میں 10  ذی الحجہ کو منٰی کے مقام پر نازل ہوئی ۔ ۔ جبکہ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم حجۃ الوداع کے فرائض ادا کرنے میں مشغول تھے ۔ ۔ اور اس کے اسی نوّے دن بعد آپ صلی الله علیہ وسلم کا وصال ہوا ۔ اور وحی ا...

*بنی اسرائیل کی فضیلت*

يَا۔۔۔۔۔۔  بَنِي إِسْرَائِيلَ ۔۔۔۔۔۔        اذْكُرُوا    ۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔    نِعْمَتِيَ ۔۔۔۔۔۔۔۔  ۔ الَّتِي    اے  ۔ اولاد اسرائیل ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تم یاد کرو ۔۔۔۔۔۔۔ میری نعمتوں کو ۔۔۔۔ وہ جو  أَنْعَمْتُ    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ عَلَيْكُمْ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔   ۔ وَأَنِّي ۔۔۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔ فَضَّلْتُكُمْ        میں نے انعام کیں ۔ تم پر ۔ اور بے شک میں نے ۔۔۔۔۔۔۔فضیلت دی تم کو   عَلَى     ۔    الْعَالَمِينَ۔  4️⃣7️⃣ پر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔  تمام جہان  يَا بَنِي إِسْرَائِيلَ اذْكُرُوا نِعْمَتِيَ الَّتِي أَنْعَمْتُ عَلَيْكُمْ وَأَنِّي فَضَّلْتُكُمْ عَلَى الْعَالَمِينَ.   4️⃣7️⃣ اے بنی اسرائیل میرے وہ احسان یاد کرو  جو میں نے تم پر کئے اور یہ کہ میں نے تمہیں تمام عالم پر بڑائی دی ۔  فَضَّلْتُکُم۔ ( تمہیں بڑائی دی ) ۔ یہ لفظ فضل سے نکلا ہے ۔ جس کے معنی ہیں بڑائی ۔ تمام عالم پر فضیلت دینے کا مطلب یہ ہے کہ بنی اسرائیل تمام فِرقوں سے افضل رہے اور کوئی ان کا ہم پلہ نہ تھا...