نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

غیر معقول مطالبہ

غیر معقول مطالبہ


هَلْ ۔۔۔ يَنظُرُونَ ۔۔۔۔۔۔۔ إِلَّا ۔۔۔۔۔۔۔۔ أَن ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ يَأْتِيَهُمُ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔  اللَّهُ 

کیا ۔۔۔ وہ دیکھتے ہیں ۔۔۔ مگر ۔۔۔ یہ کہ ۔۔۔ آئے ان کے پاس ۔۔ الله تعالی 

فِي ۔۔ ظُلَلٍ ۔۔۔ مِّنَ ۔۔۔ الْغَمَامِ ۔۔۔۔۔۔۔۔وَالْمَلَائِكَةُ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وَقُضِيَ ۔۔۔ الْأَمْرُ 

میں ۔۔۔ سائے ۔۔۔  سے ۔۔ بادل ۔۔ اور فرشتے ۔۔۔ اور فیصلہ کیا جائے ۔۔۔کام 

وَإِلَى ۔۔۔ اللَّهِ ۔۔۔ تُرْجَعُ ۔۔۔ الْأُمُورُ 2️⃣1️⃣0️⃣

اور طرف ۔۔ الله ۔۔ لوٹتے ہیں ۔ کام 


هَلْ يَنظُرُونَ إِلَّا أَن يَأْتِيَهُمُ اللَّهُ فِي ظُلَلٍ مِّنَ الْغَمَامِ وَالْمَلَائِكَةُ وَقُضِيَ الْأَمْرُ وَإِلَى اللَّهِ تُرْجَعُ الْأُمُورُ. 2️⃣1️⃣0️⃣


کیا وہ یہی راہ دیکھتے ہیں کہ الله تعالی ابر کے سائبانوں میں آئے اور فرشتے (آئیں) اور قصہ طے ہوجائے اور الله تعالی کی طرف ہی تمام کام لوٹیں گے ۔


الله تعالی نے انسان کو مختلف قوتیں بخشیں ۔ جس میں عقل اور فہم کی قوت بھی شامل ہے ۔ تاکہ انسان سچ اور جھوٹ ، نیک اور بد ، انصاف اور ظلم میں تمیز کر سکے ۔ ان قوتوں کے علاوہ الله تعالی نے انسان کی ھدایت کے لئے علماء بھیجے ۔ اور ان کی صداقت کو ثابت کرنے کے لئے مختلف نشانیاں بھی بھیجیں ۔تاکہ انسان ان نشانیوں کو دیکھ کر پیغمبروں پر ایمان لائے ۔ ان کی تعلیمات پر غور کرے ۔اور الله جل شانہ تک پہنچنے کا راستہ اختیار کرے ۔ 

الله تعالی کی نشانیوں میں اول تو وہ نشانیاں ہیں جو گویا خود منہ سے بولتی ہیں ۔

مثلاً کائنات کی تخلیق ، اس کا انتظام ، اس کا ارتقاء ، پھر انسان کی ضروریات اور اس کی تسکین کا سامان یہ سب چیزیں بتاتی ہیں کہ کہ ان کا بنانے والا ضرور کوئی ہے ۔ جو قادرِمطلق ہے ۔ حکیم و دانا ہے ۔ حاضر و ناظر ہے ۔ رحیم و شفیق ہے ۔ 

دوسری وہ نشانیاں ہیں جو ہمیں رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے ذریعے سے پہنچی ہیں ۔ مثلا آپ کی ذات ایک کامل نمونہ ، آپ کا بے داغ کردار ، آپ کا حسنِ اخلاق اور آپ کے معجزات وغیرہ 

ان دونوں قسم کی نشانیوں کو دیکھنے کے بعد انسان کی عقل اس بات کا تقاضہ کرتی ہے کہ الله تعالی پر ایمان لایا جائے ۔ جو تمام جہانوں کا خالق ہے ۔ اور سب کی تربیت کرنے والا ہے ۔ اگر کوئی آدمی یا گروہ اس سے منہ موڑتا ہے تو وہ گویا اس بات کا انتظار کر رہا ہے کہ الله تعالی خود فرشتوں کے لشکر کے ساتھ ان کے سامنے آئے اور بتائے کہ یہ میرا حکم ہے ۔ اسے مانو ۔۔۔ اس قسم کا انتظار ایسے لوگوں کی بربادی اور تباہی پر جاکر ختم ہوگا ۔اس لئے کہ نہ ایسا کبھی ہوا ہے اور نہ کبھی ہو گا ۔ 

الله تعالی نے عقل اور بصیرت دی اور اس کے بعد اپنی نشانیاں بھیج دیں ۔ اب ان پر یقین کرنا انسان پر فرض ہوگیا ۔ اگر کوئی شخص نہ ان نشانیوں پر غور کرے اور نہ عقل و فہم سے کام لے ۔ تو وہ یقینا ھلاک ہو گا ۔ کیونکہ اس کے ایمان نہ لانے کی کوئی وجہ باقی نہ رہی ۔ پھر ان سب کو الله تعالی کے حضور جمع ہونا ہے ۔  کیونکہ سب کاموں کا مدار اسی الله جل جلالہ پر ہے ۔ اور وہی ان کا فیصلہ فرمائے گا ۔ 

درس قرآن ۔۔۔ مرتبہ درس قرآن بورڈ 

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

تعوُّذ۔ ۔۔۔۔۔ اَعُوذُ بِالله مِنَ الشَّیطٰنِ الَّرجِیمِ

     اَعُوْذُ ۔                بِاللهِ  ۔ ُ     مِنَ ۔ الشَّیْطٰنِ ۔ الرَّجِیْمِ      میں پناہ مانگتا / مانگتی ہوں ۔  الله تعالٰی کی ۔ سے ۔ شیطان ۔ مردود       اَعُوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّیطٰنِ الَّجِیْمِ  میں الله تعالٰی کی پناہ مانگتا / مانگتی ہوں شیطان مردود سے اللہ تعالٰی کی مخلوقات میں سے ایک مخلوق وہ بھی ہے جسےشیطان کہتے ہیں ۔ وہ آگ سے پیدا کیا گیا ہے ۔ جب فرشتوں اور آدم علیہ السلام کا مقابلہ ہوا ۔ اور حضرت آدم علیہ السلام اس امتحان میں کامیاب ہو گئے ۔ تو الله تعالٰی نے فرشتوں کو حکم دیاکہ وہ سب کے سب آدم علیہ السلام کے آگے جھک جائیں ۔ چنانچہ اُن سب نے انہیں سجدہ کیا۔ مگر شیطان نے سجدہ کرنے سے انکار کر دیا ۔ اس لئے کہ اسکے اندر تکبّر کی بیماری تھی۔ جب اس سے جواب طلبی کی گئی تو اس نے کہا مجھے آگ سے پیدا کیا گیا ہے اور آدم کو مٹی سے اس لئے میں اس سے بہتر ہوں ۔ آگ مٹی کے آگے کیسے جھک سکتی ہے ؟ شیطان کو اسی تکبّر کی بنا پر ہمیشہ کے لئے مردود قرار دے دیا گیا اور قیامت ت...

سورۃ بقرہ تعارف ۔۔۔۔۔۔

🌼🌺. سورۃ البقرہ  🌺🌼 اس سورت کا نام سورۃ بقرہ ہے ۔ اور اسی نام سے حدیث مبارکہ میں اور آثار صحابہ میں اس کا ذکر موجود ہے ۔ بقرہ کے معنی گائے کے ہیں ۔ کیونکہ اس سورۃ میں گائے کا ایک واقعہ بھی  بیان کیا گیا ہے اس لئے اس کو سورۃ بقرہ کہتے ہیں ۔ سورۃ بقرہ قرآن مجید کی سب سے بڑی سورۃ ہے ۔ آیات کی تعداد 286 ہے ۔ اور کلمات  6221  ہیں ۔اور حروف  25500 ہیں  یہ سورۃ مبارکہ مدنی ہے ۔ یعنی ہجرتِ مدینہ طیبہ کے بعد نازل ہوئی ۔ مدینہ طیبہ میں نازل ہونی شروع ہوئی ۔ اور مختلف زمانوں میں مختلف آیات نازل ہوئیں ۔ یہاں تک کہ " ربا " یعنی سود کے متعلق جو آیات ہیں ۔ وہ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کی آخری عمر میں فتح مکہ کے بعد نازل ہوئیں ۔ اور اس کی ایک آیت  " وَ اتَّقُوْا یَوْماً تُرجَعُونَ فِیہِ اِلَی اللهِ "آیہ  281  تو قران مجید کی بالکل آخری آیت ہے جو 10 ہجری میں 10  ذی الحجہ کو منٰی کے مقام پر نازل ہوئی ۔ ۔ جبکہ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم حجۃ الوداع کے فرائض ادا کرنے میں مشغول تھے ۔ ۔ اور اس کے اسی نوّے دن بعد آپ صلی الله علیہ وسلم کا وصال ہوا ۔ اور وحی ا...

*بنی اسرائیل کی فضیلت*

يَا۔۔۔۔۔۔  بَنِي إِسْرَائِيلَ ۔۔۔۔۔۔        اذْكُرُوا    ۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔    نِعْمَتِيَ ۔۔۔۔۔۔۔۔  ۔ الَّتِي    اے  ۔ اولاد اسرائیل ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تم یاد کرو ۔۔۔۔۔۔۔ میری نعمتوں کو ۔۔۔۔ وہ جو  أَنْعَمْتُ    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ عَلَيْكُمْ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔   ۔ وَأَنِّي ۔۔۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔ فَضَّلْتُكُمْ        میں نے انعام کیں ۔ تم پر ۔ اور بے شک میں نے ۔۔۔۔۔۔۔فضیلت دی تم کو   عَلَى     ۔    الْعَالَمِينَ۔  4️⃣7️⃣ پر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔  تمام جہان  يَا بَنِي إِسْرَائِيلَ اذْكُرُوا نِعْمَتِيَ الَّتِي أَنْعَمْتُ عَلَيْكُمْ وَأَنِّي فَضَّلْتُكُمْ عَلَى الْعَالَمِينَ.   4️⃣7️⃣ اے بنی اسرائیل میرے وہ احسان یاد کرو  جو میں نے تم پر کئے اور یہ کہ میں نے تمہیں تمام عالم پر بڑائی دی ۔  فَضَّلْتُکُم۔ ( تمہیں بڑائی دی ) ۔ یہ لفظ فضل سے نکلا ہے ۔ جس کے معنی ہیں بڑائی ۔ تمام عالم پر فضیلت دینے کا مطلب یہ ہے کہ بنی اسرائیل تمام فِرقوں سے افضل رہے اور کوئی ان کا ہم پلہ نہ تھا...