نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

اشاعتیں

اکتوبر, 2015 سے پوسٹس دکھائی جا رہی ہیں

منافقوں کا دھوکا ۔۔۔۔

يُخَادِعُونَ  ۔                 اللَّهَ ۔        وَالَّذِينَ  ۔         آمَنُوا  ۔          وَمَا            ۔ يَخْدَعُونَ  ۔ وہ دھوکا دیتے ہیں ۔ الله تعالی ۔ اور وہ لوگ ۔ ایمان لائے ۔ اور نہیں ۔ وہ دھوکا دیتے      9️⃣ إِلَّا  ۔        أَنفُسَهُمْ  ۔            وَمَا  ۔             يَشْعُرُونَ۔  ۔ مگر ۔ اپنی ذات کو ۔ اور نہیں ۔         وہ سمجھتے۔     ۔       يُخَادِعُونَ اللَّهَ وَالَّذِينَ آمَنُوا وَمَا يَخْدَعُونَ إِلَّا أَنفُسَهُمْ وَمَا يَشْعُرُونَ۔     9️⃣ط وہ الله اور مؤمنوں کو دھوکا دیتے ہیں ۔ اور نہیں وہ دھوکا دیتے مگر اپنے آپ کو اور وہ نہیں سمجھتے ۔  یُخٰدِعُوْنَ ۔۔۔ وہ دھوکا بازی کرتے ہیں ۔ یہ لفظ خَدَعَ سے بنا ہے ۔ اس کے معنی ہیں دل میں بُری بات چھپانا...

منافقوں کا دعوٰی ایمانی ۔۔۔۔

وَ ۔ مِنَ ۔النَّاسِ ۔ مَن ۔      يَقُولُ  ۔                 آمَنَّا ۔             بِاللَّهِ۔       ۔ وَبِالْيَوْمِ  الْآخِرِ ۔    وَمَا  ۔ هُم ۔   بِمُؤْمِنِينَ۔  8️⃣م اور۔  سے ۔ لوگوں ۔ جو ۔ وہ کہتا ہے ۔ ہم ایمان لاتے ہیں ۔ الله تعالی پر ۔ اور آخرت کے دن پر ۔ اور نہیں ۔ وہ ۔ ایمان والے  ۔ وَمِنَ النَّاسِ مَن يَقُولُ آمَنَّا بِاللَّهِ وَبِالْيَوْمِ الْآخِرِ وَمَا هُم بِمُؤْمِنِينَ۔   8️⃣م  اور کچھ لوگ ہیں جو کہتے ہیں ہم الله تعالی پر اور آخرت کے دن پر ایمان لاتے ہیں  حالانکہ وہ ایما ن والے نہیں ہیں ۔  اب تک الله تعالی نے قرآن مجید میں دو قسم کے لوگوں کا ذکر کیا ہے ۔ ایک الله جل شانہ کے قانون کے فرمانبردار  مومن ۔ اور دوسرے قانونِ الٰہی کا انکار کرنے والے کافر ۔ اب تیسری قسم کے لوگوں کا ذکر شروع ہو رہا ہے ۔ یہ لوگ بھی اسلام کے مخالف اور دشمن ہی ہیں مگر یہ اپنے کفر اور دشمنی پر فریب کا پردہ ڈالے رکھتے ہیں ۔ زبان پر اسلام ...

منافق ۔۔۔

سورۃ بقرہ کے شروع میں قرآن کریم کا شک وشبہ سے پاک ہونا بیان کرنے کے بعد بیس آیات میں اُس کے ماننے والوں اور نہ ماننے والوں کا ذکر کیا گیا ہے ۔ پہلی پانچ آیات میں ماننے والوں کا ذکر متقین کے عنوان سے ہے ۔ پھر دو آیتوں میں ایسے نا ماننے والوں کا ذکر ہے جو کُھلے طور پر قرآن مجید سے دشمنی رکھتے ہوئے انکار کرتے ہیں ۔ اب اگلی تیرہ آیتوں میں ایسے منکرین اور وکفار کا ذکر ہے جو ظاہر میں  اپنے آپ کو مؤمن مسلمان کہتے ہیں لیکن حقیقت میں مومن نہ تھے ۔ اِن لوگوں کا نام قرآن مجید میں منافقین رکھا گیا ہے  یہ بات گزر چکی ہے۔ کہ ہر تحریک کی طرح اسلام کے آنے پر بھی تین گروہ پیدا ہوئے ۔ ایک اس کی سچائی پر ایمان لانے والے مؤمن ۔ دوسرے اس کا انکار اور مخالفت کرنے والے  کافر ۔ تیسرا وہ گروہ جو بظاہر ساتھ ہو گیا ۔ مگر حقیقت میں دل سے ایمان نہ لایا ۔ یہ منافق تھے ۔ مؤمن اور کافر کا ذکر پہلے رکوع میں ہوا ۔ اب تیسرے گروہ منافقین کاذکر شروع ہوتا ہے ۔  منافق لفظ نفق سے نکلا ہے ۔ اس کے معنی ہیں سُرنگ لگانا ۔ جیسے جنگلی جانور زمین کے اندر اندر سُرنگیں بناتے ہیں ۔ تاکہ وقت آنے پر ان میں چھپ سکیں ۔ ...

کفر کا نتیجہ ۔۔۔۔

خَتَمَ     اللَّهُ۔           عَلَى۔    قُلُوبِهِمْ         وَ۔   عَلَى    سَمْعِهِمْ۔     وَعَلَى۔    أَبْصَارِهِمْ      غِشَاوَةٌ    وَلَهُم۔     عَذَابٌ۔      عَظِيمٌ مہر لگا دی ۔ الله تعالی نے ۔پر  ۔ اُن کے دلوں اور ۔ پر ۔ اُن کے کان ۔ اور پر ۔ اُنکی آنکھیں ۔  پردہ  ۔ اور ان کے لئے ۔ عذاب۔ بڑا  خَتَمَ اللَّهُ عَلَى قُلُوبِهِمْ وَعَلَى سَمْعِهِمْ وَعَلَى أَبْصَارِهِمْ غِشَاوَةٌ وَلَهُمْ عَذَابٌ عَظِيمٌ الله تعالی نے اُن کے دلوں اور کانوں پر مُہر لگا دی ۔ اور اُن کی آنکھوں پر پردہ ہے اور اُن کے لئے بہت بڑا عذاب ہے ۔  خَتَمَ ۔۔۔ مُہر لگا دی ۔ اس سے مراد وہ نتیجہ ہے جو مسلسل انکار اور مخالفت حق سے پیدا ہوتا ہے ۔ مہر لگانے کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ جس پر مہر لگائی گئی ہے ۔ باہر سے کوئی چیز اس کے اندر نہ جا سکے اور اندر سے کوئی چیز باہر نہ آسکے ۔ مثلا دل پر مہر لگ جائے تو نہ حق بات دل میں داخل ہو سکتی ہے ۔ اور نہ کسی اچھ...

کافر ۔۔۔۔

إِنَّ  ۔ الَّذِينَ  ۔ كَفَرُوا      ۔ سَوَاءٌ    ۔ عَلَيْهِمْ    ۔ أَ     ۔ أَنذَرْتَهُمْ     ۔    أَمْ    ۔ لَمْ             ۔ تُنذِرْهُمْ۔       لَا        ۔  يُؤْمِنُونَ 6⃣ بے شک ۔ جو لوگ ۔ کافر ہیں ۔ برابر ہے ۔ اُن پر ۔ کیا ۔ آپ ڈرائیں اُن کو ۔ یا ۔ نہ ۔ آپ ڈرائیں اُن کو ۔ نہیں ۔ وہ ایمان لائیں گے  إِنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا سَوَاءٌ عَلَيْهِمْ أَأَنذَرْتَهُمْ أَمْ لَمْ تُنذِرْهُمْ لَا يُؤْمِنُونَ 6⃣ بےشک جن لوگوں نے کفر کیا ۔ برابر ہے اُن کے لئے  آپ انہیں ڈرائیں یا نہ ڈرائیں وہ نہیں ایمان لائیں گے  ۔  کفروا ۔۔۔ جو انکار کرتے ہیں ۔ یہ لفظ کفر سے نکلا ہے ۔ جس کے معنی ہیں چھپانا ۔ نا شُکری کو بھی کفر اس لئے کہتے ہیں ۔ کہ محسن کے احسان کو چھپانا ہے ۔  شریعت میں جن چیزوں پر ایمان لانا فرض ہے ۔ ان میں سے کسی کا انکار کرنا کفر کہلاتا ہے ۔ کافر اسے کہتے ہیں جو حق کا منکر اور مخالف ہو ۔ اور الله جل شانہ اور اس کے رسو...

کامیاب لوگ ۔۔۔

               أُولَئِكَ   ۔  عَلَى ۔    هُدًى  ۔    مِّن     ۔  رَّبِّهِمْ        ۔  وَ ۔     أُولَئِكَ     ۔هُمُ ۔   الْمُفْلِحُونَ۔      یہی لوگ ۔ پر  ۔ ہدایت ۔ سے  ۔ اپنے رب         ۔ اور ۔ یہی لوگ ۔ وہ ۔       کامیابی پانے والے۔       أُولَئِكَ عَلَى هُدًى مِّن رَّبِّهِمْ وَأُولَئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ         5⃣        ۔    یہی لوگ اپنے پروردگار کی طرف سے ہدایت پر ہیں اور یہی لوگ فلاح ( کامیابی ) پانے والے ہیں ۔  اَلْمُفْلِحُوْنَ ۔۔۔ یہ لفظ فلاح سے بنا ہے ۔ اس کے لفظی معنی چیرنا پھاڑنا ہیں ۔ کاشتکار کو فلاّحٌ اسی لئے کہتے ہیں ۔ کہ وہ زمین کھودتا ہے ۔ اور بیج بوتا ہے ۔ جو زمین کو چیر کر پودے کی صورت باہر آتا ہے ۔ عربی زبان میں یہ لفظ بڑے وسیع معنی میں آتا ہے ۔ دُنیا اور آخرت کی ساری کامیابیاں  اس میں جمع ہیں ۔ ...

متّقیوں کی صفات ۔۔۔ ۵ ۔۔۔۔ قیامت پر ایمان

وَ  ۔ بِالْاٰخِرَۃِ   ۔   ھُمْ ۔ یُوْقِنُوْنَ  4⃣۔ ط  اور۔ آخرت پر  ۔ وہ ۔ یقین رکھتے ہیں   وَ بِالْاٰخِرَۃِ ھُمْ یُوْقِنُونَ 4⃣ط  اور وہ آخرت پر یقین رکھتے ہیں  الْاٰخِرَہ سے مراد ہے ۔ اَلدَّارُ الْاٰخِرَۃِ ۔ یعنی مرنے کے بعد  آنے والی دوسری زندگی ۔ اسے قرآن مجید میں اَلْیَوْمُ الْاٰخِرَہ بھی کہا گیا ہے ۔  یُوْقِنُوْنَ ۔ یہ لفظ ایقان سے بنا ہے ۔ جو یقین سے نکلا ہے ۔ یقین اُس علم کو کہتے ہیں جسے دلیل سے اس قدر واضح اور روشن کر دیا ہو کہ اس میں شک وشبہ کی کوئی گنجائش باقی نہ رہے ۔ بِالْاٰخِرَہ کا لفظ پہلے اور یُوقِنُونَ کا لفظ بعد میں استعمال کرنے سے تاکید میں اضافہ ہو گیا ہے ۔  یہ دُنیا دار العمل ہے ۔ یعنی وہ زندگی جس کے بعد عمل کی مہلت ختم ہو جاتی ہے ۔ اس کے بعد آنے والی دُنیا دارُ الجزاء ہے ۔ جس میں ہمارے ایک ایک کام کا پورا پورا بدلہ ملے گا ۔ اس میں شک نہیں کہ اس دُنیا میں بھی ہمیں حالات و واقعات کے لحاظ سے بدلہ ملتا ہے ۔ لیکن کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ انسان کو پورا بدلہ نہیں ملتا ۔ نیک عمل جزاء سے محروم رہ جاتے ہیں اور ...

متّقیوں کی صفات ۔۔۔۔۴ ۔۔۔۔ کتابوں پر ایمان 🍀🌺🍀

وَ     ۔ الَّذِیْنَ           ۔ یُؤْمِنُونَ         ۔ بِمَا ۔     اُنْزِلَ     ۔ اِلَیْ      ۔ کَ ۔    وَ ۔     مَا ۔    اُنْزِلَ ۔    مِنْ ۔            قَبْلِکَ   ۔ ج اور ۔ جو لوگ ۔ ایمان لاتے ہیں ۔ اس پر جو ۔ اُتارا گیا ۔  طرف ۔  آپ کی ۔ اور ۔ جو ۔  اُتارا گیا ۔ سے ۔  آپ سے پہلے  ۔۔ وَ الَّذِیْنَ یُؤْمِنُوْنَ بِمَآ اُنْزِلَ اِلَیْکَ وَ مَا اُنْزِلَ مِنْ قَبْلِکَ  ۔  ج اور جو لوگ ایمان لاتے ہیں اس پر جو آپ پر نازل ہوا اور جو آپ سے پہلے نازل ہوا۔  اس آیہ مبارکہ میں متقی لوگوں کی چوتھی صفت بیان کی گئی ہے ۔ یعنی یہ لوگ تمام آسمانی کتابوں اور صحیفوں پر ایمان رکھتے ہیں ۔   گویا اس آیہ مبارکہ میں دو باتیں بیان کی گئی ہیں ۔ ایک یہ کہ جو کتاب یعنی قرآن مجید  رسول الله صلی الله علیہ وسلم پر نازل ہوئی ہے اس پر سچے دل سے ایمان لایا جائے اور دوسرا یہ کہ جو کتا بیں آپ سے پہلے نبیوں...

متّقیوں کی صفات ۔۔۔۳ ۔۔۔۔ مالی قربانی

وَ ۔               مِمَّا ۔            رَزَقْنٰھُمْ ۔     یُنْفِقُوْنَ     3⃣ لا  اور ۔ اُس میں سے جو ۔ ہم نے انہیں دیا ۔ وہ خرچ کرتے ہیں  وَ مِمَّا رَزَقْنٰھُمْ یُنْفِقُوْنَ  3⃣ لا  اور جو کچھ ہم نے اُنہیں دیا اس میں سے خرچ کرتے ہیں ۔  رَزَقْنٰھُمْ ۔ ( ہم نے انہیں دیا ) ۔ یہ دو لفظ ہیں ۔ رَزَقْنَا  اور۔ ھُم  رَزَقْنَا  رزق  سے نکلا ہے ۔ عربی میں یہ لفظ بہت سے معنوں میں استعمال ہوتا ہے  ۔ رزق سے مراد ہر قسم کی نعمتیں  ہیں ۔ خواہ ظاہری ہوں یعنی مال ، صحت ، اولاد وغیرہ  یا باطنی ہوں جیسے علم دانائی اور سمجھ وغیرہ ۔ مال الله تعالی کی بخشش میں سے ایک بہت بڑا عطیہ ہے ۔  اس سے یہ بھی ظاہر ہے کہ ہر چیز الله تعالی کی طرف سے ملتی ہے ۔ اور جو بھی نعمت انسان کو ملتی ہے الله تعالی کی عنایت سے ملتی ہے ۔   یُنْفِقُونَ ۔ ( وہ خرچ کرتے ہیں ) ۔ یہ لفظ انفاق سے نکلا ہے ۔ جس کے معنی خرچ کرنا ہیں ۔  آیہ مبارکہ کے اس حصہ میں متّقی لوگوں کی تیسری...

متّقیوں کی صفات ۔۔۔۔۔ ۲۔۔۔۔ نماز کی پابندی۔

       وَ ۔     یُقِیْمُونَ  ۔     الصَّلٰوۃَ ۔   اور ۔ وہ قائم کرتے ہیں ۔        نماز   وَ یُقِیْمُونَ الصَّلٰوۃَ  اور وہ نماز قائم کرتے ہیں ۔۔ یُقِیْمُوْنَ ۔۔۔۔ قائم کرتے ہیں ۔۔ اقامت سے بنا ہے ۔ اس کے معنی ہیں قائم کرنا ۔ اقامت الصلوۃ سے مراد یہ ہے کہ پوری شرائط اور پابندی کے ساتھ نماز باقاعدگی کے ساتھ خود بھی ادا کرے ۔اور دوسروں کو بھی اس کی ادائیگی پر آمادہ کرے ۔  صلٰوۃ کے لفظی معنی دُعا کے ہیں ۔ شریعت میں صلٰوۃ خاص عبادت ( نماز ) کا نام ہے ۔ اس کا نام صلٰوۃ اس لئے رکھا گیا ہے ۔ کہ اس عبادت میں سب سے زیادہ حصہ دُعا کا ہے ۔ نماز میں زبان سے بھی دُعا کی جاتی ہے ۔ دل سے بھی اور ظاہری اعضاء سے بھی ۔  ایمان بالغیب کے بعد متّقی لوگوں کی دوسری صفت بیان کی گئی ہے ۔ یعنی وہ پابندی سے نماز قائم کرتے ہیں ۔ نماز الله تعالی کے آگے جھکنے ۔ اپنی بندگی کا اظہار کرنے  ۔ الله کریم سے گہرا تعلق پیدا کرنے  اور اُمت کے تمام لوگوں میں تنظیم پیدا کرنے کا بہترین ذریعہ ہے ۔ نماز بدنی عبادتوں میں سب سے ا...

متّقیوں کی صفات ۔۔ ۔۔۔ 1. ( ایمان بالغیب )

الَّذِیْنَ  ۔  یُؤْمِنُونَ۔           بِالْغَیْبِ  ۔  جو لوگ ۔  ایمان لاتے ہیں۔ ۔  غیب پر  اَلّذِینَ یُؤْمِنُونَ بُالْغَیْبِ  جو لوگ غیب پر ایمان لاتے ہیں۔   الَّذِیْنَ ؛  وہ لوگ جو کہ ۔ یہ اسم موصول ہے ۔ اس کا واحد الَّذِی ہے ۔  قرآن مجید میں یہ لفظ بار بار استعمال ہو گا ۔ ذہن نشین کر لیں ۔  یؤْمِنُونَ ۔  ایمان لاتے ہیں ۔ یہ لفظ ایمان سے نکلا ہے ۔ ایمان سے مراد ہے کسی حقیقت کو زبان سے ماننا ۔ دل سے اس پر یقین کرنا  اور اس کے مطابق اس پر عمل کا ارادہ کر لینا ۔ جو ایمان لاتا ہے وہ ہر قسم کے شک وشبہ سے امن میں آجاتا ہے ۔  یہی ایمان ہے جو شریعت میں قابل اعتبار ہے ۔  لغت میں کس کی بات کو کسی کے اعتبار پر پورے طور پر مان لینے کا نام ایمان ہے ۔ اسی لئے دیکھ کر یا محسوس کر کے کسی کی بات مان لینے کو ایمان نہیں کہتے ۔ مثلا کوئی شخص سفید کپڑے کو سفید یا سیاہ کو سیاہ کہہ رہا ہے اور دوسرا اس کی تصدیق و تائید کر رہا  اس کو ایمان لانا نہیں کہیں گے ۔ کیونکہ یہ تصدیق مشاہدہ کی بنا پر ہے اس میں ...

دیار عشق میں اپنا مقام پیدا کر

میرے کانوں نے پہلی آواز جو سنی وہ الله اکبر کی تھی ۔ اور ایک اور نام محمد صلی الله علیہ وسلم بھی سنائی دیا ۔ جو میں دنیا میں آنے سے پہلے بھی سنتا رہا تھا ۔ جوں جوں میں ہوش سنبھالتا گیا یہ دونوں نام اکثر و بیشتر سنائی دیتے رہے ۔ کبھی ایک پکار کی صورت بلند اور کبھی ماں کی گود میں دودھ پیتے ہوئے سرگوشی کی صورت ۔ صبح سویرے جب میں بھوک سے بے قرار ہو کر بیدار ہوتا تو میری ماں یہ دونوں نام لے کر میرے منہ پر ہاتھ پھیرتی  اور پھر مجھے دودھ پلانے لگتی ۔ ۔ جب اور بڑا ہوا تو ماں نے مجھے یاد کروایا ۔ الله ایک ہے ۔ ہم مسلمان ہیں ۔ ہمارا مذہب اسلام ہے اور حضرت محمد صلی الله علیہ وسلم الله کے آخری نبی ہیں ۔ ۔ میں نے یہ سب اچھی طرح یاد کر لیا ۔ پھر میں اپنے ابا کے ساتھ کبھی کبھی مسجد میں جمعہ کی نماز پڑھنے جانے لگا ۔ میرے ابا سفید کلف والے کپڑے پہنتے اور میری اماں مجھے بھی سفید کلف والی شلوار قمیض پہنا دیتی ۔ میں چار سال کا ہونے والا تھا ۔ ایک دن جمعہ کے دن نماز کے بعد میرے ابا مجھے گاڑی میں بٹھا کر کہیں لے گئے ۔ایک داڑھی والے شخص تھے ۔  انہوں نے میری تاریخ پیدائش پوچھی ۔ تو ابا جی نے بتایا اک...

قرآن مجید کا مقصد ۔۔۔۔

 ھُدًی ۔ لِ ۔ الْمُتَّقِیْنَ  ہدایت ۔ کے لئے ۔ پرھیز گار ( جمع ) ۔  ھُدًی لِّلمُتَّقِیْنَ 2⃣ لا  پرھیزگاروں کے لئے ھدایت ہے ۔ ھُدًی ۔۔۔ ہدایت ۔ راستہ کا علم ، راستہ پر چلنے کا سامان ،اور توفیق ، منزل پر پہنچنے کی قوّت ۔ یہ تمام باتیں ہدایت کے معنوں میں شامل ہیں ۔ مُتَّقِیْنَ ۔۔۔ یہ متقی کی جمع ہے ۔ اور لفظ تقوٰی سے بنا ہے ۔ متقی وہ ہے جس میں تقوٰی ہو ۔ تقوٰی احتیاط اور نگہداشت کو کہتے ہیں ۔ اسی اعتبار سے متقی کے معنی ہوئے پرھیزگاری سے زندگی بسر کرنے والا ۔ جو ہر کام سوچ سمجھ کر احتیاط سے کرتا ہو ۔ تقوٰی کی تشریح میں حضرت ابی بن کعب رضی الله عنہ کا واقعہ قابل غور ہے ۔  حضرت ابی بن کعب رضی الله عنہ سے ایک بار حضرت عمر رضی الله عنہ نے پوچھا ۔ تقوٰی کسے کہتے ہیں ۔ انہوں نے فرمایا ۔ اگر کسی ایسے جنگل میں سے گزرو جو کانٹوں اور جھاڑیوں سے بھرا ہوا ہو ۔ تو کیا کرو گے ؟  انہوں نے جواب دیا ۔ میں اپنے کپڑوں کو سمیٹ لوں گا ۔ کہ دامن کانٹوں سے نہ اُلجھے ۔  حضرت ابی بن کعب رضی الله تعالی عنہ نے فرمایا ۔ بس یہی تقوٰی ہے ۔  ظاہر ہوا کہ قرآن کی ہدایت اُن لوگوں کے ...

قرآن مجید کی حیثیت ۔۔۔

ذٰلِکَ ۔ الْکِتَابُ ۔ لَا ۔ رَیْبَ ۔ فِیْهِ   ج۰۰ یہ ۔ کتاب ۔ نہیں ۔ شک ۔ اس میں   ذٰلِکَ الْکِتَابُ لَا رَیْبَ۔   ج 🔺 فِیْهِ ج🔺 ۔ اس کتاب میں کوئی شک نہیں    ذٰلِکَ ۔۔۔ (  یہ ) کسی چیز کی طرف اشارہ کرنے کے لئے آتا ہے ۔ عربی میں ذٰلک اور اس کے علاوہ کچھ اور لفظ اشارہ کے لئے استعمال ہوتے ہیں ۔ ذٰلک عام طور پر دُور کی چیز کی طرف اشارہ کرنے کے لئے آتا ہے ۔ یہاں قرآن مجید کی بزرگی اور بڑائی کے لحاظ سے دُور کا اشارہ قریب  ( اس ) کے معنوں میں استعمال ہوا ہے ۔  اَلْکِتٰبُ ۔۔۔ ہر لکھی ہوئی چیز کو کتاب کہتے ہیں ۔ ال  جب کسی اسم کے شروع میں آئے تو اسے خاص کر دیتا ہے ۔ چنانچہ کتاب سے پہلے جو ال ہے ۔ اس سے خاص کتاب قرآن مجید مراد ہے ۔ دُنیا میں ہر شخص کو سچے اصول معلوم کرنے کی ضرورت ہوتی ہے ۔ تاکہ ان پر چل کر اپنا مقصد حل کر سکے ۔ بعض لوگ چاہتے ہیں کہ ایسے اصول اپنی عقل سے معلوم کر لیں ۔ مگر تجربہ سے ظاہر ہے ۔ کہ جو اصول انسان اپنی عقل سے  نکالتا ہے وہ سچے ، یقینی اور دائمی نہیں ہو سکتے ۔ کیونکہ مختلف مسائل کے بارے میں لوگوں کے مختلف خیالات پائے ...

سورۃ بقرہ ۔۔۔۔ آلٓمّٓ

بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ 💐🍀💐     آلٓمّٓ  آلٓمّٓ سورۃ بقرہ کی ابتداء  الم سے ہوئی ہے ۔ اس قسم کے حروف گو حروف مقطعات کہتے ہیں ۔  یہ حروف اکٹھے لکھے جاتے ہیں لیکن الگ الگ پڑھے جاتے ہیں ۔الف  ۔ لام۔ میم  یہ حروف ( آلٓمّٓ ) اس سورۃ کے علاوہ پانچ اور سورتوں کے شروع میں آئے ہیں ۔ ان حروف کے علاوہ اس قسم کےکچھ اور حروف بھی ہیں ۔  جو قرآن مجید کی مختلف سورتوں کی ابتداء میں ہیں ۔ جیسے حٓمٓ   ۔ آلٓمّٓرٓ  ۔  حروف مقطعات سے شروع ہونے والی سورتوں کی کُل تعداد اُنتیس ( 29 ) ہے ۔  ان حروف کے معنی کیا ہیں ؟ اس کے بارے میں یقینی جواب نہیں دیا جا سکتا ۔ بعض مفسرین کرام نے فرمایا کہ یہ ان سورتوں کے نام ہیں ۔ جن کے شروع میں آئے ہیں ۔ بعض نے فرمایا  ۔ان حروف میں الله تعالی کے نام چُھپے ہوئے ہیں ۔ مگر جمہور صحابہ رضوان الله تعالی علیھم  اور تابعین کرام اور علماء امت کے نزدیک یہ حروف رموز اور اسرار ہیں ۔ جس کا علم سوائے الله تعالی کے اور کسی کو نہیں ۔ کیونکہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم سے ان حروف کی تفسیر وتشریح میں کچھ ...

سورۃ بقرہ تعارف ۔۔۔۔۔۔

🌼🌺. سورۃ البقرہ  🌺🌼 اس سورت کا نام سورۃ بقرہ ہے ۔ اور اسی نام سے حدیث مبارکہ میں اور آثار صحابہ میں اس کا ذکر موجود ہے ۔ بقرہ کے معنی گائے کے ہیں ۔ کیونکہ اس سورۃ میں گائے کا ایک واقعہ بھی  بیان کیا گیا ہے اس لئے اس کو سورۃ بقرہ کہتے ہیں ۔ سورۃ بقرہ قرآن مجید کی سب سے بڑی سورۃ ہے ۔ آیات کی تعداد 286 ہے ۔ اور کلمات  6221  ہیں ۔اور حروف  25500 ہیں  یہ سورۃ مبارکہ مدنی ہے ۔ یعنی ہجرتِ مدینہ طیبہ کے بعد نازل ہوئی ۔ مدینہ طیبہ میں نازل ہونی شروع ہوئی ۔ اور مختلف زمانوں میں مختلف آیات نازل ہوئیں ۔ یہاں تک کہ " ربا " یعنی سود کے متعلق جو آیات ہیں ۔ وہ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کی آخری عمر میں فتح مکہ کے بعد نازل ہوئیں ۔ اور اس کی ایک آیت  " وَ اتَّقُوْا یَوْماً تُرجَعُونَ فِیہِ اِلَی اللهِ "آیہ  281  تو قران مجید کی بالکل آخری آیت ہے جو 10 ہجری میں 10  ذی الحجہ کو منٰی کے مقام پر نازل ہوئی ۔ ۔ جبکہ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم حجۃ الوداع کے فرائض ادا کرنے میں مشغول تھے ۔ ۔ اور اس کے اسی نوّے دن بعد آپ صلی الله علیہ وسلم کا وصال ہوا ۔ اور وحی ا...

سورۃ فاتحہ کا خلاصہ ۔۔۔۔۔

سورۃ فاتحہ سات آیتوں پر مشتمل ہے ۔ جن میں سے پہلی تین آیتوں میں الله تعالی کی حمد وثناء ہے ۔ اور آخری تین آیتوں میں  انسان کی طرف سے دُعا اور درخواست ہے ۔ جو الله رب العزت نے اپنی رحمت سے خود ہی انسان کو سکھایا ہے ۔ اور درمیان والی ایک آیہ میں دونوں باتیں ہیں ۔ کچھ حمد وثناء ہے اور کچھ درخواست اور دُعا  صحیح مسلم میں ابو ھریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا ۔ جس کا مفہوم یہ ہے کہ ۔ حق تعالی نے فرمایا کہ نماز یعنی سورۃ فاتحہ میرے اور میرے بندے کے درمیان دو حصوں میں تقسیم کی گئی ہے ۔ آدھی میرے لئے اور آدھی میرے بندے کے لئے ہے ۔ اور جو کچھ میرا بندہ مانگتا ہے وہ اس کو دیا جائے گا ۔ پھر رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا ۔ جس کا مفہوم یہ ہے کہ بندہ جب کہتاہے۔     اَلْحَمْدُ لِلهِ رَبِّ الْعٰلَمِینْ  تو الله سبحانہُ تعالی فرماتے ہیں میرے بندے نے میری حمد کی ہے ۔ اور جب بندہ کہتا ہے  ۔  اَلرَّحمٰنِ الَّرحِیم   ۔ تو الله جل شانہ فرماتے ہیں ۔میرے بندے نے میری تعریف اور ثناء بیان کی ہے ۔ ۔ اور جب بندہ کہتا ہے  ...

گمراہوں کا راستہ ۔۔۔۔

غَیْرِ۔          ۔     الْمَغْضُوبِ      ۔   عَلْیْ   ۔  ھِمْ ۔   وَ    ۔ لاَ  ۔          الضَّالِیْنَ  ۔ 7⃣ نہ  ۔    غضب کیا گیا ۔      پر    ۔  وہ ۔     اور  ۔    نہ     ۔  گمراہ۔             ۔       غَیْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَ لاَ الضَّا لِیْنَ   7⃣ نہ اُن کا راستہ جن پر غضب کیا گیا  اور نہ ہی گمراہوں کا  ۔  سوره فاتحہ میں ہمیں یہ دُعا بتائی گئی ہے۔ کہ " اے ہمارے رب ہمیں سیدھے راستے پر چلا ۔ اُن لوگوں کی راہ پر جو دُنیا اور آخرت میں تیرے انعام کے مستحق ہوئے ۔ جن پر ہمیشہ تیری برکتیں نازل ہوتی رہیں ۔" اس آیہ مبارکہ میں بتایا یہ بھی دُعا کرو ۔ کہ " اے الله کریم ہمیں ان لوگوں کی راہ سے بچا جو مغضوب اور گمراہ ہوئے ۔"  مَغْضُوبٌ ۔۔۔( غضب سے ہے ) یعنی وہ لوگ جو اللہ کے غضب کا شکار ہوئے ۔ جن پر الله تعالی کا غصہ اور عذ...

انعام پانے والوں کا راستہ

صِرَاطَ ۔           الّذِیْنَ ۔                اَنْعَمْتَ ۔    عَلَیْ ۔          ھِمْ۔  راستہ ۔        اُن لوگوں کا ۔   تو نے انعام کیا۔     پر ۔          وہ ۔  صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ   اُن لوگوں کا راستہ جن پر تُو نے انعام کیا    اس سے پہلی آیہ میں ہم نے الله تعالی سے دُعا کی تھی ۔ کہ وہ ہمیں سیدھی راہ دکھلائے ۔ اب سیدھی راہ کی مزید تشریح اس آیہ مبارکہ میں کی گئی ہے ۔  مکمل تعلیم اور ہدایت کی ساری کی ساری باتیں قرآن مجید میں آ گئی ہیں ۔ الله تعالی نے اپنے فضل وکرم سے ہدایتوں کے عملی نمونے بھی انسانوں میں کثرت سے بھیج دئیے ۔ تاکہ ان کی پاکیزہ زندگی سامنے رکھ کر صراط مستقیم پر چلنا ہمارے لئے اور آسان ہو جائے ۔ چنانچہ ہمیں دُعا سکھائی ۔ کہ وہ ہمیں ایسے لوگوں کے نقشِ قدم پر چلائے ۔ جن پر الله تعالی نے انعام نازل فرمائے ۔   ان انعام یافتہ لوگوں کا ذکر قرآن مجید کی سورۃ نساء کی...

ھدایت کے درجات

اِھْدِناَ الصِّراطَ الْمُسْتَقِیْمَ ۔۔۔۔ یہاں غور طلب بات یہ ہے کہ سیدھے راستے کی ہدایت کے لئے دُعا  جو کہ اس آیہ مبارکہ میں ہے ۔ اس کے مخاطب جس طرح تمام انسان اور عام مسلمان ہیں ۔ اسی طرح ہدایت یافتہ لوگ  ، اولیاء اللہ اور انبیاء علیھم السلام بھی ہیں ۔  لفظ ہدایت کی بہترین تشریح امام راغب اصفہانی نے  مفرداتُ القرآن میں تحریر فرمائی ہے ۔ جس کا خلاصہ یہ ہے کہ ہدایت کے اصلی معنی ہیں کسی شخص کو منزلِ مقصود کی طرف مہربانی کے ساتھ رہنمائی کرنا ۔ اور ہدایت کرنا حقیقی معنی میں صرف الله تعالی کا کام ہے ۔ جس کے مختلف درجات ہیں ۔  ایک درجہ ہدایت کا عام ہے ۔ جو کائنات و مخلوقات کی تمام اقسام جمادات ، نباتات ، حیوانات کے لئے ہے ۔ یہاں آپ یہ خیال نہ کریں کہ ان بے جان ، بے سمجھ چیزوں کو ہدایت کی کیا ضرورت ہے ۔ کیونکہ قرآنی تعلیمات سے یہ واضح ہے کہ کائنات کی تمام اقسام اور ان کا ذرہ ذرہ  زندگی بھی رکھتا ہے ۔ اور احساس بھی  ۔ عقل بھی رکھتا ہے اور سمجھ بھی ۔  کیونکہ قرآن مجید میں حق تعالٰی کا ارشاد ہے ۔ وَ اِنْ مَّنْ شَئیءٍ اِلَّا یُسَبِّحُ بِحَمْدِہِِ وَلٰکِنْ ل...

سیدھا راستہ ۔۔۔۔۔

اِھْدِ                  ۔ نا  ۔               الصِّرَاطَ ۔            الْمُسْتَقِیْمَ۔    5⃣لا تو ہدایت دے  ۔            ہم کو             ۔ راستہ ۔                سیدھا           ۔  اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ   5⃣لا تو ہمیں سیدھے راستے کی ہدایت دے ۔  ہم نے الله تعالی کو اپنا رب ، مہربان اور مالک تسلیم کر کے اس کا اقرار کیا ۔ کہ ہم صرف اسی کی اطاعت اور بندگی کریں گے ۔ اور اسی سے ہر وقت مدد مانگیں گے ۔ اب ہماری یہ آرزو ہے ۔ کہ ہمارا آقا ہماری راہنمائی کرے  اور ہم بھولے سے بھی کوئی ایسی غلطی نہ کر بیٹھیں ۔ جو اس کی ناراضگی کا سبب ہو ۔ اس کے لئے ہمیں ایسی راہ کی ضرورت ہے ۔ جس پر چل کر ہم اس کی خوشنودی حاصل کر سکیں ۔ اور جو ہمیں بالکل سیدھا اسی تک پہنچا دے ۔  اِھْدِ ۔۔۔۔ ( ہدایت دے ) ۔ ہدایت عربی زبان کا ا...

انسان کی دستگیری ۔۔۔

وَ اِیَّاکَ                                 ۔  نَسْتَعِیْنُ 4⃣ط اور خاص تیری ۔  ہم مدد  طلب کرتے ہیں اور کرتے رہیں گے  وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ 4⃣ط اور ہم تیری ہی مدد طلب کرتے ہیں ۔  نستعین لفظ استعانت سے نکلا ہے ۔ عربی زبان میں سادہ طور پر اس کا مطلب ادا کرنے کے لئے کہ ہم مدد مانگتے ہیں ۔ نَسْتَعِیْنُکَ "" کہا جاتا ہے ۔ لیکن الله رب العزت نے  معنی میں خاص زور اور تاکید پیدا کرنے کے لئے اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ  فرمایا ۔ اب اس کے معنی یہ ہو گئے کہ ہم سب کو چھوڑ کر صرف تجھ ہی سے مدد مانگتے ہیں ۔  انسان جب الله تعالی کو اپناربّ مہربان اور مالک تسلیم کر لیتا ہے ۔ اور اپنی عاجزی اور بندگی کا اقرار کرتاہے ۔ تو اب بندے کے لئے اس کے سوا کوئی صورت نہیں ۔ کہ وہ اپنی ہر ضرورت کے وقت اسی کو یاد کرے ۔ اور اپنے ہر کام میں کامیابی کے لئے ۔ ہر مصیبت میں بچاؤ کے لئے اور ہر ضرورت کو پورا کرنے کے لئے اسی آقا کو پکارے ۔  الله جلّ شانہ قرآن مجید میں جگہ جگہ فرماتے ہیں ۔ کہ اگر انسان پور...

عبادت

اِیَّاکَ   ۔                  نَعْبُدُ صرف تیری ۔ ہم عبادت کرتے ہیں  اِیَّاکَ نَعْبُدُ  ہم صرف تیری عبادت کرتے ہیں ۔  ہم الله تعالی کی چار صفات پڑھ چکے ہیں ۔ وہ تمام جہانوں کا رب ہے ۔  اُسی کی مدد سے زمین وآسمان کی ہر چیز ترقی پاتی ہے ۔ وہی ہر ایک کی ضرورتوں کو پورا کرنے والا ہے ۔ وہ بے حد مہربان ہے ۔ اپنی رحمت سے ہر شخص کی ضرورتیں پوری کرتا ہے ۔ ہر قسم کی مشکلات دور کرتا ہے ۔ وہ رحیم بھی ہے ۔ جو شخص اُس کا حکم مانے اور اُس کے بتائے ہوئے قانون کے مطابق عمل کرے وہ اُسے اچھا بدلہ دیتا ہے ۔  وہ بدلہ کی گھڑی کا بھی مالک ہے ۔ اس دنیا میں ہمارے کاموں کے نتیجے پیدا کرتا ہے ۔ اور اُن کا بدلہ دیتا ہے ۔ اور قیامت کے دن بھی ہمارے اعمال کا ٹھیک ٹھیک بدلہ دے گا ۔  انسان پر تین حال گزرتے ہیں ۔ ماضی ، حال اور مستقبل ۔ اور ہر حال میں وہ الله رب العزت کا محتاج ہے ۔ الله تعالی نے ماضی میں جب وہ کچھ نہ تھا اسے پیدا کیا ۔ تمام کائنات سے بہترین شکل وصورت عطا کی ۔ عقل اور سمجھ دی ۔ اُسے اشرف المخلوقات بنایا ۔ اور حال میں اُس کی پ...