منافقوں کا دھوکا ۔۔۔۔

يُخَادِعُونَ  ۔                 اللَّهَ ۔        وَالَّذِينَ  ۔         آمَنُوا  ۔          وَمَا            ۔ يَخْدَعُونَ  ۔
وہ دھوکا دیتے ہیں ۔ الله تعالی ۔ اور وہ لوگ ۔ ایمان لائے ۔ اور نہیں ۔ وہ دھوکا دیتے
     9️⃣ إِلَّا  ۔        أَنفُسَهُمْ  ۔            وَمَا  ۔             يَشْعُرُونَ۔ 
۔ مگر ۔ اپنی ذات کو ۔ اور نہیں ۔         وہ سمجھتے۔     ۔      
يُخَادِعُونَ اللَّهَ وَالَّذِينَ آمَنُوا وَمَا يَخْدَعُونَ إِلَّا أَنفُسَهُمْ وَمَا يَشْعُرُونَ۔     9️⃣ط
وہ الله اور مؤمنوں کو دھوکا دیتے ہیں ۔ اور نہیں وہ دھوکا دیتے مگر اپنے آپ کو اور وہ نہیں سمجھتے ۔ 

یُخٰدِعُوْنَ ۔۔۔ وہ دھوکا بازی کرتے ہیں ۔ یہ لفظ خَدَعَ سے بنا ہے ۔ اس کے معنی ہیں دل میں بُری بات چھپانا ۔ اور بظاہر اچھا بن کر دکھانا ۔ تاکہ دوسرے کو فریب میں رکھا جائے ۔ اور مغالطہ میں رکھا جائے ۔ 
اَنْفُسَھُمْ ۔۔۔ اُن کی جانیں ۔ اس سے مراد ہے اپنی ذات ۔ 
وَمَا یَشْعُرُونَ ۔۔۔ وہ نہیں سمجھتے ۔ یہ لفظ شعور سے بنا ہے ۔ شعور عربی زبان میں بوجھنے کو کہتے ہیں ۔ یہاں اس سے مراد اندرونی احساس ہے ۔ ۔ مقصد یہ ہے کہ وہ خود فریب میں مبتلا ہیں ۔ مگر اپنی حماقت کی انہیں خبر نہیں ۔ 
 پچھلے سبق میں منافقوں کے بارے میں بتایا گیا کہ جو کچھ وہ زبان سے کہتے ہیں دل سے نہیں مانتے ۔ اور جو دل میں رکھتے ہیں زبان پر  نہیں لاتے ۔ وہ صرف مسلمانوں سے فائدہ حاصل کرنے کے لئے یا اُن کی پکڑ سے بچنے کے لئے اپنے آپ کو مسلمان کہتے ہیں ۔ اس سبق میں اُن کے اس طرز عمل پر مزید روشنی ڈالی گئی ہے ۔ وہ کفر کے علاوہ فریب اور دھوکے کا جُرم بھی کر رہے ہیں ۔ سچائی کی مخالفت کرتے کرتے اُن کی جرآت اس قدر بڑھ جاتی ہے کہ اپنے خیال میں الله تعالی کو بھی دھوکا دینے لگتے ہیں ۔ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کے زمانے میں یہ لوگ مسلمانوں کی مجلسوں اور مشوروں میں شریک ہوتے ۔ اپنا اعتماد جماتے اور پوشیدہ طور پر کفار سے بھی ساز باز رکھتے ۔ اُنہیں مسلمانوں کی باتوں سے آگاہ کر دیتے ۔ اور دوست کی شکل میں دشمنی کرتے ۔ 
منافقوں کا یہ طرز عمل خاص طور پر قابل مذمت ہے کہ وہ اپنے طور طریقوں سے مسلمانوں کو دھوکا دینے کی کوشش کرتے ہیں ۔ مغالطہ میں ڈالنا اور دھوکا دینا ان کا مذھب ہوتا ہے ۔ الله کے نیک بندوں ہی کو نہیں بلکہ وہ سمجھتے ہیں کہ وہ الله تعالی کو بھی دھوکا دے سکیں گے ۔ بھلا اس سے بڑی نادانی کیا ہو سکتی ہے کہ مخلوق اپنے خالق کو دھوکا دینے کا خیال اپنے دل میں لائے ۔ اس لئے الله تعالی نے فرمایا یہ نادان ہیں ۔ حقیقت کا شعور نہیں رکھتے ۔ نادانی کو دانائی اور بے وقوفی کو عقل مندی سمجھتے ہیں ۔ یہ بے وقوف اپنے سوا کسی اور سے چالبازی نہیں کر رہے ۔ کیونکہ الله جل شانہ تو ہر دھوکے اور فریب سے بالاتر ہیں اور الله تعالی کے رسول صلی الله علیہ وسلم اور مومنین بھی وحی الہی کی وجہ سے ہر دھوکے اور فریب سے محفوظ ہو جاتے ہیں ۔ البتہ ان کے دھوکے اور فریب کا وبال دُنیا اور آخرت میں خود انھیں پر پڑتا ہے ۔ 
درس قرآن ۔۔۔۔ مرتبہ درس قرآن بورڈ 
معارف القرآن 

منافقوں کا دعوٰی ایمانی ۔۔۔۔

وَ ۔ مِنَ ۔النَّاسِ ۔ مَن ۔      يَقُولُ  ۔                 آمَنَّا ۔             بِاللَّهِ۔       ۔ وَبِالْيَوْمِ  الْآخِرِ ۔    وَمَا  ۔ هُم ۔   بِمُؤْمِنِينَ۔  8️⃣م
اور۔  سے ۔ لوگوں ۔ جو ۔ وہ کہتا ہے ۔ ہم ایمان لاتے ہیں ۔ الله تعالی پر ۔ اور آخرت کے دن پر ۔ اور نہیں ۔ وہ ۔ ایمان والے  ۔

وَمِنَ النَّاسِ مَن يَقُولُ آمَنَّا بِاللَّهِ وَبِالْيَوْمِ الْآخِرِ وَمَا هُم بِمُؤْمِنِينَ۔   8️⃣م 
اور کچھ لوگ ہیں جو کہتے ہیں ہم الله تعالی پر اور آخرت کے دن پر ایمان لاتے ہیں  حالانکہ وہ ایما ن والے نہیں ہیں ۔ 

اب تک الله تعالی نے قرآن مجید میں دو قسم کے لوگوں کا ذکر کیا ہے ۔ ایک الله جل شانہ کے قانون کے فرمانبردار  مومن ۔ اور دوسرے قانونِ الٰہی کا انکار کرنے والے کافر ۔ اب تیسری قسم کے لوگوں کا ذکر شروع ہو رہا ہے ۔ یہ لوگ بھی اسلام کے مخالف اور دشمن ہی ہیں مگر یہ اپنے کفر اور دشمنی پر فریب کا پردہ ڈالے رکھتے ہیں ۔ زبان پر اسلام کا دعوٰی رکھتے ہیں لیکن دل میں کفر ۔ انہیں قرآن مجید کی اصطلاح میں مُنافق کہا گیا ہے ۔ نفاق یہ ہے کہ انسان اعلان تو نیکی اور اسلام کا کرتا پھرے  لیکن دل میں بدی اور کفر چھپائے رکھے ۔ 
اسلام نے جب ایمان بالله اور ایمان بالاخرہ کے عقیدوں کا اعلان کیا ۔ تو جس کو مسلمان بننا منظور ہوتا اُس کے لئے ان دونوں عقیدوں کو ماننا ضروری تھا ۔ چنانچہ مدینہ طیبہ کے لوگوں کےایک خاص گروہ نے انہی دو عقیدوں کا اظہار کر کے چاہا کہ مسلمانوں میں شامل ہو جائیں ۔ وہ مسلمانوں میں شامل کر لئے گئے ۔ لیکن اُن کے دل صاف نہ تھے ۔ اُن کی چالوں سے بچنا ضروری تھا ۔ اس لئے الله تعالی نے قرآن مجید میں خبر دے دی کہ یہ لوگ ان عقیدوں کو دل سے نہیں مانتے ۔ اس لئے مسلمانوں کو ان سے خبردار رہنا چاہئے ۔ 
معلوم یہ ہوا کہ اس زمانے میں منافق کی علامت یہ تھی کہ وہ زبان سے اسلام کے ان دونوں عقیدوں پر اپنے ایمان کا دعوٰی کرتے تھے ۔ لیکن دل سے انہیں نہیں مانتے تھے ۔ اگر آج بھی کسی کا ظاہر اور باطن ایک نہ ہو ۔ تو اسے اپنے طور پر خود اپنا محاسبہ کر لینا چاہئے ۔ جب تک زبان اور دل ایک نہ ہوں ۔ اس وقت تک ایمان مکمل نہیں ہوتا ۔ بلکہ یہ حالت نفاق کی ہوتی ہے ۔ 
رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے صحابہ رضوان الله علیھم اپنی بزرگی اور کمال کے باوجود خود اپنا محاسبہ کیا کرتے تھے ۔ یہی وجہ تھی کہ وہ ایمان اور اخلاص کے اعلٰی درجہ تک پہنچے ۔ الله تعالی نے انہیں بلند مقامات عطا کئے اور انہیں کامیابیوں سے نوازا ۔ 
درس قرآن ۔۔۔مرتبہ درس  قرآن بورڈ

منافق ۔۔۔

سورۃ بقرہ کے شروع میں قرآن کریم کا شک وشبہ سے پاک ہونا بیان کرنے کے بعد بیس آیات میں اُس کے ماننے والوں اور نہ ماننے والوں کا ذکر کیا گیا ہے ۔ پہلی پانچ آیات میں ماننے والوں کا ذکر متقین کے عنوان سے ہے ۔ پھر دو آیتوں میں ایسے نا ماننے والوں کا ذکر ہے جو کُھلے طور پر قرآن مجید سے دشمنی رکھتے ہوئے انکار کرتے ہیں ۔ اب اگلی تیرہ آیتوں میں ایسے منکرین اور وکفار کا ذکر ہے جو ظاہر میں  اپنے آپ کو مؤمن مسلمان کہتے ہیں لیکن حقیقت میں مومن نہ تھے ۔ اِن لوگوں کا نام قرآن مجید میں منافقین رکھا گیا ہے 
یہ بات گزر چکی ہے۔ کہ ہر تحریک کی طرح اسلام کے آنے پر بھی تین گروہ پیدا ہوئے ۔ ایک اس کی سچائی پر ایمان لانے والے مؤمن ۔ دوسرے اس کا انکار اور مخالفت کرنے والے  کافر ۔ تیسرا وہ گروہ جو بظاہر ساتھ ہو گیا ۔ مگر حقیقت میں دل سے ایمان نہ لایا ۔ یہ منافق تھے ۔ مؤمن اور کافر کا ذکر پہلے رکوع میں ہوا ۔ اب تیسرے گروہ منافقین کاذکر شروع ہوتا ہے ۔ 
منافق لفظ نفق سے نکلا ہے ۔ اس کے معنی ہیں سُرنگ لگانا ۔ جیسے جنگلی جانور زمین کے اندر اندر سُرنگیں بناتے ہیں ۔ تاکہ وقت آنے پر ان میں چھپ سکیں ۔ اور خفیہ راستوں سے بھاگ سکیں ۔اس لحاظ سے منافق اس بد بخت انسان کو کہا جاتا ہے ۔ جو بظاہر اسلام قبول کر لے ۔ لیکن مسلمانوں کے خلاف خفیہ چالیں چلے اور دشمنی کے لئے وقت کا انتظار کرتا رہے ۔ 
رسول الله صلی الله علیہ وسلم جب مکہ معظمہ  سے ہجرت کر کے مدینہ منورہ تشریف لائے تو اس وقت مدینہ میں خزرج قبیلے کے ایک شخص عبد الله بن ابی بن سلول کو شہر کا سردار بنانے کی تیاریاں ہو رہی تھیں ۔ وہ بڑا چالاک اور جوڑ توڑ کرنے والا آدمی تھا ۔ رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی آمد پر اس کی تاج پوشی کا معاملہ کھٹائی میں پڑ گیا ۔ اور سب کی توجہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی طرف ہو گئی۔ 
عبد الله نے یہ دیکھا تو خاموش رہا ۔ اس نے مصلحت اسی میں سمجھی ۔ کہ اسلام اور رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے خلاف کوئی آواز نہ اُٹھائے ۔  لہذا وہ خود بھی مسلمان ہو گیا ۔ اور اس کے ساتھی بھی مسلمان ہو گئے ۔ لیکن اندرونی طور پر اس انتظار میں رہے کہ آئندہ جب موقعہ ملے گا اسلام چھوڑ دیں گے اور رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے خلاف آٹھ کھڑے ہوں گے ۔ 
جوں جوں وقت گزرتا گیا ۔ اسلام کا اثر بڑھتا گیا اور یہ لوگ دل ہی دل میں جلتے رہے ۔ دشمنی کی آگ اُن کے دلوں میں بڑھتی گئی ۔ چنانچہ جب بھی ان کا بس چلا انہوں نے اسلام کی مخالفت کی ۔ رسول الله صلی الله علیہ وسلم کو دھوکا دیا۔ یہ لوگ آستین کے سانپ ثابت ہوئے ۔ رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے پیچھے نمازیں پڑھنے کے باوجود اُن لوگوں نے ہمیشہ وقت پڑنے پر اسلام کی مخالفت کی ۔ اپنی ڈیڑھ اینٹ کی مسجد علیحدہ تعمیر کی ۔ جسے الله تعالی  نے  " مسجد ضرار" کا نام دیا ۔ غزوہ اُحد کے موقعہ پر عین مقابلہ کے وقت مسلمانوں کا ساتھ چھوڑا ۔ دوسرے رکوع میں ان ہی منافقین کی عادات اور خصائل بیان ہوں گی ۔ 
آج بھی اسلام کو سب سے بڑا خطرہ مسلمان جیسے کافروں سے ہے ۔ یعنی جو لوگ بظاہر اسلام کا کلمہ پڑھتے ہیں ۔ مسلمانوں جیسے نام رکھتے ہیں اور مسلمانوں کے ساتھ رہتے ہیں ۔ لیکن حقیقت میں ان کے دل کفر سے بھرے ہوئے ہیں اور مسلمانوں کے خلاف انہیں کفّار سے ہمدردی ہے ۔  الله تعالی ہم سب کو ان خرابیوں سے بچائے اور ایمان کامل نصیب فرمائے ۔
ماخذ 
درس قرآن ۔۔۔ مرتبہ درس قرآن بورڈ 
معارف القرآن 

کفر کا نتیجہ ۔۔۔۔

خَتَمَ     اللَّهُ۔           عَلَى۔    قُلُوبِهِمْ         وَ۔   عَلَى    سَمْعِهِمْ۔     وَعَلَى۔    أَبْصَارِهِمْ      غِشَاوَةٌ    وَلَهُم۔     عَذَابٌ۔      عَظِيمٌ
مہر لگا دی ۔ الله تعالی نے ۔پر  ۔ اُن کے دلوں اور ۔ پر ۔ اُن کے کان ۔ اور پر ۔ اُنکی آنکھیں ۔  پردہ  ۔ اور ان کے لئے ۔ عذاب۔ بڑا 
خَتَمَ اللَّهُ عَلَى قُلُوبِهِمْ وَعَلَى سَمْعِهِمْ وَعَلَى أَبْصَارِهِمْ غِشَاوَةٌ وَلَهُمْ عَذَابٌ عَظِيمٌ
الله تعالی نے اُن کے دلوں اور کانوں پر مُہر لگا دی ۔ اور اُن کی آنکھوں پر پردہ ہے اور اُن کے لئے بہت بڑا عذاب ہے ۔ 
خَتَمَ ۔۔۔ مُہر لگا دی ۔ اس سے مراد وہ نتیجہ ہے جو مسلسل انکار اور مخالفت حق سے پیدا ہوتا ہے ۔ مہر لگانے کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ جس پر مہر لگائی گئی ہے ۔ باہر سے کوئی چیز اس کے اندر نہ جا سکے اور اندر سے کوئی چیز باہر نہ آسکے ۔ مثلا دل پر مہر لگ جائے تو نہ حق بات دل میں داخل ہو سکتی ہے ۔ اور نہ کسی اچھی بات کے اظہار کی جرأت رہتی ہے ۔ 
قُلُوبِھِم ۔ اُن کے دل ۔ یہ قلب کی جمع ہے ۔ یہاں قلب سے مراد گوشت کا ٹکرا نہیں بلکہ وہ قوّت ہے جو شعورِعقل اور ارادے کی بنیاد ہے ۔ 
سَمْعِھِم ۔۔۔ اُن کے کان ۔ سمع کے معنی سننے کی قوت ہے اور مراد ہے کان ۔ 
اَبْصارِھِمْ ۔۔۔ ان کی آنکھیں  ۔ ابصار کا واحد بصر ہے اور اس سے مراد دیکھنے کی قوت ہے ۔ 
غِشَاوَہ ۔۔۔ پردہ ۔ یہ لفظ غَشِیٌّ سے بنا ہے ۔ جس کے معنی ڈھانپنا ہیں ۔ یہاں مراد وہ پردۂ غفلت ہے جو حق کی نشانیاں دیکھ کر بھی حق کو ماننے کے درمیان میں آجاتا ہے ۔ 
 دنیا میں ہر چیز کے لئے یہ قانون ہے ۔ کہ جب کوئی قوت مسلسل طور پر کام میں نہ لائی جائے تو آخرکار وہ اپنا عمل چھوڑ دیتی ہے ۔ یہی حال حق بات کو سمجھنے اور دیکھنے کی قوّتوں کا ہے ۔ اگر انہیں مسلسل بے کار رکھا جائے ۔ تو الله تعالی کا یہ فطری قانون یہاں بھی نافذ ہوتا ہے ۔ اسی قانون کے جاری ہونے کا ذکر اس آیہ میں کیا گیا ہے ۔ 
الله تعالی کی طرف سے مہر لگ جانے کا عمل انسان کے جان بوجھ کر کفر اختیار کرنے اور اس پر اصرار کرنے کے بعد ہوتا ہے 
۔ ہر شخص کو الله تعالی کی طرف سے صحیح فطرت عطا ہوئی ہے ۔ اور اس میں الله تعالی کی نشانیوں پر غور کرنے کی قوّت بھی شامل ہے ۔ لیکن جب اپنی قوتوں کا غلط استعمال کرنے لگتا ہے ۔ اور رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی تعلیمات سے منہ موڑ کر شیطان کے پیچھے چلنے کا ارادہ کر لیتا ہے ۔ تو وہ دینِ اسلام کے رحمت کے سلسلے سے نکل جاتا ہے ۔ اور الله تعالی کی مدد اُس کا ساتھ چھوڑ دیتی ہے ۔ اور اب وہ غلط راستے ہی کو سیدھا راستہ سمجھنے لگ جاتا ہے ۔ 
کفر اور ہر گناہ کی  اصل سزا تو آخرت میں ملے گی ۔ لیکن بعض گناہوں کی کچھ سزا اس دُنیا میں بھی مل جاتی ہے ۔ ایسی صورت میں اصلاح کی توفیق ہی ختم ہو جاتی ہے ۔ انسان آخرت کے حساب و کتاب سے بے خبر ہو کر اپنی نافرمانیوں اور گناہوں میں بڑھتا جاتا ہے اور آہستہ آہستہ بُرائی کا احساس بھی اس کے دل سے ختم ہو جاتا ہے ۔ کیونکہ گناہ کی ایک سزایہ بھی ہوتی ہے کہ ایک گناہ دوسرے گناہ کی طرف لے جاتا ہے ۔ جس طرح نیکی کا فوری بدلہ یہ بھی ہوتا ہے کہ ایک نیکی دوسری نیکی کو کھینچ لاتی ہے ۔ 
حدیث مبارکہ  ہے نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا  ۔ مفہوم ۔ کہ انسان جب گناہ کا ارادہ کرتا ہے تو اس کا دل سیاہ ہو جاتا ہے ۔ پھر اگر وہ توبہ کر لے تو صاف ہو جاتا ہے ۔  ( ترمذی  بروایت ابو ہریرہ رضی الله عنہ ) ۔
 ظاہر ہے جس طرح زہر کھانے کا قدرتی نتیجہ موت ہے ۔ اسی طرح الله تعالی کے حکموں  کی جان بوجھ کر نافرمانی  روحانی موت کی وجہ بن جاتی ہے ۔ اور جیسا کہ ہم جانتے ہیں انسانی زندگی موت کے بعد ختم نہیں ہو جاتی بلکہ اس کے بعد ایک دوسری زندگی بھی ہے جو اس دنیا کی زندگی کا نتیجہ ہے ۔ اس دُنیا میں مسلسل نافرمانی سزا کے طور پر ایک بہت بڑے عذاب کی شکل میں ظاہر ہو گی ۔ 
اللہ تعالی ہمیں دنیا اور آخرت کے ہر طرح کے عذاب سے محفوظ رکھے 
ماخذ ۔۔۔
درس قرآن ۔۔۔۔ مرتبہ درس قرآن بورڈ 
معارف القرآن 

کافر ۔۔۔۔

إِنَّ  ۔ الَّذِينَ  ۔ كَفَرُوا      ۔ سَوَاءٌ    ۔ عَلَيْهِمْ    ۔ أَ     ۔ أَنذَرْتَهُمْ     ۔    أَمْ    ۔ لَمْ             ۔ تُنذِرْهُمْ۔       لَا        ۔  يُؤْمِنُونَ 6⃣
بے شک ۔ جو لوگ ۔ کافر ہیں ۔ برابر ہے ۔ اُن پر ۔ کیا ۔ آپ ڈرائیں اُن کو ۔ یا ۔ نہ ۔ آپ ڈرائیں اُن کو ۔ نہیں ۔ وہ ایمان لائیں گے 

إِنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا سَوَاءٌ عَلَيْهِمْ أَأَنذَرْتَهُمْ أَمْ لَمْ تُنذِرْهُمْ لَا يُؤْمِنُونَ 6⃣
بےشک جن لوگوں نے کفر کیا ۔ برابر ہے اُن کے لئے  آپ انہیں ڈرائیں یا نہ ڈرائیں وہ نہیں ایمان لائیں گے  ۔ 
کفروا ۔۔۔ جو انکار کرتے ہیں ۔ یہ لفظ کفر سے نکلا ہے ۔ جس کے معنی ہیں چھپانا ۔ نا شُکری کو بھی کفر اس لئے کہتے ہیں ۔ کہ محسن کے احسان کو چھپانا ہے ۔  شریعت میں جن چیزوں پر ایمان لانا فرض ہے ۔ ان میں سے کسی کا انکار کرنا کفر کہلاتا ہے ۔ کافر اسے کہتے ہیں جو حق کا منکر اور مخالف ہو ۔ اور الله جل شانہ اور اس کے رسول صلی الله علیہ وسلم کو نہ مانتا ہو ۔ 
سورہ بقرہ کی پہلی پانچ آیتوں میں قرآن مجید کا کتاب ہدایت  اور ہر شک و شبہ سے پاک ہونے کابیان ہے ۔ اور ساتھ ہی اُن خوش نصیب لوگوں کا ذکر ہے جنہوں نے اس کتاب کی ہدایت سے پورا فائدہ اُٹھایا ۔ جنہیں الله جل شانہ نے مؤمنین اور متقین کا لقب دیا ۔ اور اُن کی خاص خاص صفتیں اور علامتیں بھی بیان کر دیں ۔ 
الله تعالی نے جب فلاح حاصل کرنے والے متقیوں کا حال اور اُن کی کامیابیوں کا ذکر فرمایا ہے ۔ تو ضروری ہے کہ منکروں اور کافروں کا حال اور انجام بھی بیان کیا جائے ۔ تاکہ دونوں کا فرق واضح ہو جائے ۔ اور پرہیز گاروں اور نیکو کاروں کا مرتبہ روشن ہو جائے ۔ 
اس آیت سے ایسے لوگوں کا ذکر شروع ہوا جو ایمان والوں کی بالکل ضد واقع ہوئے ہیں ۔ دل سے بھی اسلام کے دشمن ہیں اور اپنا وقت ، قوت ، دولت غرض ہر چیز اسلام کی مخالفت میں لگاتے ہیں ۔ ایسے لوگ دلیلیں سامنے آنے کے باوجود کفر پر آڑے رہتے ہیں ۔ حق قبول کرنے کی صلاحیت مسلسل انکار اور مخالفت کی وجہ سے کمزور ہوتی جاتی ہے ۔ یہاں تک کہ بالکل ختم ہو جاتی ہے ۔ اس حالت میں نبی کریم صلی الله علیہ وسم کا انہیں ڈرانا یا نہ ڈرانا برابر ہے ۔ 
اِنْذار ۔۔۔ ایسی خبر دینا جس سے خوف پیدا ہو ۔ اردو زبان میں اس کا ترجمہ " ڈرانے " سے کیا جاتا ہے ۔ لیکن حقیقت میں مطلقاً ڈرانے کو انذار نہیں کہتے ۔ بلکہ ایسا ڈرانا جو شفقت اور رحمت کی وجہ سے ہو ۔ جیسے بچوں کو سانپ ، بچھو یا جانور وغیرہ سے ڈراتے ہیں ۔ اسی لئے جو چور ، ڈاکو یا ظالم کسی انسان کو ڈراتے ہیں اسے انذار نہیں کہا جاتا ۔ نہ ایسے لوگوں کو نذیر کہتے ہیں ۔ 
صرف انبیاء علیھم السلام کو نذیر کا لقب دیا جاتا ہے ۔ کیونکہ وہ شفقت ومحبت کی وجہ سے آئندہ آنے والی تکلیفوں سے ڈراتے ہیں ۔ 
رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی سب سے بڑی آرزو یہ تھی کہ سب لوگ اسلام کے دائرے میں داخل ہو جائیں ۔ اس آیت میں آلله جل شانہ نے آپ صلی الله علیہ وسلم تسلی دینے کے لئے  یہ حقیقت بتائی کہ آپ خواہ کچھ کریں ۔ یہ حق کو ماننے کی صلاحیت کھو چکے ہیں ۔ 
یہ جو کہا گیا ہے کہ  " رسول الله صلی الله علیہ وسلم آپ انہیں ڈرائیں یا نہ ڈرائیں وہ ایمان نہیں لائیں گے ۔ " یہ خبر فیصلے کی صورت میں نہیں ہے ۔ بلکہ اُن کے مسلسل انکار اور مخالفت کے نتیجے کا اظہار اور اعلان ہے ۔ الله تعالی نے ہر شخص میں حق قبول کرنے کی صلاحیت رکھی ہے ۔ لیکن جو لوگ ذاتی فائدوں ، کوہ تانظری ، غلط تعلیم یا بُری صحبت کی وجہ سے سچائی کی مخالفت کرتے ہیں ۔ اُن میں حق قبول کرنے کی قوت آہستہ آہستہ باقی نہیں رہتی ۔ یہ برابری کفار کے لئے ہے ۔ رسول الله صلی الله علیہ وسلم کو تو تبلیغ و تعلیم اور اصلاحِ انسانیت کی کوشش کا ثواب ہر حال میں ملے گا ۔ اسی لئے پورے قرآن مجید میں رسول الله صلی الله علیہ وسلم کو ایسے لوگوں کو ایمان کی دعوت دینے سے روکا نہیں گیا ۔ اس سے معلوم ہوا جو شخص دعوت وتبلیغ کا کام کرتا ہے ۔ اُس کا اثر ہو یا نہ ہو ۔ اس شخص کو ہر حا ل میں اپنے عمل کا ثواب ملتا ہے ۔ 
 اس لئے ہمارا یہ فرض ہے کہ تلاش حق کی جو قوت ہمارے اندر فطری طور پر موجود ہے ۔اس کو ضائع نہ ہونے دیں ۔ ہمیشہ حق اور صداقت کی جستجو میں لگے رہیں ۔ ہمیں چاہئے کہ حق کی تعلیم عام کریں ۔ اور اس خوش اسلوبی اور حکمت سے الله تعالی کا پیغام بندوں تک پہنچائیں ۔ کہ ان کے دلوں میں نرمی اور الله تعالی کا خوف پیدا ہو ۔ 
درس قرآن ۔۔۔ مرتبہ درس قرآن بورڈ
معارف القرآن 

کامیاب لوگ ۔۔۔

               أُولَئِكَ   ۔  عَلَى ۔    هُدًى  ۔    مِّن     ۔  رَّبِّهِمْ        ۔  وَ ۔     أُولَئِكَ     ۔هُمُ ۔   الْمُفْلِحُونَ۔     
یہی لوگ ۔ پر  ۔ ہدایت ۔ سے  ۔ اپنے رب         ۔ اور ۔ یہی لوگ ۔ وہ ۔       کامیابی پانے والے۔      
أُولَئِكَ عَلَى هُدًى مِّن رَّبِّهِمْ وَأُولَئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ         5⃣        ۔   
یہی لوگ اپنے پروردگار کی طرف سے ہدایت پر ہیں اور یہی لوگ فلاح ( کامیابی ) پانے والے ہیں ۔ 
اَلْمُفْلِحُوْنَ ۔۔۔ یہ لفظ فلاح سے بنا ہے ۔ اس کے لفظی معنی چیرنا پھاڑنا ہیں ۔ کاشتکار کو فلاّحٌ اسی لئے کہتے ہیں ۔ کہ وہ زمین کھودتا ہے ۔ اور بیج بوتا ہے ۔ جو زمین کو چیر کر پودے کی صورت باہر آتا ہے ۔ عربی زبان میں یہ لفظ بڑے وسیع معنی میں آتا ہے ۔ دُنیا اور آخرت کی ساری کامیابیاں  اس میں جمع ہیں ۔ تمام علماء اس بات پر متفق ہیں کہ عربی زبان میں ہر قسم کی کامیابیوں  کے اظہار کے لئے  فلاح  سے بڑھ کر کوئی لفظ موجود نہیں ۔ مفلح  ( کامیاب ) وہ شخص ہے ۔ جو ہر قسم کی مشکلوں اور رکاوٹوں کو دور کرتے ہوئے کامیابی تک پہنچ جائے ۔ 
سورۃ فاتحہ میں ہم نے الله تعالی سے یہ دُعا کی کہ  وہ ہمیں سیدھے راستے کی ھدایت عطا فرمائے ۔ اس کے جواب میں ھدایت کا ایک پیغام ملا ۔ جسے ہم پچھلے سبقوں میں پڑھتے آئے ہیں ۔ اس کے بعد چند علامتیں بیان ہوئیں ۔ کہ جن میں یہ موجود ہوں ۔ وہی ہدایت یافتہ لوگ ہیں ۔ 
ان کا اعتقاد اور پختہ یقین اس مادی و فانی دُنیا کے علاوہ عالَمِ غیب پر ہوتا ہے  ۔۔۔  
الله تعالی سے اپنا تعلق عملی طور پر ظاہر کرنے کے لئے نماز قائم کرتے ہیں ۔۔۔ 
الله تعالی کی دی ہوئی نعمتوں کو اس کی راہ میں  خرچ کرتے ہیں ۔۔۔
رسول الله صلی الله علیہ وسلم کو آخری نبی ،  بہترین ہادی مانتے اور قرآن کریم کو الله تعالی کا کلام مانتے ہیں ۔۔۔
قرآن کریم سے پہلے آئی ہوئی کتابوں اور ہدایتوں کو بھی مانتے ہیں ۔۔۔ 
جزاء اور سزا کے دن پر یقین رکھتے ہیں ۔۔۔
اب اس آیہ مبارکہ میں بتایا گیا ہے ۔ یہی متقی اپنے رب کی حقیقی ہدایت پر ہیں ۔ یہی لوگ دُنیا اور آخرت دونوں میں کامیاب اور با مراد ہوں گے ۔ دُنیا کی کامیابی اور فلاح یہ ہے کہ کہ انہیں ہدایت کی راہ نصیب ہو گئی ۔ اور ہر طرح سے مکمل اور بہترین زندگی گزارنے کا طریقہ مل گیا ۔ جس کے مطابق انہوں نے اپنی زندگی گزاری اور ہر قسم کی کامیابی حاصل کر لی ۔ اور آخرت کی کامیابی اور فلاح یہ ہے کہ انہیں اپنے کاموں کا پورا پورا بدلہ ملے گا ۔ دُنیا میں جو دین کے لئے اور راہِ حق پر چلنے میں دشواریوں اور تکلیفوں کو برداشت کیا ۔ الله تعالی قیامت کے روز ان سب کا اجر بڑھا چڑھا کر دیں گے ۔ اور یہی بڑی کامیابی ہے ۔ 
اسلام سے پہلے عرب قوم مفلس تھی ۔ اونٹ پالنا  اُن کا پیشہ تھا ۔ اُن کے پاس نہ دولت تھی نہ لشکر ۔ نہ کھانے پینے کی زیادتی ۔ لیکن جب انہوں نے اسلام قبول کر لیا اور قرآن کریم کی تعلیمات پر پکے یقین کے ساتھ عمل کیا ۔ تو جس طرف بھی گئے وہ کامیاب ہوئے ۔ زمین نے ان کے قدم چومے اور آسمان نے ان پر برکتوں اور رحمتوں کی بارش کی ۔ الله جل شانہ نے ان سے جو وعدے کئے وہ سب پورے ہوئے ۔ اگر آج ہم بھی قرآن حکیم کے مطابق اپنی زندگی  گزارنے کا پکا ارادہ کر لیں ۔ تو کامیابی کا وعدہ ہمارے لئے بھی ہے ۔  ہم بھی یقیناً دُنیا اور آخرت کی کامیابی حاصل کر لیں گے ۔
درس قرآن ۔۔۔ مرتبہ درس قرآن بورڈ 

متّقیوں کی صفات ۔۔۔ ۵ ۔۔۔۔ قیامت پر ایمان

وَ  ۔ بِالْاٰخِرَۃِ   ۔   ھُمْ ۔ یُوْقِنُوْنَ  4⃣۔ ط 
اور۔ آخرت پر  ۔ وہ ۔ یقین رکھتے ہیں  
وَ بِالْاٰخِرَۃِ ھُمْ یُوْقِنُونَ 4⃣ط 
اور وہ آخرت پر یقین رکھتے ہیں 
الْاٰخِرَہ سے مراد ہے ۔ اَلدَّارُ الْاٰخِرَۃِ ۔ یعنی مرنے کے بعد  آنے والی دوسری زندگی ۔ اسے قرآن مجید میں اَلْیَوْمُ الْاٰخِرَہ بھی کہا گیا ہے ۔ 
یُوْقِنُوْنَ ۔ یہ لفظ ایقان سے بنا ہے ۔ جو یقین سے نکلا ہے ۔ یقین اُس علم کو کہتے ہیں جسے دلیل سے اس قدر واضح اور روشن کر دیا ہو کہ اس میں شک وشبہ کی کوئی گنجائش باقی نہ رہے ۔ بِالْاٰخِرَہ کا لفظ پہلے اور یُوقِنُونَ کا لفظ بعد میں استعمال کرنے سے تاکید میں اضافہ ہو گیا ہے ۔ 
یہ دُنیا دار العمل ہے ۔ یعنی وہ زندگی جس کے بعد عمل کی مہلت ختم ہو جاتی ہے ۔ اس کے بعد آنے والی دُنیا دارُ الجزاء ہے ۔ جس میں ہمارے ایک ایک کام کا پورا پورا بدلہ ملے گا ۔ اس میں شک نہیں کہ اس دُنیا میں بھی ہمیں حالات و واقعات کے لحاظ سے بدلہ ملتا ہے ۔ لیکن کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ انسان کو پورا بدلہ نہیں ملتا ۔ نیک عمل جزاء سے محروم رہ جاتے ہیں اور بد کردار مجرم سزاء سے بچ جاتے ہیں ۔ حالانکہ انصاف کا تقاضا یہ ہے کہ انسان کا کوئی بھی عمل بے نتیجہ نہ رہے ۔ اس لئے الله جل شانہ نے ایک ایسا دن مقرر کر دیا ہے ۔ جس دن ہر شخص اور ہر قوم کو اپنے ہر عمل کا پورا پورا بدلہ ملے گا ۔ اس لئے  جزاء و سزاء کے لئے ایک ہمیشہ رہنے والے جہان پر یقین رکھنا ضروری ہے اور ایمان کی بنیاد ہے ۔ 
عالَم ِ آخرت کا اس دُنیا سے گہرا تعلق ہے ۔ اگلی زندگی ہمارے ان ہی کاموں کا نتیجہ ہو گی جو ہم یہاں کرتے ہیں ۔ اس لئے متّقی لوگوں کی یہ صفت ہے کہ وہ ہر کام کرنے سے پہلے یہ اطمینان کر لیتے ہیں ۔ کہ وہ کام عاقبت اور انجام کے لحاظ سے آسمانی تعلیمات اور الله تعالی کی ھدایات کے خلاف تو نہیں ہے ۔
آخرت سے مراد وہ دار آخرت جس کو قرآن مجید میں دار القرار  ( رہنے کا ٹھکانا )  دار الحیوان  ( ہمییشہ کی زندگی کا گھر ) اور عقبٰی  کے  نام سے بھی  ذکر کیا گیا ہے ۔ اور پورا قرآن مجید قیامت کے ذکر اور ہولناک واقعات سے بھرا ہوا ہے ۔ آخرت پر ایمان لانا اگرچہ ایمان بالغیب میں بھی شامل ہے ۔ لیکن اس کو دوبارہ اس لئے ذکر کیا گیا کہ اجزائے ایمان میں اس کی حیثیت سب سے اہم ہے ۔ کیونکہ ایمان پر عمل کا جذبہ آخرت پر یقین ہونے سے ہی پیدا ہوتا ہے ۔ 
اور اسلامی عقائد میں یہی وہ انقلابی عقیدہ ہے جس نے دُنیا کی کایا پلٹ دی ۔  وجہ  یہ ہے کہ جن لوگوں کے سامنے صرف دنیا کی زندگی ہی مقصد ہو  ، دنیا کا عیش اور آرام ہی  چاہت ہو اور وہ صرف دنیا  کی تکلیف ہی کو تکلیف سمجھتے ہوں ۔ آخرت کی زندگی  اور اعمال کے بدلہ جزاء وسزاء کو نہ مانتے ہوں ۔ وہ جب یہ دیکھتے ہیں کہ سچ بولنے اور حلال و حرام کا فرق کرنے سے اُن کے عیش وآرام میں خلل ہوتا ہے  تو اُن کو جرم سے روکنے والی کوئی چیز نہیں ۔ حکومت کے قوانین جرم کو ختم کرنے اور اخلاق کو سُدھارنے کے لئے کافی نہیں ہوتے ۔ کیونکہ عادی مجرم تو سزاؤں کو عادت بنا لیتے ہیں اور شریف انسان قانون کے ڈر سے اتنا ہی عمل کرتے ہیں جہاں پکڑے جانے کا ڈر ہو ۔ ورنہ خلوت میں اور چھپ کر گناہ کرنے سے کون کسی کو روک سکتا ہے ۔ 
ہاں صرف آخرت کا یقین اور الله رب العزت کا خوف ہی وہ واحد چیز ہے جس کی وجہ سے انسان کی ظاہری اور باطنی حالت جلوت اور خلوت میں ایک جیسی ہو سکتی ہے۔ وہ یہ یقین رکھتا ہے کہ مکان کے بند دروازوں میں اور رات کے اندھیروں میں  بھی ہر وقت ، ہر جگہ کوئی دیکھنے والا مجھے دیکھ رہا ہے ۔  کوئی لکھنے والا میرے اعمال لکھ رہا ہے ۔
یہی وہ عقیدہ ہے جس پر پورا عمل کرنے کی وجہ سے  اسلام کے ابتدائی دَور میں نہایت پاکباز معاشرہ وجود میں آیا ۔ مسلمانوں کی صورت دیکھ کر ، اُن کے اخلاق و عادات دیکھ کر لوگ بے اختیار اسلام سے محبت کرنے لگتے ۔
اس آیہ مبارکہ میں لفظ  بِالْاٰخِرَۃِ کے ساتھ یُوقِنُوْنَ ہے ۔  کیونکہ ایمان لانے کے مقابل جھٹلا نا ہے ۔ اور یقین کرنے کے مقابل شک وشبہ میں پڑ جانا ہے ۔ اس میں اشارہ ہے کہ آخرت کی زندگی کو صرف مان لینے سے مقصد پورا نہیں ہوتا بلکہ آخرت پر ایسا پکا یقین ہو جیسے کوئی چیز آنکھوں کے سامنے ہے ۔ اس لئے متقین کی یہی صفت ہے کہ قیامت کے روز حق تعالی کے سامنے پیشی ، حساب کتاب  اور پھر جزاء اور سزا کا منظر ہر وقت اُن کے سامنے رہتا ہے ۔ جو شخص الله رب العزت کے احکام کی پرواہ نہیں کرتا ، اذان سُن کر بھی نماز کے لئے نہیں اُٹھتا ۔ حرام اور نا جائز مال کھا  اور کما رہا ہے ۔ دوسروں کا حق مارتا ہے ۔ ہر معاملے میں جھوٹ سے کام لیتا ہے یا دُنیا کے ذلیل اور گھٹیا مقصد حاصل کرنے کے لئے شریعت کے خلاف طریقے اختیار کرتا ہے ۔ وہ ہزار بار آخرت پر ایمان لانے کا اقرار کرے ۔ اُسے یقین حاصل نہیں ۔ اور یہی یقین انسان کی زندگی میں انقلاب لانے والی چیز ہے ۔ جب تک یہ یقین حاصل نہ ہو گا متّقین کی صف میں داخل نہیں ہو گا ۔
الله تعلی نے ہمیں انتخاب اور عمل کی آزادی دے رکھی ہے ۔ منزل تک پہنچنے کے لئے ہمارے سامنے کئی راستے ہیں ۔ لیکن ہمیں صرف وہی راہ اختیار کرنی چاہئے ۔ جس کی ہدایت الله تعالی نے کی ہے ۔ اگر آخرت اور جزاء و سزا کا عقیدہ ہر لمحہ ہمیں یاد رہے ۔ تو یقیناً ہم اس دنیا کی زندگی میں سچائی اور میانہ روی کی راہ پر قائم رہیں گے ۔
ہمیں چاہئے کہ ہم اپنی زندگی قرآنی اصولوں پر گزاریں ۔ تاکہ اس کا نتیجہ خوشگوار ہو ۔ اور ہم دونوں جہان میں کامیاب ہوں ۔ جس شخص کو اپنے اعمال کی جوابدہی ، حساب کتاب اور بدلہ پر یقین نہ ہو گا ۔ وہ اپنے اعمال درست نہیں کر سکتا ۔
حوالہ ۔۔۔ 
درس قرآن ۔۔۔ مرتبہ درس قرآن بورڈ 
معارف القرآن ۔۔۔ مفتی محمد شفیع رحمہ الله تعالی 

متّقیوں کی صفات ۔۔۔۔۴ ۔۔۔۔ کتابوں پر ایمان 🍀🌺🍀

وَ     ۔ الَّذِیْنَ           ۔ یُؤْمِنُونَ         ۔ بِمَا ۔     اُنْزِلَ     ۔ اِلَیْ      ۔ کَ ۔    وَ ۔     مَا ۔    اُنْزِلَ ۔    مِنْ ۔            قَبْلِکَ   ۔ ج
اور ۔ جو لوگ ۔ ایمان لاتے ہیں ۔ اس پر جو ۔ اُتارا گیا ۔  طرف ۔  آپ کی ۔ اور ۔ جو ۔  اُتارا گیا ۔ سے ۔  آپ سے پہلے  ۔۔
وَ الَّذِیْنَ یُؤْمِنُوْنَ بِمَآ اُنْزِلَ اِلَیْکَ وَ مَا اُنْزِلَ مِنْ قَبْلِکَ  ۔  ج
اور جو لوگ ایمان لاتے ہیں اس پر جو آپ پر نازل ہوا اور جو آپ سے پہلے نازل ہوا۔ 
اس آیہ مبارکہ میں متقی لوگوں کی چوتھی صفت بیان کی گئی ہے ۔ یعنی یہ لوگ تمام آسمانی کتابوں اور صحیفوں پر ایمان رکھتے ہیں ۔ 
 گویا اس آیہ مبارکہ میں دو باتیں بیان کی گئی ہیں ۔ ایک یہ کہ جو کتاب یعنی قرآن مجید  رسول الله صلی الله علیہ وسلم پر نازل ہوئی ہے اس پر سچے دل سے ایمان لایا جائے اور دوسرا یہ کہ جو کتا بیں آپ سے پہلے نبیوں پر نازل ہوئیں انہیں بھی حق اور الله تعالی کی طرف سے سچا مانا جائے ۔ یہاں یہ بات بھی خوب واضح ہے کہ قرآن مجید میں آخری نبی صلی الله علیہ وسلم کی کتاب اور آپ سے پہلے نبیوں کی کتابوں کا ذکر کیا گیا ہے ۔ آپ کے بعد ہونے والے نہ کسی نبی کا ذکر ہے اور نہ کسی کتاب کا ۔ چنانچہ معلوم ہو گیا کہ آپ صلی الله علیہ وسلم آخری نبی ہیں اور قرآن مجید آخری کتاب ہے ۔ 
اگر قرآن مجید کے بعد کوئی کتاب یا وحی نازل ہونے والی ہوتی تو جس طرح اس آیہ مبارکہ میں پچھلے نبیوں اور کتابوں پر ایمان لانا ضروری قرار دیا گیا ۔ ۔ اسی طرح آئندہ آنے والے نبی اور کتاب کا ذکر ضرور ہوتا ۔ بلکہ اس کی زیادہ ضرورت تھی ۔ مگر قرآن مجید میں جہاں ایمان کا ذکر کیا گیا تو آپ صلی الله علیہ وسلم سے پہلے نازل ہونے والی وحی اور پہلے انبیاء علیھم السلام کا ذکر ہے بعد میں آنے والی وحی یا کسی قسم کے نبی کا قطعاً ذکر نہیں ہے ۔ ان آیات میں اور ان جیسی دوسری آیات میں جہاں کہیں نبی یا رسول یا وحی و کتاب کا ذکر ہے سب کے ساتھ  مِنْ قَبْلِ ۔۔ یا مِنْ قَبْلِکَ  ۔۔ ضرور موجود ہے ۔اس سے ثابت ہو جا تا ہے کہ حضرت محمد صلی الله علیہ وسلم آخری نبی اور قرآن مجید آخری کتاب ہے 
جو نبی آپ سے پہلے آئے ان کی تعداد بہت زیادہ ہے ۔ قرآن مجید میں اُن میں بعض کا نام لے کر ذکر کیا گیا ہے ۔ باقی کی طرف صرف اشارہ کیا گیا ہے ۔ نبیوں پر ایمان لانے سے مُراد یہ ہے ۔کہ حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر آخری نبی حضرت محمد صلی الله علیہ وسلم تک جتنے نبی آئے ہیں ۔ اُن سب کے بارے میں یہ یقین رکھنا کہ وہ سب الله تعالی کے بھیجے ہوئے تھے ۔ اور اپنے اپنے زمانے میں الله تعالی کی توحید اور احکام کی تعلیم دیتے رہے ۔ 
پہلی آسمانی کتابوں میں سے چار کتابوں کا ذکر قرآن مجید میں خاص طور پر کیا گیا ہے ۔ 
حضرت موسٰی علیہ السلام پر الله تعالی نے تورات نازل فرمائی ۔ 
حضرت داؤد علیہ السلام پر زبور نازل فرمائی ۔
 حضرت عیسٰی علیہ السلام پر انجیل نازل فرمائی ۔ 
اور نبی آخر الزماں حضرت محمد صلی الله علیہ وسلم پر آخری کتاب قرآن مجید نازل فرمائی ۔ 
اس کے علاوہ قرآن مجید میں حضرت ابراھیم علیہ السلام پر صحیفے نازل ہونے کا ذکر ہے ۔ 
پہلی آسمانی کتابوں پر ایمان لانا ہر مسلمان پر فرض ہے ۔ لیکن قرآن مجید نازل ہونے کے بعد کیونکہ پہلی کتابیں اور پہلی شریعتیں ختم ہو گئیں ۔ اسلئے عمل صرف قرآن مجید کے احکام پر ہو گا ۔

رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے سلسلہ نبوّت کو ایک محل سے تشبیہ دی ۔ فرمایا  ( مفہوم ) کہ ہر نبی اس  عمارت کے بنانے میں اپنے اپنے زمانے میں ایک ایک اینٹ رکھتا رہا ۔ آخر کار حضرت عیسٰی علیہ السلام تشریف لائے  اور انہوں نے بھی قصر نبوت میں ایک اینٹ لگا دی ۔ لوگ اس عمارت کو دیکھتے تھے اور بڑی تعریف کرتے تھے ۔ لیکن ساتھ ہی یہ بھی کہتے تھے کہ اس میں ایک اینٹ کی کمی باقی ہے ۔ کاش وہ بھی اپنی جگہ پر ہوتی ۔ آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا ( مفہوم ) وہ آخری اینٹ میں ہوں اور قصر ِ نبوت میں اب کسی اور اینٹ کی ضرورت نہیں رہی ۔ 
الله کے نبی دُنیا والوں کے سامنے ہمیشہ ایک ہی سچائی پیش کرتے رہے کہ تمام جہانوں کا رب ایک الله تعالی ہے ۔ اب قرآن مجید میں الله تعالی اپنے ماننے والوں کو حکم دیتا ہے کہ وہ ان سب پر ایمان لائیں ۔ روداری اور سچائی کو قبول کرنے کی اس سے اعلٰی مثال اور کیا ہو سکتی ہے ۔ 
ماْخذ                         ۔۔۔    
درس قرآن ۔۔۔مرتبہ درس قرآن بورڈ 
معارف القرآن 

متّقیوں کی صفات ۔۔۔۳ ۔۔۔۔ مالی قربانی

وَ ۔               مِمَّا ۔            رَزَقْنٰھُمْ ۔     یُنْفِقُوْنَ     3⃣ لا 
اور ۔ اُس میں سے جو ۔ ہم نے انہیں دیا ۔ وہ خرچ کرتے ہیں 
وَ مِمَّا رَزَقْنٰھُمْ یُنْفِقُوْنَ  3⃣ لا 
اور جو کچھ ہم نے اُنہیں دیا اس میں سے خرچ کرتے ہیں ۔ 
رَزَقْنٰھُمْ ۔ ( ہم نے انہیں دیا ) ۔ یہ دو لفظ ہیں ۔ رَزَقْنَا  اور۔ ھُم 
رَزَقْنَا  رزق  سے نکلا ہے ۔ عربی میں یہ لفظ بہت سے معنوں میں استعمال ہوتا ہے  ۔ رزق سے مراد ہر قسم کی نعمتیں  ہیں ۔ خواہ ظاہری ہوں یعنی مال ، صحت ، اولاد وغیرہ  یا باطنی ہوں جیسے علم دانائی اور سمجھ وغیرہ ۔ مال الله تعالی کی بخشش میں سے ایک بہت بڑا عطیہ ہے ۔ 
اس سے یہ بھی ظاہر ہے کہ ہر چیز الله تعالی کی طرف سے ملتی ہے ۔ اور جو بھی نعمت انسان کو ملتی ہے الله تعالی کی عنایت سے ملتی ہے ۔ 
 یُنْفِقُونَ ۔ ( وہ خرچ کرتے ہیں ) ۔ یہ لفظ انفاق سے نکلا ہے ۔ جس کے معنی خرچ کرنا ہیں ۔ 
آیہ مبارکہ کے اس حصہ میں متّقی لوگوں کی تیسری صفت کا بیان ہے ۔ یعنی جو کچھ انہیں الله تعالی نے دے رکھا ہے ۔ وہ اس میں سے مناسب اور ضروری موقعوں پر جائز اور مفید کاموں میں خرچ کرتے ہیں ۔ الله تعالی کے راستے میں مال خرچ کرنا بڑی قربانی ہے ۔ بہت سے لوگ ایسے ہیں کہ جسمانی عبادت تو کرتے ہیں لیکن پیسہ خرچ کرنے کا نام نہیں لیتے ۔ اس قسم کی کنجوسی دُنیا اور آخرت دونوں جہانوں میں نقصان دہ ہے ۔ 
جب انسان کے عزیز واقارب ،  والدین اور رشتہ دار اس کی طرف رجوع کرتے ہیں کہ ان کی ضرورتوں میں اُن کی مدد کرے اور کنجوس انکار کرتا ہے ۔ تو وہ سخت دکھی ہو جاتے ہیں اس کے علاوہ جب معاشرے میں حاجتمندوں ، یتیموں اور بے کسوں ، غریبوں کی مدد کا دستور نہیں رہتا ۔ اور قوم کی درستی ۔ عوام کی بہبودی اور دشمن کے دفاع میں خرچ نہیں کیا جاتا تو ساری قوم مصیبت میں پڑ جاتی ہے ۔ اور آخر کار افرادی دولت بھی ختم ہو جاتی ہے ۔ 
 آخرت کی زندگی میں کنجوسی کا یہ انجام ہوتا ہے کہ جب دِل میں مال کی محبت بھر جاتی ہے اور موت کے وقت جسم روح کا ساتھ چھوڑتی ہے ۔ تو وہ مال کی محبت میں بڑی بے چین رہتی ہے ۔ اور یہ غیر ضروری محبت اُس جہان میں سانپ ، بچھو اور آگ کی صورت میں ظاہر ہو کر عذاب کی شکل اختیار کر لیتی ہے ۔ اس لئے الله تعالی نے انسانوں کو یہ تعلیم دی ہے کہ دین ودُنیا کی کامیابیوں کے لئے ضروری ہے کہ یہاں مالی قربانی کرو ۔ اور اسی طرح اس کی دی ہوئی قوّتوں ، صلاحیتوں اور کامیابیوں کو لوگوں کی خدمت میں خرچ کرو ۔ 
 ہمارا فرض ہے کہ اپنی تمام کوششوں ، قوتوں صلاحیتوں اور مال ودولت کو عام لوگوں کی خدمت میں لگانے سے پیچھے نہ ہٹیں ۔ اپنی ہمت کے مطابق بڑھ چڑھ کر حصہ لیں اس میں ملک اور قوم کا بھی بھلا ہے اور اسی میں ہم سب کا فائدہ ہے ۔ 
یُنْفِقُونَ ۔۔۔ میں ہر قسم کا وہ خرچ شامل ہے جو الله کی راہ میں کیا جائے ۔ خواہ فرض زکٰوۃ ہو یا دوسرے واجب صدقات یا نفلی صدقات و خیرات وغیرہ ۔ اسی طرح انسان کی قوتیں ، صلاحیتیں ، ہمدردی وغیرہ کہ سب کچھ اُسی کا عطا کردہ ہے ۔ الله جل شانہ سے دُعا ہے کہ وہ ہمیں اپنی عطا کردہ نعمتوں میں سے خوب خرچ کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔ اور نفس کی کنجوسی سے بچائے ۔ آمین 
         جان دی دی ہوئی اُسی کی تھی 
         حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا 
درس قرآن ۔۔۔ مرتبہ درس قرآن بورڈ 
معارف القرآن 



متّقیوں کی صفات ۔۔۔۔۔ ۲۔۔۔۔ نماز کی پابندی۔

       وَ ۔     یُقِیْمُونَ  ۔     الصَّلٰوۃَ ۔  
اور ۔ وہ قائم کرتے ہیں ۔        نماز 
 وَ یُقِیْمُونَ الصَّلٰوۃَ 
اور وہ نماز قائم کرتے ہیں ۔۔
یُقِیْمُوْنَ ۔۔۔۔ قائم کرتے ہیں ۔۔ اقامت سے بنا ہے ۔ اس کے معنی ہیں قائم کرنا ۔ اقامت الصلوۃ سے مراد یہ ہے کہ پوری شرائط اور پابندی کے ساتھ نماز باقاعدگی کے ساتھ خود بھی ادا کرے ۔اور دوسروں کو بھی اس کی ادائیگی پر آمادہ کرے ۔ 
صلٰوۃ کے لفظی معنی دُعا کے ہیں ۔ شریعت میں صلٰوۃ خاص عبادت ( نماز ) کا نام ہے ۔ اس کا نام صلٰوۃ اس لئے رکھا گیا ہے ۔ کہ اس عبادت میں سب سے زیادہ حصہ دُعا کا ہے ۔ نماز میں زبان سے بھی دُعا کی جاتی ہے ۔ دل سے بھی اور ظاہری اعضاء سے بھی ۔ 
ایمان بالغیب کے بعد متّقی لوگوں کی دوسری صفت بیان کی گئی ہے ۔ یعنی وہ پابندی سے نماز قائم کرتے ہیں ۔ نماز الله تعالی کے آگے جھکنے ۔ اپنی بندگی کا اظہار کرنے  ۔ الله کریم سے گہرا تعلق پیدا کرنے  اور اُمت کے تمام لوگوں میں تنظیم پیدا کرنے کا بہترین ذریعہ ہے ۔ نماز بدنی عبادتوں میں سب سے اعلی ہے ۔ اور اس کے ذریعے ایمان اور توحید کا اظہار بڑی خوبی سے ہوتا ہے ۔ ایک اکیلے انسان کے لئے بھی اس میں اخلاقی ، طبّی  ، مادی اور روحانی فائدے ہیں ۔ اور پوری امت کے لئے بھی اس میں بہت سے معاشرتی فائدے ہیں ۔ 
تمام مسلمان پاک صاف ہو کر دن میں پانچ مرتبہ ایک امام کے پیچھے  ، ایک قبلہ کی طرف منہ کر کے ، ایک قطار میں کھڑے ہوتے ہیں ۔ اور اپنے ربّ کے سامنے حاضر ہو کر اپنی بندگی اور آپس میں بھائی بھائی ہونے کا اقرار کرتے ہیں ۔ اس سے جماعت کے تمام لوگوں کے دل حسد ، کھوٹ اور خود غرضی سے پاک ہو جاتے ہیں ۔ آپس میں محبت ، اُلفت اور برابری کا احساس پیدا ہوتا ہے ۔ ایک دوسرے کے دُکھ درد کا پتہ چلتا ہے ۔ انسان بے حیائی اور گناہ سے رُکتا ہے ۔ 
نماز باجماعت سے امیر کی اطاعت کا جذبہ پیدا ہوتا ہے ۔ قوم باقاعدگی اور پابندی کی زندگی کا سبق سیکھتی ہے ۔ چنانچہ اسلام کی ابتدائی زندگی میں مسلمانوں کو جس قدر کامیابیاں حاصل ہوئیں ۔ اُن کی سب سے بڑی وجہ یہی نماز با جماعت کی پابندی اور باقاعدگی تھی ۔ عرب کے بدّو جو کسی نظام کے تحت نہ تھے ۔ نماز کی پابندی سے منظّم  ترین جماعت بن گئے ۔ اور دُنیا کے لئے اتحاد کا نمونہ ثابت ہوئے ۔ 
حدیث مبارکہ کا مفہوم ہے ۔ کہ مسلمان اور کافر کے درمیان فرق کرنے والی چیز نماز ہے ۔ اس ارشاد نبوی صلی الله علیہ وسلم کو ہمیں اپنے اوپر چسپاں کر کے دیکھنا چاہئیے کہ ہم کس گروہ میں شامل ہیں ۔ ایک اور حدیث مبارکہ کا مفہوم ہے ۔کہ نماز مؤمن کا معراج ہے ۔ وہ بد قسمت ہو گا جو اس بلند مرتبہ پر نہ پہنچنا چاہتا ہو ۔ 
نماز ایک ایسی عبادت ہے جو اخلاقی ، روحانی ، انفرادی اور اجتماعی غرض ہر لحاظ سے مفید ہے ۔ اسی لئے نماز کو دین کا ستون قرار دیا گیا ہے ۔ 
درس قرآن 
مرتبہ ۔۔۔۔۔۔۔ درس قرآن بورڈ 
اقامت الصلوۃ کا مطلب   ۔۔۔۔۔ اقامت  ( قائم کرنا  ) کے معنی صرف نماز پڑھنے کے نہیں ہیں ۔ بلکہ نماز کو ہر سمت اور ہر حیثیت سے درست کرنے کا نام اقامت ہے ۔ جس میں نماز کے تمام فرائض ، واجبات ، مستحبات  وغیرہ پھر ہمیشہ کرنا اور لازمی کرنا یہ سب اقامت کے مفہوم میں شامل ہے ۔ اور اس جگہ نماز سے مراد کوئی خاص نماز نہیں ہے ۔ بلکہ فرض نمازیں ۔ واجب و نفل سب شامل ہیں ۔ یعنی نمازوں کی ہمیشہ پابندی شرعی طریقہ کے مطابق اور پورے آداب اور حضوری کے ساتھ   اقامت الصلوہ ہے ۔۔۔ 
مأخذ ۔۔۔ معارف القرآن 

متّقیوں کی صفات ۔۔ ۔۔۔ 1. ( ایمان بالغیب )

الَّذِیْنَ  ۔  یُؤْمِنُونَ۔           بِالْغَیْبِ  ۔ 
جو لوگ ۔  ایمان لاتے ہیں۔ ۔  غیب پر 
اَلّذِینَ یُؤْمِنُونَ بُالْغَیْبِ 
جو لوگ غیب پر ایمان لاتے ہیں۔  
الَّذِیْنَ ؛  وہ لوگ جو کہ ۔ یہ اسم موصول ہے ۔ اس کا واحد الَّذِی ہے ۔  قرآن مجید میں یہ لفظ بار بار استعمال ہو گا ۔ ذہن نشین کر لیں ۔ 
یؤْمِنُونَ ۔  ایمان لاتے ہیں ۔ یہ لفظ ایمان سے نکلا ہے ۔ ایمان سے مراد ہے کسی حقیقت کو زبان سے ماننا ۔ دل سے اس پر یقین کرنا  اور اس کے مطابق اس پر عمل کا ارادہ کر لینا ۔ جو ایمان لاتا ہے وہ ہر قسم کے شک وشبہ سے امن میں آجاتا ہے ۔  یہی ایمان ہے جو شریعت میں قابل اعتبار ہے ۔ 
لغت میں کس کی بات کو کسی کے اعتبار پر پورے طور پر مان لینے کا نام ایمان ہے ۔ اسی لئے دیکھ کر یا محسوس کر کے کسی کی بات مان لینے کو ایمان نہیں کہتے ۔ مثلا کوئی شخص سفید کپڑے کو سفید یا سیاہ کو سیاہ کہہ رہا ہے اور دوسرا اس کی تصدیق و تائید کر رہا  اس کو ایمان لانا نہیں کہیں گے ۔ کیونکہ یہ تصدیق مشاہدہ کی بنا پر ہے اس میں کہنے والے پر اعتماد ویقین کا کوئی دخل نہیں ۔
شریعت میں رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی باتوں  کو بغیر مشاہدہ کے صرف رسول الله صلی الله علیہ وسلم پر اعتماد کرتے ہوئے مان لینے کا نام ایمان ہے ۔ 
غیب سے مراد وہ عالم ہے ۔ جو اس ظاہری دنیا سے بُلند ہے ۔ اور جس کی خبریں صرف نبی کے ذریعہ معلوم ہوتی ہیں ۔ 
قرآن مجید میں غیب سے مراد وہ تمام چیزیں ہیں جن کی خبر رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے دی ہے ۔ اور ان کا علم عقل سمجھ اور مشاہدہ یا حواس خمسہ سے نہیں ہو سکتا ۔ 
مثلا الله تعالی کی ذات و صفات ، فرشتے ، جنت و دوزخ ، حساب و کتاب ، قیامت  ، اسں میں پیش آنے والے واقعات  ،  جزاء اور سزا ،   تمام آسمانی کتابیں اور انبیاء سابقین  وغیرہ 
تو اب ایمان بالغیب کے معنی یہ ہو گئے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم جو ہدایات اور تعلیمات لے کر آئے ہیں اُن سب کو یقینی طور پر دل سے ماننا ۔ شرط یہ ہے کہ ان تعلیمات کا رسول الله صلی الله علیہ وسلم سے نقل ہونا قطعی طور پر ثابت ہو ۔ چنانچہ نبی کریم صلی الله علیہ وسلم پر ایمان لائے بغیر ایمان بالغیب کامل نہیں ہوتا ۔ اس سے یہ بھی معلوم ہو گیا کہ صرف جان لینے کو ایمان نہیں کہتے ۔ کیونکہ جہاں تک جاننے کا تعلق ہے تو وہ ابلیس و شیطان اور بہت سے کافروں کو بھی حاصل ہے ۔ کیونکہ اُن کو رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی سچائی کا یقین تھا ۔ مگر اس کو مانا نہیں اس لئے وہ مؤمن نہیں ہیں ۔ 
اس سے پہلے سبق میں بتایا گیا تھا ۔ کہ قرآن مجید اُن لوگوں کے لئے دستورِ حیات ہے جو نہایت خلوص اور پاک نیت سے اس سے فائدہ حاصل کرنا چاہتے ہیں ۔ جن میں احتیاط اور نگہداشت سے زندگی بسر کرنے کا جذبہ اور صلاحیت موجود ہو ۔ اور وہ محتاط اور پاکیزہ زندگی گزارنے کا شوق رکھتے ہوں ۔ اس آیہ مبارکہ میں متقین کی پہلی صفت بیان کی جاتی ہے ۔ جو قرآنی ہدایت سے ان میں پیدا ہو گی ۔ وہ یہ ہے کہ وہ ایسی چیزوں پر ایمان لاتے ہیں ۔جن کا وجود ظاہری حواس سے بلند ہو ۔ 
ایمان کے بغیر دل میں بے چینی اور بے قراری ہی رہتی ہے ۔ کیونکہ ایمان اور یقین نہ ہو تو شک اور تردّد ، وہم و گمان  دل میں اپنی جگہ بنا لیتے ہیں ۔ لیکن ایک ایمان والا سخت سے سخت مصیبت اور آزمائش کے وقت بھی کبھی نہیں گبھراتا ۔ بلکہ اس کو امید لگی رہتی ہے اور یقین ہوتا ہے کہ وہ ایک بڑا سہارا اور مضبوط آسرا رکھتا ہے ۔ اس سے دماغ کو سکون ، دل کو  اطمینان اور روح کو چین نصیب ہوتا ہے ۔  غیب پر یقین رکھنے کا یہ عقیدہ دین کا مغز اور ایمان کی روح ہے ۔ اس کے بغیر ایمان پختہ نہیں ہوتا ۔ 
ہم نے اپنے آپ کو قرآن کریم سے ہدایت لینے کے لئے تیار کر لیا  اور متقی لوگوں میں شامل ہو گئے ۔ اب ہمیں چاہئے کہ قرآن مجید کی تعلیمات کے مطابق اپنے اندر وہ صفات پیدا کر لیں ۔ جن کا حکم الله جل شانہ قرآن مجید میں دیتا ہے ۔ ہمیں بغیر  چون وچرا غیب کی تمام حقیقتوں پر ایمان لے آنا چاہیے ۔ جن کی خبر ہمیں نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کی معرفت دی گئی ہے ۔ الله تعالی ہمیں اس کی توفیق دے  ۔ آمین 
ماخذ ۔۔۔ 
معارف القرآن ۔۔۔۔۔ مفتی محمد شفیع  رحمہ الله تعالی 
درس قرآن ۔۔۔۔۔۔ مرتبہ درسِ قرآن بورڈ 

دیار عشق میں اپنا مقام پیدا کر

میرے کانوں نے پہلی آواز جو سنی وہ الله اکبر کی تھی ۔ اور ایک اور نام محمد صلی الله علیہ وسلم بھی سنائی دیا ۔ جو میں دنیا میں آنے سے پہلے بھی سنتا رہا تھا ۔ جوں جوں میں ہوش سنبھالتا گیا یہ دونوں نام اکثر و بیشتر سنائی دیتے رہے ۔ کبھی ایک پکار کی صورت بلند اور کبھی ماں کی گود میں دودھ پیتے ہوئے سرگوشی کی صورت ۔ صبح سویرے جب میں بھوک سے بے قرار ہو کر بیدار ہوتا تو میری ماں یہ دونوں نام لے کر میرے منہ پر ہاتھ پھیرتی  اور پھر مجھے دودھ پلانے لگتی ۔ ۔ جب اور بڑا ہوا تو ماں نے مجھے یاد کروایا ۔ الله ایک ہے ۔ ہم مسلمان ہیں ۔ ہمارا مذہب اسلام ہے اور حضرت محمد صلی الله علیہ وسلم الله کے آخری نبی ہیں ۔ ۔ میں نے یہ سب اچھی طرح یاد کر لیا ۔ پھر میں اپنے ابا کے ساتھ کبھی کبھی مسجد میں جمعہ کی نماز پڑھنے جانے لگا ۔ میرے ابا سفید کلف والے کپڑے پہنتے اور میری اماں مجھے بھی سفید کلف والی شلوار قمیض پہنا دیتی ۔ میں چار سال کا ہونے والا تھا ۔ ایک دن جمعہ کے دن نماز کے بعد میرے ابا مجھے گاڑی میں بٹھا کر کہیں لے گئے ۔ایک داڑھی والے شخص تھے ۔  انہوں نے میری تاریخ پیدائش پوچھی ۔ تو ابا جی نے بتایا اکیس اپریل ۔ وہ ایک دم جوش میں آگئے اور کہنے لگے آپ کو پتہ ہے یہ با برکت تاریخ ہمارے رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی پیدائش کی ہے ۔ یہ سن کر ابا بہت خوش ہوئے ۔ گھر آکر ابا نے یہ باتیں میری اماں اور دادا ، دادی کو بتائیں ۔ وہ آخری دن تھا جب میں نے اپنے والد صاحب کو دیکھا ۔ اس کے بعد وہ ہمیشہ کے لئے الله تعالی کے پاس چلے گئے ۔ 
میری امی ہر روز رات کو ہمیں انبیاء علیھم السلام کے قصے سناتیں ۔ ایک دن انہوں نے بتایا کہ ہمارے نبی صلی الله علیہ وسلم کے والد اُن کے پیدا ہونے سے پہلے ہی الله تعالی کے پاس چلے گئے تھے ۔ مجھے یہ سن کر بہت تکلیف ہوئی ۔ میں نے اپنے پیارے نبی صلی الله علیہ وسلم کے لئے بہت دکھ اور اداسی محسوس کی ۔ پھر امی نے بتایا کہ چھ سال بعد ان کی امی بھی انہیں چھوڑ کر الله تعالی کے پاس چلی گئیں ۔ تو میں بے اختیار اپنی امی سے لپٹ گیا ۔ 
امی جان نے بتایا ہمارے نبی صلی الله علیہ وسلم کی پرورش اُن کے چچا نے کی ۔ آپ صلی الله علیہ وسلم کے چچا کے بھی چھوٹے چھوٹے بچے تھے ۔ اور ہمارے نبی صلی الله علیہ وسلم کی چچی آپ سے بہت محبت کتی تھیں ۔ آپ دوسرے بچوں کے ساتھ بکریاں چرانے جایا کرتے تھے ۔ جب گھر واپس آتے تو سب بچے کھانے کی طرف لپکتے لیکن آپ صلی الله علیہ وسلم ایک طرف بیٹھ جاتے ۔ آپ کی چچی جب آپ کو دیکھتیں تو خود آگے بڑھ کر آپ کو کھانا دیتیں ۔ بہت دنوں تک جب میری امی مجھے کھانا کھلاتیں تو میری آنکھوں میں آنسو آجاتے ۔ اور میں اپنے نبی صلی الله علیہ وسلم کے لئے دُکھ اور تکلیف محسوس کرتا ۔ 
پھر میں بڑا ہو گیا امی جان کی دُنیا سے نکل کر سکول کی دُنیا میں آگیا میری دلچسپیوں کا محور بدل گیا ۔ صبح صبح اُٹھنا ، بھاگم بھاگ سکول جانا ، پڑھنا  لکھنا اور کھیلنا رات تک تھک کر سو جانا ۔ ہاں اس دوران میں اپنے نبی صلی الله علیہ وسلم کی زندگی کے واقعات سنتا اور پڑھتا رہا ۔ کبھی امی سے اور کبھی کورس کی کتابوں سے ۔ مجھے پتہ چلا کہ میرے نبی صلی الله علیہ وسلم بچپن ہی سے کھیل تماشوں سے دور رہے ۔ میرے نبی سچے اور امانت دار تھے ۔ کبھی جھوٹ نہ بولتے ۔ کبھی بتوں کی عبادت نہ کی ۔شرک نہ کیا ۔ جوانی میں بھی برائی سے کوسوں دور رہے ۔ کبھی شراب نہ پی ۔ جوا نہ کھیلا ۔ اگرچہ یہ سب برائیاں اس وقت عام تھیں ۔ میرے نبی صلی الله علیہ وسلم نے کبھی کسی پر ظلم نہ کیا ۔ بلکہ ہر ایک سے نرمی اور محبت سے پیش آتے ۔ اور اپنی قوم میں صادق اور امین مشہور تھے ۔ 
چالیس سال کی عمر میں منصب نبوت پر سرفراز ہونے کے بعد الله کے حکم سے جب دعوت حق کی تبلیغ شروع کی تو اپنے پرائے سب میرے نبی صلی الله علیہ وسلم کے دشمن ہو گئے ۔ اور آپ پر اور آپ کے ایمان لانے والے ساتھیوں پر ظلم وستم کرنے لگے ۔ میرے نبی صلی الله علیہ وسلم کفار کے ظلم وستم کو صبر سے برداشت کرتے رہے ۔ اور کافروں کے لئے بھی کبھی بد دعا نہ کی ۔ مکہ میں تیرہ سال تک کافروں کے ظلم وستم کو نہایت حوصلے اور صبر کے ساتھ برداشت کیا ۔ یہاں تک کہ وادی طائف میں کافروں نے آپ کو لہو لہان کر دیا ۔پھر بھی میرے نبی صلی الله علیہ وسلم نے ان کے لئے بد دعا نہ کی اور الله تعالی سے ان کے ایمان کی دعا کرتے رہے ۔ جب الله تعالی کے حکم سے مکہ سے مدینہ طیبہ ہجرت کی تب بھی ظالم کافروں نے پیچھا نہ چھوڑا ۔ اور بار بار مدینہ طیبہ پر حملہ کر کے میرے نبی صلی الله علیہ وسلم اور اسلام کو ختم کرنے کی کوششیں کرتے رہے  ۔ آپ صلی الله علیہ وسلم  نے صبر اور حوصلے دلیری اور حکمت سے اور الله رب العزت کی مدد سے اور اچھے اخلاق سے نہ صرف جنگوں میں فتح حاصل کی بلکہ لوگوں کے دل بھی فتح کر لئے ۔ 
اب میں ینیورسٹی کا سٹوڈنٹ ہوں ۔ ہر وقت میرا میڈیا ، انٹرنیٹ اور فیس بک سے واسطہ رہتا ہے ۔ جب بھی کسی گستاخ رسول صلی الله علیہ وسلم کے بارے میں سنتا ہوں میرا خون کھول اٹھتا ہے ۔ جی چاہتا ہے سامنے ہو تو مار مار کر اس کا برا حال کر دوں ۔ میں اپنے پیارے نبی صلی الله علیہ وسلم کی سیرت کے چھوٹے چھوٹے واقعات جانتا ہوں اور میں کوئی ریسرچ سکالر نہیں ہوں ۔ میں سیرت نبی صلی الله علیہ وسلم پر کچھ لکھنے کی  استطاعت نہیں رکھتا  اور یہ بھی جانتا ہوں کہ میرے نبی صلی الله علیہ وسلم کی تعریف میں بہت کچھ لکھا گیا اور لکھا جاتا رھے گا ۔بلکہ الله جل شانہ نے پوراقرآن اپنے رسول صلی الله علیہ وسلم کی تعریف میں اتارا ہے ۔ میرے قلم میں اتنی طاقت نہیں کے وہ میرے نبی کی شان کا حق ادا کر سکے ۔ لیکن میں گستاخ رسول صلی الله علیہ وسلم کا منہ توڑنے کی خواہش ضرور رکھتا ہوں ۔ 
میں اپنے نبی آخر الزماں صلی الله علیہ وسلم کو اپنی جان ، اپنے مال ، اپنے ماں باپ اور دنیا کی ہر چیز سے عزیز رکھتا ہوں ۔ جب بھی کبھی ایسا موقع آیا کہ مجھے اپنے نبی صلی الله علیہ وسلم کے لئے کھڑا ہونا پڑا تو میں اپنی جان حرمت نبی صلی الله علیہ وسلم پر قربان کر دوں گا ۔
 ان شاء الله تعالی  

قرآن مجید کا مقصد ۔۔۔۔

 ھُدًی ۔ لِ ۔ الْمُتَّقِیْنَ 
ہدایت ۔ کے لئے ۔ پرھیز گار ( جمع ) ۔ 
ھُدًی لِّلمُتَّقِیْنَ 2⃣ لا 
پرھیزگاروں کے لئے ھدایت ہے ۔
ھُدًی ۔۔۔ ہدایت ۔ راستہ کا علم ، راستہ پر چلنے کا سامان ،اور توفیق ، منزل پر پہنچنے کی قوّت ۔ یہ تمام باتیں ہدایت کے معنوں میں شامل ہیں ۔
مُتَّقِیْنَ ۔۔۔ یہ متقی کی جمع ہے ۔ اور لفظ تقوٰی سے بنا ہے ۔ متقی وہ ہے جس میں تقوٰی ہو ۔ تقوٰی احتیاط اور نگہداشت کو کہتے ہیں ۔ اسی اعتبار سے متقی کے معنی ہوئے پرھیزگاری سے زندگی بسر کرنے والا ۔ جو ہر کام سوچ سمجھ کر احتیاط سے کرتا ہو ۔ تقوٰی کی تشریح میں حضرت ابی بن کعب رضی الله عنہ کا واقعہ قابل غور ہے ۔
 حضرت ابی بن کعب رضی الله عنہ سے ایک بار حضرت عمر رضی الله عنہ نے پوچھا ۔ تقوٰی کسے کہتے ہیں ۔ انہوں نے فرمایا ۔ اگر کسی ایسے جنگل میں سے گزرو جو کانٹوں اور جھاڑیوں سے بھرا ہوا ہو ۔ تو کیا کرو گے ؟ 
انہوں نے جواب دیا ۔ میں اپنے کپڑوں کو سمیٹ لوں گا ۔ کہ دامن کانٹوں سے نہ اُلجھے ۔ 
حضرت ابی بن کعب رضی الله تعالی عنہ نے فرمایا ۔ بس یہی تقوٰی ہے ۔ 
ظاہر ہوا کہ قرآن کی ہدایت اُن لوگوں کے لئے مفید ہے ۔ جو دُنیا کی زندگی کے جنگل میں ہر قسم کے کانٹوں یعنی گناہوں وغیرہ سے بچ کر اپنی منزل تک پہنچنا چاہتے ہوں ۔
انسان دو قسم کے ہیں ۔ اول قسم کے لوگ لا پرواہ اور لا اُبالی ہوتے ہیں ۔ وہ اس قدر بے فکرے ہوتے ہیں کہ بغیر سوچے سمجھے ہر کام میں ہاتھ ڈال دیتے ہیں ۔ اور دوسرے ایسے ہوتے ہیں ۔ جو ہر کام کرنے سے پہلے سوچ سمجھ کر احتیاط سے کام لیتے ہیں ۔ ہدایت سے فائدہ احتیاط سے زندگی بسر کرنے والے ہی اٹھا سکتے ہیں ۔ یہی لوگ ہیں جن میں تقوٰی کا رنگ پایا جاتا ہے ۔ قرآن مجید کی تعلیمات سے پرھیزگاری اعلی مقام پر پہنچ جائے گی ۔ اور وہ صفات پیدا ہو جائیں گی جن کا بیان آگے آرھا ہے ۔ 
یہ کتاب ساری دنیا کی ہدایت کے لئے نازل ہوئی ہے ۔ اور یہ مخاطب بھی سارے جہان والوں سے ہے ۔ مگر عملاً اس سے نفع صرف وہی لوگ حاصل کر سکتے ہیں ۔ جن میں سچائی کی طلب اور تلاش ہو ۔ آخر ہر کام کے لئے کچھ سامان کی ضرورت ہوتی ہے ۔ مثلاً چلنے کے لئے پاؤں ضروری ہیں ، دیکھنے کے لئے آنکھیں ۔ اسی طرح قرآن مجید سے ہدایت حاصل کرنے کے لئے دل کے اندر تقوٰی یعنی احتیاط کا مادہ ہونا بہت ضروری ہے ۔ سورج تو سارے جہان پر چمکتا ہے ۔ لیکن جنہوں نے اپنے دیکھنے کی قوت ضائع کر دی ہو اُن کے لئے اس کی روشنی بےکار ہے ۔ اگر زمین شور زدہ ہو تو بارش اس پر بے اثر ثابت ہو گی ۔ 
دلوں میں تقوٰی پیدا کرنے کے لئے ضروری ہے ۔کہ ہم خود اپنے کاموں کا محاسبہ کرتے رہا کریں ۔ 
ایک بار حضرت عمر رضی الله عنہ نے فرمایا ۔ اس سے پہلے کہ دوسرے تم سے جواب طلب کریں ۔ تم خود اپنا جائزہ لیتے رہا کرو ۔
درس قرآن 
مرتبہ ۔۔۔  درس قرآن بورڈ 

قرآن مجید کی حیثیت ۔۔۔

ذٰلِکَ ۔ الْکِتَابُ ۔ لَا ۔ رَیْبَ ۔ فِیْهِ   ج۰۰
یہ ۔ کتاب ۔ نہیں ۔ شک ۔ اس میں  
ذٰلِکَ الْکِتَابُ لَا رَیْبَ۔  ج 🔺 فِیْهِ ج🔺 ۔
اس کتاب میں کوئی شک نہیں   
ذٰلِکَ ۔۔۔ (  یہ ) کسی چیز کی طرف اشارہ کرنے کے لئے آتا ہے ۔ عربی میں ذٰلک اور اس کے علاوہ کچھ اور لفظ اشارہ کے لئے استعمال ہوتے ہیں ۔ ذٰلک عام طور پر دُور کی چیز کی طرف اشارہ کرنے کے لئے آتا ہے ۔ یہاں قرآن مجید کی بزرگی اور بڑائی کے لحاظ سے دُور کا اشارہ قریب  ( اس ) کے معنوں میں استعمال ہوا ہے ۔ 
اَلْکِتٰبُ ۔۔۔ ہر لکھی ہوئی چیز کو کتاب کہتے ہیں ۔ ال  جب کسی اسم کے شروع میں آئے تو اسے خاص کر دیتا ہے ۔ چنانچہ کتاب سے پہلے جو ال ہے ۔ اس سے خاص کتاب قرآن مجید مراد ہے ۔
دُنیا میں ہر شخص کو سچے اصول معلوم کرنے کی ضرورت ہوتی ہے ۔ تاکہ ان پر چل کر اپنا مقصد حل کر سکے ۔ بعض لوگ چاہتے ہیں کہ ایسے اصول اپنی عقل سے معلوم کر لیں ۔ مگر تجربہ سے ظاہر ہے ۔ کہ جو اصول انسان اپنی عقل سے  نکالتا ہے وہ سچے ، یقینی اور دائمی نہیں ہو سکتے ۔ کیونکہ مختلف مسائل کے بارے میں لوگوں کے مختلف خیالات پائے جاتے ہیں ۔ گویا ہم اپنی عقل سے ایک بات پر متفق نہیں ہو سکتے ۔ بلکہ جتنے منہ ہوں گے اُتنی باتیں ہوں گی ۔ 
اس اختلاف کو ختم کرنے کے لئے الله تعالی نے ہمیں کمال شفقت سے یہ کتاب عنایت فرمائی ۔ اور ساتھ ہی فرمایا  کہ اس کتاب کی باتیں حکمت سے بھری ہوئی سچی اور اٹل ہیں ۔ اس میں کسی قسم کا شک اور شبہ نہیں ۔ اس میں جو وعدے کئے گئے ہیں وہ یقینی طور پر پورے ہوں گے ۔ اور جو تعلیم اس میں دی گئی ہے ۔ وہ بلا شبہ درست نتیجے پیدا کرے گی ۔ اگر کسی کو کوئی شک والی بات نظر آئے تو تھوڑے سے غور وفکر سے خود قرآن مجید ہی کے ذریعے سے دُور ہو سکتی ہے ۔ 
قرآن حکیم کی تعلیم عقل کی پہنچ سے دُور نہیں ۔ انسانوں کو دعوت دی جاتی ہے کہ وہ تجربہ کر کے قرآن کریم کی سچائی کو آزما لیں یقیناً اس پر عمل کرنے سے ان کی ہر تکلیف دور ہو جائے گی ۔ کون نہیں جانتا عرب قوم جہالت میں ڈوبی ہوئی تھی ۔ وہ سب سے زیادہ پسماندہ تھی ۔ غیر مہذب اور غیر متمدن تھی ۔ جب اس قوم نے قرآن مجید کی تعلیمات پر عمل کیا تو وہ اخلاق ، معاملات ، رہن سہن ، تعلیم وحکمت ، سیاست اور معیشت ، عدل وحکومت غرض زندگی کے ہر مرحلہ میں کامیاب ہو گئی ۔ جو سب سے پیچھے تھے وہ قرآن مجید کی بدولت دُنیا کے امام ، رہبر اور رہنما بن گئے ۔ قرآن کا ہر وعدہ پورا ہوا ۔ لیکن جب اس پر عمل کرنا چھوڑ دیا تو وہی بیماریاں پھر لوٹ آئیں ۔ 
ہمیں چاہئے ہم پختہ عزم کے ساتھ قرآن حکیم پر عمل کرنے کا عہد کریں ۔ ہر قسم کے شکوک و شبہات چھوڑ دیں اور الله کے وعدوں کے مطابق دُنیا اور آخرت کی کامیابی حاصل کریں ۔ 
درس قرآن ۔۔۔۔ مرتبہ درس قرآن بورڈ 

سورۃ بقرہ ۔۔۔۔ آلٓمّٓ

بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ 💐🍀💐
    آلٓمّٓ 
آلٓمّٓ
سورۃ بقرہ کی ابتداء  الم سے ہوئی ہے ۔ اس قسم کے حروف گو حروف مقطعات کہتے ہیں ۔  یہ حروف اکٹھے لکھے جاتے ہیں لیکن الگ الگ پڑھے جاتے ہیں ۔الف  ۔ لام۔ میم 
یہ حروف ( آلٓمّٓ ) اس سورۃ کے علاوہ پانچ اور سورتوں کے شروع میں آئے ہیں ۔ ان حروف کے علاوہ اس قسم کےکچھ اور حروف بھی ہیں ۔  جو قرآن مجید کی مختلف سورتوں کی ابتداء میں ہیں ۔ جیسے حٓمٓ   ۔ آلٓمّٓرٓ  ۔ 
حروف مقطعات سے شروع ہونے والی سورتوں کی کُل تعداد اُنتیس ( 29 ) ہے ۔ 
ان حروف کے معنی کیا ہیں ؟ اس کے بارے میں یقینی جواب نہیں دیا جا سکتا ۔ بعض مفسرین کرام نے فرمایا کہ یہ ان سورتوں کے نام ہیں ۔ جن کے شروع میں آئے ہیں ۔
بعض نے فرمایا  ۔ان حروف میں الله تعالی کے نام چُھپے ہوئے ہیں ۔ مگر جمہور صحابہ رضوان الله تعالی علیھم  اور تابعین کرام اور علماء امت کے نزدیک یہ حروف رموز اور اسرار ہیں ۔ جس کا علم سوائے الله تعالی کے اور کسی کو نہیں ۔ کیونکہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم سے ان حروف کی تفسیر وتشریح میں کچھ نقل نہیں کیا گیا ۔ 
امامِ تفسیر قرطبی نے اپنی تفسیر میں فرمایا ۔ جس کا خلاصہ یہ ہے ۔
 " عامر شعبی ، سفیان ثوری اور ایک جماعت محدثین رحمھم الله علیھم نے فرمایا ۔ ہر آسمانی کتاب میں الله تعالی کے کچھ خاص اسرار و رموز ہوتے ہیں ۔ اسی طرح یہ حروف مقطعات قرآن مجید میں حق تعالی کے راز ہیں ۔ یہ اُن متشابھات میں سے ہیں جن کا علم صرف الله جل شانہ کو ہے ۔ ہمارے لئے ان میں بحث اور گفتگو کرنا جائز نہیں ۔ اس کے باوجود یہ بے فائدہ نہیں ہیں ۔ ان پر ایمان لانا اور ان کو پڑھنا ہمارے  لئے بہت بڑا ثواب ہے ۔  حروف مقطعات  پڑھنے کے بہت سے فائدے ہیں ۔اور بہت برکتیں ہیں ۔جو اگرچہ ہمیں معلوم نہیں ہیں مگر ملتے ضرور ہیں ۔ یہ جیسے ہیں اسی طرح پڑھنے چاہییں ۔ 
ابن کثیر نے بھی اسی کو تر جیح دی ہے ۔
البتہ بعض علماء کرام نے ان حروف کے جو معنی بیان کئے ہیں ۔ وہ صرف مثال اور آسانی کے لئے ہیں ۔ یہ مراد نہیں ہے کہ ایسا الله تعالی نے فرمایا ہے ۔ اس کو غلط کہنا علماء کرام کی تحقیق کے خلاف ہے ۔ 
حوالہ ۔۔ 
 معارف القرآن ۔۔۔ مفتی محمد شفیع رحمہ الله تعالی 
تفہیم القرآن میں مودودی صاحب رحمہ الله تعالی فرماتے ہیں ۔۔۔ جس زمانے میں قرآن مجید نازل ہوا اس وقت اس طرح کے حروف عام طور پر استعمال کئے جاتے تھے ۔ چنانچہ خطیب اور شاعر اپنے کلام میں اس فسم کے اسلوب سے کام لیتے تھے ۔ اور سننے والے  ایسے طریقہ کو سننے کے عادی تھے اور سمجھ جاتے کہ اس سے کیا مراد ہے ۔ اسی لئے اس دور کی شاعری وغیرہ میں اس قسم کی مثالیں ملتی ہیں ۔ بعد میں آہستہ آہستہ یہ طریقہ ختم ہو گیا ۔ اس لئے مفسرین کے لئے ان حروف کے مطلب کا تعین کرنا مشکل ہو گیا ۔۔ و الله اعلم 
الله جل شانہ ہمیں قرآن مجید کو صحیح طور پر پڑھنے اور سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے ۔ ہمارا فرض ہے کہ ہم قرآن مجید کے واضح احکام پر عمل کریں اور متشابھات کی بحث میں نہ پڑیں ۔  

سورۃ بقرہ تعارف ۔۔۔۔۔۔

🌼🌺. سورۃ البقرہ  🌺🌼
اس سورت کا نام سورۃ بقرہ ہے ۔ اور اسی نام سے حدیث مبارکہ میں اور آثار صحابہ میں اس کا ذکر موجود ہے ۔ بقرہ کے معنی گائے کے ہیں ۔ کیونکہ اس سورۃ میں گائے کا ایک واقعہ بھی  بیان کیا گیا ہے اس لئے اس کو سورۃ بقرہ کہتے ہیں ۔
سورۃ بقرہ قرآن مجید کی سب سے بڑی سورۃ ہے ۔ آیات کی تعداد 286 ہے ۔ اور کلمات  6221  ہیں ۔اور حروف  25500 ہیں 
یہ سورۃ مبارکہ مدنی ہے ۔ یعنی ہجرتِ مدینہ طیبہ کے بعد نازل ہوئی ۔ مدینہ طیبہ میں نازل ہونی شروع ہوئی ۔ اور مختلف زمانوں میں مختلف آیات نازل ہوئیں ۔ یہاں تک کہ " ربا " یعنی سود کے متعلق جو آیات ہیں ۔ وہ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کی آخری عمر میں فتح مکہ کے بعد نازل ہوئیں ۔ اور اس کی ایک آیت  " وَ اتَّقُوْا یَوْماً تُرجَعُونَ فِیہِ اِلَی اللهِ "آیہ  281  تو قران مجید کی بالکل آخری آیت ہے جو 10 ہجری میں 10  ذی الحجہ کو منٰی کے مقام پر نازل ہوئی ۔ ۔ جبکہ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم حجۃ الوداع کے فرائض ادا کرنے میں مشغول تھے ۔ ۔ اور اس کے اسی نوّے دن بعد آپ صلی الله علیہ وسلم کا وصال ہوا ۔ اور وحی الٰہی کا سلسلہ ہمیشہ کے لئے ختم ہو گیا ۔ 
فضائل سورۃ بقرہ 🌺🌼۔ 🌺🌼
یہ قرآن کریم کی سب سے بڑی سورۃ ہے ۔ اور بہت سے احکام پر مشتمل ہے ۔ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا ۔ 
مفہوم ۔ سورۃ بقرہ کو پڑھا کرو ، کیونکہ اس کا پڑھنا برکت ہے ۔ اور اس کا چھوڑنا حسرت اور بد نصیبی ہے ۔ اور اہلِ با طل اس پر قابو نہیں پا سکتے ۔ 
 قرطبی نے  حضرت معاویہ رضی الله عنہ سے نقل کیا ہے ۔ اس جگہ اہل باطل سے مراد جادوگر ہیں ۔ 
یعنی اس سورۃ کے پڑھنے والے پر کسی کا جادو نہ چلے گا ۔ ( قرطبی از مسلم بروایت ابو امامہ باہلی ) ۔
اور آنحضرت صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا ۔ مفہوم ۔ کہ جس گھر میں سورت بقرہ پڑھی جائے شیطان وھاں سے بھاگ جاتا ہے ۔ ( ابن کثیر از حاکم ) ۔ 
اور رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا ۔ مفہوم ۔ سورۃ بقرہ سنام القرآن اور ذروۃ القرآن ہے ۔ 
سنام اور ذروہ کسی چیز کے اعلی اور افضل حصہ کو کہا جاتا ہے ۔ اس کی ہر آیہ مبارکہ کے نزول کے وقت اسی ( 80 ) فرشتے اس کے ساتھ نازل ہوئے ہیں  ( ابن کثیر از مسند احمد ) ۔ 
حضرت ابوھریرہ کی  ایک حدیث میں ہے ۔ اس سورۃ میں ایک آیۃ ایسی ہے جو تمام آیات قرآن میں اشرف و افضل ہے ۔ اور وہ آیۃ الکرسی ہے ۔  (ابن کثیر از ترمذی ) ۔
حضرت عبد الله بن مسعود نے فرمایا ۔  سورۃ بقرہ کی دس آیتیں ایسی ہیں ۔ اگر کوئی شخص انہیں رات میں پڑھ لے تو اس رات کو جن ، شیطان گھر میں داخل نہ ہو گا ، اور اس کو اور اس کے اہل عیال کو اس رات میں کوئی آفت ، بیماری رنج وغم وغیرہ ناگوار چیز پیش نہ آئے گی ۔ اور اگر یہ آیات جنون میں مبتلا کسی شخص پر پڑھی جائیں تو فائدہ دیں گی  ۔ 
وہ دس آیات یہ ہیں :  چار آیتیں شروع سورۃ بقرہ کی ۔ ۔۔ تین آیتیں درمیانی یعنی آیۃ الکرسی اور اس کے بعد کی دو آیتیں  ۔۔۔اور پھر سورۃ بقرہ کی آخری تین آیتیں ۔۔۔

🌺🌼 احکام و مسائل 🌺🌼
ابنِ عربی فرماتے ہیں میں نے اپنے بزرگوں سے سنا ہے کہ  سورۃ بقرہ میں ایک ہزار امر  ( احکام )  اور ایک ہزار نہی  ۔ ایک ہزار حکمتیں اور ایک ہزار خبر اور قصص ہیں ۔ ( قرطبی و ابن کثیر ) ۔ یہی وجہ ہے کہ حضرت عمر فاروق رضی الله عنہ نے جب سورہ بقرہ کو تفسیر کے ساتھ پڑھا تو اس کی تعلیم میں بارہ ( 12)  سال خرچ ہوئے۔  اور حضرت عبد الله بن عمر رضی الله عنہ نے یہ سورۃ آٹھ سال میں پڑھی ۔  ( قرطبی ) ۔
🌺🌼سورۃ بقرہ کا خلاصہ 🌺🌼
اس سورہ میں سب سے پہلے یہ بیان کیا گیا ہے کہ قرآن حکیم ان لوگوں کے لئے ہدایت ہے ۔ جن کے دلوں میں الله تعالی کا خوف اور پرھیز گاری کا مادہ ہو ۔ اس کے بعد یہ بتایا گیا ہے کہ قرآن مجید سن کر تین قسم کے لوگ پیدا ہوں گے ۔ اول مؤمن جو اس پر پورے دل سے ایمان لائیں گے ۔ دوم کافر جو اس کے مخالف ہوں گے ۔ اور سوم منافق جو ظاہری طور پر مانیں گے اور دل سے انکار کریں گے ۔ اس کے بعد سب سے پہلا حکم تمام انسانوں کو الله تعالی کی عبادت کا دیا گیا ہے ۔ اور قرآن کریم کی سچائی ثابت کی گئی ہے 
چوتھے رکوع میں حضرت آدم علیہ السلام کی پیدائش اور خلافت ارضی کے مستحق ہونے کا ذکر ہے ۔ اس کے بعد ایک بڑے خاندان یعنی بنی اسرائیل کی زندگی کا ذکر پانچویں رکوع سے شروع ہوتا ہے ۔ اس خاندان میں سینکڑوں نبی اور رسول پیدا ہوئے ۔ اس خاندان کے حالات الله تعالی نے سبق آموز طریقہ میں بیان کئے ہیں ۔ اور ساتھ ہی یہ بھی بتایا کہ اپنی غلط حرکات اور خرابیوں کی وجہ سے یہ قوم خلافت الٰہی کے قابل نہ رہی ۔
پانچویں رکوع سے پندرھویں رکوع تک بنی اسرائیل کی تاریخ کے کئی واقعات بیان ہوئے ہیں ۔ مثلا ان کے عہد وپیمان ۔ کوہ طور پر جلوہ خداوندی ۔ سبت ( ہفتہ کا دن ) کا واقعہ ۔ گائے کا واقعہ ۔ قتل انبیاء کے حالات ۔ سحر اور جادو کی نا پاک کوششیں ۔ انبیاء کی توہین کی نا جائز حرکات ۔ نجات اور بخشش کے غلط عقیدے ۔ وغیرہ 
 سولہویں رکوع سے بنی اسرائیل کے مزید حالات اور حضرت آدم علیہ السلام کی اولاد میں حضرت محمد صلی الله علیہ وسلم کی عرب میں پیدائش کا ذکر ہے ۔ ساتھ ہی خانہ کعبہ کاذکر ہے ۔ اور الله کی راہ میں شہید ہونے والوں کے درجات بیان ہوئے ہیں ۔ بیسویں رکوع میں الله تعالی کی قدرت کے نشانات کا ذکر ہے ۔ اور اس کے بعد حلال وحرام کی بحث ہے ۔ 
سورہ بقرہ کے بیسویں رکوع میں ارشاد ہوا حقیقی نیکی کیا ہے ۔ اس کے بعد چھبیسویں  رکوع تک قصاص ، میراث ُ روزہ ُ دُعا  حج ، جہاد اور الله کی راہ میں مالی قربانی کے مسائل اور اس کے احکام مذکور ہیں ۔ 
ستائیسویں رکوع سے معاشرتی اور خاندانی زندگی کے مسائل شروع ہوئے ہیں ۔ یعنی نکاح ، حیض و نفاس ، طلاق ، عدّت ، نکاح ثانی ، بچوں کی تربیت حق مہر وغیرہ  
رکوع نمبر بتیس میں پھر جہاد کا بیان ہے ۔ اور مثال میں حضرت طالوت کا جالوت سے مقابلہ کا ذکر ہے ۔ الله تعالی نے فرمایا کہ فتح اور شکست ، سامانِ جنگ کی کمی زیادتی پر منحصر نہیں ۔ اکثر چھوٹی فوجیں بڑے لشکروں پر غالب آجاتی ہیں ۔
چونتیسویں رکوع میں آیۃ الکرسی ہے ۔ جس میں الله کا حیّ و قیوم ہونا اور بہت سی دوسری صفتیں مذکور ہیں ۔ اور یہ کہ اسلام کے قبول کرنے میں کسی پر زبردستی نہیں ۔ کیونکہ اس کے دلائل اور خوبیاں واضح ہیں ۔ 
اس کے بعد حضرت ابراہیم علیہ السلام کی زندگی کے چند سبق آموز واقعات مذکور ہیں ۔ انتالیسویں رکوع تک صدقہ وخیرات اور پرھیزگاری کے احکام ہیں ۔ سود کی ممانعت ہے ۔ اور گواہی کے بارے میں ہدایات اور قوانین کا بیان ہے ۔ تجارت کے چند اصولوں کا بھی ذکر ہی ۔
سورت کے آخری یعنی چالیسویں رکوع میں ایمان واسلام کا خلاصہ اور ایک جامع دُعا بیان ہوئی ہے ۔ اس دُعا کے آخری الفاظ یہ ہیں ۔ فَانْصُرْنَا عَلَی القَومِ الْکَافِرِیْنَ ۔ ہمیں کافروں کی جماعت پر برتری عطا فرما ۔ یہ قرآن کی دعوت کا نتیجہ ہے ۔ 
گویا قرآن مجید کی تعلیم سے جو قوم پیدا ہو گی ۔ اس کے ذریعے سے الله تعالی کا قانون کفر پر غالب آجائے گا ۔ یہاں الله تعالی کو ماننے والی قوم اور نہ ماننے والی اقوام کا انجام بتایا ہے ۔ مؤمن کامیاب ہوں گے اور منکر مغلوب اور نا کام ہوں گے ۔ سورت کا خاتمہ گویا انہی الفاظ پر ہوا ہے ، جہاں سے شروع ہوا تھا ۔ 
یہ بات نہ بھولنی چاہئے ۔ کہ یہ خلاصہ محض مضامین کا ایک تصوّر دلانے کے لئے ہے ۔ ورنہ الله جل شانہ کے کلام کے حقائق اور کمالات و وسعت چند لفظوں میں بیان کرنا ممکن نہیں ۔ 
ہمیں چاہیے کہ ہم بھی الله کا نام لے کر اس سورۃ کے احکام پر غور وفکر کریں ۔ اس کی حکمتیں سمجھنے کی کوشش کریں ۔ اور اُن پر عمل کے لئے کمر بستہ ہو جائیں ۔ حقیقت میں اس کا مقصد اپنے آپ کو یاد دہانی ہے ۔ اور اپنے اعمال درست کرنے کی کوشش ہے ۔ الله تبارک وتعالی ہمیں اس کی توفیق دے ۔ آمین 
ماخذ ۔۔۔
معارف القرآن ۔۔۔ مفتی محمد شفیع رحمہ الله تعالی 
درسِ قرآن ۔۔۔۔ مرتبہ درس قرآن بورڈ 


سورۃ فاتحہ کا خلاصہ ۔۔۔۔۔

سورۃ فاتحہ سات آیتوں پر مشتمل ہے ۔ جن میں سے پہلی تین آیتوں میں الله تعالی کی حمد وثناء ہے ۔ اور آخری تین آیتوں میں  انسان کی طرف سے دُعا اور درخواست ہے ۔ جو الله رب العزت نے اپنی رحمت سے خود ہی انسان کو سکھایا ہے ۔ اور درمیان والی ایک آیہ میں دونوں باتیں ہیں ۔ کچھ حمد وثناء ہے اور کچھ درخواست اور دُعا 
صحیح مسلم میں ابو ھریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا ۔ جس کا مفہوم یہ ہے کہ ۔
حق تعالی نے فرمایا کہ نماز یعنی سورۃ فاتحہ میرے اور میرے بندے کے درمیان دو حصوں میں تقسیم کی گئی ہے ۔ آدھی میرے لئے اور آدھی میرے بندے کے لئے ہے ۔ اور جو کچھ میرا بندہ مانگتا ہے وہ اس کو دیا جائے گا ۔ پھر رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا ۔ جس کا مفہوم یہ ہے کہ بندہ جب کہتاہے۔     اَلْحَمْدُ لِلهِ رَبِّ الْعٰلَمِینْ 
تو الله سبحانہُ تعالی فرماتے ہیں میرے بندے نے میری حمد کی ہے ۔ اور جب بندہ کہتا ہے  ۔ 
اَلرَّحمٰنِ الَّرحِیم   ۔ تو الله جل شانہ فرماتے ہیں ۔میرے بندے نے میری تعریف اور ثناء بیان کی ہے ۔ ۔ اور جب بندہ کہتا ہے 
 اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِینُ۔  ۔ تو الله کریم فرماتے ہیں ۔ یہ آیۃ میرے اور میرے بندے کے درمیان مشترک ہے ۔ اس کے ساتھ یہ بھی ارشاد ہوا ۔ میرے بندے کو وہ چیز ملے گی جو اس نے مانگی ۔ پھر جب بندہ کہتا ہے ۔ اِھدِناَ الصِّرَاطَ الْمُستَقِیمَ  ( آخر تک ) تو حق تعالی جل شانہ فرماتے ہیں یہ سب میرے بندے کے لئے ہے اور اس کو وہ چیز ملے گی جو اس نے مانگی ۔ ( 
در حقیقت سورۃ فاتحہ قرآن مجید کا خلاصہ یا دیباچہ ہے ۔ اس سورہ مبارکہ میں مختصر طور پر ان مضامین کی طرف اشارہ کر دیا گیا ہے جن کا تفصیل سے ذکر قرآن مجید میں آئے گا ۔
جب ہم سورہ فاتحہ پڑھتے ہیں تو سب سے پہلے اس بات کا اقرار کرتے ہیں ۔ کہ تمام خوبیاں الله تعالی کے لئے ہیں جو تمام جہانوں کا رب ہے ۔ اس لئے ہمیں یہ بات اچھی طرح ذہن نشین کر لینی چاہیے ۔ کہ جب وہ ہماری تمام ضرورتوں کا ضامن ہے تو ہمیں اپنی ضرورتیں پوری کرنے کے لئے سیدھی راہ سے کبھی بھی ادھر اُدھر نہیں ہونا چاہیے ۔ ہمیں چاہیے کہ دھوکہ ، فریب ، جھوٹ اور نا جائز ذرائع ہرگز استعمال نہ کریں ۔ جب ہماری ضرورتوں کا پورا ہونا یقینی اور اٹل ہے ۔ تو انہیں غلط طریقہ سے کیوں پورا کیا جائے ۔ 
وہ رحمن ورحیم اپنی بے حساب رحمت سے اس کائنات کی چھوٹی سے چھوٹی چیز سے لے کر بڑی سے بڑی ہستی پر اپنی رحمتوں کی بارش برساتا ہے ۔ ہر بُرے بھلے مومن وکافر کی ضرورتوں کو پورا فرماتا ہے ۔ اس کی رحمت کے خزانے کبھی ختم نہیں ہوتے ۔ ہمیں اس بات کا یقین اپنے اندر اُتارنا ہے ۔ 
وہ حساب و کتاب کے دن کا مالک ہے ۔ 
قیامت کے دن جب تمام انسان اپنے نامہ اعمال اپنے ہاتھوں میں لئے عاجزی سے کھڑے ہوں گے ۔ اور اپنےاپنے کاموں کا بدلہ پائیں گے ۔ ہمیں اس دن کی ہولناکیوں سے ڈرنا چاہئے ۔ اور آخرت کی تیاری کرنی چاہئے ۔ 
جس طرح سورۃ فاتحہ پورے قرآن مجید کا خلاصہ ہے اسی طرح  اِیّاکَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِینُ  سورۃ فاتحہ کا خلاصہ یا راز ہے 
جس میں  ہم اقرار کرتے ہیں ۔ کہ ہم صرف ایک الله کی عبادت کرتے ہیں ۔ اور ہر کام میں اسی کی مدد مانگتے ہیں ۔  زندگی کی ہر مصیبت اور ہر مشکل منزل پر اسی کی طرف لوٹتے ہیں ۔ تاکہ وہ ہمیں سیدھی راہ دکھائے ۔ جس پر چل کر ہم اپنی منزلِ مقصود کو پہنچ جائیں ۔ یہ راہ اس کے کامیاب اور انعام یافتہ لوگوں کی راہ ہو ۔ اور ان لوگوں کی پیروی سے بچائے جن پر اس کا غصہ اور عذاب نازل ہوا ۔ اور ہمیں اس راہ سے بھی محفوظ رکھے جس پر چل کر قومیں گمراہی میں گرفتار ہوئیں ۔ اور تباہ و برباد ہوئیں ۔  آمین  

گمراہوں کا راستہ ۔۔۔۔

غَیْرِ۔          ۔     الْمَغْضُوبِ      ۔   عَلْیْ   ۔  ھِمْ ۔   وَ    ۔ لاَ  ۔          الضَّالِیْنَ  ۔ 7⃣
نہ  ۔    غضب کیا گیا ۔      پر    ۔  وہ ۔     اور  ۔    نہ     ۔  گمراہ۔             ۔      
غَیْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَ لاَ الضَّا لِیْنَ   7⃣
نہ اُن کا راستہ جن پر غضب کیا گیا  اور نہ ہی گمراہوں کا  ۔ 

سوره فاتحہ میں ہمیں یہ دُعا بتائی گئی ہے۔ کہ " اے ہمارے رب ہمیں سیدھے راستے پر چلا ۔ اُن لوگوں کی راہ پر جو دُنیا اور آخرت میں تیرے انعام کے مستحق ہوئے ۔ جن پر ہمیشہ تیری برکتیں نازل ہوتی رہیں ۔" اس آیہ مبارکہ میں بتایا یہ بھی دُعا کرو ۔ کہ " اے الله کریم ہمیں ان لوگوں کی راہ سے بچا جو مغضوب اور گمراہ ہوئے ۔" 
مَغْضُوبٌ ۔۔۔( غضب سے ہے ) یعنی وہ لوگ جو اللہ کے غضب کا شکار ہوئے ۔ جن پر الله تعالی کا غصہ اور عذاب نازل ہوا ۔ جنہوں نے الله تعالی کے حکموں کی نافرمانی کی ۔ نبیوں کو جھٹلایا ۔ حق کو پہچان لینے کے بعد بھی اُس کو مٹانے کی کوشش کی ۔ جنہوں نے تیرے ڈراوے کی کوئی پرواہ نہ کی ۔اور جان بوجھ کر اپنے کاموں اور حرکتوں کی وجہ سے تیرے غصہ اور غضب کا نشانہ بنے۔ 
الضَّالِّین۔۔۔۔ ( گمراہ) اس سے مراد ایسے لوگ ہیں ۔ جو غلط راہ پر پڑ گئے ۔ یہ گمراہی اس طرح ہوتی ہے کہ ہدایت کے اسباب تو موجود ہیں ۔ مگر جان بوجھ کر غلط راستہ اختیار کیا جائے ۔ یہ بات کبھی کبھی ذاتی خواہش کی وجہ سے اخلاق اور روحانیت کو چھوڑ دینے سے ۔ کبھی مال ودولت کے لالچ کی وجہ سے ۔ کبھی بُری رسموں اور بُری عادتوں میں پڑ جانے سے اور کبھی بُری صحبت سے پیدا ہوجاتی ہیں ۔ 
مفسرینِ کرام فرماتے ہیں  اَلْمَغْضُوبٌ عَلَیْھِمْ کی پوری مثال یہودی ہیں  جو الله کے غضب کا شکار ہوئے ۔ وہ دنیا کے ذلیل مفاد کی خاطر دین کو قربان کرتے اور انبیاء علیھم السلام کی توہین کرتے تھے ۔ اور اس ظلم میں اس قدر بڑھ گئے کہ انھیں قتل کرنے سے نہ ڈرتے تھے ۔ یوں یہ آیہ مبارکہ اُن سب کے حق میں عام ہے جو شرارت اور ذاتی بُرائی کی وجہ سے سچائی کی مخالفت جان بوجھ کر کرتے رہے ۔ اور اُن پر الله کا عذاب آیا ۔
اور اَلضَّالِّین کی ظاہری مثال عیسائیوں کی ہے ۔ جو نا واقفیت اور جہالت کی وجہ سے غلط راستے پر پڑ گئے ۔ اور انبیاء علیھم السلام کی تعظیم میں اس قدر آگے بڑھ گئے کہ انھیں خُدا ہی بنا لیا ۔ اور شرک میں مبتلا ہو گئے ۔ ان کے علاوہ جو بھی قوم حق کی راہ سے بھٹکے گی ۔ گمراہ کہلائے گی ۔اور الضَّالّین کی فہرست میں شامل ہو گی 
ہم الله جلّ شانُہٗ سے دُعا کرتے ہیں کہ وہ ہمیں ایسے تمام لوگوں سے بچائے جن پر اُس کا غصہ اور غضب ہوا ۔ جو عملی غلطیوں کا شکار ہؤے ۔ اور جو سیدھی راہ سے بھٹک گئے ۔ اور عقیدے کی خرابی اور عمل کی بُرائی کا شکار ہوئے ۔
 آمین ثمَّ آمین ۔
درسِ قرآن ۔۔۔۔ مرتبہ درسِ قرآن بورڈ 


انعام پانے والوں کا راستہ


صِرَاطَ ۔           الّذِیْنَ ۔                اَنْعَمْتَ ۔    عَلَیْ ۔          ھِمْ۔ 
راستہ ۔        اُن لوگوں کا ۔   تو نے انعام کیا۔     پر ۔          وہ ۔ 
صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ  
اُن لوگوں کا راستہ جن پر تُو نے انعام کیا   

اس سے پہلی آیہ میں ہم نے الله تعالی سے دُعا کی تھی ۔ کہ وہ ہمیں سیدھی راہ دکھلائے ۔ اب سیدھی راہ کی مزید تشریح اس آیہ مبارکہ میں کی گئی ہے ۔  مکمل تعلیم اور ہدایت کی ساری کی ساری باتیں قرآن مجید میں آ گئی ہیں ۔ الله تعالی نے اپنے فضل وکرم سے ہدایتوں کے عملی نمونے بھی انسانوں میں کثرت سے بھیج دئیے ۔ تاکہ ان کی پاکیزہ زندگی سامنے رکھ کر صراط مستقیم پر چلنا ہمارے لئے اور آسان ہو جائے ۔ چنانچہ ہمیں دُعا سکھائی ۔ کہ وہ ہمیں ایسے لوگوں کے نقشِ قدم پر چلائے ۔ جن پر الله تعالی نے انعام نازل فرمائے ۔ 
 ان انعام یافتہ لوگوں کا ذکر قرآن مجید کی سورۃ نساء کی آیہ 69 میں موجود ہے ۔ اس آیہ مبارکہ کا ترجمہ یہ ہے 
" اُن لوگوں کے ساتھ جن پر الله تعالی نے انعام کیا ۔ یعنی نبی ، صدیق ، شہید اور صالح اور ان کی رفاقت کیسی اچھی ہے " 
نبی ۔۔۔ اس محترم شخصیت کو کہتے ہیں جسے الله تعالی نے اپنا پیغام بندوں تک پہنچانے کے لئے چُن لیا ہو ۔ نبی کی تعلیم میں کسی غلطی کا امکان نہیں ہوتا ۔ وہ ہر قسم کے گناہوں سے محفوظ اور معصوم ہوتا ہے ۔ بے شمار انبیاء علیھم السلام کی زندگی کے واقعات قرآن مجید میں کثرت سے بیان ہوئے ہیں ۔ نبیوں کی اس پاکیزہ جماعت کے سب سے بڑے سردار ہمارے پیارے نبی حضرت محمد مصطفی صلی الله علیہ وسلم ہیں ۔ آپ کی مبارک سیرت کی ایک ایک بات محفوظ ہے ۔ اور ہر بات کی پیروی ہماری زندگی میں کامیابی اورآخرت میں نجات کا باعث ہے ۔ 
صدیق ۔۔۔ انبیاء کے بعد دوسرے درجے پر ہیں ۔ یہ لوگ نبیوں کی تعلیمات کے ذریعے بڑے اُونچے مرتبہ پر پہنچتے ہیں ۔ جیسا کہ حضرت ابوبکر رضی الله عنہ صدیق اکبر کہلائے ۔ 
شھداء ۔۔۔ وہ بزرگ کہلاتے ہیں جن پر نبیوں کی تعلیم کا ایک خاص اثر پڑتا ہے ۔ ان کو ثواب اور الله کے وعدوں کا پورا یقین ہوتا ہے ۔ اور وہ یہاں تک آمادہ ہو جاتے ہیں کہ اپنی جان تک کی بازی لگا دیتے ہیں ۔ ان لوگوں کو الله تعالی ہمیشہ کی زندگی عطا فرما دیتا ہے ۔ 
صالحین ۔۔۔ وہ لوگ ہیں جو انبیاء کی پیروی ہر ممکن طریق سے کرتے ہیں ۔ یہ سبھی لوگ اپنے اپنے درجہ میں بعد میں آنے والوں کے لئے نمونہ کا کام دیتے ہیں ۔ 
الله تعالی نے اس آیہ مبارکہ میں فرمایا ۔ کہ سیدھی اور درست راہ وہی ہے ۔ جس پر یہ انعام یافتہ لوگ چلے ۔ انھی کے نقشِ قدم پر چل کر کامیابیاں حاصل ہوں گی ۔ ان شاء الله تعالی 
درسِ قرآن ۔۔۔۔ مرتبہ درسِ قرآن بورڈ 

ھدایت کے درجات

اِھْدِناَ الصِّراطَ الْمُسْتَقِیْمَ ۔۔۔۔ یہاں غور طلب بات یہ ہے کہ سیدھے راستے کی ہدایت کے لئے دُعا  جو کہ اس آیہ مبارکہ میں ہے ۔ اس کے مخاطب جس طرح تمام انسان اور عام مسلمان ہیں ۔ اسی طرح ہدایت یافتہ لوگ  ، اولیاء اللہ اور انبیاء علیھم السلام بھی ہیں ۔ 
لفظ ہدایت کی بہترین تشریح امام راغب اصفہانی نے  مفرداتُ القرآن میں تحریر فرمائی ہے ۔ جس کا خلاصہ یہ ہے کہ ہدایت کے اصلی معنی ہیں کسی شخص کو منزلِ مقصود کی طرف مہربانی کے ساتھ رہنمائی کرنا ۔ اور ہدایت کرنا حقیقی معنی میں صرف الله تعالی کا کام ہے ۔ جس کے مختلف درجات ہیں ۔ 
ایک درجہ ہدایت کا عام ہے ۔ جو کائنات و مخلوقات کی تمام اقسام جمادات ، نباتات ، حیوانات کے لئے ہے ۔ یہاں آپ یہ خیال نہ کریں کہ ان بے جان ، بے سمجھ چیزوں کو ہدایت کی کیا ضرورت ہے ۔ کیونکہ قرآنی تعلیمات سے یہ واضح ہے کہ کائنات کی تمام اقسام اور ان کا ذرہ ذرہ  زندگی بھی رکھتا ہے ۔ اور احساس بھی  ۔ عقل بھی رکھتا ہے اور سمجھ بھی ۔ 
کیونکہ قرآن مجید میں حق تعالٰی کا ارشاد ہے ۔
وَ اِنْ مَّنْ شَئیءٍ اِلَّا یُسَبِّحُ بِحَمْدِہِِ وَلٰکِنْ لَّا تَفْقَہُوْنَ تَسْبِیْحَھُمْ 
یعنی  کوئی چیز ایسی نہیں جو تعریف کے ساتھ اس ( الله تعالی ) کی پاکی بیان نہ کرتی ہو ( اپنے قول سے یا حال سے ) مگر تم لوگ ان کی تسبیح کو نہیں سمجھتے ۔ 
سورۃ بنی اسرائیل آیہ -44- 
اور سورۃ نور میں ارشاد ہے ۔ 
اَلَمْ تَرَ اَنَّ اللهَ یُسَبِّحُ لَہٗ مَنْ فِی السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَ الطَّیْرُ صٰٓفَّاتٍ  ط  کُلٌّ قَدْ عَلِمَ صَلَاتُہٗ وَ تَسْبِیْحَهٗ  ط۔ وَاللهُ عَلِیْمٌ بِمَا یَفْعَلُوْنَ 
" یعنی کیا تجھ کو معلوم نہیں کہ الله تعالی کی تسبیح بیان کرتے ہیں سب جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے اور ( خاص طور پر ) پرندے  جو پر پھیلائے ہوئے اُڑتے پھرتے ہیں ، سب کو اپنی اپنی دُعا اور تسبیح معلوم ہے ۔ اور الله تعالی خوب جانتا ہے جو وہ کرتے ہیں ۔ 
سورۃ نور آیہ 41 
ظاہر ہے کہ الله تعالی کی حمد وثنا اور اسکی پاکی بیان کرنا الله تعال کو خوب پہچان لینے کی وجہ سے ہے ۔ اور یہ بات بھی ظاہر ہے کہ الله تعالی کی پہچان یعنی معرفت ہی سب سے بڑا علم ہے ۔ اور یہ علم  عقل اور سمجھ کے بغیر حاصل نہیں ہو سکتا ۔ اس لئے ان آیات مبارکہ سے ثابت ہوا کہ تمام کائنات کے اندر روح بھی ہے اور زندگی بھی ۔ احساس اور عقل و سمجھ بھی ہے ۔ مگر بعض مخلوقات میں یہ چیز اتنی کم اور چُھپی ہوئی ہے کہ عام دیکھنے والوں کو اس کا احساس نہیں ہوتا ۔ اس لئے ان اشیاء کو بے جان یا بے عقل کہا جاتا ہے ۔ اسی لیا وہ احکام شریعت کے مکلف نہیں ہیں ۔یعنی ان کا حساب کتاب نہ ہو گا ۔ 
چنانچہ ہدایتِ خداوندی کا یہ پہلا درجہ تمام مخلوقات ، جمادات ، نباتات ، حیوانات ، انسان اور جنّات کے لئے ہے ۔ 
اسی ہدایتِ عام کا ذکر قرآن مجید کی آیہ 
اَعْطٰی کُلَّ شَیءٍ خَلَقَہٗ ثُمَّ ھَدٰی  
میں فرمایا گیا ہے ۔ یعنی الله تعالی نے ہر چیز کو اس کی خِلقت عطا فرمائی ، پھر اس خلقت کے موافق اس کو ہدایت دی ۔ 
اور  یہی مضمون سورہ اعلی میں ان الفاظ میں ارشاد ہوا ۔ 
سَبِّحِ اسْمَ رَبِّکَ الْاَعْلٰی  ۔ اَلَّذِی خَلَقَ فَسَوّٰی  ۔  وَالَّذِیْ قَدَّرَ فَھَدٰی  ۔ 
" یعنی آپ اپنے پروردگار عالی شان کی تسبیح بیان کیجئے ۔ جس نے ساری مخلوقات کو بنایا  ۔ پھر ٹھیک بنایا اور جس نے تجویز کیا ، پھر راہ بتائی ۔ 
یعنی جس نے تمام مخلوقات کے لئے خاص خاص مزاج اور خاص خاص خدمتیں تجویز فرما کر ہر ایک کو اس کے مناسب ہدایت دی ۔ الله رب العزت نے جو چیز جس کام کے لئے بنا دی ہے وہ اس کو ایسی خوبی کے ساتھ کر رہی ہے کہ عقل حیران رہ جاتی ہے ۔ زبان سے نکلی ہوئی بات کی سمجھ نہ تو آنکھ کو آسکتی ہے نہ ناک کو  ۔ حالانکہ یہ زبان سے زیادہ قریب ہیں ۔ یہ کام الله تعالی نے کانوں کے سپرد کیا  ہے وہی زبان کی بات کو لیتے ہیں ۔ اسی طرح کانوں سے دیکھنے یا سونگھنے کا کام نہیں لیا جا سکتا ۔ 
 دوسرا درجہ ہدایت کا اس کے مقابلے میں خاص ہے ۔ یعنی ان چیزوں کے ساتھ خاص ہے جو ذوی العقول کہلاتی ہیں ۔ یعنی انسان اور جنّ ۔ یہ ہدایت انبیاء علیھم السلام اور آسمانی کتابوں کے ذریعے ہر انسان کو پہنچتی ہے ۔ پھر کوئی اسے قبول کرکے مؤمن ومسلم ہو جاتا ہے ۔ اور کوئی انکار کرکے کافر ہو جاتا ہے ۔ 
تیسرا درجہ ہدایت کا اس سے بھی خاص ہے ۔ جو صرف مؤمنین اور متقین کے لئے خاص ہے ۔ یہ ہدایت بھی الله تعالی کی طرف سے بغیر کسی واسطے کے انسان کو ملتی ہے ۔ اس ہدایت کا دوسرا نام توفیق ہے ۔ یعنی الله کریم ایسے حالات اور اسباب پیدا فرما دیتے ہیں کہ قرآنی ہدایات کا قبول کرنا اور ان پر عمل کرنا آسان ہو جائے۔ اور اُن کی خلاف ورزی کرنا مشکل ہو جائے ۔ ہدایت کی یہ قسم بہت وسیع ہے اور اس کے بے شمار درجات ہیں ۔  یہی قسم انسان کی ترقی کا میدان ہے ۔ اعمال صالحہ کے ساتھ ساتھ اس درجۂ ہدایت میں ترقی ہوتی رہتی ہے ۔ 
قرآن کریم کی متعدد آیات میں اس زیادتی کا ذکر ہے ۔ 
وَ الَّذِیْنَ اھْتَدَوْا زَادَھُمْ ھُدًی 
اور جو لوگ ھدایت پر ہیں ہم اُن کو ہدایت میں بڑھا دیتے ہیں ۔ 
وَ مَنْ یُّؤْمِنْ بِاللهِ یَھْدِ قَلْبَہٗ 
جو شخص الله پر ایمان لائے اس کے دل کو ہدایت کر دیتے ہیں 
وَ الَّذِینَ جَاھَدُوا فِیْنَا لَنَھْدِیَنَّھُمْ سُبُلَنَا 
جو لوگ ہمارے راستے میں محنت کرتے ہیں ہم اُن کو اپنے راستوں کی مزید ہدایت کر دیتے ہیں ۔ 
یہی وہ میدان ہے جہاں ہر بڑے سے بڑے  نبی ورسول  اور ولی الله آخر عمر تک ہدایت کی زیادتی اور توفیق کے طلبگار نظر آتے ہیں ۔ 
چنانچہ ہدایت ایک ایسی چیز ہے ۔ جو سب کو حاصل بھی ہے ۔ اور اس کے اور بلند درجے حاصل کرنے کی ہر انسان کو ضرورت بھی ہے ۔ اسی لئے سورۃ فاتحہ کی اہم ترین دُعا ہدایت کو قرار دیا گیا ہے ۔ 
ماخذ ۔۔۔۔۔
معارف القرآن ۔۔۔ مفتی محمد شفیع رحمہ الله تعالی

سیدھا راستہ ۔۔۔۔۔

اِھْدِ                  ۔ نا  ۔               الصِّرَاطَ ۔            الْمُسْتَقِیْمَ۔    5⃣لا
تو ہدایت دے  ۔            ہم کو             ۔ راستہ ۔                سیدھا           ۔ 
اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ   5⃣لا
تو ہمیں سیدھے راستے کی ہدایت دے ۔ 

ہم نے الله تعالی کو اپنا رب ، مہربان اور مالک تسلیم کر کے اس کا اقرار کیا ۔ کہ ہم صرف اسی کی اطاعت اور بندگی کریں گے ۔ اور اسی سے ہر وقت مدد مانگیں گے ۔ اب ہماری یہ آرزو ہے ۔ کہ ہمارا آقا ہماری راہنمائی کرے  اور ہم بھولے سے بھی کوئی ایسی غلطی نہ کر بیٹھیں ۔ جو اس کی ناراضگی کا سبب ہو ۔ اس کے لئے ہمیں ایسی راہ کی ضرورت ہے ۔ جس پر چل کر ہم اس کی خوشنودی حاصل کر سکیں ۔ اور جو ہمیں بالکل سیدھا اسی تک پہنچا دے ۔ 
اِھْدِ ۔۔۔۔ ( ہدایت دے ) ۔ ہدایت عربی زبان کا ایک بڑا جامع لفظ ہے ۔ اس کے معنی میں کئی باتیں شامل ہیں ۔ 
اول ۔۔۔ راستہ دکھانا 
دوم ۔۔۔ راستہ پر چلانا 
سوم ۔۔۔ منزلِ مقصود پر پہنچا دینا ۔
یعنی دُعا یہ ہے ۔ ہمیں اگر راستہ معلوم نہ ہو تو وہ دکھا دے ۔ اور جو راستے کا علم رکھتے ہیں ۔ انہیں اسپر چلنے کی توفیق بخش دے ۔ اور جو سیدھے راستے پر چل رہے ہیں ۔ تو اس پر قائم رکھ تاکہ کامیابی کی منزل کو پا لیں اور راستے ہی میں نہ رہ جائیں ۔ 
یہ راہ ہم اپنے علم اور عقل سے دریافت نہیں کر سکتے ۔ چونکہ علم محدود ہے اور عقل ناقص ہے ۔ اسلئے ہم الله جلّ شانہ ہی سے درخواست کرتے ہیں کہ اپنے علم کی بنا پر ہمیں ایسی راہ بتا دے ۔ جس میں کوئی ٹیڑھا پن نہ ہو ۔ کوئی اونچ نیچ نہ ہو ۔ کہیں ٹھوکر لگنے کا ڈر نہ ہو ۔ زندگی کا مکمل دستور العمل ہو ۔ زندگی کے ہر گوشہ اور ہر شعبہ میں ہدایت کا ایک مکمل طریقہ ہو ۔
یہ دُعا ہم جمع کے صیغے میں اس لئے کرتے ہیں ۔ تاکہ ہر شخص کا ذاتی تعلق پوری اُمت سے قائم رہے ۔ عبادت کرتے ہیں تو ہم سب ۔ مدد مانگتے ہیں تو ہم سب ۔ ہدایت کی درخواست کرتے ہیں تو ہم سب ۔ مل جُل کر رہنے کی ایسی تعلیم اسلام کے سوا کہیں نہیں پائی جاتی ۔ 
یہ دُعا کسقدر جامع اور مکمل ہے ۔ " الله تعالی ہمیں سیدھے راستے کی ہدایت دے ۔" کون سا ایسا وقت ہے جب انسان کو صحیح راہ اور درست طریقہ معلوم کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی ۔ کھانا ، پینا ، چلنا پھرنا ، لکھنا پڑھنا ، خرید و فروخت ُ حکومت و سلطنت کے کام عدالت ومقدمات کے فیصلے ۔ غرض زندگی کا ایسا کون سا مسئلہ ہے ۔ جس میں انسان کو درست راہنمائی درکار نہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ الله تعالی نے یہ دُعا ہر نماز میں مقرر کر دی ۔ تاکہ صبح و شام اور رات دن ہر وقت انسان الله تعالی سے راہنمائی اور عمل کی توفیق مانگتا رہے ۔ 
ہر مذہب نے اپنے ماننے والوں کو دُعا کی تلقین کی ہے ۔ مگر کوئی روٹی مانگتا ہے ۔ کوئی طاقت کے لئے دُعا کرتا ہے ۔ کوئی دل کی روشنی چاہتا ہے ۔ کوئی گناہوں کی معافی کے لئے دُعا کرتا ہے ۔ ہمارے پروردگار نے ہمیں ایک جامع اور مکمل دُعا بتائی کہ ہر دم ہر کام میں صحیح اور درست راہ معلوم کرنے اور اس پر چلنے اور قائم رہنے کی دُعا کرو 
اِھْدِنَا الصَّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ ۔۔۔۔۔۔۔۔آمین  ثمَّ آمین
درسِ قرآن ۔۔۔۔ مرتَّبہ درسِ قرآن بورڈ 

انسان کی دستگیری ۔۔۔

وَ اِیَّاکَ                                 ۔  نَسْتَعِیْنُ 4⃣ط
اور خاص تیری ۔  ہم مدد  طلب کرتے ہیں اور کرتے رہیں گے 
وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ 4⃣ط
اور ہم تیری ہی مدد طلب کرتے ہیں ۔ 

نستعین لفظ استعانت سے نکلا ہے ۔ عربی زبان میں سادہ طور پر اس کا مطلب ادا کرنے کے لئے کہ ہم مدد مانگتے ہیں ۔ نَسْتَعِیْنُکَ "" کہا جاتا ہے ۔ لیکن الله رب العزت نے  معنی میں خاص زور اور تاکید پیدا کرنے کے لئے اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ  فرمایا ۔ اب اس کے معنی یہ ہو گئے کہ ہم سب کو چھوڑ کر صرف تجھ ہی سے مدد مانگتے ہیں ۔ 
انسان جب الله تعالی کو اپناربّ مہربان اور مالک تسلیم کر لیتا ہے ۔ اور اپنی عاجزی اور بندگی کا اقرار کرتاہے ۔ تو اب بندے کے لئے اس کے سوا کوئی صورت نہیں ۔ کہ وہ اپنی ہر ضرورت کے وقت اسی کو یاد کرے ۔ اور اپنے ہر کام میں کامیابی کے لئے ۔ ہر مصیبت میں بچاؤ کے لئے اور ہر ضرورت کو پورا کرنے کے لئے اسی آقا کو پکارے ۔ 
الله جلّ شانہ قرآن مجید میں جگہ جگہ فرماتے ہیں ۔ کہ اگر انسان پوری طرح اللہ تعالی کا فرمانبردار ہو کر رہے ۔ تو الله اسے کبھی ناکام اور نا مراد نہیں  لوٹائے گا ۔ الله تعالی  تمام کائنات کی ہر طرح کی ضرورتوں کو پورا کرتا ہے ۔ بھوکوں کو روزی پہنچاتا ہے ۔ بیماروں کو شفا بخشتا ہے ۔ یتیموں اور مسکینوں کی نگرانی کرتا ہے ۔ دن رات کھلے ہاتھوں اپنی رحمت لُٹاتا ہے ۔ پھر بھی اس کی رحمت میں کوئی کمی نہیں آتی ۔ زمین اور آسمان کے بسنے والے سب اپنی اپنی آرزوؤں کا اظہار اپنے اپنے طور پر اُسی کے سامنے کرتے ہیں اور الله تعالی ان سب کو پورا کرتا ہے ۔ پھر بھی اس کے خزانے میں اتنی کمی نہیں ہوتی جتنی  ایک سمندر میں سوئی ڈبو کر نکال لینے سے ہو سکتی ہے ۔ ہم میں سے کوئی شخص کتنا بھی امیر ہو ۔ وہ اسقدر دولت تقسیم نہیں کر سکتا ۔ اور اگر جرأت کرے بھی تو اس کا خزانہ پل بھر میں ختم ہو جائے گا ۔ اور آخر کار وہ بھی الله تعالی سے مانگنے پر مجبور ہو گا ۔ 
اس آیہ مبارکہ میں یہ بات بھی قابلِ غور ہے ۔ کہ الله کریم کا ارشاد ہے کہ " ہم تجھ ہی سے مدد مانگتے ہیں " کس کام میں مدد مانگتے ہیں اس کا ذکر نہیں ۔ زیادہ تر مفسرین کرام نے لکھا ہے ۔ کہ اسکا ذکر نہ کرنے میں عموم کی طرف اشارہ ہے ۔ کہ ہم اپنی عبادت اپنے ہر دینی کام ، اپنے ہر دنیاوی کام اور ہر مقصد میں آپ ہی کی مدد چاہتے ہیں 
انسان کی بے بسی اور بے چارگی کا تقاضا ہے ۔ کہ وہ کسی ضرورت کے لئے الله تعالی کے سوا کسی اور سے مدد نہ مانگے ۔ ہر امتحان میں اسی کا سہارا ڈھونڈے ۔ ہر مصیبت میں نجات اسی سے طلب کرے ۔ ہر مہم میں کامیابی کے لئے اسی کو پکارے ۔ اس کے سوا کون ہے جو اس کے درد کا درماں بن سکے ۔ 
اس لئے عبادت میں کسی کو شریک نہ کرنے کے معنی یہ ہو گئے ۔ کہ نہ کسی کی محبت الله تعالی کی محبت کے برابر ہو ۔ نہ کسی دوسرے کا خوف الله تعالی کے خوف کے برابر ہو ۔ نہ کسی سے اُمید الله سے امید جیسی ہو ۔ نہ کسی دوسرے پر بھروسہ الله تعالی پر بھروسے جیسا ہو ۔ نہ کسی کی اطاعت ، خدمت اور کام کو اتنا ضروری سمجھے جتنا الله تعالی کی عبادت کو ۔ نہ الله تعالی کی طرح کسی اور کی نذر اور منّت مانے ۔ نہ الله تعالی کی طرح کسی دوسرے کے سامنے اپنی مکمل عاجزی اور تذلل کا اظہار کرے ۔ نہ ایسے افعال کسی دوسرے کے لئے کرے جوصرف الله تعالی کے لئے خاص ہیں ۔ جیسے رکوع اور سجدہ ۔اور استعانت میں کسی کو شریک نہ کرنے کی بہترین مثال یہ  حدیث مبارکہ ہے جس کا مفہوم یہ ہے کہ ایک مرتبہ سرورِ کائنات صلی الله علیہ وسلم نے صحابہ رضوان الله سے فرمایا ۔ کہ تم میں سے کون ہے جو اس بات کا وعدہ کرے کہ وہ کبھی کسی سے نہیں مانگے گا ۔ اس پر تمام صحابہ نے عہد کیا کہ وہ الله تعالی کے سوا کسی سے نہیں مانگیں گے ۔ چنانچہ ان صحابہ نے زندگی بھر کسی سے کچھ نہیں مانگا ۔ بعض لوگوں نے یہاں تک کیا کہ اگر سواری پر بیٹھے ہوئے چابک گر جاتا ۔ تو کسی سے چابک اُٹھا کر دینے کا نہ کہتے ۔ بلکہ خود اترتے اور چابک اُٹھاتے ۔ 
یہ ہے ہمارے بزرگوں کا عمل ۔ ہم بھی اسی راہ پر چل کر اپنی دنیا اور آخرت کو کامیاب بنا سکتے ہیں 
ماخذ ۔۔۔
درس قرآن ۔۔۔۔مرتّبہ درسِ قرآن بورڈ 
معارف القرآن ۔۔۔۔ مفتی محمد شفیع صاحب رحمہ الله تعالی

عبادت

اِیَّاکَ   ۔                  نَعْبُدُ
صرف تیری ۔ ہم عبادت کرتے ہیں 
اِیَّاکَ نَعْبُدُ 
ہم صرف تیری عبادت کرتے ہیں ۔ 

ہم الله تعالی کی چار صفات پڑھ چکے ہیں ۔ وہ تمام جہانوں کا رب ہے ۔  اُسی کی مدد سے زمین وآسمان کی ہر چیز ترقی پاتی ہے ۔ وہی ہر ایک کی ضرورتوں کو پورا کرنے والا ہے ۔ وہ بے حد مہربان ہے ۔ اپنی رحمت سے ہر شخص کی ضرورتیں پوری کرتا ہے ۔ ہر قسم کی مشکلات دور کرتا ہے ۔ وہ رحیم بھی ہے ۔ جو شخص اُس کا حکم مانے اور اُس کے بتائے ہوئے قانون کے مطابق عمل کرے وہ اُسے اچھا بدلہ دیتا ہے ۔  وہ بدلہ کی گھڑی کا بھی مالک ہے ۔ اس دنیا میں ہمارے کاموں کے نتیجے پیدا کرتا ہے ۔ اور اُن کا بدلہ دیتا ہے ۔ اور قیامت کے دن بھی ہمارے اعمال کا ٹھیک ٹھیک بدلہ دے گا ۔ 
انسان پر تین حال گزرتے ہیں ۔ ماضی ، حال اور مستقبل ۔ اور ہر حال میں وہ الله رب العزت کا محتاج ہے ۔ الله تعالی نے ماضی میں جب وہ کچھ نہ تھا اسے پیدا کیا ۔ تمام کائنات سے بہترین شکل وصورت عطا کی ۔ عقل اور سمجھ دی ۔ اُسے اشرف المخلوقات بنایا ۔ اور حال میں اُس کی پرورش اور تربیت کا سلسلہ جاری ہے ۔  پھر خبردار کیا کہ مستقبل میں بھی انسان الله تعالی ہی کا محتاج ہے ۔ کیونکہ قیامت کے دن اُس کے سوا کوئی مدد گار نہ ہو گا ۔ تو جب ہر حال  میں الله جلَّ شانہ ہی کارساز ہے ۔تو بندوں کا بھی یہ فرض ہے کہ وہ صُبح وشام ، سوتے جاگتے ، اُٹھتے بیٹھتے صرف اُسی ایک الله کی اطاعت اور بندگی میں مصروف رہیں ۔ ہر وقت اسی کو پکاریں ۔ مصیبت کی گھڑی میں اسی سے فریاد کریں ۔ اور آرام اور سکون کے وقت اسی کا شکر ادا کریں ۔ تمام جھوٹے معبودوں سے ہٹ کر صرف اسی کی عبادت کریں ۔ 
عبادت کے معنی بندگی ، اطاعت اور فرمانبرداری کے ہیں ۔ اور اس سے مراد نہایت درجے کی عاجزی اور انتہائی درجے کی انکساری ہے ۔ جو کسی کی تعظیم کے لئے عمل میں آئے ۔ گویا ہر حرکت کرتے وقت انسان الله تعالی کی عبادت میں لگا رہے ۔ اسلام نے عبادت سے صرف پرستش اور بندگی مراد نہیں لی ۔ بلکہ عبادت میں مکمل اطاعت اور فرمانبرداری کو شامل کیا ۔ مقصد یہ ہے کہ انسان ہر کام الله تعالی کے حکم کے مطابق کرے ۔ اور کوئی بات اسکی مرضی کے خلاف نہ کرے ۔ 
اِیَّاکَ ۔۔۔ صرف اور صرف تیری 
نَعْبُدُ ۔۔۔۔۔ ہم عبادت کرتے ہیں اور کرتے رہیں گے ۔ 
ہم اس بات کا اقرار کرتے ہیں کہ اس میں کسی اور کو شریک نہ کریں گے۔   
ماخذ ۔۔۔ 
درسِ قرآن   ۔۔۔ مرتّبہ درسِ قرآن بورڈ 
معارف القرآن ۔۔۔مفتی  محمد شفیع صاحب رحمہ الله تعالی 

حالیہ اشاعتیں

یٰمَعْشَرَ الْجِنِّ وَ الْاِنْسِ اِنِ اسْتَطَعْتُمْ اَنْ تَنْفُذُوْا مِنْ اَقْطَارِ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ۔۔۔۔ الرحمٰن

یٰمَعْشَرَ الْجِنِّ وَ الْاِنْسِ اِنِ اسْتَطَعْتُمْ اَنْ تَنْفُذُوْا مِنْ اَقْطَارِ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ فَانْفُذُوْاؕ-لَا تَنْفُذُوْنَ ...

پسندیدہ تحریریں