انسان کی دستگیری ۔۔۔

وَ اِیَّاکَ                                 ۔  نَسْتَعِیْنُ 4⃣ط
اور خاص تیری ۔  ہم مدد  طلب کرتے ہیں اور کرتے رہیں گے 
وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ 4⃣ط
اور ہم تیری ہی مدد طلب کرتے ہیں ۔ 

نستعین لفظ استعانت سے نکلا ہے ۔ عربی زبان میں سادہ طور پر اس کا مطلب ادا کرنے کے لئے کہ ہم مدد مانگتے ہیں ۔ نَسْتَعِیْنُکَ "" کہا جاتا ہے ۔ لیکن الله رب العزت نے  معنی میں خاص زور اور تاکید پیدا کرنے کے لئے اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ  فرمایا ۔ اب اس کے معنی یہ ہو گئے کہ ہم سب کو چھوڑ کر صرف تجھ ہی سے مدد مانگتے ہیں ۔ 
انسان جب الله تعالی کو اپناربّ مہربان اور مالک تسلیم کر لیتا ہے ۔ اور اپنی عاجزی اور بندگی کا اقرار کرتاہے ۔ تو اب بندے کے لئے اس کے سوا کوئی صورت نہیں ۔ کہ وہ اپنی ہر ضرورت کے وقت اسی کو یاد کرے ۔ اور اپنے ہر کام میں کامیابی کے لئے ۔ ہر مصیبت میں بچاؤ کے لئے اور ہر ضرورت کو پورا کرنے کے لئے اسی آقا کو پکارے ۔ 
الله جلّ شانہ قرآن مجید میں جگہ جگہ فرماتے ہیں ۔ کہ اگر انسان پوری طرح اللہ تعالی کا فرمانبردار ہو کر رہے ۔ تو الله اسے کبھی ناکام اور نا مراد نہیں  لوٹائے گا ۔ الله تعالی  تمام کائنات کی ہر طرح کی ضرورتوں کو پورا کرتا ہے ۔ بھوکوں کو روزی پہنچاتا ہے ۔ بیماروں کو شفا بخشتا ہے ۔ یتیموں اور مسکینوں کی نگرانی کرتا ہے ۔ دن رات کھلے ہاتھوں اپنی رحمت لُٹاتا ہے ۔ پھر بھی اس کی رحمت میں کوئی کمی نہیں آتی ۔ زمین اور آسمان کے بسنے والے سب اپنی اپنی آرزوؤں کا اظہار اپنے اپنے طور پر اُسی کے سامنے کرتے ہیں اور الله تعالی ان سب کو پورا کرتا ہے ۔ پھر بھی اس کے خزانے میں اتنی کمی نہیں ہوتی جتنی  ایک سمندر میں سوئی ڈبو کر نکال لینے سے ہو سکتی ہے ۔ ہم میں سے کوئی شخص کتنا بھی امیر ہو ۔ وہ اسقدر دولت تقسیم نہیں کر سکتا ۔ اور اگر جرأت کرے بھی تو اس کا خزانہ پل بھر میں ختم ہو جائے گا ۔ اور آخر کار وہ بھی الله تعالی سے مانگنے پر مجبور ہو گا ۔ 
اس آیہ مبارکہ میں یہ بات بھی قابلِ غور ہے ۔ کہ الله کریم کا ارشاد ہے کہ " ہم تجھ ہی سے مدد مانگتے ہیں " کس کام میں مدد مانگتے ہیں اس کا ذکر نہیں ۔ زیادہ تر مفسرین کرام نے لکھا ہے ۔ کہ اسکا ذکر نہ کرنے میں عموم کی طرف اشارہ ہے ۔ کہ ہم اپنی عبادت اپنے ہر دینی کام ، اپنے ہر دنیاوی کام اور ہر مقصد میں آپ ہی کی مدد چاہتے ہیں 
انسان کی بے بسی اور بے چارگی کا تقاضا ہے ۔ کہ وہ کسی ضرورت کے لئے الله تعالی کے سوا کسی اور سے مدد نہ مانگے ۔ ہر امتحان میں اسی کا سہارا ڈھونڈے ۔ ہر مصیبت میں نجات اسی سے طلب کرے ۔ ہر مہم میں کامیابی کے لئے اسی کو پکارے ۔ اس کے سوا کون ہے جو اس کے درد کا درماں بن سکے ۔ 
اس لئے عبادت میں کسی کو شریک نہ کرنے کے معنی یہ ہو گئے ۔ کہ نہ کسی کی محبت الله تعالی کی محبت کے برابر ہو ۔ نہ کسی دوسرے کا خوف الله تعالی کے خوف کے برابر ہو ۔ نہ کسی سے اُمید الله سے امید جیسی ہو ۔ نہ کسی دوسرے پر بھروسہ الله تعالی پر بھروسے جیسا ہو ۔ نہ کسی کی اطاعت ، خدمت اور کام کو اتنا ضروری سمجھے جتنا الله تعالی کی عبادت کو ۔ نہ الله تعالی کی طرح کسی اور کی نذر اور منّت مانے ۔ نہ الله تعالی کی طرح کسی دوسرے کے سامنے اپنی مکمل عاجزی اور تذلل کا اظہار کرے ۔ نہ ایسے افعال کسی دوسرے کے لئے کرے جوصرف الله تعالی کے لئے خاص ہیں ۔ جیسے رکوع اور سجدہ ۔اور استعانت میں کسی کو شریک نہ کرنے کی بہترین مثال یہ  حدیث مبارکہ ہے جس کا مفہوم یہ ہے کہ ایک مرتبہ سرورِ کائنات صلی الله علیہ وسلم نے صحابہ رضوان الله سے فرمایا ۔ کہ تم میں سے کون ہے جو اس بات کا وعدہ کرے کہ وہ کبھی کسی سے نہیں مانگے گا ۔ اس پر تمام صحابہ نے عہد کیا کہ وہ الله تعالی کے سوا کسی سے نہیں مانگیں گے ۔ چنانچہ ان صحابہ نے زندگی بھر کسی سے کچھ نہیں مانگا ۔ بعض لوگوں نے یہاں تک کیا کہ اگر سواری پر بیٹھے ہوئے چابک گر جاتا ۔ تو کسی سے چابک اُٹھا کر دینے کا نہ کہتے ۔ بلکہ خود اترتے اور چابک اُٹھاتے ۔ 
یہ ہے ہمارے بزرگوں کا عمل ۔ ہم بھی اسی راہ پر چل کر اپنی دنیا اور آخرت کو کامیاب بنا سکتے ہیں 
ماخذ ۔۔۔
درس قرآن ۔۔۔۔مرتّبہ درسِ قرآن بورڈ 
معارف القرآن ۔۔۔۔ مفتی محمد شفیع صاحب رحمہ الله تعالی

کوئی تبصرے نہیں:

حالیہ اشاعتیں

مقوقس شاہ مصر کے نام نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کا خط

سیرت النبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم..قسط 202 2.. "مقوقس" _ شاہ ِ مصر کے نام خط.. نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک گرامی ...

پسندیدہ تحریریں