قرآن مجید کا مقصد ۔۔۔۔

 ھُدًی ۔ لِ ۔ الْمُتَّقِیْنَ 
ہدایت ۔ کے لئے ۔ پرھیز گار ( جمع ) ۔ 
ھُدًی لِّلمُتَّقِیْنَ 2⃣ لا 
پرھیزگاروں کے لئے ھدایت ہے ۔
ھُدًی ۔۔۔ ہدایت ۔ راستہ کا علم ، راستہ پر چلنے کا سامان ،اور توفیق ، منزل پر پہنچنے کی قوّت ۔ یہ تمام باتیں ہدایت کے معنوں میں شامل ہیں ۔
مُتَّقِیْنَ ۔۔۔ یہ متقی کی جمع ہے ۔ اور لفظ تقوٰی سے بنا ہے ۔ متقی وہ ہے جس میں تقوٰی ہو ۔ تقوٰی احتیاط اور نگہداشت کو کہتے ہیں ۔ اسی اعتبار سے متقی کے معنی ہوئے پرھیزگاری سے زندگی بسر کرنے والا ۔ جو ہر کام سوچ سمجھ کر احتیاط سے کرتا ہو ۔ تقوٰی کی تشریح میں حضرت ابی بن کعب رضی الله عنہ کا واقعہ قابل غور ہے ۔
 حضرت ابی بن کعب رضی الله عنہ سے ایک بار حضرت عمر رضی الله عنہ نے پوچھا ۔ تقوٰی کسے کہتے ہیں ۔ انہوں نے فرمایا ۔ اگر کسی ایسے جنگل میں سے گزرو جو کانٹوں اور جھاڑیوں سے بھرا ہوا ہو ۔ تو کیا کرو گے ؟ 
انہوں نے جواب دیا ۔ میں اپنے کپڑوں کو سمیٹ لوں گا ۔ کہ دامن کانٹوں سے نہ اُلجھے ۔ 
حضرت ابی بن کعب رضی الله تعالی عنہ نے فرمایا ۔ بس یہی تقوٰی ہے ۔ 
ظاہر ہوا کہ قرآن کی ہدایت اُن لوگوں کے لئے مفید ہے ۔ جو دُنیا کی زندگی کے جنگل میں ہر قسم کے کانٹوں یعنی گناہوں وغیرہ سے بچ کر اپنی منزل تک پہنچنا چاہتے ہوں ۔
انسان دو قسم کے ہیں ۔ اول قسم کے لوگ لا پرواہ اور لا اُبالی ہوتے ہیں ۔ وہ اس قدر بے فکرے ہوتے ہیں کہ بغیر سوچے سمجھے ہر کام میں ہاتھ ڈال دیتے ہیں ۔ اور دوسرے ایسے ہوتے ہیں ۔ جو ہر کام کرنے سے پہلے سوچ سمجھ کر احتیاط سے کام لیتے ہیں ۔ ہدایت سے فائدہ احتیاط سے زندگی بسر کرنے والے ہی اٹھا سکتے ہیں ۔ یہی لوگ ہیں جن میں تقوٰی کا رنگ پایا جاتا ہے ۔ قرآن مجید کی تعلیمات سے پرھیزگاری اعلی مقام پر پہنچ جائے گی ۔ اور وہ صفات پیدا ہو جائیں گی جن کا بیان آگے آرھا ہے ۔ 
یہ کتاب ساری دنیا کی ہدایت کے لئے نازل ہوئی ہے ۔ اور یہ مخاطب بھی سارے جہان والوں سے ہے ۔ مگر عملاً اس سے نفع صرف وہی لوگ حاصل کر سکتے ہیں ۔ جن میں سچائی کی طلب اور تلاش ہو ۔ آخر ہر کام کے لئے کچھ سامان کی ضرورت ہوتی ہے ۔ مثلاً چلنے کے لئے پاؤں ضروری ہیں ، دیکھنے کے لئے آنکھیں ۔ اسی طرح قرآن مجید سے ہدایت حاصل کرنے کے لئے دل کے اندر تقوٰی یعنی احتیاط کا مادہ ہونا بہت ضروری ہے ۔ سورج تو سارے جہان پر چمکتا ہے ۔ لیکن جنہوں نے اپنے دیکھنے کی قوت ضائع کر دی ہو اُن کے لئے اس کی روشنی بےکار ہے ۔ اگر زمین شور زدہ ہو تو بارش اس پر بے اثر ثابت ہو گی ۔ 
دلوں میں تقوٰی پیدا کرنے کے لئے ضروری ہے ۔کہ ہم خود اپنے کاموں کا محاسبہ کرتے رہا کریں ۔ 
ایک بار حضرت عمر رضی الله عنہ نے فرمایا ۔ اس سے پہلے کہ دوسرے تم سے جواب طلب کریں ۔ تم خود اپنا جائزہ لیتے رہا کرو ۔
درس قرآن 
مرتبہ ۔۔۔  درس قرآن بورڈ 

کوئی تبصرے نہیں:

حالیہ اشاعتیں

مقوقس شاہ مصر کے نام نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کا خط

سیرت النبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم..قسط 202 2.. "مقوقس" _ شاہ ِ مصر کے نام خط.. نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک گرامی ...

پسندیدہ تحریریں