متّقیوں کی صفات ۔۔۔ ۵ ۔۔۔۔ قیامت پر ایمان

وَ  ۔ بِالْاٰخِرَۃِ   ۔   ھُمْ ۔ یُوْقِنُوْنَ  4⃣۔ ط 
اور۔ آخرت پر  ۔ وہ ۔ یقین رکھتے ہیں  
وَ بِالْاٰخِرَۃِ ھُمْ یُوْقِنُونَ 4⃣ط 
اور وہ آخرت پر یقین رکھتے ہیں 
الْاٰخِرَہ سے مراد ہے ۔ اَلدَّارُ الْاٰخِرَۃِ ۔ یعنی مرنے کے بعد  آنے والی دوسری زندگی ۔ اسے قرآن مجید میں اَلْیَوْمُ الْاٰخِرَہ بھی کہا گیا ہے ۔ 
یُوْقِنُوْنَ ۔ یہ لفظ ایقان سے بنا ہے ۔ جو یقین سے نکلا ہے ۔ یقین اُس علم کو کہتے ہیں جسے دلیل سے اس قدر واضح اور روشن کر دیا ہو کہ اس میں شک وشبہ کی کوئی گنجائش باقی نہ رہے ۔ بِالْاٰخِرَہ کا لفظ پہلے اور یُوقِنُونَ کا لفظ بعد میں استعمال کرنے سے تاکید میں اضافہ ہو گیا ہے ۔ 
یہ دُنیا دار العمل ہے ۔ یعنی وہ زندگی جس کے بعد عمل کی مہلت ختم ہو جاتی ہے ۔ اس کے بعد آنے والی دُنیا دارُ الجزاء ہے ۔ جس میں ہمارے ایک ایک کام کا پورا پورا بدلہ ملے گا ۔ اس میں شک نہیں کہ اس دُنیا میں بھی ہمیں حالات و واقعات کے لحاظ سے بدلہ ملتا ہے ۔ لیکن کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ انسان کو پورا بدلہ نہیں ملتا ۔ نیک عمل جزاء سے محروم رہ جاتے ہیں اور بد کردار مجرم سزاء سے بچ جاتے ہیں ۔ حالانکہ انصاف کا تقاضا یہ ہے کہ انسان کا کوئی بھی عمل بے نتیجہ نہ رہے ۔ اس لئے الله جل شانہ نے ایک ایسا دن مقرر کر دیا ہے ۔ جس دن ہر شخص اور ہر قوم کو اپنے ہر عمل کا پورا پورا بدلہ ملے گا ۔ اس لئے  جزاء و سزاء کے لئے ایک ہمیشہ رہنے والے جہان پر یقین رکھنا ضروری ہے اور ایمان کی بنیاد ہے ۔ 
عالَم ِ آخرت کا اس دُنیا سے گہرا تعلق ہے ۔ اگلی زندگی ہمارے ان ہی کاموں کا نتیجہ ہو گی جو ہم یہاں کرتے ہیں ۔ اس لئے متّقی لوگوں کی یہ صفت ہے کہ وہ ہر کام کرنے سے پہلے یہ اطمینان کر لیتے ہیں ۔ کہ وہ کام عاقبت اور انجام کے لحاظ سے آسمانی تعلیمات اور الله تعالی کی ھدایات کے خلاف تو نہیں ہے ۔
آخرت سے مراد وہ دار آخرت جس کو قرآن مجید میں دار القرار  ( رہنے کا ٹھکانا )  دار الحیوان  ( ہمییشہ کی زندگی کا گھر ) اور عقبٰی  کے  نام سے بھی  ذکر کیا گیا ہے ۔ اور پورا قرآن مجید قیامت کے ذکر اور ہولناک واقعات سے بھرا ہوا ہے ۔ آخرت پر ایمان لانا اگرچہ ایمان بالغیب میں بھی شامل ہے ۔ لیکن اس کو دوبارہ اس لئے ذکر کیا گیا کہ اجزائے ایمان میں اس کی حیثیت سب سے اہم ہے ۔ کیونکہ ایمان پر عمل کا جذبہ آخرت پر یقین ہونے سے ہی پیدا ہوتا ہے ۔ 
اور اسلامی عقائد میں یہی وہ انقلابی عقیدہ ہے جس نے دُنیا کی کایا پلٹ دی ۔  وجہ  یہ ہے کہ جن لوگوں کے سامنے صرف دنیا کی زندگی ہی مقصد ہو  ، دنیا کا عیش اور آرام ہی  چاہت ہو اور وہ صرف دنیا  کی تکلیف ہی کو تکلیف سمجھتے ہوں ۔ آخرت کی زندگی  اور اعمال کے بدلہ جزاء وسزاء کو نہ مانتے ہوں ۔ وہ جب یہ دیکھتے ہیں کہ سچ بولنے اور حلال و حرام کا فرق کرنے سے اُن کے عیش وآرام میں خلل ہوتا ہے  تو اُن کو جرم سے روکنے والی کوئی چیز نہیں ۔ حکومت کے قوانین جرم کو ختم کرنے اور اخلاق کو سُدھارنے کے لئے کافی نہیں ہوتے ۔ کیونکہ عادی مجرم تو سزاؤں کو عادت بنا لیتے ہیں اور شریف انسان قانون کے ڈر سے اتنا ہی عمل کرتے ہیں جہاں پکڑے جانے کا ڈر ہو ۔ ورنہ خلوت میں اور چھپ کر گناہ کرنے سے کون کسی کو روک سکتا ہے ۔ 
ہاں صرف آخرت کا یقین اور الله رب العزت کا خوف ہی وہ واحد چیز ہے جس کی وجہ سے انسان کی ظاہری اور باطنی حالت جلوت اور خلوت میں ایک جیسی ہو سکتی ہے۔ وہ یہ یقین رکھتا ہے کہ مکان کے بند دروازوں میں اور رات کے اندھیروں میں  بھی ہر وقت ، ہر جگہ کوئی دیکھنے والا مجھے دیکھ رہا ہے ۔  کوئی لکھنے والا میرے اعمال لکھ رہا ہے ۔
یہی وہ عقیدہ ہے جس پر پورا عمل کرنے کی وجہ سے  اسلام کے ابتدائی دَور میں نہایت پاکباز معاشرہ وجود میں آیا ۔ مسلمانوں کی صورت دیکھ کر ، اُن کے اخلاق و عادات دیکھ کر لوگ بے اختیار اسلام سے محبت کرنے لگتے ۔
اس آیہ مبارکہ میں لفظ  بِالْاٰخِرَۃِ کے ساتھ یُوقِنُوْنَ ہے ۔  کیونکہ ایمان لانے کے مقابل جھٹلا نا ہے ۔ اور یقین کرنے کے مقابل شک وشبہ میں پڑ جانا ہے ۔ اس میں اشارہ ہے کہ آخرت کی زندگی کو صرف مان لینے سے مقصد پورا نہیں ہوتا بلکہ آخرت پر ایسا پکا یقین ہو جیسے کوئی چیز آنکھوں کے سامنے ہے ۔ اس لئے متقین کی یہی صفت ہے کہ قیامت کے روز حق تعالی کے سامنے پیشی ، حساب کتاب  اور پھر جزاء اور سزا کا منظر ہر وقت اُن کے سامنے رہتا ہے ۔ جو شخص الله رب العزت کے احکام کی پرواہ نہیں کرتا ، اذان سُن کر بھی نماز کے لئے نہیں اُٹھتا ۔ حرام اور نا جائز مال کھا  اور کما رہا ہے ۔ دوسروں کا حق مارتا ہے ۔ ہر معاملے میں جھوٹ سے کام لیتا ہے یا دُنیا کے ذلیل اور گھٹیا مقصد حاصل کرنے کے لئے شریعت کے خلاف طریقے اختیار کرتا ہے ۔ وہ ہزار بار آخرت پر ایمان لانے کا اقرار کرے ۔ اُسے یقین حاصل نہیں ۔ اور یہی یقین انسان کی زندگی میں انقلاب لانے والی چیز ہے ۔ جب تک یہ یقین حاصل نہ ہو گا متّقین کی صف میں داخل نہیں ہو گا ۔
الله تعلی نے ہمیں انتخاب اور عمل کی آزادی دے رکھی ہے ۔ منزل تک پہنچنے کے لئے ہمارے سامنے کئی راستے ہیں ۔ لیکن ہمیں صرف وہی راہ اختیار کرنی چاہئے ۔ جس کی ہدایت الله تعالی نے کی ہے ۔ اگر آخرت اور جزاء و سزا کا عقیدہ ہر لمحہ ہمیں یاد رہے ۔ تو یقیناً ہم اس دنیا کی زندگی میں سچائی اور میانہ روی کی راہ پر قائم رہیں گے ۔
ہمیں چاہئے کہ ہم اپنی زندگی قرآنی اصولوں پر گزاریں ۔ تاکہ اس کا نتیجہ خوشگوار ہو ۔ اور ہم دونوں جہان میں کامیاب ہوں ۔ جس شخص کو اپنے اعمال کی جوابدہی ، حساب کتاب اور بدلہ پر یقین نہ ہو گا ۔ وہ اپنے اعمال درست نہیں کر سکتا ۔
حوالہ ۔۔۔ 
درس قرآن ۔۔۔ مرتبہ درس قرآن بورڈ 
معارف القرآن ۔۔۔ مفتی محمد شفیع رحمہ الله تعالی 

کوئی تبصرے نہیں:

حالیہ اشاعتیں

مقوقس شاہ مصر کے نام نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کا خط

سیرت النبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم..قسط 202 2.. "مقوقس" _ شاہ ِ مصر کے نام خط.. نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک گرامی ...

پسندیدہ تحریریں